مجدد الف ثانی سرسید اور اقبال برصغیر میں جداگانہ مسلمان قومیت کے معمار تھے

اقبال کا خطبۂ الٰہ آباد پڑھتا ہوں تو مجھے بے اختیار سرسید احمد خان یاد آتے ہیں


فتح محمد ملک April 21, 2016
اقبال کا خطبۂ الٰہ آباد پڑھتا ہوں تو مجھے بے اختیار سرسید احمد خان یاد آتے ہیں ۔ فوٹو : فائل

میں جب بھی اقبال کے خطبہ ٔ الہ آباد کا خیال کرتا ہوں' مجھے اقبال کے تشکیلی دور کی ایک نظم ''سید کی لوح تربت'' بے ساختہ یاد آتی ہے۔ اس نظم میں اقبال اپنی چشم باطن سے سرسید احمد خان کے لوح مزار پر لکھی ہوئی تحریر پڑھنے میں منہمک دکھائی دیتے ہیں۔ پوری نظم پڑھنے سے اس امر کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ یہاں اقبال نے اپنی فکری اور فنی زندگی میں سرسید کے قائدانہ کردار کی اہمیت اجاگر کی ہے۔

سرسید کا یہ فیضان عمر بھر اقبال کے فکر وعمل میں جاری و ساری رہا۔ خطبۂ الہ آباد میںانہوں نے اس بات پر بھی فخر کیا ہے کہ مسلمانوں کا ماضی ان کی ذات میں زندہ اور سرگرم کار ہے۔ اس زندہ ماضی میں سر سید احمد خان کا فیضان شامل ہے۔ سرسید کے لوح مزار پر مرقوم یہ تحریر گویا دین و سیاست اور شعر وفلسفہ کی دنیاؤں میں نوجوان اقبال کی آئندہ تخلیقی سرگرمیوں کا ایک منشور ہے۔ سید کے لوح مزار کی یہ تحریر تین مختلف مگر باہم مربوط شعبہ ہائے فکر و عمل کے اوامر ونواہی پر مشتمل ہے۔ جہاں تک جدید و احیائے دین کا تعلق ہے' یہ رہنما اصول ہمیشہ پیش نظر رہے:

مدعا تیرااگر دنیا میں ہے تعلیم دیں
ترک دنیا قوم کو اپنی نہ سکھلانا کہیں
وا نہ کرنا فرقہ بندی کے لئے اپنی زباں
چھپ کے ہے بیٹھا ہوا ہنگامۂ محشر یہاں
وصل کے اسباب پیدا ہوں تری تحریر سے
دیکھ! کوئی دل نہ دکھ جائے تری تقریر سے
محفل نو میں پرانی داستانوں کو نہ چھیڑ
رنگ پر جواب نہ آئیں ان فسانوںکو نہ چھیڑ

ترک دنیا کا فلسفہ اور فرقہ بندی کے مسلک اگر مسلمانوں کی تباہی کا پیش خیمہ ثابت ہوئے ہیں تو گذشتہ شان و شوکت کی فرسودہ داستانیں مسلمانوں میں زوال پسندی کا سرچشمہ بن کر رہ گئی ہیں۔ ان فرسودہ تصورات کی نفی اور از کار رفتہ اداروں کی تباہی دین کے احیا اور تجدید کی پہلی شرط ہے۔ نئی دنیا کی تعمیر کے لئے فقط خواب و خیال کی صورت گری ہی کافی نہیں ۔ سیاسی عزم و عمل بھی لازم ہے۔ چنانچہ سرسید احمد خان خبردار کرتے ہیں کہ:

تو اگرکوئی مدبر ہے تو سن میری صدا
ہے دلیری دست ارباب سیاست کا عصا
عرض مطلب سے جھجک جانا نہیں زیبا تجھے
نیک ہے نیت اگر تیری تو کیا پروا تجھے
بندۂ مومن کا دل بیم و ریا سے پاک ہے
قوت فرماں روا کے سامنے بے باک ہے

اس نظم کے آخری بند میں سرسید احمد خان نے معاشرے کے کردار اور مقام سے بحث فرمائی ہے جو اس تلقین پر تمام ہوتی ہے:

سونے والوں کو جگا دے شعر کے اعجاز سے
خرمن باطن جلا دے شعلۂ آواز سے

اقبال ''سید کی لوح تربت'' سے اخذ کئے گئے اصول و اقدار (اوامر و نواہی ) پر عمر بھر بڑی استقامت کے ساتھ کاربند رہے۔ اقبال کے شعلۂ آواز میں سرسید احمد خان کی آواز ہمیشہ شامل رہی ہے۔ چونکہ اس مختصر تحریر کا موضوع سیاسی فکر و عمل سے ہے' اس لئے میں یہاں خود کو اقبال کے سیاسی فکر و عمل پر سر سید احمد خان کے اثرات تک محدود رکھوں گا۔

اگر ہم اپنی ہزار سالہ قومی اور ملی تاریخ پر ایک گہری نظر ڈالیں تو ہمیں احساس ہو گا کہ اللہ نے ہماری اجتماعی ہستی کو تین مختلف ادوار میں درپیش موت کے خطرات کی نشاندہی اور ان خطرات سے پنجہ آزمائی کی خاطر عہد بہ عہد تین مردان حق کو بروقت خبردار کیا۔ جب یہ مردان کار خبر دار ہو گئے تو پھر چین سے نہ بیٹھے اور اپنا سر ہتھیلی پر رکھ کر اپنے اپنے وقت کے جہانگیروں اور جہانداروں کے سامنے ڈٹ گئے۔ قرون وسطیٰ کے ہندوستان میں جب شہنشاہ اکبر نے اپنی سیاسی مصلحت کے پیش نظر ہندوؤں اور مسلمانوں کو ایک مشترکہ دینی شناخت دینے کی خاطر اپنا دین الٰہی نافذ کیا تو نقشبندی صوفیاء حضرت مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی ؒ کی قیادت میں مسلمانوں کی جداگانہ دینی شناخت کی بقا کی خاطر سرگرم عمل ہو گئے۔ اس سرفروشانہ جدوجہد کو خراج تحسین پیش کرتے وقت اقبال نے حضرت مجدد الف ثانی ؒ کو ان لفظوں میں یاد کیا ہے :

گردن نہ جھکی جس کی جہانگیر کے آگے
جس کے نفس گرم سے ہے گرمیٔ احرار
وہ ہند میں سرمایۂ ملت کا نگہبان
اللہ نے بروقت کیا جس کو خبردار!

جو سیاسی کارنامہ حضرت مجدد الف ثانیؒ نے جس جرأت و ایثار کے ساتھ قرون وسطیٰ کے ہندوستان میں سرانجام دیا تھا' وہی کارنامہ انیسویں صدی کے ہندوستان میں سرسید احمد خان نے سرانجام دیا۔ جب 1857ء میں بلاد اسلامیہ نے برطانوی ہند کانیا قالب اختیار کیا تو اسلامیان ہند انگریز کے عتاب اور ہندوؤں کے عناد میں گھر کر زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہو گئے۔ ایسے میں اللہ نے سرسید احمد خان کو بروقت خبردار کیا' ان کے دل کو بیم و رجا سے پا ک کیا اور یوں وہ قوت فرمانروا کے سامنے بھی ڈٹ گئے اور زوال پسند مسلمان قیادت کے سامنے بھی۔ پھر بیسویں صدی میں سرسید احمد خان ہی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے علامہ اقبال نے اپنے شعلۂ آواز سے خرمن باطل کو جلا کر رکھ دیا ۔ میں ان تینوں یگانہ روزگار ہستیوں کو برصغیر میں جداگانہ مسلمان قومیت کا معمار اور پاکستان کا فکری بانی شمار کرتا ہوں۔

1930ء میںہندی مسلمانوں کی سیاست ایک ایسی اندھی گلی میں بند ہو کر رہ گئی تھی' بے بس اور لا چار مسلمان اقلیت کی سیاست ہندو اکثریت سے تحفظات کی بھیک مانگنے کے عمل سے عبارت ہو کر رہ گئی تھی۔ پہلی گول میز کانفرنس میں شریک مسلمان مندوبین نے بھی ایک متحدہ ہندوستانی قومیت کی بنیاد پراکھنڈ بھارت کے لئے آئینی خاکہ منظور کر لیا تھا۔ ایسے میں اقبال نے اپنے خطبہ الہ آباد میں یہ ثابت کر دیا کہ مسلمان ایک اقلیت نہیں' بلکہ ایک الگ قوم ہیں۔ اس تصور نے برصغیر کی مسلمان سیاست کو اقلیت کی سیاست کی اندھی گلی سے نکال کر پاکستان کی شاہراہ پر ڈال دیا۔ اقبال کے اس بروقت اعلان نے انگلستان کے ایوان اقتدار میںایک زلزلہ سا برپا کر دیا تھا۔ ''دی ٹائمز'' لندن نے اگر اپنے ایڈیٹوریل میں اس تصور کو ایک پان اسلامک سازش قرار دیا تھا تو انگلستان کے وزیراعظم سرریمزے میکڈونلڈ نے اس تصور کو اقبال کی ایک خطرناک شرارت سے تعبیر کیا۔ اقبال نے انگلستان کے وزیراعظم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا:

The prime minister of England refused to see that the problem of india is international and not national. Obviously he does not see that the model of British democracy cannot be of any use in a land of many nations.
دس برس بعد لاہور میں قرار داد پاکستان منظور کرنے والے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے قائداعظم محمد علی جناحؒ نے یہی خیال کم و بیش انہی لفظوں میں یوں پیش کیا:
The problem in india is not of an international character but manifestly of an international one,and it must be treated as such.

یہاں علامہ اقبال اور قائداعظم نے سرسید کے کردار سے پھوٹنے والی اس حقیقت پر مہر تصدیق ثبت کر دی ہے کہ بندۂ مومن قوت فرمانروا کے سامنے ہمیشہ بے باک رہتا ہے حکمرانوں کے سامنے یہ بے خوفی اور یہ بیباکی بہت بڑی بات ہے مگر سرسید کا فیضان یہاں تک محدود نہیں ہے۔ قائداعظم کا استدلال اقبال سے ماخوذ ہے تو اقبال نے یہ استدلال سرسید کے ان آخری مضامین سے اخذ کیا ہے جن میں سرسید مرحوم نے مسلمانوں کو انڈین نیشنل کانگریس سے دور رہنے کا مشورہ دیا تھا۔ اپنے ایک مضمون میں سرسید احمد خان برطانیہ کی کنزرویٹو اورلبرل' ہر دو پارٹیوں کو مخاطب کرتے ہوئے اس صداقت کا برملا اظہار کرتے ہیں کہ:

''برطانوی ہند انگلستان کی طرح ایک چھوٹا سا ملک نہیں بلکہ ایک براعظم ہے جس میں بھانت بھانت کے اور باہم متصادم لسانی' نسلی اور تہذیبی گروہ موجود ہیں' انڈین نیشنل کانگریس کے اغراض و مقاصد تاریخ کی اس صداقت سے لا علمی اور برطانوی ہند کی زمینی حقائق سے ناآشنائی کا شاخسانہ ہیں۔ کانگریس اسلامیان ہند کے خواب و خیال کی کسی صورت میں بھی ترجمان نہیں۔'' (آخری مضامین' لاہور' صفحات 50-46)

یہ بنیادی جغرافیائی اورتہذیبی صداقت سرسید احمد خان سے لے کر قائداعظم محمد علی جناح تک مسلسل بدلتے ہوئے سیاق و سباق میں ہر عہد کی اپنی اصطلاحات میں جلوہ گر نظر آتی ہے ۔ جب 1885ء میں برطانوی افسر شاہی کے ایک سابق رکن لارڈ ہیوم نے وائسرائے ہند لارڈ ڈفرن کے تعاون سے انڈین نیشنل کانگریس کا ڈول ڈالا تو سرسید احمد خان نے مسلمانوں کو بروقت خبردار کرتے ہوئے اس اینگلو انڈین تنظیم سے خود کو دور رکھنے کا مشورہ دیا۔ کانگرنس کے ایک سرکردہ رہنما بدر الدین طیب جی سے سرسید احمد خان نے سوال کیا کہ:

''میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ نیشنل کانگرس کے معنی کیا ہیں؟ اس کا یہ مطلب سمجھا جائے کہ مختلف ذاتوں اور ملکوں کے لوگ جو یہاں بستے ہیں ایک قوم ہیں یا ایک قوم بن سکتے ہیں اور ان کے مقاصد اور جذبات میں یکسانیت ہے؟ میرے نزدیک یہ ممکن ہی نہیں ہے اور جب یہ ناممکن ہے تو پھر نیشنل کانگریس قسم کی کوئی چیز ہو ہی نہیں سکتی اور نہ اس سے سب کو یکساں فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ میں ہر ایسی کانگرس کے خلاف ہوں خواہ اس کی شکل و صورت کچھ ہی کیوں نہ ہو جو غلط تصورات پر مبنی ہو۔ یعنی جو پورے ہندوستان کو ایک قوم(نیشن) سمجھتی ہو۔''

(تفصیلات کے لئے دیکھیے رسالہ جامعہ' نئی دہلی' جلد95' شمارہ نمبر7تا 12' صفحات 221تا222)

اسی زمانے کی ایک تقریر میں سرسید نے مسلمان نوجوانوں کے ایک اجتماع میں یہ سوال اٹھایا تھا:

''اے عزیز بچو! اگر کوئی آسمان کا تارہ ہو جائے اور مسلمان نہ رہے تو ہم کو کیا۔ وہ تو ہماری قوم ہی نہ رہا۔ پس اسلام کو قائم رکھ کر ترقی کرنا قومی بہبودی ہے۔'' (ایضاً' صفحہ 239)

سرسید احمد خان نے اپنی مومنانہ فراست سے یہ جان لیا تھا کہ انگریزی حکمران یہ چاہتے ہیں کہ جب انہیں برصغیر سے رخصت ہونا پڑے تو وہ اپنے پیچھے ایک ایسا اینگلو انڈین حکمران طبقہ چھوڑ جائیں جو ہندوستان کی سامراجی وحدت کو قائم رکھتے ہوئے مغربی سامراج کی جانشینی کے فرائض سرانجام دے سکے۔ سرسید نے یہ جان لیا تھا کہ اگر انگریزوں کا یہ خواب پورا ہو گیا تو ہندی مسلمان ایک دائمی اقلیت ہو کر رہ جائیں گے اور ان کی سیاسی اور تہذیبی ہستی ہندو اکثریت کے رحم وکرم پر ہو گی۔ چنانچہ انہوں نے ہندی مسلمانوں کو اس صورت حال سے بچانے کے لئے باقاعدہ علمی اور عملی منصوبہ بندی کی۔

سرسید کی حکمت عملی کے دورخ تھے۔ ایک رخ برطانوی حکمرانوں کی جانب تھا۔ سرسید نے ان پر یہ جغرافیائی و سیاسی حقیقت روز روشن کی طرح واضح کر دی کہ ہندوستان ایک ملک نہیں' بلکہ ایک برصغیر ہے۔ یورپ کے ملکوں کی طرح اس برصغیر کے مختلف ملکوں میں بھی ہر ملک کا اپنا اپنا ایک جمہوری نظام سچی جمہوریت کا ایک ناگزیر تقاضا ہے ۔ دوسرا رخ اسلامیان ہند کی جانب تھا جنہیں سرسید نے اپنی تحریر و تقریر کے ذریعے بار بار اس حقیقت کی جانب متوجہ کیا کہ اسلامیان ہند کی جداگانہ اور منفردشناخت اسلام سے اٹوٹ وابستگی میں پنہا ں ہے۔ دسمبر سن اٹھارہ سو اٹھاسی 1888ء میں مسلمان طالب علموں سے خطاب کرتے ہوئے سرسیدنے اسلامیان ہند کی دینی شناخت کو مسلمان جدیدیت کا نمایاں امتیاز ٹھہرایا تھا:

'میرے تمام بچے طالب علم جو کالجوں میں پڑھتے ہیں اور جن کے لئے میری آرزو ہے کہ وہ یورپ کے سائنس اور لٹریچر میں کامل ہوں اور تمام دنیا میں اعلیٰ شمار کئے جاویں ان دو الفاظ لا الٰہ الا اللہ محمد الرسول اللہ کو نہ بھولیں۔'' (ایضاً صفحہ 239)

یہی بات اقبال نے اپنے زمانے کے مسلمانوں کو بار بار ذہن نشین کرائی کہ اسلام تیرادیس ہے تو مصطفویٰ ہے اور تازہ کن بامصطفی پیمان خویش ! اپنے متذکرہ بالا خطاب سے بارہ برس پہلے سرسید کو یقین ہو گیا تھا کہ:

''دونوں قومیں کسی کام میں دل سے شریک نہ ہو سکیں گی' ابھی تو بہت کم ہے' آگے آگے اس سے زیادہ مخالفت اور عناد ان لوگوں کے سبب جو تعلیم یافتہ کہلاتے ہیں' بڑھتا نظر آتا ہے۔' ' (حالی : حیات جاوید' لاہور 1957صفحہ 194)

سرسید نے اپنے اس خیال کا اظہار اپنے ایک انگریز دوست مسٹر شیکسپیئر سے ہندی اردو تنازعہ کے احوال و مقامات پر گفتگو کے دوران کیا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب سوامی دیا نندسر سوتی (پنجاب اور یوپی)' بال گنگا دھر تلک (مہاراشٹر) اور کیثب چندر سین (بنگال) جیسے ہندوانتہا پسند، مسلمانوں کی آمد سے پہلے کی ہندو تاریخ اور ہندو مائتھالوجی سے ہندوستانی قومیت کا خمیر تیار کرنے میں مصروف تھے۔ متحدہ ہندوستانی قومیت کے ان اولین نظریہ سازوں کو اردو زبان کا قرآنی رسم الخط اور اس کے عربی فارسی ذخیرہ ٔ الفاظ سے ایسی نفرت ہو گئی تھی کہ انہوں نے سن اٹھارہ سو سڑسٹھ (1867ء) میں اردو کو دیوناگری رسم الخط اور سنسکرت لفظوں کی بھرمار سے ہندی بنا دینے کی تحریک شروع کر دی تھی۔ مسلمانوں نے اس تحریک کو اپنی تہذیبی شناخت پرحملہ تصور کیا اور اردو کی بقا کے لئے سرگرم عمل ہو گئے۔ ہندی اردو تنازعہ کو ہندو مسلمان تہذیبی تصادم کا رنگ پکڑتے دیکھ کر سرسید احمد خان نے یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ یہ دونوں قومیں اب کبھی اکٹھی نہ رہ سکیں گی۔

بھارت کے ایک مسلمان دانشور جناب مشیر الحق نے اپنے ایک مضمون ''سرسید اور ہندوستانی قومیت'' (سرسید کی معنویت ' دہلی' 1988' صفحات 175تا 186) میں ہمیں مشورہ دیا ہے کہ ہم سرسید کی مسٹر شیکسپیئر کے ساتھ مندرجہ بالا گفتگو میں لفظ 'قوم' کو انگریزی لفظ 'نیشن' کا ہم معنی سمجھنے سے گریز کریں۔ چلیے' ہم ان کا یہ مشورہ مان لیتے ہیں مگر سرسید کے اس خط کا کیا بنے گا جو انہوں نے بدر الدین طیب جی کے خط کے جواب میں لکھا تھا اور جس میں انہوںنے دو ٹوک انداز میں یہ اعلان کیا تھا کہ وہ ہر اس کانگرس کے خلاف ہیں جو ''پورے ہندوستان کو ایک قوم(نیشن) سمجھتی ہو''... یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ خود سرسید نے اردو لفظ قوم کا مفہوم متعین کرنے کی خاطر انگریزی لفظ نیشن بھی لکھ دیا۔

تحریک خلافت کی ناکامی کے بعد ایک مرتبہ پھر قوم اور نیشن کے مفہوم کو الجھا کر متحدہ ہندوستانی قومیت کے نظریہ کو مقبول عام بنانے کی کوششوں نے زور پکڑ لیا تھا اور مسلمان عوام کو مذہبی استدلال کے ساتھ متحدہ ہندوستانی قومیت پر ایمان لے آنے کے مشورے دیئے جانے لگے تھے۔ ایسے میں اللہ نے اقبال کو بروقت خبردار کیا اور انہوں نے خطبہ الہ آباد (1930ء) میں دو ٹوک اعلان کیا کہ مسلمان جدید معنوں میں ایک الگ قوم ہیں۔ جدید معنوں میں یوں کہ جدید تصور قومیت کے مطابق قومیں جغرافیائی اشتراک سے نہیں بلکہ روحانی یگانگت سے وجود میں آتی ہیں۔

اس جدید اصول کے مطابق برصغیر کے مسلمان ایک الگ قوم ہیں اور وہ اپنے لئے الگ قومی ریاست کے قیام کا حق رکھتے ہیں۔ یہ قوم کا ہی تصور ہے جو ہماری تہذیبی اور فکری تاریخ میں پہلے پہل سرسید احمد خان کے ہاں نمودار ہوا۔ وقت کا تقاضا یہی تھا کہ سرسید احمد خان کے ہاں یہ تصور مسلمانوں کی جداگانہ تہذیبی ہستی کو سنوارنے' نکھارنے اور پروان چڑھانے کی تعلیمی اور اصلاحی تحریک تک محدود رہا۔ اقبال کے عہد میں اس جداگانہ تہذیبی ہستی کی بقا کو جن سنگین سیاسی خطرات نے اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا' ان سے نجات کی سعادت اقبال کے حصے میں آئی۔ اگر سرسید ' اقبال کے عہد میں ہوتے تو وہ وہی کرتے جو اقبال نے کیا۔ یہی وجہ ہے کہ میں جب بھی خطبہ الہ آباد کا خیال کرتا ہوں تو مجھے سرسید احمد خان اقبال کا یہ شعر گنگناتے سنائی دیتے ہیں۔

یہ کون غزل خواںہے پرسوز و نشاط انگیز
اندیشہ دانا کو کرتا ہے جنوں آمیر

اقبال نے سرسید کی عقلیت پسند ی کو تکمیل شان عطا کرنے کے بعد عشق و جنون کی ارتقائی منزلوں کی سیر کرائی۔ علی گڑھ کے طالب علموں کو مخاطب کرتے وقت انہوں نے کہا تھا:

اوروں کا ہے پیام اور میرا پیام اور ہے
عشق کے دردمند کا طرز کلام اور ہے

تو یہ سرسید کے اصلاحی پیغام کی تردید نہیں تھی بلکہ اسے وقت کے بدلتے ہوئے تقاضوں کے مطابق انقلابی پیغام میں ڈھالنے کی تمنا کا اظہار تھا۔ یہی وجہ ہے کہ میں جب بھی اقبال کا خطبۂ الٰہ آباد پڑھتا ہوں تو مجھے بے اختیار سرسید احمد خان یاد آتے ہیں جن کے ''اندیشہ دانا'' کو اقبال نے ''آداب جنوں'' سکھانے کا عہد آفریں کا رنامہ سرانجام دیا ہے۔ سرسید جنت الفردوس میں بیٹھے اقبال کی جانب نگراں رہے۔ چنانچہ جب شدید بیماری کے عالم میں اقبال کی آواز بیٹھ گئی تو سرسید تیمار داری کو خواب میں آئے اور ہدایت کی کہ اقبال، آنحضورﷺؐ کی خدمت میں فریاد کریں۔ اقبال نے اس ہدایت پر فی الفور عمل کیا جس کی یادگار اقبال کا وہ نعتیہ قصیدہ ہے جو ''پس چہ باید کرداے اقوام شرق'' کی زینت ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں