صدراوباما سعودی عرب کے خلاف کسی قانون سازی پر دستخط نہیں کریں گے ترجمان وائٹ ہاؤس
سعودی عرب انسداد دہشت گردی کے حوالے سے امریکا کا اہم پارٹنر ہے، جوش ارنسٹ
وائٹ ہاؤس نے کہا ہے کہ صدر باراک اوباما ایسی کسی قانون سازی پر دستخط نہیں کریں گے جس سے سعودی عرب جیسے ملکوں پر قانونی چارہ جوئی کی اجازت ملتی ہو کہ اس کے اہل کاروں نے 11 ستمبر 2001 کے امریکی سرزمین پر دہشت گرد حملوں میں کسی طرح کا کوئی کردار ادا کیا۔
وائس آف امریکا کے مطابق وائٹ ہاؤس کے پریس سیکریٹری جوش ارنسٹ نے میڈیا بریفنگ کے دوران کہا کہ امریکا کو اعتماد ہے کہ سعودی عرب امریکا میں اپنے اثاثے فروخت نہیں کرے گا۔ ہمیں اس بات پر بھی اعتماد ہے کہ سعودی عرب عالمی معیشت کو خطرے میں نہیں ڈالے گا کیونکہ یہ دونوں ملکوں کے مفاد میں ہے، انھوں نے کہا کہ یہ دونوں ممالک کی ذمے داری ہے کہ عالمی معیشت کو کوئی خطرہ نہ ہو، ان کا مزید کہنا تھا کہ اقتدار اعلیٰ کے استثنیٰ کے پورے نظریے کو خطرہ لاحق ہے، اس سے کسی دوسرے ملک کے خلاف نہیں بلکہ خود امریکا کیلیے اہم نتائج برآمد ہو سکتے ہیں، ایک سوال کے جواب میں ترجمان نے کہا کہ قانون سازی کے بارے میں تشویش کو مدنظر رکھتے ہوئے اس خیال کو ذہن میں لانا مشکل ہوگا کہ جس طرح سے اس کا مسودہ بنایا جا رہا ہے، صدر اوباما اس پر دستخط کریں گے، انھوں نے کہا کہ اقتدار اعلیٰ کے استثنیٰ کا سوال ایسا ہے۔
جس سے امریکا کی استعداد کو تحفظ فراہم ہوتا ہے کہ وہ دنیا کے تمام ملکوں سے مل کر کام کریگا، اس اصول سے ہٹنے سے امریکا، ہمارے ٹیکس دہندگان، ہمارے فوجی اور سفارت کاروں کو خطرہ لاحق ہوگا، ترجمان نے سعودی عرب کو دہشت گردی کے انسداد کے حوالے سے امریکا کا اہم پارٹنر قرار دیا، انھوں نے تسلیم کیا کہ دونوں ملک ہر چیز سے اتفاق نہیں کرتے تاہم نااتفاقی کو سفارت کاری کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کی جانی چاہیے، انھوں نے کہا کہ سعودی حکومت تسلیم کرتی ہے کہ عالمی مالیاتی نظام کی ہموار کارکردگی ہمارے دونوں ملکوں اور ہماری معیشتوں کیلیے سود مند ہے اور اس ضمن میں عدم استحکام دونوں کے مفاد میں نہیں ہے۔
وائس آف امریکا کے مطابق وائٹ ہاؤس کے پریس سیکریٹری جوش ارنسٹ نے میڈیا بریفنگ کے دوران کہا کہ امریکا کو اعتماد ہے کہ سعودی عرب امریکا میں اپنے اثاثے فروخت نہیں کرے گا۔ ہمیں اس بات پر بھی اعتماد ہے کہ سعودی عرب عالمی معیشت کو خطرے میں نہیں ڈالے گا کیونکہ یہ دونوں ملکوں کے مفاد میں ہے، انھوں نے کہا کہ یہ دونوں ممالک کی ذمے داری ہے کہ عالمی معیشت کو کوئی خطرہ نہ ہو، ان کا مزید کہنا تھا کہ اقتدار اعلیٰ کے استثنیٰ کے پورے نظریے کو خطرہ لاحق ہے، اس سے کسی دوسرے ملک کے خلاف نہیں بلکہ خود امریکا کیلیے اہم نتائج برآمد ہو سکتے ہیں، ایک سوال کے جواب میں ترجمان نے کہا کہ قانون سازی کے بارے میں تشویش کو مدنظر رکھتے ہوئے اس خیال کو ذہن میں لانا مشکل ہوگا کہ جس طرح سے اس کا مسودہ بنایا جا رہا ہے، صدر اوباما اس پر دستخط کریں گے، انھوں نے کہا کہ اقتدار اعلیٰ کے استثنیٰ کا سوال ایسا ہے۔
جس سے امریکا کی استعداد کو تحفظ فراہم ہوتا ہے کہ وہ دنیا کے تمام ملکوں سے مل کر کام کریگا، اس اصول سے ہٹنے سے امریکا، ہمارے ٹیکس دہندگان، ہمارے فوجی اور سفارت کاروں کو خطرہ لاحق ہوگا، ترجمان نے سعودی عرب کو دہشت گردی کے انسداد کے حوالے سے امریکا کا اہم پارٹنر قرار دیا، انھوں نے تسلیم کیا کہ دونوں ملک ہر چیز سے اتفاق نہیں کرتے تاہم نااتفاقی کو سفارت کاری کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کی جانی چاہیے، انھوں نے کہا کہ سعودی حکومت تسلیم کرتی ہے کہ عالمی مالیاتی نظام کی ہموار کارکردگی ہمارے دونوں ملکوں اور ہماری معیشتوں کیلیے سود مند ہے اور اس ضمن میں عدم استحکام دونوں کے مفاد میں نہیں ہے۔