حکومت کو غیر مستحکم کرنے کی ناکام کوشش

پاناما لیکس کے حوالے سے وزیراعظم اور ان کے بھائی شہبازشریف کے نام پر کوئی کمپنی ظاہر نہیں کی گئی


[email protected]

PESHAWAR: لیجیے! اپوزیشن نے پاناما لیکس کی آڑ میں حکومت کے خلاف چائے کی پیالی میں جو طوفان اٹھایا تھا اب وہ آہستہ آہستہ جھاگ کی طرح بیٹھتا جا رہا ہے۔ اسلام آباد میں ایک اور دھرنے اور رائیونڈ کا گھیراؤ کرنے کی دھمکی دینے والے عمران خان خود ملک سے باہر چلے گئے تھے اور واپس بھی آ گئے جب کہ وہ سیاسی طور پر دیگر اپوزیشن کی جماعتوں سے بھی کسی قسم کا تعاون حاصل کرنے میں ناکام ہو چکے ہیں۔

اس طرح انھوں نے حکومت کے خلاف پاناما لیکس کو جواز بنا کر حکومت کو غیرجمہوری طریقے سے ہٹانے کی کوششیں شروع کی تھیں، اب ان کی یہ سیاسی چال بھی ناکام دکھائی دے رہی ہے۔ سب سے پہلے تو انھوں نے وزیراعظم محمد نواز شریف کی بیماری اور علاج کے لیے روانگی کو مشکوک بنانے کی کوشش کی اور طرح طرح کی افواہیں پھیلائی گئیں کہ بس اب نواز حکومت فارغ ہونے والی ہے، عبوری حکومت کے لیے فلاں فلاں کے ناموں پر غور ہو رہا ہے یا یہ کہ وزیراعظم لندن علاج کی غرض سے نہیں گئے بلکہ وہ سابق صدر آصف زرداری سے سیاسی حمایت کے حصول کے لیے ملاقات کرنے گئے ہیں۔ دوسری جانب پاکستان پیپلزپارٹی نے پاناما لیکس کے معاملے پر واضح اور دو ٹوک موقف اختیار کیا ہے۔

بلاول بھٹو زرداری نے پیپلز پارٹی کی کور کمیٹی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاناما لیکس کے حوالے سے الزامات ثابت ہونے تک وزیراعظم کے استعفیٰ کا مطالبہ نہیں کریں گے اور نہ ہی کسی دھرنے میں شرکت کریں گے۔ اس سے قبل پیپلزپارٹی کے رہنما اور سینیٹر رحمٰن ملک بھی واضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ پیپلز پارٹی وزیراعظم نوازشریف سے استعفیٰ کے فیصلے سے دستبردار ہو چکی ہے۔ اس طرح پاکستان تحریک انصاف سیاسی میدان میں تنہا دکھائی دیتی ہے جب کہ حکومت ایک بار پھر تحمل، برداشت، سیاسی دانش مندی کا مظاہرہ کر کے سرخرو ہے۔

قارئین! آپ کو یاد ہو گا، پاناما لیکس کے حوالے سے وزیراعظم اور ان کے بھائی شہبازشریف کے نام پر کوئی کمپنی ظاہر نہیں کی گئی۔ البتہ شریف خاندان سمیت تقریباً 250 پاکستانی افراد کی آف شور کمپنیاں ظاہر کی گئی ہیں۔ اس لیے وزیراعظم نے قوم سے اپنے خطاب میں واضح موقف اختیار کیا ہے اور وزیرداخلہ چوہدری نثارعلی خان نے اپنی پریس کانفرنس میں کھل کر کہا ہے کہ پاناما لیکس کا معاملہ وزیراعظم کا نہیں بلکہ ان کے بیٹوں کا ہے، لہٰذا وہی اس معاملے کا جواب دیں گے لیکن مخالفین گھٹیا سیاست پر اتر آئے اور وہ وزیراعظم کو اس معاملے میں نہ صرف زبردستی گھسیٹ رہے ہیں بلکہ حکومت کو بھی غیر مستحکم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

قانونی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو قوانین صرف شریف خاندان کے لیے نہیں ہیں بلکہ عمران خان اور پیپلزپارٹی کے رہنماؤں سمیت جن جن کی آف شور کمپنیاں ہیں، سب کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے، لیکن اپوزیشن کے بعض حلقے یہ چاہتے ہیں وہ اپنی آف شور کمپنیوں کے حوالے خاموشی اختیار کر لیں اور شریف خاندان پر کیچڑ اچھالیں اور وہ بھی اس مقصد کے لیے کہ حکومت کو کسی طرح غیر مستحکم کیا جائے۔

عمران خان حکومت کو غیرمستحکم کرنے کے لیے ہر طرح کا غیرجمہوری ہتھکنڈا استعمال کرنے سے گریز نہیں کرتے، اگرچہ وہ اپنے اس مقصد میں مسلسل ناکامی کا سامنا کرتے رہے ہیں، عوام نے موجودہ حکومت کو پانچ برس کے لیے منتخب کیا ہے لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عمران خان سے صبر نہیں ہو رہا۔ وہ حکومت کو غیرمستحکم کر کے اقتدار کے مزے لوٹنے کے خواب دیکھتے رہتے ہیں۔

میں قارئین کو یہ یاد دہانی بھی کرا دوں جب وزیراعظم لندن کے لیے روانہ ہوئے تو یہ افواہ بھی پھیلائی گئی کہ اب وہ وطن واپس نہیں آئیں گے یا کئی ماہ تک لندن میں ہی قیام کریں گے، وزیراعظم محمد نوازشریف نے بھی لندن پہنچ کر یہ واضح کر دیا کہ وہ علاج کے لیے لندن آئے ہیں۔ معاملات ٹھیک کرنے نہیں آئے ہیں، اگر معاملات ٹھیک کرنے ہوتے تو وہ پاناما جاتے۔ جب کہ سابق صدر آصف زرداری سے ان کے تعلقات ہمیشہ ٹھیک رہے ہیں۔ انھوں نے واضح کیا کہ وطن واپس پہنچ کر وہ ملک کی ترقی و خوشحالی کے لیے پھر سے بھرپور کام کریں گے وہ وژنری لیڈر ہیں اور پاکستان کو ترقی و خوشحالی کی جانب گامزن کرنا چاہتے ہیں۔ اس سلسلے میں ابھی انھیں بہت کچھ کرنا ہے۔

اس وقت پاکستان بدترین سیاسی و معاشی حالات سے بہتری کی جانب آیا ہے لیکن حکومت کو احساس ہے کہ ابھی ترقی و خوشحالی کا سفر طویل ہے۔ بیماری کے باوجود محمد نواز شریف کا یہ عزم قابل ستائش ہے اور وزیر اعظم نے یہ بھی کہہ دیا کہ آگے آگے دیکھ ہوتا ہے کیا! پاکستان کو ایشین ٹائیگر بنانا ان کا دیرینہ خواب ہے۔ ان کا موجودہ دور حکومت تاریخی دورِ حکومت ہے۔ انھوں نے اپنی قائدانہ صلاحیتوں، تدبر اور سیاسی حکمت عملی سے ملک کی معاشی حالت بدل کر رکھ دی ہے، غالباً مخالفین سے یہی بات برداشت نہیں ہو رہی۔ وہ کوئی نہ کوئی شوشہ چھوڑ کر حکومت کو اپنی مدت پوری کرنے سے پہلے فارغ کرنا چاہتے ہیں۔

بلا شبہ پاناما لیکس نے دنیا بھر میں ہلچل مچا رکھی ہے کئی ملکوں کے وزرائے اعظم اور وزرا مستعفی ہو چکے ہیں۔ عالمی سیاست میں ایسی صورتحال کبھی دیکھنے میں نہیں آئی کہ بیٹھے بٹھائے اقتدار کے تخت لرزنے لگے ہوں مگر پاکستان کے وزیراعظم کا معاملہ ذرا مختلف ہے ان کے نام پر کوئی آف شور کمپنی نہیں ہے۔ اسی لیے انھوں نے انکوائری کمیشن بنانے کا اعلان کیا تھا تا کہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ وزیراعظم نے کمیشن کا سربراہ سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج کو بنانے کا اعلان کیا تھا مگر اپوزیشن کا مطالبہ تھا کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس یا حاضر سروس جج سے تحقیقات کرائی جائے جو مسلم لیگ ن کی جانب سے مسترد کر دیا گیا ہے۔

اب مسلم لیگ ن نے اس کمیشن کے ٹرمز آف ریفرنس تیار کر لیے ہیں جس کے مطابق کمیشن کا سربراہ سپریم کورٹ کا ریٹائرڈ جج ہی ہو گا اور اب ریٹائرڈ جج سرمد جلال عثمانی کی سربراہی میں کمیشن کو حتمی کر دیا گیا ہے۔ یہ کمیشن پاناما لیکس میں لگنے والے الزامات کا احاطہ کرے گا۔ کمیشن پاناما لیکس میں نامزد کیے جانے والے تمام پاکستان شہریوں خصوصاً غیر ملکی شہریت رکھنے والے پاکستانیوں سے بھی تحقیقات کرے گا۔ کمیشن ملکی و غیرملکی ماہرین کی خدمات بھی حاصل کرے گا۔ تمام حکومتی ادارے کمیشن سے تعاون کرنے کے پابند ہوں گے۔

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ وزیر نواز شریف کی لندن روانگی کے بعد وزیراعظم ہاؤس میں مسلم لیگ ن کے رہنماؤں اور وفاق وزراء کا اجلاس منعقد ہوا جس کی صورت وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے کی۔ اس اجلاس میں پاناما لیکس کے حوالے سے اب تک کی صورتحال پر غور کیا گیا کہ اپوزیشن کی جانب سے لگائے جانے والے الزامات مذموم مقاصد کے حصول کے لیے ہیں، ان الزامات کا ہر فورم پر جواب دیا جائے گا۔ کالم کی اختتامی سطور لکھتے ہوئے یہ اطلاع ملی ہے کہ وزیراعظم نوازشریف وطن واپس پہنچ گئے ہیں اور ساری افواہ ساز فیکٹریوں کی پھیلائی ہوئی باتیں جھوٹ ثابت ہوئی ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں