مکلی میرے من میں

سندھ کے متعدد شہروں میں رہنے کا اعزاز حاصل ہوا۔ کچھ شہر ایسے ہیں کہ جن کا تذکرہ آپ سے کرنا چاہوں گی۔


Shabnam Gul April 21, 2016
[email protected]

سندھ کے متعدد شہروں میں رہنے کا اعزاز حاصل ہوا۔ کچھ شہر ایسے ہیں کہ جن کا تذکرہ آپ سے کرنا چاہوں گی۔ سندھ کے اکثر علاقوں میں تاریخی نشانیاں و آثار ملتے ہیں۔ یہ بھولی بسری کہانیاں، ماضی کی شاندار روایتوں کی امین ہیں۔ جا بجا مزارات، مندر اور مقبرے اس خطے کے مکینوں کے مزاج، عقیدے اور رجحانات کی بھرپور عکاسی کرتے ہیں۔

سندھ کے ہر خطے کا اپنا منفرد لب و لہجہ، انداز زندگی، ثقافت اور رسم و رواج ہیں۔ یہ رنگا رنگ تہذیب محبت اور مہمان نوازی کے رنگوں سے سجی ہوئی ہے۔

کہیں یہ رنگ گہرے تو کہیں مدھم و پراسرار دکھائی دیتے ہیں۔ خاص طور پر مکلی میں گزرے ہوئے زندگی کے کچھ سال اہمیت کے حامل ہیں۔ قدیم زمانے میں ٹھٹھہ دریائے سندھ کے ڈیلٹائی علاقے کے کنارے ایک بندرگاہ ہوا کرتا تھا۔ یہ شہر صدیوں سے فن و فکر کی سرزمین کہلاتا رہا ہے۔ مختلف ادوار میں یہ شہر سندھ کا دارالحکومت بھی تھا۔ یہ تاریخی شہر کراچی سے 98 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔

ٹھٹھہ شہر کے بننے اور اجڑنے کے سفر میں کئی تہذیبوں کا ذکر ملتا ہے۔ اس شہر پر سمہ، سومرا، کلہوڑہ اور ڈاہر جیسے طاقتور حکمرانوں نے حکمرانی کی۔ جن کے دور حکومت میں اس شہر کی علمی، ادبی و فنی سرگرمیاں پروان چڑھتی رہیں۔ لہٰذا یہ خطہ علم و ادب کا گہوارہ رہا ہے۔ تاریخی شواہد کے مطابق سمہ خاندان نے اس شہر پر طویل عرصے تک حکمرانی کی۔ یہ سمہ خاندان کے حاکم جام نظام الدین عرف نند تھے جس نے 1475ء میں ٹھٹھہ شہرکی بنیاد ڈالی۔

جب ہم اس شہر سے دور تھے تو یہ بے اختیار اپنی طرف کھینچتا۔ وہاں رہ کے اندازہ ہوا کہ اس کی خاموشی اور پراسراریت میں کس قدر کشش ہے۔ میرے والد اس زمانے میں مکلی اسپتال میں آر ایم او کی حیثیت سے اپنے فرائض سرانجام دے رہے تھے۔ یہ مکلی کے ماحول کا تعمیری اثر تھا کہ میرا قلم نوعمری سے ہی بے اختیار ان کہی داستانیں قلم بند کرنے لگا۔ خطوں کا ہمارے مزاج پر گہرا اثر ہوتا ہے۔ فکری ارتقا کا یہ حسین سفر تھا۔

گھر کے قریب ہی مکلی کا وسیع و عریض قبرستان واقع تھا۔ جو نو کلومیٹر کے رقبے پر محیط ہے۔ جہاں دس لاکھ سے زائد قبریں خاموشی کی زبان میں ماضی کی کہانیاں دہراتی رہتیں۔ ان قبروں میں علما، شعرا، شہدا، اہل دانش اور حاکم ابدی نیند سو رہے ہیں۔ جو سمہ، ارغون، سومرہ، کلہوڑہ، ترخان اور مغل خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔

زندہ اور متحرک دنیا کی اپنی منفرد توانائی ہے۔ مگر قبرستان کی بھی غیر محسوس توانائی ہوتی ہے اگر اس میں خوبصورت ذہن و محبت سے سرشار دل مدفن ہوں۔ یہ توانائی بار بار آپ کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔ یہ شہر خموشاں، مختلف مناظر کے پس منظر میں حسین دکھائی دیتا ہے۔ سورج غروب ہونے کا منظر ہو یا چاندنی راتیں، سردی کی ٹھنڈی دھوپ کا لمس ہو یا خزاں کی خفگی بھری خزائیں یہ شہر اپنی قدامت میں بے مثال ہے۔ یہ آپ کو جینے کی امنگ اور زندگی کی قدر سکھاتا ہے۔ زندگی کی بے ثباتی کا احساس الگ دھرنا مار کے دل و دماغ میں رچ بس جاتا ہے۔

پہلا دور مغلیہ دور حکومت تھا جو سولہویں سے اٹھارویں صدی تک محیط ہے۔ اسی دور میں بنی ہوئی قبریں اور مقبرے ہیں۔ عیسیٰ خان ترخان، جان بابا، جیوان شریف خان، نواب امیر خان، جانی بیگ ترخان، باقی بیگ ازبک اور غازی بیگ ترخان اور ان کے اہل خانہ دفن ہیں۔

شمال کی طرف شاندار مقبرہ دکھائی دیتا ہے جو جام نظام الدین کا ہے۔ جس کا تعلق سمہ دور سے تھا۔ اس مقبرے کا کام اس حکمراں کی زیر نگرانی شروع ہوا مگر ان کی موت کے ایک صدی بعد جا کے مکمل ہوا۔ 1508ء میں یہ مقبرہ پایہ تکمیل تک پہنچا۔

مکلی کے پہاڑ کے نشیبی علاقے میں ٹھٹھہ شہر قائم ہے۔ کہا جاتا ہے کہ مکلی ایک نیک خصلت خاتون کا نام تھا۔ مکلی سے صوفی شاعر سرمد شہید کے عشق کی انوکھی داستان وابستہ ہے۔ اس صوفی شاعر نے ابتدائی زندگی ایران میں بسر کی۔ جس زمانے میں اس نے سندھ کا رخ کیا تو اس وقت مغل حکمران اس خطے پر قابض تھے۔ سرمد کے لیے کہا جاتا ہے کہ وہ ایک یہودی تھا۔ اس نے کافی کتابیں فارسی میں ترجمہ کی تھیں اور ایران کے صوفیاء سے فلسفے کا علم بھی حاصل کیا۔ تاجر کی حیثیت سے وہ ہیرے جواہرات اور فن پاروں کا کاروبار کرتا تھا۔ تاریخ نویس ہینری جیارج کے مطابق ''سرمد اس کا شاعرانہ نام تھا جب کہ وہ آرمینیائی تاجر تھا۔ جو شاہجہان کے دور حکومت میں ہندوستان آیا تھا۔ بعد میں اس سے ٹھٹھہ سندھ کا رخ کیا اور ایک ہندو لڑکے ابھیچند کے عشق میں مبتلا ہو گیا۔''

ٹھٹھہ شہر میں منعقد ہونے والی شاندار محفل موسیقی میں، اس نے ابھیچند کو فن کا مظاہرہ کرتے دیکھا۔ سرمد پہلی نظر میں اس کی محبت کا اسیر ہو گیا۔ اس کے بعد وہ روز اس کا گانا سننے جایا کرتا۔ ابھیچند کی خوبصورت آواز دل سے ہوتی ہوئی اس کی روح کی گہرائیوں میں اتر جاتی۔ وہ یہ تک بھول گیا کہ وہ پانی کے جس جہاز سے آیا وہ واپس بھی جا چکا۔ ابھیچند بھی سرمد کی محبت کا اسیر ہو چکا تھا۔

لوگوں نے ان کے متعلق باتیں بنانا شروع کیں۔ اس وقت کے گورنر اور ابھیچند کے والدین نے دونوں کو علیحدہ کرنے کی ہر ممکن کوشش کر ڈالی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ دونوں نے لاہور کا رخ کیا۔ کچھ مورخ یہ بھی کہتے ہیں کہ کچھ عرصہ ہندوستان میں گزار کے، آخر میں لاہور میں پہنچے تھے۔ سرمد شاعری کرتا اور ابھیچند ان الفاظ کو آواز کا ہنر عطا کرتا۔ اس کی گائیکی پر اثر تھی۔

سرمد کی شاعری مجاز سے عشق حقیقی کی طرف سفر کرتی رہی۔ بے خودی میں وہ کہتا ''کون طالب ہے اور کون مطلوب؟ بت کون ہے اور بت گر کس طرف؟ کعبے کا محبوب کون ہے اور کون ہے مندر کا معبود اور کس نے ہے یہ مسجد بنائی۔ تم رنگین باغ میں آ کر دیکھو کہ تمام رنگ کس قدر متحد ہیں۔ اب بولو کہ کون عاشق ہے اور کون محبوب۔ پھول و کانٹے میں کون بستا ہے؟''

داراشکوہ سے سرمد کی دوستی تھی۔ اس کے زوال کے بعد وہ بہت دل شکستہ ہوا۔ عشق کی کٹھن راہوں پر بھٹکتا وہ ہوش و حواس کھو بیٹھا، اس نے عشق میں دنیا تیاگ دی۔ سماجی زندگی کے روابط توڑ ڈالے۔ عیش و عشرت کی زندگی کو خیرباد کہہ دیا۔ اپنا پیرہن تک چاک کر ڈالا۔ داراشکوہ کے زوال کے وقت وہ دلی میں تھا۔ ایک دن برہنہ، سر میں مٹی ڈالے وہ اورنگزیب کے دربار میں آہ و فغاں کرتا ہوا پہنچا۔ حاکم وقت پہلے ہی اس سے نالاں تھا۔ اسے یہ حرکت ناگوار گزری۔ لہٰذا اسے شہید کر دیا گیا۔ سندھ کا اسیر یہ صوفی شاعر دہلی میں نظام الدین اولیا کے مزار کے قریب مدفون ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں