سیاسی بصیرت

سیاست میں ذہانت، بصیرت، دانشمندی، دوراندیشی اور بالغ نظری کبھی بھی عمر کے طویل دورانیے کی محتاج نہیں ہوا کرتی۔

mnoorani08@gmail.com

KARACHI:
سیاست میں ذہانت، بصیرت، دانشمندی، دوراندیشی اور بالغ نظری کبھی بھی عمر کے طویل دورانیے کی محتاج نہیں ہوا کرتی۔ یہ قدرت کی طرف سے عطا کی ہوئی ایک ایسی خوبی ہوتی ہے جو کسی کسی کو میسر ہوتی ہے نہ اِسے پانے کے لیے عمر کی کوئی حد مقرر ہے۔ دنیا کے بہت سے معمر سیاستدان اپنے لا اُبالی اور غیرذمے دارانہ رویوں کے سبب آج تک کامیابی اور سرخروئی کے اُس مقام تک نہیں پہنچ پائے جنھیں وہ اپنا مطمعِ نظر بنائے ہوئے تھے اور بہت سوں نے بہت کم عمری ہی میں وہ کامیابیاں سمیٹ لیں، جن کی وہ خود بھی توقع نہیں کرتے تھے۔

ہو سکتا ہے ایک تیس بتیس سال کا نوجوان قابلیت، سیاسی شعور و ادراک اور قائدانہ صلاحیت میں ہر لحاظ سے اُس شخص سے بہتر ہو جو عمر میں اُس کے مقابلے میں دُگنا ہو۔ یہ قدرت کے طرف سے دیا ہوا ایک ایسا تحفہ ہوتا ہے جس کا ہر کوئی حقدار نہیں ہوتا۔ زبان و بیان کے گھوڑوں کو سرپٹ دوڑانے اور بے تکان اور بلامقصد حریفانہ مہم جوئی کی سیاست کرنے سے کوئی بھی اقتدار و اختیار کی منزلت کو نہیں پہنچ پاتا۔

سیاست اور صحافت کے خمیر میں محض سنسنی خیزی، تحیرآفرینی اور تجسس آمیزی سے کوئی بھی شخص بڑا آدمی نہیں بن سکتا۔ بلاتحقیق اور تصدیق الزام تراشی اور دشنام طرازی سے کچھ دیر کے لیے اپنی آتشِ انتقام کو ٹھنڈا تو کیا جا سکتا ہے یا اپنی جذباتی تقریروں اور شعلہ بیانی سے کچھ دیر کے لیے لطف اندوزی اور مسرت انگیزی کا سامان تو پید ا کیا جا سکتا ہے لیکن اُسے قانونی اور عدالتی احتساب کی چھلنی سے گزارا نہیں جا سکتا۔ وہاں ٹھوس دلائل، ثبوت اور شواہد کی ضرورت ہوا کرتی ہے۔

خان صاحب ہمارے سیاسی نظام میں ایک ایسے ہی سیاستدان کی شکل میں وارد ہوئے ہیں جنھیں بیس برس گزر جانے کے بعد بھی اب تک سیاست کے اسرار و رموز کا صحیح شعور اور ادراک نہیں ہو پایا۔ وہ ابھی بھی کرکٹ کی اُس دنیا کے سحر سے نہیں نکل پائے جہاں کی سلطنت اور ریاست صرف دس اور گیارہ کھلاڑیوں پر مشتمل ہوتی ہے اور جہاں ٹیم کا لیڈر اتنا بااختیار ہوتا ہے کہ وہ جسے چاہے ٹیم سے نکال دے۔ وہ سیاست میں بھی اُسی طرز پر حکمرانی کرنا چاہتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ معراج محمد خان، مخدوم جاوید ہاشمی، جسٹس وجیہہ الدین، حامد خان اور تسنیم نورانی جیسے کئی معزز لوگوں سے اُن کی نہیں بنی اور وہ بہت جلد علیحدہ ہو گئے یا فارغ کر دیے گئے۔

1996ء سے لے کر 2011ء تک وہ اپنی اِنہی اداؤں کے سبب نامرادیوں کے بھنور میں پھنس کر عمر عزیز ضایع کرتے رہے اور انتخابی سیاست میں ناکام ٹھہرے۔ لیکن 2011ء میں اچانک پسِ چلمن بیٹھے کسی تھرڈ امپائر کی مہربانیوں کے سبب پاکستانی سیاست میں تیسری سیاسی قوت کے طور پر سامنے آ گئے۔ اِس خلاف توقع کامیابی اور پذیرائی نے اُن کی مزاج اور دماغ میں احساسِ برتری کا ایسا جنون پیدا کر دیا جس کے آگے ہر کوئی ادنیٰ دکھائی دینے لگا۔ شائستہ جمہوری اظہار سے عاری اندازِ تکلم اور نفرت و اشتعال کی آگ میں بھسم طرز ِتخاطب نے 126 دنوں تک اسلام آباد میں ڈی چوک پر ایسا پڑاؤ ڈالے رکھا جس میں کسی کی بھی عزت محفوظ نہ تھی۔ جہاں ڈاڑھی، پگڑی، دوپٹہ دست درازی سے محفوظ نہ رہی۔ جہاں مخالفوں کو ذلیل و رسوا اور حریفوں کو بے آبرو کیا گیا۔ جہاں عدلیہ اور پارلیمنٹ کو بے وقعت و بے توقیر کرنے کی کوششیں کی گئیں، مگر جب اُنہی کے مطالبے پر بنائے گئے جوڈیشل کمیشن میں جانے کا وقت آیا تو دھاندلی والے الزامات کی صداقت کے لیے ایک بھی ثبوت اُن کے پاس موجود نہیں تھا۔


بس اُن کی جانب سے یہی کہا گیا کہ ''ثبوت تو تھیلوں میں موجود ہیں۔35 پنکچروں والی بات ہم نے ایسے ہی سیاسی بیان بازی میں کہی تھی۔'' تین سال تک جس بے بنیاد بات کو ایشو بنا کر ہنگامہ برپا کرتے رہے اب اُسی ایشو پر بات بھی کرنا گوارا نہیں کرتے۔ نئے انتخابات کے لیے سردھڑ کی بازی تو لگا رہے ہیں لیکن انتخابی اصلاحات کا کچھ پتا نہیں۔ اگلے انتخابات کو صاف اور شفاف بنانے کے لیے اب تک پارلیمانی کمیٹی کے سامنے موصوف کی پارٹی نے کیا تجاویز رکھی ہیں کسی کو معلوم نہیں۔ الیکشن کمیشن کو آزاد اور غیر جانبدار بنانے کے لیے کیا اقدامات کیے گئے ہیں، اِس جانب بھی کوئی توجہ نہیں۔ اگر آج اسمبلیاں توڑ کر عام انتخابات کا اعلان ہو جائے تو وہ کہاں کھڑے ہوں گے۔ ہر چند ماہ بعد ایک نیا ہنگامہ برپا کر کے ملک کے اندر عدم استحکام پیدا کرنا ہی دراصل اصل مقصد ِسیاست رہ گیا ہے۔ اگلے دو سالوں کی سیاست چمکانے کے لیے اب ایک نیا ''بٹیر'' اُن کے ہاتھ لگ گیا ہے۔

جسے موصوف رہا بھی نہیں کرنا چاہتے اور جان سے مارنا بھی نہیں چاہتے۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں کمیشن پر بظاہر رضامند تو دکھائی دیتے ہیں لیکن مزاج کی عدم پختگی اور غیر مستقلی کے سبب کسی کو یہ معلوم نہیں کہ وہ کب تک اپنے اِس مؤقف پر قائم بھی رہیں گے۔ نجانے کب اِس کمیشن پر اعتراضات کی بھر مار کر کے اُسے بھی ناقابلِ اعتماد بنا ڈالیں گے۔ پھر فیصلہ آ جانے پر وہ اُسے تسلیم بھی کریں گے یا نہیں۔ یہ سوال مجوزہ کمیشن کے سربراہ کے ذہن میں وسوسے اور خدشات تو پیدا کر رہا ہو گا۔ اِسی لیے کوئی بھی باعزت اور شریف النفس جج یہ فریضہ ادا کرنے میں تذبذب اور ہچکچاہٹ کا شکار ہے۔

انٹرا پارٹی کے دونوں انتخابات کے موقعوں پر جس طرح اُنہوں نے مالدار طبقے کی حمایت اور طرفداری کے جوہر دکھائے وہ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ اُنہی کو بچانے کی خاطر انٹرا پارٹی الیکشن التواء میں ڈال دیے گئے۔ اپنی خجالت اور آزردگی کو چھپانے کے لیے بہانہ اور جواز ''پانامہ لیکس'' کو بنایا گیا۔ اُن کے بقول یہ ہماری قوم کے لیے ایک فیصلہ کن مرحلہ (DEFINING MOMENT) ہے۔

اِس سے پہلے بھی وہ 126 دنوں تک اپنے دھرنے میں یہی کہتے رہے تھے۔ لیکن پھر کیا ہوا یہ فیصلہ کن مرحلہ اُن کی دوسری شادی پر منتج ہو کر رہ گیا۔ اب شاید اِس دوسرے فیصلے کن مرحلے کا بھی کہیں یہی انجام نہ ہو جائے۔ اپنی تحریک کو مؤثر اور کامیاب بنانے کے لیے وہ اِس بار ایسے لوگوں کو ساتھ ملا رہے ہیں، جن کے دامن پر پہلے ہی کرپشن کے بہت سے داغ لگے ہوئے ہیں۔ گویا اُسی عطار کے لونڈے سے دوا لینے نکلے ہیں جس کے سبب بیمار ہوئے تھے۔ کون نہیں جانتا کہ چوہدری برادرن اور پیپلزپارٹی والوں کے خلاف وہ کیا کچھ نہیں کہتے رہے۔

آج ایک چور کی مخالفت میں دوسرے چور سے سمجھوتہ اور مک مکا کر لیا ہے۔ اُن کی نظروں میں پی آئی اے، اسٹیل ملز، او جی ڈی سی ایل، این آئی سی ایل ، ای او بی آئی سمیت کئی اداروں میں مالی بدعنوانیوں کے ریکارڈز بنانے اور رینٹل پاور منصوبوں سمیت حج کرپشن میں اعلیٰ کارکردگی کے جوہر دکھانے والے آج بڑے دیانتدار، قابلِ احترام اور تقدس مآب قرار پا چکے ہیں۔ گویا پانامہ لیکس کے خلاف تحریک کرپشن کے خلاف کوئی جہاد اور جدوجہد نہیں ہے بلکہ صرف ایک شخص کو نیچا دکھانے اور محروم ِ اقتدار کرنے کی حریفانہ مہم جوئی ہے۔ خان صاحب کو شاید یہ اندازہ نہیں کہ سیاست میں اُن کی ایسی ہی عدم پختگی اور غیرمستقل مزاجی کے سبب عوام میں اُن کی مقبولیت گرتی جا رہی ہے۔

روز روز کی محاذآرائی اور دنگا فساد سے کوئی شخص بڑا لیڈر نہیں بن سکتا۔ بڑا لیڈر بننے کے لیے اپنے اندر تحمل اور بُرد باری پیدا کرنا پڑتی ہے۔ سنجیدہ، بالغ نظر اور پختہ فکر کے لوگ ایسی ہی خوبیوں سے آراستہ ہوتے ہیں۔ اپنی بیس سالہ سیاسی زندگی پر ٹھنڈے دل و دماغ سے وہ اگر غور کریں تو اُنہیں احساس ہو گا کہ اُنہوں نے اپنی اِس طرز سیاست سے اب تک کس کا نقصان کیا ہے۔ میاں صاحب کا یا اِس بیچاری مظلوم قوم کا۔ وہ اگر اپنی ساری توانائی اور طاقت مثبت اور تعمیری سیاست میں لگاتے تو شاید اگلے انتخابات میں کامیاب بھی ہوتے۔
Load Next Story