آئین اور نظام پر ہمالیہ کا رونا
پتھر بے شک روتے ہوں گے لیکن رونے کے لیے کوئی ’’تُک‘‘ بھی تو ہونی چاہیے
KARACHI:
ہمالیہ روئے نہ روئے لیکن ہم تو ہل کر رہ گئے،ہمارے اس ہلنے بلکہ کانپنے اور لرزنے کا سبب جناب رضا ربانی کا یہ بیان ہے کہ اگر آئین کو چھیڑا گیا یا نظام کو ڈی ریل کرنے کی کوشش کی گئی تو ہمالیہ روئے گا، ہمارا جغرافیہ ہماری سمجھ دانی ہی کی طرح کمزور ہے، اس لیے ہم سمجھ نہیں پا رہے کہ ہمارے پاکستان کے آئین یا نظام سے ہمالیہ کے کیا جائز یا ناجائز سمبندھ ہیں جہاں تک ہمارا جغرافیہ ہمارا ساتھ دیتا ہے تو ہمالیہ تو پڑوسی ملک کی حدود میں آتا ہے، ویسے سچ تو یہ ہے کہ ہمالیہ اب بھی رو رہا ہے، یہ اتنے بڑے بڑے دریا اس کے آنسو ہی تو ہیں کیوں کہ خاطر غزنوی نے کہا ہے کہ
کہساروں کا دل پگھلا تو چشمے ہوئے جاری
اور لوگ یہ کہتے ہیں کہ پتھر نہیں روتے
پتھر بے شک روتے ہوں گے لیکن رونے کے لیے کوئی ''تُک'' بھی تو ہونی چاہیے، اتنا بڑا پہاڑ ہونے کے باوجود ہمالیہ کو ایسی چھوٹی چھوٹی باتوں پر رونا زیب نہیں دیتا، آئین قانون اور نظام کا کیا ہے، بڑے بڑے ملکوں بڑے بڑے لوگوں اور بڑے بڑے لیڈروں میں ایسی چھوٹی چھوٹی باتیں تو ہوتی رہتی ہیں، خود ہمارے پاکستان میں آئین اور نظام کے ساتھ کتنی مرتبہ نہ جانے کیا کیا ہوتا رہا ہے۔
اب یہ تو کوئی بات نہ ہوئی کہ ہمالیہ جیسا پہاڑ اس پر ٹسوے بہانے بیٹھ جائے اور اگر فرض کریں کہ ہمالیہ رو بھی پڑے تو ہمیں کیا؟ مودی جانے اور اس کا ہمالیہ ۔۔۔ ارے ہاں اس بات کا تو ہمیں دھیان ہی نہیں رہا ہے کہ کہیں اتنے محترم رضا ربانی کا مطلب یہ تو نہیں ہے کہ پاکستان کے نظام اور آئین کو اگر ایسا ویسا کچھ ہو گیا تو مودی کو رونا پڑے گا، اس سے بڑے بڑے واقعات و حادثات دنیا میں تو کیا اسی پاکستان میں ہوتے رہے ہیں حتیٰ کہ بے چارے کا ایک بازو بلکہ آدھا دھڑ کٹ گیا لیکن ہمالیہ نے دو آنسو بھی نہیں بہائے، دراصل وہ باتیں ہی کچھ اور ہوتی ہیں جن پر پہاڑ اور پتھر روتے ہیں مثلاً
دو پتر اناراں دے
ساڈا دکھ سن کے روئے پتھر پہاڑاں دے
یہ تو کمال ہو گیا۔ ہم آج تک یہ نہیں سمجھ پائے تھے کہ انار کے دو پتے کیا ہیں اور ان دو پتوں کا پہاڑوں کے رونے سے کیا تعلق ہے ۔ اب یہ ایک اور موضوع بن رہا ہے کہ ہمارے پاس آج جو کچھ بھی ہے ان ہی لیڈروں کا دیا ہوا اور ان سے سیکھا ہوا ہی تو ہے ، ان میں ایک یہ بے فضول اور بے سرو پیر کی باتیں کرنا بھی ہے، اپنے اصل مطلب یعنی ''آئین اور نظام'' پر ہمالیہ کے رونے کی بات تو اس پر کبھی کبھی ہمارے دل میں خیال آتا ہے کہ ہمالیہ ہو یا کوئی دوسرا پہاڑ ۔۔۔ بالکل ہی اپنے عوام کی طرح ہیں نہ جانے کتنی مرتبہ نظام اور قانون کا ''گینگ ریپ'' اس ملک میں ہوتا رہا ہے جسے ہندی والے بلات کار کہتے ہیں لیکن اس پر کون رویا ہے نہ عوام نہ پہاڑ اور نہ لیڈر لوگ مجال ہے جو کسی ایک آنکھ سے ایک آنسو تک ٹپکا ہو،
نہ نکلا آنکھ سے تری اک آنسو اس جراحت پر
کیا سینے میں جس نے خوں چکاں مژگان سوزن کو
نظام کی تو خیر بات ہی نہیں کریں گے کیوں کہ اپنے یہاں اس نام کی کوئی چڑیا تک نہیں پائی جاتی ہے البتہ آئین کے بارے میں سنا ہے کہ یہاں ہے ضرور ۔۔۔۔۔کہاں؟ کیسے؟ اس بارے میں معلوم نہیں، لیکن کہتے ہیں کہ آئین ہے اور جب لوگ کہتے ہیں تو سچ ہی کہتے ہوں گے خاص طور پر لیڈر حضرات بھی یہی کہتے ہیں جو کبھی جھوٹ نہیں بولتے، گرچہ
شاہد ہستی مطلق کی کمر ہے عالم
لوگ کہتے ہیں کہ ''ہے'' پر ہمیں منظور نہیں
یہ زخمی زخیم گھائل گھائل اور چھلنی چھلنی شخص، اب اگر ایسے مضروب مجروح اور مفلوج بندے کا... زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے انتقال ہو جائے تو اس متوقع موت پر کون روئے گا، جناب رضا ربانی کا اصل مدعا یہ ہے کہ پارلیمانی نظام یک جگہ اگر صدارتی نظام لایا گیا تو ہمالیہ...... پتہ نہیں جناب ربانی کو یہ خدشہ کیوں ہے اور اگر ایسا ہو بھی جائے تو کیا فرق پڑ جائے گا ، کیا اس سے پہلے ایسا نہیں ہوتا رہا ہے؟ بار بار ایسا ہوتا رہا ہے کبھی پارلیمانی اور کبھی صدارتی نظام وہ کون سی آفت ہے جو اس ملک پر نہیں ٹوٹی یا ٹوٹ کر اس نے کوئی فرق پیدا کیا ہو ... یہ تو وہ سنڈروم ہے جہاں ہر دوا علاج کے بجائے زہر بن جاتی ہے، اس لیے چنتا کرنے کی کوئی ضرورت نہیں نظام خواہ کچھ ہو آئین خواہ کچھ ہو، کوئی بھی فرق پڑنے والا نہیں ہے۔