حالات نہیں بدلیں گے
پیپلز پارٹی کے ’’زیر حکومت‘‘ تین میں سے دو صوبے سنگین بحرانوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔
پیپلز پارٹی کے ''زیر حکومت'' تین میں سے دو صوبے سنگین بحرانوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔
بلوچستان اسمبلی نے متفقہ طور پر وزیر اعلیٰ رئیسانی کے حق میں اعتماد کی قرارداد منظور کر لی ہے۔ 65 کے ایوان میں 20 ارکان غیر حاضر تھے۔ بہرحال متفقہ نہیں تو اسے اکثریتی تو کہہ سکتے ہیں۔ لیکن اسمبلی کا اجلاس رئیسانی کے حامی قائم مقام اسپیکر نے بلایا تھا اور دراصل یہ وہی اجلاس تھا جو چند روز پہلے رئیسانی نے بلانے کی کوشش کی تھی لیکن اسپیکر نے ناکام بنا دی تھی اور کہا تھا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد وزیر اعلیٰ کی آئینی حیثیت متنازع ہے۔ اس وقت وزیر اعلیٰ اور حکمران پیپلز پارٹی کے علاوہ جے یو آئی نے جو بلوچستان کابینہ میں خاصی معقول نمائندگی رکھتی ہے، یہ موقف اختیار کیا تھا کہ سپریم کورٹ نے وہ فیصلہ سنایا ہے جو اس سے مانگا ہی نہیں گیا تھا۔ سپریم کورٹ نے بلوچستان بدامنی کیس میں صوبائی حکومت کو ناکام قرار دے کر یہ کہا تھا کہ یہ حکومت حکمرانی کے حق سے محروم ہو گئی ہے۔
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا تھا کہ بلوچستان میں بدامنی اور لوگوں کو لاپتہ کرنے کا تعلق سیکیورٹی اداروں سے ہے لیکن عدالت نے فیصلہ حکومت کے خلاف دے دیا۔ پیپلز پارٹی کا محتاط تبصرہ یہ تھا کہ حکومت کو ہٹانے کا اختیار سپریم کورٹ کے پاس نہیں ہے۔ اس وقت سے بلوچستان حکومت ایک قسم کی معلق حالت میں تھی اور شاید اب بھی ہے اس لیے کہ عدالتی فیصلے کی رو سے پوزیشن یہ بنتی ہے کہ حق حکمرانی سے محروم وزیر اعلیٰ اعتماد کا ووٹ لے کر بھی عدالتی لحاظ سے حق حکمرانی سے محروم ہی رہے گا ۔ فی الحال انتظار کرتے ہیں کہ عدالت کا آئندہ ایکشن کیا ہو گا۔ ممکن ہے، عدالت کی طرف سے مزید کوئی کارروائی اس لیے نہ ہو کہ انھوں نے جو فیصلہ دینا تھا دے دیا، اب گیند حکومت کی کورٹ میں ہے لیکن ایکشن ہونے کا امکان بھی موجود ہے اور اسکی دلیل چیف جسٹس کے ایک دن پہلے دیے گئے یہ ریمارکس ہیں کہ انتظامیہ اور مقنّنہ دونوں عدالتی احکامات ماننے کی پابند ہیں۔
چنانچہ عدلیہ پوچھ سکتی ہے کہ بلوچستان کے بارے میں اس کے فیصلے پر عمل کیوں نہیں ہوا۔ وہ چاہے تو عملدرآمد نہ ہونے پر الگ سے ایکشن بھی لے سکتی ہے۔ ویسے بھی عدلیہ پہلے سے زیادہ طاقتور ہے، میڈیا میں اسکی حمایت کم نہیں ہوئی اور انتخابات کا زمانہ قریب آنے کی وجہ سے حکومت بھی زیادہ ''سرکشی'' کا مظاہرہ کرنے سے گریز ہی بہتر سمجھے گی۔
بہرحال عام آدمی دو باتیں جاننا چاہتا ہے۔ پہلی یہ کہ بلوچستان میں امن و امان کے حوالے سے ناکامی کے سرٹیفکیٹ کا اصل مستحق کون ہے۔ صوبے میں سیکیورٹی اداروں کا کنٹرول اتنا زیادہ ہے کہ صوبائی حکومت کی نوعیت محض علامتی بن کر رہ گئی ہے اور اس کا دوسرا سوال یہ ہے کہ ایسے وقت میں جب اسمبلیوں اور حکومتوں کی عمر دو تین ماہ رہ گئی ہے۔ صوبائی حکومت کو برطرف کرنے سے کیا فائدہ حاصل ہو گا۔ حکومت برطرف کی گئی تو نیا وزیر اعلیٰ بھی یہی اتحاد بنائے گا جو اس وقت برسر اقتدار ہے اور اس طرح صرف وزیر اعلیٰ تبدیل ہو گا۔ بلوچستان میں امن و امان کی صورتحال نئے وزیر اعلیٰ کے انتخاب کے بعد بھی اسی طرح سے رہے گی کیونکہ رئیسانی کی طرح وہ بھی علامتی ہوگا۔ اصل گورنر، اصل وزیر اعلیٰ اور اصل حکومت تو کسی اور کے پاس ہے۔
یہ عدالت بھی جانتی ہے اور لوگ بھی۔ دوسرا صوبہ سندھ ہے جہاں بدامنی کے بھوت کی نئی انگڑائی نے ایک بار پھر کہرام اور ہلچل پیدا کر دی ہے۔ یہ سیاسی تاریخ کا ایک منفرد واقعہ ہے کہ صوبے پر حکمران تین میں سے دو جماعتیں فوج بھیجنے، فوجی آپریشن کرنے اور ایمرجنسی لگانے کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ بڑی حکمران جماعت پیپلز پارٹی کی بے بسی کا یہ عالم ہے کہ وہ کبھی متحارب دھڑوں سے رابطے کرتی ہے، کبھی امن کی اپیلیں جاری کرتی ہے اور کبھی ایکشن کرنے کے اعلان کرتی ہے لیکن صوبے کی اکثریتی جماعت ہونے کے باوجود اُس کے پاس حقیقتاً کوئی اختیار نہیں۔ کراچی کے باخبر حضرات یہ دلچسپ دعویٰ کرتے ہیں کہ کراچی میں امان و امان کی کنجی رینجرز اور پولیس کے پاس ہے اور ان دونوں کی کنجی گورنر کی جیب میں ہے۔ اس دعوے میں کتنی سچائی ہے، یہ صرف وزیر اعلیٰ ہی بتا سکتے ہیں جن کے بارے میں سابق صوبائی وزیر داخلہ ذوالفقار مرزا کہہ چکے ہیں کہ بے اختیار ہیں۔
یہ دعویٰ شاید غلط ہو لیکن اس میں تو کوئی شک نہیں کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے شہر میں خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ یہ پتہ چلانا بہرحال میرا کام نہیں کہ انھیں یہ کردار کس نے دیا ہے۔ پیپلزپارٹی نے اس صوبے میں وسیع تر قومی مصالحت کی جو پالیسی اختیار کی تھی، وہ اس کے پائوں کی زنجیر بن گئی ہے، وہ بدامنی پیدا کرنے والوں کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کا فیصلہ کر لے تو اسے یہ قومی مصالحت کی پالیسی ترک کرنا ہو گی کیونکہ اس کے اتحادی بھی زد میں آئیں گے اور کراچی میں صرف اتحادی گروہ ہی نہیں ہیں، ایسے عناصر بھی ہیں جن کو غیر سیاسی مگر بااثر قوتوں کی سرپرستی حاصل ہے۔ بہت سے قانون شکن گروہ اتنی طاقت پکڑ چکے ہیں کہ وہ اپنی جگہ خود بااثر قوت بن گئے ہیں۔ جو پولیس اور دوسرے اداروں کے افسروں کو انگلیوں پر نچاتے ہیں۔ صورتحال ایسی ہے کہ ذوالفقار مرزا کو وزیر اعلیٰ بنا دیں تو وہ بھی دو ماہ بعد یا تو عہدہ چھوڑ کر بھاگ جائیں گے یا یہ اعلان کر دیں گے کہ سابق وزیر اعلیٰ کی پالیسی جاری رہے گی۔ انتخابات سے دو تین ماہ پہلے ڈرامائی صورتحال پیدا ہو رہی ہے۔ بہرحال، اسے محض اتفاق ہی سمجھیے!
بلوچستان اسمبلی نے متفقہ طور پر وزیر اعلیٰ رئیسانی کے حق میں اعتماد کی قرارداد منظور کر لی ہے۔ 65 کے ایوان میں 20 ارکان غیر حاضر تھے۔ بہرحال متفقہ نہیں تو اسے اکثریتی تو کہہ سکتے ہیں۔ لیکن اسمبلی کا اجلاس رئیسانی کے حامی قائم مقام اسپیکر نے بلایا تھا اور دراصل یہ وہی اجلاس تھا جو چند روز پہلے رئیسانی نے بلانے کی کوشش کی تھی لیکن اسپیکر نے ناکام بنا دی تھی اور کہا تھا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد وزیر اعلیٰ کی آئینی حیثیت متنازع ہے۔ اس وقت وزیر اعلیٰ اور حکمران پیپلز پارٹی کے علاوہ جے یو آئی نے جو بلوچستان کابینہ میں خاصی معقول نمائندگی رکھتی ہے، یہ موقف اختیار کیا تھا کہ سپریم کورٹ نے وہ فیصلہ سنایا ہے جو اس سے مانگا ہی نہیں گیا تھا۔ سپریم کورٹ نے بلوچستان بدامنی کیس میں صوبائی حکومت کو ناکام قرار دے کر یہ کہا تھا کہ یہ حکومت حکمرانی کے حق سے محروم ہو گئی ہے۔
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا تھا کہ بلوچستان میں بدامنی اور لوگوں کو لاپتہ کرنے کا تعلق سیکیورٹی اداروں سے ہے لیکن عدالت نے فیصلہ حکومت کے خلاف دے دیا۔ پیپلز پارٹی کا محتاط تبصرہ یہ تھا کہ حکومت کو ہٹانے کا اختیار سپریم کورٹ کے پاس نہیں ہے۔ اس وقت سے بلوچستان حکومت ایک قسم کی معلق حالت میں تھی اور شاید اب بھی ہے اس لیے کہ عدالتی فیصلے کی رو سے پوزیشن یہ بنتی ہے کہ حق حکمرانی سے محروم وزیر اعلیٰ اعتماد کا ووٹ لے کر بھی عدالتی لحاظ سے حق حکمرانی سے محروم ہی رہے گا ۔ فی الحال انتظار کرتے ہیں کہ عدالت کا آئندہ ایکشن کیا ہو گا۔ ممکن ہے، عدالت کی طرف سے مزید کوئی کارروائی اس لیے نہ ہو کہ انھوں نے جو فیصلہ دینا تھا دے دیا، اب گیند حکومت کی کورٹ میں ہے لیکن ایکشن ہونے کا امکان بھی موجود ہے اور اسکی دلیل چیف جسٹس کے ایک دن پہلے دیے گئے یہ ریمارکس ہیں کہ انتظامیہ اور مقنّنہ دونوں عدالتی احکامات ماننے کی پابند ہیں۔
چنانچہ عدلیہ پوچھ سکتی ہے کہ بلوچستان کے بارے میں اس کے فیصلے پر عمل کیوں نہیں ہوا۔ وہ چاہے تو عملدرآمد نہ ہونے پر الگ سے ایکشن بھی لے سکتی ہے۔ ویسے بھی عدلیہ پہلے سے زیادہ طاقتور ہے، میڈیا میں اسکی حمایت کم نہیں ہوئی اور انتخابات کا زمانہ قریب آنے کی وجہ سے حکومت بھی زیادہ ''سرکشی'' کا مظاہرہ کرنے سے گریز ہی بہتر سمجھے گی۔
بہرحال عام آدمی دو باتیں جاننا چاہتا ہے۔ پہلی یہ کہ بلوچستان میں امن و امان کے حوالے سے ناکامی کے سرٹیفکیٹ کا اصل مستحق کون ہے۔ صوبے میں سیکیورٹی اداروں کا کنٹرول اتنا زیادہ ہے کہ صوبائی حکومت کی نوعیت محض علامتی بن کر رہ گئی ہے اور اس کا دوسرا سوال یہ ہے کہ ایسے وقت میں جب اسمبلیوں اور حکومتوں کی عمر دو تین ماہ رہ گئی ہے۔ صوبائی حکومت کو برطرف کرنے سے کیا فائدہ حاصل ہو گا۔ حکومت برطرف کی گئی تو نیا وزیر اعلیٰ بھی یہی اتحاد بنائے گا جو اس وقت برسر اقتدار ہے اور اس طرح صرف وزیر اعلیٰ تبدیل ہو گا۔ بلوچستان میں امن و امان کی صورتحال نئے وزیر اعلیٰ کے انتخاب کے بعد بھی اسی طرح سے رہے گی کیونکہ رئیسانی کی طرح وہ بھی علامتی ہوگا۔ اصل گورنر، اصل وزیر اعلیٰ اور اصل حکومت تو کسی اور کے پاس ہے۔
یہ عدالت بھی جانتی ہے اور لوگ بھی۔ دوسرا صوبہ سندھ ہے جہاں بدامنی کے بھوت کی نئی انگڑائی نے ایک بار پھر کہرام اور ہلچل پیدا کر دی ہے۔ یہ سیاسی تاریخ کا ایک منفرد واقعہ ہے کہ صوبے پر حکمران تین میں سے دو جماعتیں فوج بھیجنے، فوجی آپریشن کرنے اور ایمرجنسی لگانے کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ بڑی حکمران جماعت پیپلز پارٹی کی بے بسی کا یہ عالم ہے کہ وہ کبھی متحارب دھڑوں سے رابطے کرتی ہے، کبھی امن کی اپیلیں جاری کرتی ہے اور کبھی ایکشن کرنے کے اعلان کرتی ہے لیکن صوبے کی اکثریتی جماعت ہونے کے باوجود اُس کے پاس حقیقتاً کوئی اختیار نہیں۔ کراچی کے باخبر حضرات یہ دلچسپ دعویٰ کرتے ہیں کہ کراچی میں امان و امان کی کنجی رینجرز اور پولیس کے پاس ہے اور ان دونوں کی کنجی گورنر کی جیب میں ہے۔ اس دعوے میں کتنی سچائی ہے، یہ صرف وزیر اعلیٰ ہی بتا سکتے ہیں جن کے بارے میں سابق صوبائی وزیر داخلہ ذوالفقار مرزا کہہ چکے ہیں کہ بے اختیار ہیں۔
یہ دعویٰ شاید غلط ہو لیکن اس میں تو کوئی شک نہیں کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے شہر میں خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ یہ پتہ چلانا بہرحال میرا کام نہیں کہ انھیں یہ کردار کس نے دیا ہے۔ پیپلزپارٹی نے اس صوبے میں وسیع تر قومی مصالحت کی جو پالیسی اختیار کی تھی، وہ اس کے پائوں کی زنجیر بن گئی ہے، وہ بدامنی پیدا کرنے والوں کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کا فیصلہ کر لے تو اسے یہ قومی مصالحت کی پالیسی ترک کرنا ہو گی کیونکہ اس کے اتحادی بھی زد میں آئیں گے اور کراچی میں صرف اتحادی گروہ ہی نہیں ہیں، ایسے عناصر بھی ہیں جن کو غیر سیاسی مگر بااثر قوتوں کی سرپرستی حاصل ہے۔ بہت سے قانون شکن گروہ اتنی طاقت پکڑ چکے ہیں کہ وہ اپنی جگہ خود بااثر قوت بن گئے ہیں۔ جو پولیس اور دوسرے اداروں کے افسروں کو انگلیوں پر نچاتے ہیں۔ صورتحال ایسی ہے کہ ذوالفقار مرزا کو وزیر اعلیٰ بنا دیں تو وہ بھی دو ماہ بعد یا تو عہدہ چھوڑ کر بھاگ جائیں گے یا یہ اعلان کر دیں گے کہ سابق وزیر اعلیٰ کی پالیسی جاری رہے گی۔ انتخابات سے دو تین ماہ پہلے ڈرامائی صورتحال پیدا ہو رہی ہے۔ بہرحال، اسے محض اتفاق ہی سمجھیے!