غیر جن کے مداح ہم ان کے ناقد کیوں
اگر مسلمانوں کی ماضی کی کاوشوں میں کوئی دم نہ تھا تو آج مغربی ماہرین اس میں کیوں دلچسپی لے رہے، آخر کیوں؟
آپ نے حکیم بوعلی سینا کا نام تو سنا ہوگا، 980 عیسوی میں بخارا میں پیدا ہونے والا ایک عالی دماغ سائنسداں جس کی تصانیف کی تعداد سینکڑوں میں ہے۔ ان کی مشہور کتابیں الشفا اور القانون فی الطب سات سو سال تک یورپی جامعات میں پڑھائی جاتی رہی تھیں۔ الشفا میں بوعلی سینا نے جہاں فلسفہ، طب، طبیعات، ارضیات اور دیگر علوم کا ذکر کیا ہے وہیں اس نے 1006 عیسوی میں آسمان پر نمودار ہونے والے اس غیرمعمولی سپرنووا (ایک ستارے کا آخری مرحلہ) کا بھی ذکر کیا ہے جو سورج اور چاند کے بعد آسمان پر سب سے روشن شے تھا جس کی چمک تین ماہ تک ماند نہیں پڑی تھی۔
یہ تحقیق تین مغربی اسکالرز نے کی ہیں، جن میں دو جرمن پروفیسر پال کونیطش اور پروفیسر پال ایگرٹ نے کی ہے جو عربی زبان سے خوب واقف ہیں۔ انہوں نے ابن سینا کی کتاب 'الشفا' کا بغور مطالعہ کرکے بتایا کہ 1006ء میں آسمان پر نمودار ہونے والے سپرنووا کا ذکر کرتے ہوئے اس نے لکھا کہ،
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ابن سینا آسمانی مشاہدے اور فلکیات میں بے حد دلچسپی رکھتا تھا۔ ماہرین کے لئے زیادہ حیرت انگیز بات یہ تھی کہ ابن سینا نے نظام شمسی کے پہلے سیارے 'عطارد' (مرکری) کے سورج کے سامنے سے عبور (وینس ٹرانزٹ) کا بھی دلچسپ احوال پیش کیا ہے۔ اس عمل میں سیارہ زحل سورج کے سامنے سے ایک کالے تل کی طرح گزرتا ہے اور اسے کسی ایکسرے یا خاص دور بین سے ہی دیکھا جاسکتا ہے۔
ابن سینا نے الشفا میں لکھا کہ میں نے(خود اپنی آنکھوں سے) دیکھا کہ سورج کی ٹکیہ کے عین درمیان سے ایک سیاہ نقطہ آہستہ آہستہ کھسکتے ہوئے آگے بڑھا۔ لیکن ابن سینا نے اس واقعے کا سال تحریر نہیں کیا۔ اب سوال یہ ہے کہ وینس ٹرانزٹ کو دیکھنا اتنا ہی مشکل ہوتا ہے جس طرح سورج کو براہ راست دیکھنا ناممکن ہے، تو کیا اس نے سورج کو دیکھنے کا کوئی طریقہ دریافت کرلیا تھا؟ کیونکہ ایک ہزار سال قبل کوئی دوربین اور سورج دیکھنے کے لئے کوئی فلٹر ایجاد نہیں ہوا تھا۔ کیا ہمیں اس پرغور نہیں کرنا چاہیئے؟
اب اس بحث کو یہی چھوڑ کر ہم آگے بڑھتے ہیں کہ اس وقت دنیا بھر کی لائبریریوں میں 50 لاکھ سے زائد کتابیں، مسودے اور اسکرپٹ بکھرے پڑے ہیں جو فارابی، خوارزمی، بیطار، باجہ، ابن الہیثم، طوسی، جاحظ، ابن مسکویہ اور ایسے ہی مسلمان سائنسدانوں نے لکھے ہیں۔ اس وقت مسلمان آبادی میں عربوں کی تعداد بھی بہت ذیادہ ہے لیکن یہ کسی کو توفیق نہیں کہ وہ اسے کھول کر دیکھے۔ دوسرا المیہ یہ ہے کہ یہ کتابیں یورپ، امریکہ اور برطانیہ کی لائبریریوں اور تحقیق کے مراکز میں موجود ہیں۔ خود 'کتاب الشفا' کا اصل مسودہ اس وقت آکسفورڈ یونیورسٹی کی بوڈلین لائبریری میں رکھا ہے۔ اسی لیے اقبال نے یورپ کے دورے کے بعد بڑے دکھی دل کے ساتھ کہا تھا۔
آپ اس موقع پر یہ سوچنے میں حق بجانب ہوسکتے ہیں کہ آج انٹرنیٹ، خلائی ٹیکنالوجی اور موبائل کا دور ہے۔ کون ہے جو ماضی کی خاک چھانے، وقت اور وسائل ضائع کرکے بےمصرف کام کرے۔ لیکن ٹھہریئے! اس کا مقصد مالی مفاد ہرگز نہیں بلکہ اس علمی خلیج کو پاٹنا ہے، کیونکہ ہم علم و سائنس سے بچھڑ چکے ہیں اور اس تحقیق سے ہماری احساس کمتری میں کمی ہوسکے گی۔
ابن سینا کی صرف ایک کتاب سے یہ انکشاف ہوا ہے۔ اگر ہم مزید علمی خزانوں سے رجوع کریں تو عین ممکن ہے کہ مزید ہوشربا انکشافات سامنے آجائیں۔ میں ہرگز ماضی پرست نہیں ہوں اور نہ ہی پدرم سلطان بود پر یقین رکھتا ہوں، لیکن اگر ہم یہ کام خود اپنے ہاتھ سے کریں تو اس سے ایک اور تاثر کو دور کرنے میں مدد مل سکتی ہے جس کا ذکر آگے آرہا ہے۔
عجیب بات یہ ہے کہ خصوصاً پاکستان میں پڑھے لکھے افراد کا ایک طبقہ پیدا ہوگیا ہے جو یہ کہتا ہے کہ اسلامی سائنس کا سنہرا دور کبھی نہیں تھا۔ مسلمان سائنسدانوں کی اکثریت نے صرف رومیوں اور یونانیوں کے علم کو جذب کیا اور اسے ہی دوبارہ اگل دیا۔ ان میں تجربے کی صلاحیت نہ تھی ۔ وہ سونا بنانے کے لالچی تھے اور بس۔
لیکن جب ان سے اتنے بڑے دعوؤں کے ثبوت مانگے جاتے ہیں تو وہ اس کا جواب نہیں دے پاتے۔ وہ جارج سارٹن کی ہسٹری آف سائنس سے ناواقف دکھائی دیتے ہیں جس میں اس نے چار صدیاں مسلمان سائنسدانوں کے کاموں سے منسوب کی ہیں۔ انہیں جیرارڈ آف کریمونا اور مائیکل دی اسکاٹ کے نام نہیں معلوم جنہوں نے پوری زندگی مسلمان سائنسدانوں کا لاطینی ترجمہ کیا۔ جارج سلیبا ان کے لئے اجنبی ہیں جنہوں نے اسلامی تاریخ کے زریں عہد کو ایک فراموش کردہ دور لکھا ہے۔
وہ یہ بھی نہیں بتا پاتے کہ آکسفورڈ یونیورسٹی نے نیوٹن اور فارابی کے نام سے آج بھی ایک اسکالر شپ کا اجرا کیوں کررکھا ہے، مانچسٹر یونیورسٹی نے آخر کیوں کروڑوں روپے خرچ کرکے ایک ہزار ایک ایجادات کے منصوبے کا اجرا کیا جس کے تحت اسلامی ایجادات کے ماڈل، پوسٹر، فلمیں اور کتابیں پوری دنیا میں دکھائی جارہی ہیں۔ وہ ٹیمپلٹن کیمبرج فاؤنڈیشن کے اس کام کو بھی نہیں جانتے جس کے تحت اس وقت اسلامی جامعات میں سائنسی تحقیق کا 2 سالہ مطالعاتی منصوبہ شروع کیا ہے۔ اگر مسلمانوں کی ماضی کی کاوشوں میں کوئی دم نہ تھا تو آج مغربی ماہرین اس میں کیوں دلچسپی لے رہے، آخر کیوں؟
کیا یہ المیہ نہیں کہ مغرب کے علم دوست دانشور تو ہمارا ماضی روشن بتاتے ہیں اور ہم اندھیرا لکھتے ہیں۔ وہ انکشافات پر حیران ہیں اور ہم بے زار ۔۔۔۔۔ وہ ابن سینا اور البیرونی کے مداح ہیں اور ہم ناقد۔ آخر اس عجیب و غریب احساس کو کیا نام دیا جائے؟ بے مروتی، مُردنی، احساس کمتری، کم علمی اور بے عملی؟ آخر کچھ تو بتائیں کہ اس کیفیت کا نام کیا ہے اور اس بیماری کو کیا کہتے ہیں؟
[poll id="1074"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
یہ تحقیق تین مغربی اسکالرز نے کی ہیں، جن میں دو جرمن پروفیسر پال کونیطش اور پروفیسر پال ایگرٹ نے کی ہے جو عربی زبان سے خوب واقف ہیں۔ انہوں نے ابن سینا کی کتاب 'الشفا' کا بغور مطالعہ کرکے بتایا کہ 1006ء میں آسمان پر نمودار ہونے والے سپرنووا کا ذکر کرتے ہوئے اس نے لکھا کہ،
''آسمان پر اچانک ایک روشن ستارہ نمودار ہوا جو 3 ماہ تک درجہ بدرجہ بڑھتا رہا، وہ رنگ بدلتا رہا تھا اور دھیرے دھیرے مدہم ہوکرغائب ہوگیا، لیکن غائب ہوتے وقت اس سے کچھ چنگاریاں پھوٹی تھیں''۔
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ابن سینا آسمانی مشاہدے اور فلکیات میں بے حد دلچسپی رکھتا تھا۔ ماہرین کے لئے زیادہ حیرت انگیز بات یہ تھی کہ ابن سینا نے نظام شمسی کے پہلے سیارے 'عطارد' (مرکری) کے سورج کے سامنے سے عبور (وینس ٹرانزٹ) کا بھی دلچسپ احوال پیش کیا ہے۔ اس عمل میں سیارہ زحل سورج کے سامنے سے ایک کالے تل کی طرح گزرتا ہے اور اسے کسی ایکسرے یا خاص دور بین سے ہی دیکھا جاسکتا ہے۔
ابن سینا نے الشفا میں لکھا کہ میں نے(خود اپنی آنکھوں سے) دیکھا کہ سورج کی ٹکیہ کے عین درمیان سے ایک سیاہ نقطہ آہستہ آہستہ کھسکتے ہوئے آگے بڑھا۔ لیکن ابن سینا نے اس واقعے کا سال تحریر نہیں کیا۔ اب سوال یہ ہے کہ وینس ٹرانزٹ کو دیکھنا اتنا ہی مشکل ہوتا ہے جس طرح سورج کو براہ راست دیکھنا ناممکن ہے، تو کیا اس نے سورج کو دیکھنے کا کوئی طریقہ دریافت کرلیا تھا؟ کیونکہ ایک ہزار سال قبل کوئی دوربین اور سورج دیکھنے کے لئے کوئی فلٹر ایجاد نہیں ہوا تھا۔ کیا ہمیں اس پرغور نہیں کرنا چاہیئے؟
اب اس بحث کو یہی چھوڑ کر ہم آگے بڑھتے ہیں کہ اس وقت دنیا بھر کی لائبریریوں میں 50 لاکھ سے زائد کتابیں، مسودے اور اسکرپٹ بکھرے پڑے ہیں جو فارابی، خوارزمی، بیطار، باجہ، ابن الہیثم، طوسی، جاحظ، ابن مسکویہ اور ایسے ہی مسلمان سائنسدانوں نے لکھے ہیں۔ اس وقت مسلمان آبادی میں عربوں کی تعداد بھی بہت ذیادہ ہے لیکن یہ کسی کو توفیق نہیں کہ وہ اسے کھول کر دیکھے۔ دوسرا المیہ یہ ہے کہ یہ کتابیں یورپ، امریکہ اور برطانیہ کی لائبریریوں اور تحقیق کے مراکز میں موجود ہیں۔ خود 'کتاب الشفا' کا اصل مسودہ اس وقت آکسفورڈ یونیورسٹی کی بوڈلین لائبریری میں رکھا ہے۔ اسی لیے اقبال نے یورپ کے دورے کے بعد بڑے دکھی دل کے ساتھ کہا تھا۔
مگر وہ علم کے موتی، کتابیں اپنے آبا کی
جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سی پارہ
آپ اس موقع پر یہ سوچنے میں حق بجانب ہوسکتے ہیں کہ آج انٹرنیٹ، خلائی ٹیکنالوجی اور موبائل کا دور ہے۔ کون ہے جو ماضی کی خاک چھانے، وقت اور وسائل ضائع کرکے بےمصرف کام کرے۔ لیکن ٹھہریئے! اس کا مقصد مالی مفاد ہرگز نہیں بلکہ اس علمی خلیج کو پاٹنا ہے، کیونکہ ہم علم و سائنس سے بچھڑ چکے ہیں اور اس تحقیق سے ہماری احساس کمتری میں کمی ہوسکے گی۔
ابن سینا کی صرف ایک کتاب سے یہ انکشاف ہوا ہے۔ اگر ہم مزید علمی خزانوں سے رجوع کریں تو عین ممکن ہے کہ مزید ہوشربا انکشافات سامنے آجائیں۔ میں ہرگز ماضی پرست نہیں ہوں اور نہ ہی پدرم سلطان بود پر یقین رکھتا ہوں، لیکن اگر ہم یہ کام خود اپنے ہاتھ سے کریں تو اس سے ایک اور تاثر کو دور کرنے میں مدد مل سکتی ہے جس کا ذکر آگے آرہا ہے۔
عجیب بات یہ ہے کہ خصوصاً پاکستان میں پڑھے لکھے افراد کا ایک طبقہ پیدا ہوگیا ہے جو یہ کہتا ہے کہ اسلامی سائنس کا سنہرا دور کبھی نہیں تھا۔ مسلمان سائنسدانوں کی اکثریت نے صرف رومیوں اور یونانیوں کے علم کو جذب کیا اور اسے ہی دوبارہ اگل دیا۔ ان میں تجربے کی صلاحیت نہ تھی ۔ وہ سونا بنانے کے لالچی تھے اور بس۔
لیکن جب ان سے اتنے بڑے دعوؤں کے ثبوت مانگے جاتے ہیں تو وہ اس کا جواب نہیں دے پاتے۔ وہ جارج سارٹن کی ہسٹری آف سائنس سے ناواقف دکھائی دیتے ہیں جس میں اس نے چار صدیاں مسلمان سائنسدانوں کے کاموں سے منسوب کی ہیں۔ انہیں جیرارڈ آف کریمونا اور مائیکل دی اسکاٹ کے نام نہیں معلوم جنہوں نے پوری زندگی مسلمان سائنسدانوں کا لاطینی ترجمہ کیا۔ جارج سلیبا ان کے لئے اجنبی ہیں جنہوں نے اسلامی تاریخ کے زریں عہد کو ایک فراموش کردہ دور لکھا ہے۔
وہ یہ بھی نہیں بتا پاتے کہ آکسفورڈ یونیورسٹی نے نیوٹن اور فارابی کے نام سے آج بھی ایک اسکالر شپ کا اجرا کیوں کررکھا ہے، مانچسٹر یونیورسٹی نے آخر کیوں کروڑوں روپے خرچ کرکے ایک ہزار ایک ایجادات کے منصوبے کا اجرا کیا جس کے تحت اسلامی ایجادات کے ماڈل، پوسٹر، فلمیں اور کتابیں پوری دنیا میں دکھائی جارہی ہیں۔ وہ ٹیمپلٹن کیمبرج فاؤنڈیشن کے اس کام کو بھی نہیں جانتے جس کے تحت اس وقت اسلامی جامعات میں سائنسی تحقیق کا 2 سالہ مطالعاتی منصوبہ شروع کیا ہے۔ اگر مسلمانوں کی ماضی کی کاوشوں میں کوئی دم نہ تھا تو آج مغربی ماہرین اس میں کیوں دلچسپی لے رہے، آخر کیوں؟
کیا یہ المیہ نہیں کہ مغرب کے علم دوست دانشور تو ہمارا ماضی روشن بتاتے ہیں اور ہم اندھیرا لکھتے ہیں۔ وہ انکشافات پر حیران ہیں اور ہم بے زار ۔۔۔۔۔ وہ ابن سینا اور البیرونی کے مداح ہیں اور ہم ناقد۔ آخر اس عجیب و غریب احساس کو کیا نام دیا جائے؟ بے مروتی، مُردنی، احساس کمتری، کم علمی اور بے عملی؟ آخر کچھ تو بتائیں کہ اس کیفیت کا نام کیا ہے اور اس بیماری کو کیا کہتے ہیں؟
[poll id="1074"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔