عوامی طاقت کا غلط استعمال
کسی بھی بدتر نظام کو ختم کرنے اور اس کی جگہ ایک بہتر نظام لانے کے لیے نہ صرف شدید جدوجہد کرنی پڑتی ہے
کسی بھی بدتر نظام کو ختم کرنے اور اس کی جگہ ایک بہتر نظام لانے کے لیے نہ صرف شدید جدوجہد کرنی پڑتی ہے بلکہ بڑی قربانیاں بھی دینی پڑتی ہیں۔ پاکستان کی 69 سالہ تاریخ میں کئی بار جدوجہد بھی کی گئی اور قربانیاں بھی دی گئیں لیکن عوام پر مسلط نظام جوں کا توں برقرار ہے، برقرار ہی نہیں ہے بلکہ مزید جڑیں پکڑتا نظر آرہا ہے۔ اس حوالے سے 1977 کی تحریک کو پاکستان کی سب سے بڑی تحریک کہا جاتا ہے لیکن تاریخ کی اس سب سے بڑی تحریک کا انجام اس قدر شرمناک کیوں ہوا؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس پر انتہائی سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے دوسری بڑی تحریک 2014ء کی ڈی چوک کی تحریک تھی لیکن اس کا انجام بھی 1977ء کی تحریک کے انجام جیسا ہی ہوا۔ ایسا کیوں؟ یہ سوال فطری بھی ہیں، اہم اور ضروری بھی ہیں۔
ان دونوں بڑی تحریکوں کے مقاصد پر نظر ڈالیں تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ان دونوں تحریکوں میں کسی ایک تحریک کا مقصد بھی بدتر نظام کو تبدیل کرکے اس کی جگہ کوئی بہتر نظام لانا نہیں تھا، 1977 کی تحریک انتخابی بدعنوانی کے خلاف اور جمہوریت کو مضبوط بنانے کی تحریک تھی، اس میں پوری تحریک کے دوران ایک بار بھی نو ستاروں میں سے کسی تارے نے یہ نہیں کہاکہ یہ تحریک ایک بدتر نظام کی جگہ ایک بہتر نظام لانے کی تحریک ہے، بلکہ اس تحریک کا واحد اور آخری مطالبہ حکومت کی تبدیلی بن گیا اور وہ بھی اس حد تک تھا کہ بھٹو کو ہٹاکر ایک آمر کو ملک پر مسلط کردیا گیا اور اس تحریک کی سزا عوام ایک آمر کی بدترین آمریت کی شکل میں 11 سال تک بھگتتے رہے، اس کے بعد یعنی 2014 کی تحریک بھی نظام کی تبدیلی کے مطالبے پر نہیں بلکہ منتشر نعروں پر منتشر ذہنوں کے ساتھ چلائی جانے والی تحریک تھی، جو آخرکار ''گو نواز گو'' کے بے مقصد نعرے پر آکر رک گئی اور بے گناہ عوام اس بے مقصد تحریک کا ایندھن بن گئے۔ ان تحریکوں کی ناکامی کا سب سے بڑا اثر یہ ہوا کہ عوام بددل ہوگئے۔
آج ہم ان ناکام اور پرفریب تحریکوں کا ذکر اس لیے کررہے ہیں کہ ایک بار پھر پرانے کردار پھر تحریک کی باتیں کررہے ہیں اور فرمارہے ہیں کہ اب تحریک کا میدان اسلام آباد کا ڈی چوک نہیں بلکہ لاہور کا رائے ونڈ ہوگا۔ اسلام آباد میں حکمرانوں کا سرکاری گھر ہے، رائے ونڈ میں ذاتی محل ہے اور مسئلہ کسی بدتر نظام کی جگہ کوئی بہتر نظام لانے کا نہیں ہے بلکہ پانامہ لیکس اسکینڈل میں حکمرانوں کی اولاد کا نام آنے کا ہے۔
فرض کرلیں اس اسکینڈل میں موجودہ مقتدر پارٹی کو حکومت سے دست بردار ہونا پڑتا ہے تو اس ملک کے عوام کو اس تبدیلی سے کیا فائدہ پہنچے گا؟ پانامہ لیکس میں ایک نہیں ہزاروں دیگر افراد ملوث ہیں۔ کچھ اپنے عہدوں سے ازخود مستعفی بھی ہورہے ہیں۔ پھر ہماری سیاسی دیانت داری اور اصولوں کی سیاست کی سربلندی کا عالم یہ ہے کہ ملک کی دوسری بڑی حزب اختلاف پیپلزپارٹی کی قیادت پانامہ لیکس کے مسئلے پر پراسرار چپ کا روزہ رکھے ہوئے ہے اور ہماری مذہبی بارات کے دلہا فرما رہے ہیں کہ پانامہ لیکس کے مسئلے پر ہمحکومت کے ساتھ کھڑے ہیں۔ اس اسکینڈل سے حکومت کا بال بھی بیکا نہیں ہوگا۔
اس حوالے سے اصل مسئلہ یہ ہے کہ کیا اس ملک کے کسی سیاسی یا مذہبی لیڈر کی زبان پر اور ان کی پارٹیوں کے منشور میں ملک پر 69 سال سے مسلط بدترین نظام کی جگہ ایک بہتر اور عوام دوست نظام لانے کا ذکر ہے؟ بے چارے عوام جو اس نظام سے متنفر ہیں اور حکمرانوں کو اپنے مسائل کا ذمے دار سمجھتے ہیں، اس قسم کی تفریحی تحریکوں میں جن کا واحد مقصد اقتدار کا حصول ہے شریک ہوکر ماضی کی طرح قربانیاں دیتے رہیںگے اور موقع پرست طاقتیں اپنا الو سیدھا کرتی رہیں گے۔ اگر اسلام آباد یا رائے ونڈ پر قبضہ کرنے یا دھرنا دینے سے عوام کے 69 سالہ مسائل حل ہوسکتے ہیں تو دھرنا دیجیے لیکن کیا ایسا ممکن نہیں کہ دودھ کے جلے عوام چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پینے کی سمجھ داری کا مظاہرہ کرنے کی طرف مائل ہوجائیں گے۔
کسی بھی فرسودہ اور عوام دشمن نظام کو تبدیل کرنا ہو تو پہلے اس کے زہریلے اثرات کو سمجھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس بدترین نظام کی تبدیلی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ اہل سیاست کی مفاد پرستی اور موقع پرستی ہے، ان کی توجہ کا مرکز صرف اور صرف اقتدار ہوتا ہے، اگر سیاست دان عوام سے مخلص ہوتے تو ملک کے اہل دانش سے یہ معلوم کرتے کہ ہمارے اہم قومی مسائل کیا ہیں اور ان میں ترجیحات کی کیا صورت ہے، ان قومی مسائل کو سمجھنے کے بعد ان کے حل کے لیے کس طرح جد وجہد کی جانی چاہیے؟
قومی مسائل کی فہرست بہت لمبی ہے، اس فہرست کو مختصر کرنے کے لیے Status quo کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ اگر عوام کو Status quo کی حقیقت سے آگاہ کیا جائے تو وہ اسٹیٹس کو توڑنے کے لیے جی جان سے تیار ہوسکتے ہیں، لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ 2014 میں اسٹیٹس کو توڑنے کی بات ذاتی اور جماعتی مفادات کے لیے کی گئی۔ ایسا کسی سادگی میں نہیں کیا گیا بلکہ پوری جانکاری کے ساتھ کیا گیا۔ اس منتشر خیالی اور اقتدار کی خواہش کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایک موثر تحریک ٹائیں ٹائیں فش ہوکر رہ گئی۔
ہمارے اقتدار کے بھوکے سیاست دانوں کی بدقسمتی یہ ہے کہ وہ اگر خلوص نیت سے اس عوام دشمن نظام کو ختم کرنے کے لیے پرعزم ہوں تو ملک کے 20 کروڑ عوام ان کی پشت پر کھڑے نظر آئیںگے، لیکن یہ ایسا کام اس لیے نہیں کرسکتے کہ یہ حضرات اسی عوام دشمن نظام کا حصہ ہیں۔ اس بدترین صورت حال کا تقاضا یہ ہے کہ کم از کم میڈیا میں موجود مخلص اور عوام دوست لوگ تسلسل کے ساتھ اس بدبخت نظام کی تباہ کاریوں اور اس کے عناصر ترکیبی سے نہ صرف عوام کو آگاہ کریں بلکہ اس نظام کے خاتمے کے لیے ان میں ایک ذہنی انقلاب اور ترغیب بھی پیدا کریں۔
اگر میڈیا بھی صرف موقع پرست اور اقتدار کے بھوکے سیاست دانوں کی بے مقصد اور پرفریب اور ادھوری تحریکوں کی کوریج کرتا رہا تو پھر اس ملک کے عوام کے مستقبل کا اﷲ ہی حافظ ہے۔ میڈیا کم از کم اتنا تو کرسکتا ہے کہ قلم فروشوں کی جگہ قلم کی حرمت سے آشنا قلم کاروں کی پوری بات، پورے کالم تو عوام تک پہنچنے دے۔