نواز شریف پر بھاری وقت
پانامہ پیپرز کے افشا نے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کے لیے بے حد سیاسی مشکلات پیدا کر دی ہیں‘
KARACHI:
پانامہ پیپرز کے افشا نے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کے لیے بے حد سیاسی مشکلات پیدا کر دی ہیں' میرے خیال میں انھوں نے جب سے سیاست کے میدان میں قدم رکھا ہے' ان پر اتنا بھاری وقت کبھی نہیں آیا' کچھ ناقدین کہیں گے کہ میاں صاحب پر ایک برا وقت اس وقت آیا تھا' جب غلام اسحاق خان اور ان کے درمیان اختلافات پیدا ہوئے تھے' یہ اختلافات اس قدرے بڑھے کہ 1993 میں جنرل عبدالوحید کاکڑ کی مداخلت پر انھیں وزارت عظمیٰ سے استعفیٰ دینا پڑا۔ دوسری بار ان پر برا وقت اس وقت آیا جب جنرل پرویز مشرف نے اکتوبر 1999ء میں ان کی حکومت کا تختہ الٹا ۔ انھیں جیل جانا پڑا اور پھر جلا وطنی کی زندگی گزارنی پڑی' یہ مصیبت اور ابتلا کا وقت خاصا طویل تھا' ان مشکل ادوار سے وہ نکل گئے' ایسا کیوں ہوا' اس کی بنیادی اور سب سے اہم وجہ یہ رہی کہ ان ادوار میں ان کی اخلاقی ساکھ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔
ان پر اور ان کے خاندان پر مالی بدعنوانیوں کے الزامات ضرور لگے لیکن وہ ان میں سرخرو ہوگئے۔ یہ سارے الزامات مقامی سیاست کے جھگڑے تھے، قومی مالیاتی اداروں سے جڑے ہوئے تھے اور قومی عدالتوں سے ہی وہ بری ہو گئے' لیکن پانامہ پیپرز کا پاکستان کی سیاسی چپقلش سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ ایک عالمی سطح کا اسکینڈل ہے جس میں عالمی سطح پر ہونے والی مالی بدعنوانیوں کو افشا کیا گیا ہے' ان پیپرز کے ذریعے دنیا کو پتہ چلا ہے کہ کالے دھن کو کیسے سفید کیا جاتا ہے' آف شور کمپنیاں کیا ہوتی ہیں' انھیں قائم کرنے کے مقاصد کیا ہوتے ہیں اور ان کے ذریعے دولت کو کیسے حلال کیا جاتا ہے؟ اور پھر کیسے یہ قانونی اور جائز سرمائے میں منتقل ہو جاتی ہے۔
پاکستان کی سیاست میں آف شور کمپنیوں کی بازگشت 1988ء کے بعد شروع ہوئی' جنرل ضیاء الحق کے طیارے کے حادثے کے بعد پاکستانی سیاست میں نئی تبدیلیوں کا آغاز ہو گیا' افغان جنگ نے یہاں غیر قانونی دولت کے انبار لگا دیے' اس جنگ میں سوویت یونین کو شکست دینے کے لیے کھرب ہا ڈالرز کی سرمایہ کاری کی گئی۔ یہ سب کچھ منی لانڈرنگ اور آف شور کمپنیوں کے ذریعے انجام پایا تھا' افغان جنگ کے اخراجات پورے کرنے کے لیے امریکا اور اس کے اتحادیوں نے منشیات اسمگلنگ، اس کی فروخت، اسلحہ کی غیر قانونی تجارت اور دیگر غیرقانونی پیشوں اور کاروبار کی حوصلہ افزائی کی اور اس کالے دھن کو جائز بنانے کے لیے دنیا بھر میں ''محفوظ جنتیں'' مہیا کیں۔ سوئٹزرلینڈ، پانامہ، ورجن آئی لینڈز وغیرہ کالے دھن کو سفید کرنے والی محفوظ جنتیں ہیں۔
پاکستان کی سیاست پر آج جو گھرانے چھائے ہوئے ہیں اور کاروباری دنیا کے آسمان پر جو ستارے چمک رہے ہیں' ان میں اکثریت افغان جنگ کی پیداوار ہیں۔ میں یہاں کسی کا نام نہیں لوں گا لیکن پاکستان میں کون ہے جو ان شخصیات اور گھرانوں سے واقف نہیں ہے جنہوں نے افغان جنگ کے دور میں بے پناہ دولت کمائی اور رولنگ کلاس میں نام درج کرایا۔ پاکستان میں اسی دور میں سرمائے کی سیاست کا آغاز ہوا' انگریز اقتدار کی باقیات روایتی جاگیردار اور زمیندار گھرانے جن کا سیاست پر قبضہ تھا' ان کی اقتدار پر گرفت کمزور ہو گئی اور اسے کاروباری اور صنعتکار طبقے نے پر کر دیا۔ میاں نواز شریف اس طبقے کی نمایندگی کر رہے ہیں۔
میاں نواز شریف کو پاکستان کی شہری اور دیہی مڈل کلاس نے بھرپور سپورٹ مہیا کی' یہ سپورٹ ان کی سیاست میں کامیابی کا زینہ ہے۔ اب آتے ہیں دوسرے پہلو کی طرف کاروباری اور کارپوریٹ دنیا میں ٹیکس بچانا' بجلی چوری کرنا' سرکاری عمال کو رشوت یا دیگر مراعات دے کر کام نکلوانا، حکومتی ملکیتی اراضی کو اونے پونے داموں خرید لینا، کوئی برائی نہیں سمجھی جاتی بلکہ یہ کسی کاروباری شخصیت یا ادارے کی خوبی سمجھی جاتی ہے کہ وہ ٹیکس کو کیسے بچاتا ہے اور پھر غیرقانونی دولت کو کیسے جائز و قانونی بنا لیتا ہے۔
یہ کلچر پوری دنیا میں رائج ہے اور سرمایہ داری نظام اور کارپوریٹ ورلڈ کا لازمی جزو ہے۔ پاکستان میں بھی گاہے بگاہے' ٹیکس ایمنسٹی اسکیمز آتی رہتی ہیں' نیب نے بھی پلی بار گینز کی آپشن رکھی ہے۔ بنکوں نے بھی اپنے قرض دہندگان کے لیے مختلف محظوظ راستے رکھے ہوتے ہیں' جن کے ذریعے وہ باآسانی نکل جاتے ہیں۔آج بھی بنکنگ کورٹس میں ہزاروں مقدمات چل رہے ہیں لیکن جن شخصیات پر مقدمات ہیں' وہ مزے کی زندگی گزار رہے ہیں' زیادہ سے زیادہ کیا ہو گا' جائیداد نیلام ہو جائے گی' اسی جائیداد کو کس فرنٹ مین کے ذریعے کم بولی پر دوبارہ خرید لیا جائے گا' اس کے نتیجہ میں مقدمہ ختم ہو جائے گا اور مالی بدعنوانی کا ملزم شفاف انداز میں بری ہو کر دوبارہ بینک سے نیا قرضہ لینے کے قابل بھی ہو جائے گا۔
یہ ساری کتھا بیان کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ پانامہ لیکس نے دنیا بھر میں جو اودہم مچایا ہے' وہ عالمی سرمایہ داری نظام کا مکروہ چہرہ ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ کیسی کیسی شخصیات دولت کے کھیل میں اخلاقی قدروں سے کتنی دور ہو جاتی ہیں۔ بلکہ جس طرح کہتے ہیں کہ جنگ اور محبت میں سب کچھ جائز ہے، اسی طرح سرمائے کے کھیل میں بھی کوئی اصول نہیں ہوتا' جو جیت گیا' وہی سکندر کہلاتا ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ جن لوگوں نے سرمایہ کما لیا ہے' ان کے سرمائے کو تو کچھ نہیں ہو گا لیکن جو حضرات سیاست میں ہیں اور ان کے نام پانامہ پیپرز میں آئے ہیں، ان کے اخلاقی امیج کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ میاں نواز شریف کو بھی اخلاقی طور پر سخت دھچکا لگا ہے۔
ایسا ان کے ساتھ ماضی میں نہیں ہوا۔ جب وہ پہلی بار اقتدار سے باہر ہوئے ' تب بھی ان کی اپنے حریفوں پر سیاسی برتری قائم رہی اور دوسری بار جنرل پرویز مشرف پر بھی وہ اخلاقی اعتبار سے بھاری رہے لیکن اب ایسا نہیں رہا خصوصاً قوم سے خطاب کر کے انھوں نے جس طرح اپنے خاندان کی صفائی پیش کی' اس کے بعد ان کے پاس کوئی جواز نہیں رہا کہ وہ پانامہ پیپرز میں آنے والے اپنے خاندان کے افراد کے ناموں سے خودکو الگ کر سکیں' اگر وہ قوم سے خطاب نہ کرتے اور اس معاملے پر دو ٹوک موقف لیتے کہ میرا اپنے خاندان کے کاروباری معاملات سے کوئی تعلق نہیں' پانامہ پیپرز کا جواب ان سے مانگیں جن کے نام آئے ہیں تو صورتحال مختلف ہو سکتی تھی۔
وہ اس ملک کے وزیر اعظم ہی نہیں مسلم لیگ ن کے سربراہ اور رہبر بھی ہیں' مسلم لیگ ن کی سیاسی ساکھ ان کی ذات کے ساتھ نتھی ہے' اگر ان کی شخصیت پاکستان کی سیاست میں داغدار ہوتی ہے تو مسلم لیگ ن کی سیاست پر بھی اس کا حرف آئے گا۔ ممکن ہے کہ ان کے خلاف عمران خان کا دھرنا یا اپوزیشن کا احتجاج ناکام ہو جائے لیکن اپوزیشن کی سیاسی جماعتیں انھیں مسلسل تنقید کا نشانہ بناتی رہیں گی، ہر فورم پر پانامہ لیکس کے بارے میں ان سے سوال ہو گا اور ان کے پاس سوائے یہ کہنے کے اور کچھ نہیں ہو گا کہ وہ تو کاروبار نہیں کرتے' کاروبار تو ان کی اولاد کرتی ہے' ایسا وہ کتنی دیر تک کہتے رہیں گے، حالات برق رفتاری سے ان کے مخالف کروٹ لے رہے ہیں۔ دباؤ اندرونی ہی نہیں بیرونی بھی ہے۔
اس کا میاں نواز شریف کو ادراک بھی ہے، ایسے دباؤ سے نکلنا آسان نہیں ہے۔ اب ان کے پاس ''مسٹر کلین'' کا امیج بھی نہیں ہے۔ جنرل راحیل شریف کا گزشتہ روز کوہاٹ میں سگنل رجمنٹل سینٹر میں منعقدہ تقریب سے خطاب بہت معنی خیز ہے۔ ان کا یہ کہنا کہ بلاامتیاز احتساب ناگزیر ہے، فوج کو دہشت گردی اور شدت پسندی کے خلاف جاری جنگ میں پوری قوم کی حمایت حاصل ہے اور ملک میں اس وقت تک پائیدار امن اور استحکام نہیں لایا جا سکتا جب تک کرپشن کا جڑ سے خاتمہ نہ ہو جائے۔
آرمی چیف کرپشن کے خلاف بیان تو کئی بار دے چکے ہیں لیکن یہ پیشکش انھوں نے پہلی دفعہ کی ہے کہ کرپشن کے خاتمے کے لیے کی جانے والی ہر با معنی کوشش میں فوج بھرپور تعاون کرے گی۔ ان الفاظ میں بہت کچھ بند ہے۔ مئی اور جون کا مہینہ میاں صاحب اور ان کی حکومت کے لیے آسان نہیں ہے۔ ان ایام میں گرمی کی شدت کے ساتھ ساتھ دباؤ کی شدت میں بھی کئی گنا اضافہ ہو تا جائے گا۔
پانامہ پیپرز کے افشا نے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کے لیے بے حد سیاسی مشکلات پیدا کر دی ہیں' میرے خیال میں انھوں نے جب سے سیاست کے میدان میں قدم رکھا ہے' ان پر اتنا بھاری وقت کبھی نہیں آیا' کچھ ناقدین کہیں گے کہ میاں صاحب پر ایک برا وقت اس وقت آیا تھا' جب غلام اسحاق خان اور ان کے درمیان اختلافات پیدا ہوئے تھے' یہ اختلافات اس قدرے بڑھے کہ 1993 میں جنرل عبدالوحید کاکڑ کی مداخلت پر انھیں وزارت عظمیٰ سے استعفیٰ دینا پڑا۔ دوسری بار ان پر برا وقت اس وقت آیا جب جنرل پرویز مشرف نے اکتوبر 1999ء میں ان کی حکومت کا تختہ الٹا ۔ انھیں جیل جانا پڑا اور پھر جلا وطنی کی زندگی گزارنی پڑی' یہ مصیبت اور ابتلا کا وقت خاصا طویل تھا' ان مشکل ادوار سے وہ نکل گئے' ایسا کیوں ہوا' اس کی بنیادی اور سب سے اہم وجہ یہ رہی کہ ان ادوار میں ان کی اخلاقی ساکھ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔
ان پر اور ان کے خاندان پر مالی بدعنوانیوں کے الزامات ضرور لگے لیکن وہ ان میں سرخرو ہوگئے۔ یہ سارے الزامات مقامی سیاست کے جھگڑے تھے، قومی مالیاتی اداروں سے جڑے ہوئے تھے اور قومی عدالتوں سے ہی وہ بری ہو گئے' لیکن پانامہ پیپرز کا پاکستان کی سیاسی چپقلش سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ ایک عالمی سطح کا اسکینڈل ہے جس میں عالمی سطح پر ہونے والی مالی بدعنوانیوں کو افشا کیا گیا ہے' ان پیپرز کے ذریعے دنیا کو پتہ چلا ہے کہ کالے دھن کو کیسے سفید کیا جاتا ہے' آف شور کمپنیاں کیا ہوتی ہیں' انھیں قائم کرنے کے مقاصد کیا ہوتے ہیں اور ان کے ذریعے دولت کو کیسے حلال کیا جاتا ہے؟ اور پھر کیسے یہ قانونی اور جائز سرمائے میں منتقل ہو جاتی ہے۔
پاکستان کی سیاست میں آف شور کمپنیوں کی بازگشت 1988ء کے بعد شروع ہوئی' جنرل ضیاء الحق کے طیارے کے حادثے کے بعد پاکستانی سیاست میں نئی تبدیلیوں کا آغاز ہو گیا' افغان جنگ نے یہاں غیر قانونی دولت کے انبار لگا دیے' اس جنگ میں سوویت یونین کو شکست دینے کے لیے کھرب ہا ڈالرز کی سرمایہ کاری کی گئی۔ یہ سب کچھ منی لانڈرنگ اور آف شور کمپنیوں کے ذریعے انجام پایا تھا' افغان جنگ کے اخراجات پورے کرنے کے لیے امریکا اور اس کے اتحادیوں نے منشیات اسمگلنگ، اس کی فروخت، اسلحہ کی غیر قانونی تجارت اور دیگر غیرقانونی پیشوں اور کاروبار کی حوصلہ افزائی کی اور اس کالے دھن کو جائز بنانے کے لیے دنیا بھر میں ''محفوظ جنتیں'' مہیا کیں۔ سوئٹزرلینڈ، پانامہ، ورجن آئی لینڈز وغیرہ کالے دھن کو سفید کرنے والی محفوظ جنتیں ہیں۔
پاکستان کی سیاست پر آج جو گھرانے چھائے ہوئے ہیں اور کاروباری دنیا کے آسمان پر جو ستارے چمک رہے ہیں' ان میں اکثریت افغان جنگ کی پیداوار ہیں۔ میں یہاں کسی کا نام نہیں لوں گا لیکن پاکستان میں کون ہے جو ان شخصیات اور گھرانوں سے واقف نہیں ہے جنہوں نے افغان جنگ کے دور میں بے پناہ دولت کمائی اور رولنگ کلاس میں نام درج کرایا۔ پاکستان میں اسی دور میں سرمائے کی سیاست کا آغاز ہوا' انگریز اقتدار کی باقیات روایتی جاگیردار اور زمیندار گھرانے جن کا سیاست پر قبضہ تھا' ان کی اقتدار پر گرفت کمزور ہو گئی اور اسے کاروباری اور صنعتکار طبقے نے پر کر دیا۔ میاں نواز شریف اس طبقے کی نمایندگی کر رہے ہیں۔
میاں نواز شریف کو پاکستان کی شہری اور دیہی مڈل کلاس نے بھرپور سپورٹ مہیا کی' یہ سپورٹ ان کی سیاست میں کامیابی کا زینہ ہے۔ اب آتے ہیں دوسرے پہلو کی طرف کاروباری اور کارپوریٹ دنیا میں ٹیکس بچانا' بجلی چوری کرنا' سرکاری عمال کو رشوت یا دیگر مراعات دے کر کام نکلوانا، حکومتی ملکیتی اراضی کو اونے پونے داموں خرید لینا، کوئی برائی نہیں سمجھی جاتی بلکہ یہ کسی کاروباری شخصیت یا ادارے کی خوبی سمجھی جاتی ہے کہ وہ ٹیکس کو کیسے بچاتا ہے اور پھر غیرقانونی دولت کو کیسے جائز و قانونی بنا لیتا ہے۔
یہ کلچر پوری دنیا میں رائج ہے اور سرمایہ داری نظام اور کارپوریٹ ورلڈ کا لازمی جزو ہے۔ پاکستان میں بھی گاہے بگاہے' ٹیکس ایمنسٹی اسکیمز آتی رہتی ہیں' نیب نے بھی پلی بار گینز کی آپشن رکھی ہے۔ بنکوں نے بھی اپنے قرض دہندگان کے لیے مختلف محظوظ راستے رکھے ہوتے ہیں' جن کے ذریعے وہ باآسانی نکل جاتے ہیں۔آج بھی بنکنگ کورٹس میں ہزاروں مقدمات چل رہے ہیں لیکن جن شخصیات پر مقدمات ہیں' وہ مزے کی زندگی گزار رہے ہیں' زیادہ سے زیادہ کیا ہو گا' جائیداد نیلام ہو جائے گی' اسی جائیداد کو کس فرنٹ مین کے ذریعے کم بولی پر دوبارہ خرید لیا جائے گا' اس کے نتیجہ میں مقدمہ ختم ہو جائے گا اور مالی بدعنوانی کا ملزم شفاف انداز میں بری ہو کر دوبارہ بینک سے نیا قرضہ لینے کے قابل بھی ہو جائے گا۔
یہ ساری کتھا بیان کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ پانامہ لیکس نے دنیا بھر میں جو اودہم مچایا ہے' وہ عالمی سرمایہ داری نظام کا مکروہ چہرہ ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ کیسی کیسی شخصیات دولت کے کھیل میں اخلاقی قدروں سے کتنی دور ہو جاتی ہیں۔ بلکہ جس طرح کہتے ہیں کہ جنگ اور محبت میں سب کچھ جائز ہے، اسی طرح سرمائے کے کھیل میں بھی کوئی اصول نہیں ہوتا' جو جیت گیا' وہی سکندر کہلاتا ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ جن لوگوں نے سرمایہ کما لیا ہے' ان کے سرمائے کو تو کچھ نہیں ہو گا لیکن جو حضرات سیاست میں ہیں اور ان کے نام پانامہ پیپرز میں آئے ہیں، ان کے اخلاقی امیج کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ میاں نواز شریف کو بھی اخلاقی طور پر سخت دھچکا لگا ہے۔
ایسا ان کے ساتھ ماضی میں نہیں ہوا۔ جب وہ پہلی بار اقتدار سے باہر ہوئے ' تب بھی ان کی اپنے حریفوں پر سیاسی برتری قائم رہی اور دوسری بار جنرل پرویز مشرف پر بھی وہ اخلاقی اعتبار سے بھاری رہے لیکن اب ایسا نہیں رہا خصوصاً قوم سے خطاب کر کے انھوں نے جس طرح اپنے خاندان کی صفائی پیش کی' اس کے بعد ان کے پاس کوئی جواز نہیں رہا کہ وہ پانامہ پیپرز میں آنے والے اپنے خاندان کے افراد کے ناموں سے خودکو الگ کر سکیں' اگر وہ قوم سے خطاب نہ کرتے اور اس معاملے پر دو ٹوک موقف لیتے کہ میرا اپنے خاندان کے کاروباری معاملات سے کوئی تعلق نہیں' پانامہ پیپرز کا جواب ان سے مانگیں جن کے نام آئے ہیں تو صورتحال مختلف ہو سکتی تھی۔
وہ اس ملک کے وزیر اعظم ہی نہیں مسلم لیگ ن کے سربراہ اور رہبر بھی ہیں' مسلم لیگ ن کی سیاسی ساکھ ان کی ذات کے ساتھ نتھی ہے' اگر ان کی شخصیت پاکستان کی سیاست میں داغدار ہوتی ہے تو مسلم لیگ ن کی سیاست پر بھی اس کا حرف آئے گا۔ ممکن ہے کہ ان کے خلاف عمران خان کا دھرنا یا اپوزیشن کا احتجاج ناکام ہو جائے لیکن اپوزیشن کی سیاسی جماعتیں انھیں مسلسل تنقید کا نشانہ بناتی رہیں گی، ہر فورم پر پانامہ لیکس کے بارے میں ان سے سوال ہو گا اور ان کے پاس سوائے یہ کہنے کے اور کچھ نہیں ہو گا کہ وہ تو کاروبار نہیں کرتے' کاروبار تو ان کی اولاد کرتی ہے' ایسا وہ کتنی دیر تک کہتے رہیں گے، حالات برق رفتاری سے ان کے مخالف کروٹ لے رہے ہیں۔ دباؤ اندرونی ہی نہیں بیرونی بھی ہے۔
اس کا میاں نواز شریف کو ادراک بھی ہے، ایسے دباؤ سے نکلنا آسان نہیں ہے۔ اب ان کے پاس ''مسٹر کلین'' کا امیج بھی نہیں ہے۔ جنرل راحیل شریف کا گزشتہ روز کوہاٹ میں سگنل رجمنٹل سینٹر میں منعقدہ تقریب سے خطاب بہت معنی خیز ہے۔ ان کا یہ کہنا کہ بلاامتیاز احتساب ناگزیر ہے، فوج کو دہشت گردی اور شدت پسندی کے خلاف جاری جنگ میں پوری قوم کی حمایت حاصل ہے اور ملک میں اس وقت تک پائیدار امن اور استحکام نہیں لایا جا سکتا جب تک کرپشن کا جڑ سے خاتمہ نہ ہو جائے۔
آرمی چیف کرپشن کے خلاف بیان تو کئی بار دے چکے ہیں لیکن یہ پیشکش انھوں نے پہلی دفعہ کی ہے کہ کرپشن کے خاتمے کے لیے کی جانے والی ہر با معنی کوشش میں فوج بھرپور تعاون کرے گی۔ ان الفاظ میں بہت کچھ بند ہے۔ مئی اور جون کا مہینہ میاں صاحب اور ان کی حکومت کے لیے آسان نہیں ہے۔ ان ایام میں گرمی کی شدت کے ساتھ ساتھ دباؤ کی شدت میں بھی کئی گنا اضافہ ہو تا جائے گا۔