اصل ایجنڈا… کرپشن کا خاتمہ یا اس کا استعمال
اگر سیاسی قیادت واقعی کرپشن کے خاتمے پریکسو ہوتی تو پانامہ لیکس کو قدرت کا تحفہ مانا جا سکتا تھا
اگر سیاسی قیادت واقعی کرپشن کے خاتمے پریکسو ہوتی تو پانامہ لیکس کو قدرت کا تحفہ مانا جا سکتا تھا۔ مگر ظاہر ہو گیا ہے کہ ڈھنڈورچیوں کا ایجنڈامحدود ہے اور عوام کی امنگوں سے مختلف۔کچھ لیڈروں کی خواہش کرپشن کا خاتمہ نہیں ، حکومت کا خاتمہ ہے، ان کا ہدف معاشرے اور حکومتی اداروں سے بددیانتی کو نکالنا نہیں صرف نواز شریف کو نکالنا ہے، انھیں نفرت کرپشن سے نہیں، صرف شریف خاندان سے ہے۔
وہ کرپشن کو ختم کر نا نہیں چاہتے ،کرپشن کو سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ ان کی سرگرمیاں اور کچھ حالیہ ملاقاتیں ان کے اصل ارادوں کاپتہ دیتی ہیں۔ کچھ لوگ اخلاص سے یہ سمجھتے تھے کہ شاید پانامہ لیکس ہمارے انتظامی اور سیاسی ڈھانچے سے کرپشن کے خاتمے کا پیش خیمہ ثابت ہوں، مگر اخبارات میں ملاقاتوں کے کچھ فوٹو دیکھ کر لوگوں کے کان کھڑے ہو گئے ہیں کہ مقاصد تو اور ہیںاگر کرپشن کا سب سے زیادہ نام لینے والی پارٹی کی قیادت کو کرپشن سے نفرت ہوتی اور اس کا خاتمہ ان کا ہدف ہوتا تو ملاقاتیں صاف اور اجلے دامن والے رہنماؤں سے ہوتیں۔لیکن مقصد چونکہ اور ہے اس لیے عمران خان صاحب نے اپنے ایلچی اُن ''پاکیزہ ہستیوں'' کے پاس بھیجے جنھیں وہ خود کرپشن کا بحر الکاہل قرار دے چکے ہیںکرپشن جن کے آگے ہاتھ باندھ لیتی ہے اور پاؤں چھوتی ہے۔
عوام کے خیال میں جو کرپشن کا حرف ِاوّل بھی ہیں اور حرف ِ آخر بھی، کرپشن کا آغاز بھی وہی اور انجام بھی وہی ، جنکے ڈیرے کرپشن کی ٹریننگ اکیڈیمیاں اور جنکے ڈرائینگ رومز کرپشن کے اکھاڑے ہیں جو فنّ ِ کرپشن کے استاد اور گُروہیں۔ جو اس شعبے کے پی ایچ ڈی ہیں ۔ جو اس سیکٹر کے آئی جی بھی ہیں اور چیف سیکریٹری بھی ۔ خان صاحب نے نمایندے ان کے گھر بھیجے ہیں کہ خودکرپشن جن کے گھر کی باندی اییلچیوں کو جن "معصوم فرشتوں " کے پاس بھیجا گیا کہ خود کرپشن ان کے پاؤں پکڑ کر بول پڑی ہوگی کہ" حضور! آپ کے گھروں میں تو میں پلی بڑھی ہوں، آپ کے دورِاقتدار میں جوان ہوئی ہوں ، آپ ہی میرے مائی باپ ہیں آپ ہی میرے سرپرست ہیں ۔ اب آپ بھی میرا خاتمہ چاہتے ہیں ؟
" اس پر حضور ِ والا نے اس کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا ہوگا کہ" پچھلے تیس سال کا ریکارڈ نکلوا لو کبھی کرپشن کا لفظ منہ سے نہیں نکلا۔ سیاست میں زندہ رہنے کے لیے کچھ دکھاوا کر نا پڑتا ہے اس لیے تمہیں پریشان ہونے کی ہر گز ضرورت نہیں ہے"۔ انھوں نے جب ایلچیوں سے پوچھا ہوگا کہ "کرپشن کا خاتمہ چاہتے ہو؟" تو ایلچیوں نے ہاتھ باندھ کر جواب دیا ہو گا۔ حضور "ھر گز اس قسم کا ارادہ نہیں ہے موقع ملا ہے آؤ ملکر مشترکہ حریف کے خلاف کرپشن کی گولہ باری کریں۔"
کچھ سال پہلے جب عمران صاحب نے کرپشن کے خلاف آواز بلند کی تو سب نے ان کی بات بڑی توجّہ سے سنی، اس وقت ان کی باتوں میں اخلاص نظر آتا تھا مگر آہستہ آہستہ سیاست بازی، دنیاداری اور مفاد کا رنگ غالب آگیا کچھ رفقاء ایسے آملے جنہوں نے سمجھایا کہ کپتان جی نیک نیتی اور اخلاص آپکو اصغر خان بنا دیگی سیاست میں صرف مفاد دیکھا جا تا ہے ۔
لگتا ہے کپتان صاحب کو نئے استادوں کی باتیں اچھی لگیں جو انھوں نے پلیّ باندھ لیں مگر پھر جلد ہی لوگوں نے محسوس کیا کہ پرانا کپتان کھو گیا ہے اور اس کی جگہ لاہور، لودھراں اور لال حویلی کی ٹریننگ اکیڈیمیوں کا تربیّت یافتہ نیا کپتان نمودار ہو ا ہے جسکی جدوّجہد کرپشن کے خاتمے کے لیے نہیں کرپشن کو اپنے مخالفوں کے خلاف استعمال کرنے کے لیے ہے ، اب اُسے کرپشن سے نفرت نہیں رہی ، کیونکہ کرپشن سے مال بنانے والے لٹیروں کو اس نے پارٹی میں شامل کر لیا ہے، اب اُس کے لیے کرپشن صرف نعرے اور اسٹنٹ کے طور پر استعمال کرنے کی چیز ہے۔کرپشن کا الزام مخالف پر لگے تو وہ قابلِ گردن زدنی ، اپنی پارٹی کے امیر کبیر اس میں ملوّث ہو ں تو وہ گوارا اور قابلِ قبول، مسلم لیگی کرپشن جرم اور انصافی کرپشن سو فیصد جائز ۔
نواز شریف کے ہرمخالف کی کرپشن بھی جائز یا کوئی بھی مستند حرام خور نواز شریف پر پتھر اٹھا لے تو اس کی اگلی پچھلی کرپشن معاف۔کیا یہ ہنگامہ کرپشن جیسے ناسُور کے خاتمے کے لیے ہے اور عوام کو اس لعنت اور عذاب سے بچانے کے لیے ہے ؟کاش ایسا ہوتا ، اگر جد وّجہد اس لعنت کے خاتمے کے لیے ہوتی تو پھر ہر چور ، ڈاکو کو سینے سے نہ لگایا جاتا، پھر لندن یاترا کے ہمسفر وہ معصوم فرشتے نہ ہوتے جن پر سب سے زیادہ الزام لگتے ہیں۔ پھر جسٹس وجیہہ الدین جیسے با اصول اور با کردار شخص کو بے توقیر کر کے نکالا نہ جاتا، پھر حامد خان جیسے لوگ دھتکارے نہ جاتے۔ پھر اپنے صوبے میں احتساب کمیشن کا آغاز کر کے اپنے ہی مقرر کردہ محتسب جنرل حامد کو فارغ نہ کر دیا جاتا، اگر مقصد کرپشن کا خاتمہ ہو تا تو " سب سے کرپٹ آدمی" قرار دینے والوں کے پاس ایلچی نہ بھیجے جاتے، پھر لیڈر آف دی اپوزیشن اور اُن کی پارٹی پر الزامات کی بوچھاڑ کر کے اُنہی کے دربار میں اپنے نمایندے نہ بھیجے جاتے۔
اگر مقصد کرپشن کا خاتمہ ہوتا تو چئیرمین نیب تقرری کا طریقہ کار تبدیل کروایا جاتا، پھر احتساب بیورو اور ایف آئی اے کو انڈیا کے سی بی آئی کی طرح آزاد اور خود مختار ادارے بنانے کا پُر زور مطالبہ کیا جاتا، پھر Pick & Choose کے بجائے ہر کرپٹ شخص کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا جاتا اور آف شور کمپنیاں بنانے والے پاکستان کے دو سو بیس افراد میں سے 218 کو پاک اور پوتّر قرار دیکر صرف دو کے خلاف شور نہ مچایا جاتا۔
اگرجدوجہّد میں خلوص اور نیک نیتّی ہوتی تو قوم اُٹھ کھڑی ہوتی اور عوام روٹی ، روزی کے مسائل بھول کر اُنکاساتھ دیتے۔ مگر قوم یہ دیکھ کر صدمے سے دوچار ہے کہ کرپشن کو صرف اور صرف سیاست بازی کے لیے برتا جا رہا ہے۔ سیاسی حریف خاندان پر گولہ باری کے لیے کرپشن کو بارود کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے ۔ ارادہ اس کے خاتمے کا نہیں اُسے زندہ رکھنے کا ہے۔
اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ قوم ایسی سیاست بازی کا ساتھ دے گی تو یہ اس کی بھول ہے ۔کرپشن کے خلاف قوم صرف اس شخص کے ساتھ کھڑی ہو گی جو خود بھی اور اس کے رفقاء بھی بے داغ ہونگے، اگر یہ قوم کا مسئلہ ہے تو پھر قوم ناجائز ذرایع سے دولت اکٹھی کرنے والے ہر سیاستدان ، ہر جرنیل ، ہر جج ، ہر بیورو کریٹ اور ہر صحافی کے خلاف انکوائری چاہتی ہے اور تمام لٹیروںکے خلاف منصفانہ اور بے لاگ کاروائی چاہتی ہے جس ھنگامے میں توپوں کا رُخ صرف ایک الزام الیہہ کی طرف ہو اور دوسروں سے چشم پوشی بَرتی جائے وہ مقدّس مشن نہیں بلکہ سیاسی مفاد پرستی کا کھیل ہے اور قوم ایسے کھیل کا حصّہ نہیں بنے گی۔
جہاں تک ذاتی رہائش گاہوںکے گھیراؤ کا تعلق ہے تو یہ حرکت غیر مہذب اور قابل ِ مذمت ہے۔گھیراؤ چاہے حسن نواز کے گھر کا ہو یا جمائما گولڈ اسمتھ کے گھر کا یا میاں صاحب کی ذاتی رہائش گا ہ کا ، یہ سرا سر بد تہذیبی اور بد اخلاقی ہے ،ایسی غیر مہذب روایت کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ نواز شریف صاحب نے کبھی ایسی حرکتوں کی اجازت نہیں دی وہ تو عمران خان کانام لیتے وقت جمع کا صیغہ استعمال کرتے ہیں، وہ جس تہذیب کی نمائیندگی کرتے ہیں اس کی جھلک والدہ کے ساتھ عقیدت اور محبت کے اظہار والے فوٹو سے نظر آتی ہے۔
اُنہیں جمائما کے گھر جلوس لے جانے والوں کی سخت سرزنش کرنی چاہیے اور خان صاحب کو بھی رائیونڈ جانے کا ارادہ فورََا ترک کرنا چاہیے۔ ایک بار پھر بڑی پارٹیوں کے رہنماؤں سے پُر زور گزارش کرونگا کہ وہ اپنی پارٹیوں کے اوورسیز ونگز ختم کر دیں۔ ملک کی سیاست ملک کے اندر رہ کر کریں، دیار ِ غیر میں آپ ایک دوسرے کے خلاف کیچڑ اُچھالتے ہیں تو ملک کا دامن داغدار ہوتا ہے۔
اہم نوٹ:علامہّ اقبالؒ مفکّرِ پاکستان بھی ہیں اور اسلام کے شاعرِاعظم بھی۔ ہم بحثیّتِ قوم احسان فراموش بھی ہیں اور بے حس بھی ، اس لیے اپنے محسنوں کو بھولتے جا رہے ہیں مگراس بار کچھ بھی ہو ہم 21 اپریل کو مزار ِ اقبال ؒ پر ضرور حاضر ہونگے اور اس عظیم ہستی کے لیے دعا کرینگے جس نے لاہور سے بخارا و سمر قند تک مسلمانوں کو ایک ولو لہ ٔ تازہ دیا اُنہیں خودی اور خود داری سے ہمکنار کیا اور نیل کے ساحل سے لے کر تابخا ک ِ کا شغر کروڑوں مسلمانوں میں جذبہ ٔ حریّت بیدار کیا۔
میری عدلیہ کے کچھ جج صاحبان اور کچھ ادیبوں، شاعروں، جرنیلوں، استادوں ، تعلیمی اداروں کے سربراہوں، سرکاری افسروں، علماء، وکلاء اور طلباء سے بات ہوئی ہے سب نے اپنی بے حسی کا اعتراف کرتے ہوئے کل 21اپریل کو مزار ِاقبالؒ پر دعا کے لیے حاضری کا عندیہ دیا ہے۔ ہمیںاُمید ہے کہ پنجاب حکومت سیکیوریٹی کے مناسب انتظامات کریگی۔ تعلیمی اداروں کے سربراہوں پر لازم ہے کہ وہ طلباء و طالبات کو مفکّر ِ پاکستان کی شخصیت اور پیغام سے روشناس کرائیں۔
پس ِ تحریر: محترم عبدالّشکور صاحب مخلوقِ خدا سے محبت کرنے والے وہ با کردار اور با اعتبار شخص ہیں جو امریکا کی پُر آسائش زندگی چھوڑ کر وطنِ عزیز لَوٹ آئے اور آجکل الخدمت فاؤنڈیشن کے سربراہ کی حیثیّت سے ملک کے کونے کونے میں آفت زدہ اورپریشان حال انسانوں کی خدمت کے لیے کوشاں ہیں۔ انھوں نے فون پر ایک غریب مریض کے بارے میں اطلاع دی ہے جسکی بیماری سیریس اور علاج مہنگا ہے۔ جو لوگ اللہ کی خوشنودی کے لیے مستحق مریض کی مدد کرنا چاہیںوہ عبد الّشکور صاحب سے فون نمبر 03215932009 پر رابطہ کر کے مزید تفصیلات معلوم کر سکتے ہیں۔