’’شیرا‘‘ کا نیا بالا اور مانی

اس کا اصلی نام شہر میں کسی کو معلوم نہیں تھا، لیکن لوگ اسے ’’شیرا‘‘ کے نام سے جانتے تھے


انیس منصوری April 20, 2016
[email protected]

لاہور: اس کا اصلی نام شہر میں کسی کو معلوم نہیں تھا، لیکن لوگ اسے ''شیرا'' کے نام سے جانتے تھے۔ چھ فٹ سے تھوڑا سا زیادہ قد اور بڑی بڑی مونچھیں اسے دوسروں سے نمایاں کرتی تھیں۔ پہلی نظر میں لوگ اس سے ڈرنے لگ جاتے تھے۔

شہر میں اس کا خوف ہر ایک کے سینے میں دھڑکتا رہتا تھا۔ اس کے حکم کے بغیر نہ ہی کوئی اپنا کاروبار چلا سکتا تھا اور نہ ہی کوئی سیاست دان اپنی دکان کھول سکتا تھا۔ وہ اپنی جوانی میں اپنے عروج پر تھا۔ لیکن وقت کی لکیر جیسے جیسے آگے بڑھ رہی تھی وہ کچھ خاموش سا ہوتا جا رہا تھا۔ کسی کی مجال نہیں تھی کہ اب بھی اس کی مرضی کے بغیر کہیں پر منہ مار سکے۔ جوانی اب بڑھاپے کی طرف بڑھ رہی تھی۔ شہر میں اس کا کنٹرول تھا۔

اسے معلوم ہوا کہ ایک نوجوان کافی جذباتی ہے اور لوگوں سے الجھنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔ شیرا نے اس کے اوپر ہاتھ رکھ دیا اور اب شیرا کی مرضی سے ''بالا'' اپنا زور دکھا رہا تھا۔ نیا نیا مارکیٹ میں آیا تھا۔ کچھ نوجوان اس سے الجھنے لگے لیکن شیرا کا نام سن کر پیچھے ہٹ جاتے۔ ایک دن بالا ایک دکاندار سے الجھ گیا۔ دکاندار نے جب شیرا کا نام سنا تو معافی مانگنے لگا، مگر اسی وقت اس کا نوجوان بیٹا ''مانی'' آ گیا۔ شہر کے لوگ یہ جانتے تھے شیرا ایک حقیقت ہے، مگر وہ بالا کو تسلیم نہیں کرتے تھے۔ اس لیے کچھ لوگ بالا اور کچھ لوگ مانی کے ساتھ کھڑے ہو گئے۔

بات شیرا تک گئی تو شیرا نے خاموشی اختیار کر لی۔ دونوں کو الجھنے دیا گیا۔ اب شہر دو حصوں میں تقسیم ہو گیا۔ ایک حصے پر بالا کا حکم چلتا تھا اور دوسری جگہ پر مانی کا سکہ چلتا تھا۔ لیکن دونوں ہر صورت میں شیرا کی بات مانتے تھے۔ شیرا بھی یہی چاہتا تھا کہ شہر پر اسی کی حکومت رہنی چاہیے۔ ایک دن بالا اور مانی غصے میں شیرا کے پاس آئے اور کہا کہ آج آپ کو اہم فیصلہ کرنا ہو گا ورنہ بہت خون خرابہ ہو سکتا ہے۔ شیرا نے دونوں کو بٹھایا اور پوچھا کہ مسئلہ کیا ہے۔ مانی نے کہا کہ میں ایک لڑکی سے شادی کرنا چاہتا ہوں اور بالا کہہ رہا ہے کہ وہ لڑکی اس کی بیوی بنے گی۔

شیرا کے لیے اب یہ فیصلہ کرنا بہت مشکل تھا کہ وہ کس کے حق میں فیصلہ دے۔ پہلے تو کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر وہ فیصلہ کر لیتا تھا لیکن اب مسئلہ یہ تھا کہ لڑکی ایک ہی ہے اور امیدوار دو ہیں۔ شیرا نے یہ سوچا کہ اس مسئلہ کا ایک ہی حل ہے کہ یہ معلوم کیا جائے کہ لڑکی کون ہے؟ اور اسے ہی درمیان سے ہٹا دیا جائے۔ شیرا نے مانی سے پوچھا کہ میں مسئلہ اسی وقت حل کر سکتا ہوں جب تم مجھے یہ بتاؤ گے کہ لڑکی کون ہے؟ مانی نے سر جھکا لیا اور کہا کہ مجھ میں ہمت نہیں کہ میں یہ بتا سکوں، آپ اسی سے پوچھ لیں۔ شیرا نے بالا کی طرف دیکھا اور کہا کہ تم ہی بتاؤ کہ لڑکی کون ہے؟ بالا نے غصے سے مانی کی طرف دیکھا اور اٹھ کر چلا گیا۔

شیرا نے کہا کہ اب یہ چلا گیا تم جلدی سے بتا دو۔ مانی نے کہا کہ اب یہ چلا گیا تو اس کا مطلب ہے کہ اس کا حق نہیں ہے۔ اب آپ فیصلہ کر دیں کہ مجھ سے لڑکی کی شادی ہو گی۔ شیرا کیوں کہ معاملہ سمجھا نہیں تھا اس لیے اس نے کہہ دیا کہ عین موقع پر کیونکہ بالا چلا گیا اس لیے لڑکی کی شادی مانی سے ہو گی۔ مانی یہ سن کر خوشی خوشی چلا گیا۔ اگلے دن صبح صبح جب شیرا اٹھا تو اس نے دیکھا کہ اس کا گھر مٹھائی سے بھرا ہوا ہے۔

اس نے پوچھا کہ یہ سب کہاں سے آئی ہیں؟ تو ایک ملازم نے ڈرتے ڈرتے کہا کہ یہ مٹھائی شہر کے لوگوں نے بھیجی ہے، آپ کی بیٹی اور مانی کی شادی طے ہونے پر۔ شیرا غصے میں آ گیا اور اس نے فوراً بالا کو اپنے گھر پر آنے کا کہا۔ بالا نے کہہ دیا کہ آپ نے اپنی بیٹی کا رشتہ مانی سے کیا ہے، اس لیے میں اب آپ سے نہیں مل سکتا۔ شیرا سوچنے لگ گیا کہ اب وہ مانی سے بیٹی کا رشتہ نہیں کرنا چاہتا، اور دوسری طرف بالا بھی اس کا دشمن ہو گیا۔

شیرا نے ان دونوں کو ختم کرنے کا منصوبہ بنا لیا۔ جب یہ بات مانی اور بالا کو معلوم ہوئی تو دونوں نے ایک دوسرے سے ہاتھ ملا لیا اور کہا کہ کسی دوسرے کو پورا شہر کا کنٹرول دینے کے بجائے ہم شہر کو آدھا آدھا تقسیم کر لیتے ہیں۔ ایک نیا طوفان کھڑا ہو گیا۔ اس کہانی کو اب یہی روکیں، پہلے ہم اپنی کہانی بتا دیں۔ بینظیر کے دوسرے دور حکومت میں اپوزیشن حکومت کے خلاف بڑا محاذ کھڑا کرنے کے لیے تیار تھی لیکن 4 جون 1996ء کو خلیج کے ایک اخبار نے یہ خبر شایع کی کہ امریکا نے نواز شریف کو یہ یقین دلایا ہے کہ عام انتخابات آیندہ سال ہو جائیں گے۔

اس اخبار میں لکھا کہ امریکا میں قیام کے دوران نواز شریف کی ایک خصوصی ملاقات نائب وزیر خارجہ رابن رافیل سے ہوئی ہے، جس میں یہ بات طے ہو گئی ہے کہ امریکا کی اس یقین دہانی کے بعد اب نواز شریف، بینظیر بھٹو کی حکومت کے خلاف تحریک نہیں چلائیں گے۔ تھوڑی دیر کے لیے آپ مانی اور بالا کو یہاں سمجھ جائیں۔ جب بینظیر بھٹو کی حکومت کو اس سے تھوڑا سا سکون ملا، تو دو دن بعد ہی برطانوی اخبار نے یہ خبر شایع کی کہ بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری نے لندن میں ایک بہت ہی قیمتی عمارت خریدی ہے۔ بے نظیر نے اس کی تردید کی اور اپنے بیان میں کہا کہ کچھ لوگ سازش کر رہے ہیں کہ میری حکومت مارچ 1997ء سے پہلے ختم ہو جائے۔

غور کیجیے کہ بینظیر کی حکومت کو پانچ سال اس وقت پورے نہیں ہو رہے تھے، لیکن بے نظیر بھی 97ء کا ذکر کر رہی تھیں۔ اب جب امریکا جو دنیا بھر کا شیرا ہے اس نے یہاں کے مانی اور بالا کو ساتھ بٹھا دیا تھا۔ تو اب سوال یہ تھا کہ خبر اس وقت کیوں آئی تھی اور کس شیرا نے لیک کی تھی؟ خیر میرا سوال یہ نہیں ہے بلکہ کہانی کا دوسرا رخ ہے۔ یہ بات نواز شریف اور بے نظیر بھٹو سمجھ گئیں کہ بین الاقوامی شیرا تو مان گیا ہے لیکن کوئی اور نہیں چاہ رہا ہے۔ اس لیے یہ معاملہ خراب ہوگا۔ دونوں جانب سے انتظار ہونے لگا اور پھر اس خبر کے پورے ڈیڑھ مہینے بعد نواز شریف کے پاس بھی اس مکان کے ثبوت آ گئے۔

اور وہ سمجھ گئے کہ کہانی کہاں سے چل رہی ہے۔ انھوں نے 21 اگست 1996ء کو قومی اسمبلی میں ایک پرجوش تقریر کی اور ہاتھوں میں ثبوت رکھ کر کہا کہ بے نظیر اور آصف علی زردار ی نے اپنے ایک دوست کی مدد سے 25 لاکھ پاؤنڈ کا مکان خریدا ہے، جو ''سرے محل'' کہلاتا ہے۔ اسمبلی میں ایک ہنگامہ برپا ہو گیا۔ ماحول بن چکا تھا اور انھیں سمجھ آ گیا کہ شیرا ان کے ساتھ ہے۔

اس لیے انھوں نے جلسوں کا اعلان کر دیا۔ 2 دن بعد انھوں نے پنڈی میں بڑا جلسہ کیا اور کہا کہ اب وہ وقت آ گیا ہے کہ اسلام آباد کی طرف مارچ کیا جائے۔ یہ ایسا ہی اعلان تھا جیسا کہ آج کے مانی نے رائیونڈ جانے کے لیے کیا ہوا ہے۔ اگلے دن پاکستان کے تمام اخباروں میں اپوزیشن کی طرف سے بڑے بڑے اشتہار چھپوائے گئے۔ یہاں بھی مانی اور بالا ایک دوسرے کے سامنے تھے۔ مگر مسئلہ یہ تھا کہ یہاں پر دو شیرا تھے۔ کہانی کا اصل موڑ یہ نہیں ہے بلکہ ایک اور رخ ہے۔ اس رخ سے پہلے تھوڑا سا ایک اور کردار کو بھی سمجھیں۔

یوں تو ہمارے اس وقت کے سینیٹ کے چیئرمین پر سب ہی متفق ہیں اور رضا ربانی کا نام بھی بہت بڑا ہے۔ شاید بہت سے لوگوں کو سمجھ نہ آئے کہ ابھی پیپلز پارٹی نے کمیشن کے لیے رضا ربانی کا نام کیوں دیا تھا۔ آئیے آپ کو پھر 1996ء میں لے چلتے ہیں۔ جب اور جس وقت نواز شریف اسمبلی میں سرے محل کا ثبوت سب کو دکھا رہے تھے جو انھیں کسی شیرا نے دیا تھا، اس وقت اخبارات کی زینت رضا ربانی کے بیانات بنے ہوئے تھے۔

ایک طرف نواز شریف کا ثبوت چھپا ہوا تھا اور دوسری طرف رضا ربانی کا بیان تھا کہ پہلے نواز شریف یہ بتائیں کہ لندن میں جس فلیٹ میں ان کے صاحبزادے رہتے ہیں وہ کس کی ملکیت ہے؟ اب یہ اسی فلیٹ کا ذکر ہے جو آج کل فیس بک پر ہر جگہ نظر آ رہے ہیں تو آپ خود سوچیں کہ جو شخص خود بار بار کہہ چکا ہو اور جس کو یہ یقین بھی ہو کہ دال میں کچھ کالا ہے، اسے کیسے کمیشن کا سربراہ رکھا جا سکتا ہے؟

ہوا کا رخ یہ بتا رہا ہے کہ شیرا نے سوچا ہوا ہے کہ مانی اور بالا کو سبق سکھایا جائے لیکن جادو کی چھڑی بتا رہی ہے کہ دوسری طرف اپنی سخت دشمنی کے باوجود مانی اور بالا ایک ہی ہیں۔ جو لوگ پہلے شیرا کے لیے کام کرتے تھے وہ خود شیر ہو گئے ہیں۔ اور شیرا نے نیا بالا اور مانی ڈھونڈ لیے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں