اورنگی ٹاؤن میں دہشت گردی کی ہولناک کارروائی
دہشتگرد کارروائیوں کے بعد سین سے غائب ہونے کی کئی اعصاب شکن مثالیں قائم کر چکے ہیں۔
کراچی کے انتہائی حساس علاقہ اورنگی ٹاؤن میں بدھ کی سہ پہر دہشتگردی کی الم ناک واردات کئی حوالوں سے چشم کشا ہے جس میں نامعلوم مسلح افراد کی فائرنگ سے پولیو رضاکاروں کی حفاظت پر مامور 7 پولیس اہلکار اس طرح شہید ہو گئے کہ پولیو ورکرز کے تحفظ پر مامور اہلکاروں کے دستے اور پولیس موبائل کو جوابی کارروائی کا موقع تک نہیں ملا اور دو قریبی وارداتوں میں پولیس اہلکاروں کو شہید کر کے قاتل فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔
پہلے واقعے میں اورنگی ٹاؤن کے علاقے ڈسکو موڑ پر پولیو مہم کے دوران پولیو ٹیم کی حفاظت پر مامور پولیس موبائل پر نامعلوم موٹرسائیکل سواروں نے فائرنگ کر کے 4 پولیس اہلکاروں کو شہید کر دیا جب کہ دوسرے واقعے میں بنگلہ بازار میں موٹرسائیکل سواروں نے فائرنگ کر کے 3 اہلکاروں کو شہید کر دیا۔ دونوں واقعات 7 منٹ کے وقفے سے پیش آئے۔ تھانہ پاکستان بازار کے سپاہی یونس کے مطابق شہید اہلکاروں میں سپاہی رستم، سپاہی اسماعیل، سپاہی وزیر احمد، سپاہی غلام رسول، سپاہی دائم الدین، سپاہی غازی خان اور سپاہی یاسین شامل ہیں۔ تمام اہلکاروں کے سر اور سینے میں گولیاں لگی ہیں۔
واقعے کے بعد علاقے میں خوف و ہراس پھیل گیا، دکانیں و مارکیٹیں بند کر دی گئیں جب کہ اورنگی ٹاؤن میں انسداد پولیو مہم بند کر دی گئی۔ محکمہ انسداد دہشتگردی کے انچارج راجہ عمر خطاب نے کہا ہے کہ دہشتگردوں نے ہیلمٹ پہن رکھے تھے اور چار موٹرسائیکلوں پر 8 ملزمان سوار تھے۔ ڈی آئی جی ویسٹ فیروز شاہ کا کہنا ہے کہ ہدف پولیو ورکرز نہیں پولیس اہلکار تھے، واقعہ دہشتگردی ہے۔ اگر پولیو ورکرز ہدف نہ تھے تو پولیس اہلکاروں کو ٹارگٹ کرنے والوں سے کون واقف نہیں۔ یوں اس دردناک سانحے کا یہ پہلو انتہائی سنگین خود احتسابی کا متقاضی ہے جب کہ دہشت گردوں کا ایک بھرے بازار میں دن دہاڑے 7 اہلکاروں کو ہلاک کرتے ہوئے دہشت پھیلا کر وقوعہ سے فرار ہو جانا ایک سوالیہ نشان ہے۔
اورنگی ٹاؤن کے علاوہ دیگر سانحات میں بھی دہشتگرد کارروائیوں کے بعد سین سے غائب ہونے کی کئی اعصاب شکن مثالیں قائم کر چکے ہیں، سوال یہ ہے کہ مضافاتی علاقوں میں ہی پولیو ورکرز پر حملے کا شدید خطرہ ظاہر کیا جاتا رہا ہے اور ہلاکتیں یا قاتلانہ حملے بھی زیادہ تر ان ہی علاقوں میں ہوئے ہیں، تو اورنگی ٹاؤن جیسے حساس علاقے میں قاتلوں سے مڈبھیڑ یا ان پر پیشگی حملہ کی کارروائی میں ناکامی ایک ہولناک سیکیورٹی لیپس نہیں تو اور کیا ہے۔ ایک اطلاع یہ ہے کہ اہلکار زیر تربیت تھے۔
ادھر پولیو ٹیم پر حملے کی ذمے داری کالعدم تنظیم الحرار نے قبول کر لی ہے۔ ڈی جی رینجرز سندھ میجر جنرل بلال اکبر نے جائے وقوعہ پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ تحقیقات کا آغاز کر دیا گیا ہے، پولیس پر حملے کرنیوالے اور کروانیوالے ضرور پکڑے جائینگے، آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ نے شہید پولیس اہلکاورں کے لواحقین کو محکمہ پولیس میں دو ملازمتیں اور 20 لاکھ روپے دینے کا اعلان کیا ہے جب کہ ملزمان کی گرفتاری میں مدد دینے والے کو 50 لاکھ روپے انعام دیا جائے گا۔ وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کو وزیر داخلہ سندھ سہیل انور سیال نے پولیس اہلکاروں پر حملے کی رپورٹ دی۔
تاہم اس رپورٹ سے قطع نظر زمینی حقیقت یہ ہے کہ اورنگی ٹاؤن میں دہشتگرد جیت گئے اور پولیس فورس کو اپنے اہلکاروں کی قیمتی جانوں سے محروم ہونا پڑا،8 دہشتگرد 4 موٹرسائیکلوں پر اپنا سفاکانہ مشن پورا کر کے چلتے بنے۔ واضح رہے اورنگی میں چند روز قبل دو سگی بہنوں سمیت کمسن بچے کو بہیمانہ طریقہ سے قتل کر دیا گیا، ابھی اس تہرے قتل پر لوگوں کے آنسو خشک نہیں ہوئے تھے کہ پولیس اہلکاروں نے قومی فرض کی ادائیگی میں اپنی جانیں نثار کیں، جب کہ حکام کو ادراک کرنا چاہیے تھا کہ وہ ان اہلکاروں کو در اصل شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنے کا حکم دے رہے ہیں۔
اور پولیو ورکرز کی حفاظت کے لیے سیکیورٹی اتنی کمزور اور اپنے دفاع سے معذوری پر مبنی نہیں ہونی چاہیے تھی۔ علاقے میں سیاسی کشیدگی عروج پر ہے، ایشیا کی اس سب سے بڑی کچی آبادی میں کالعدم تنظیموں، ٹارگٹ کلرز، بھتہ خوروں اور گینگ وار کے کارندوں کے درجنوں خفیہ ٹھکانے ہیں جہاں سے نکل کر دہشتگرد اور نامعلوم مسلح افراد قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں اور شہریوں پر کثیر جہتی منصوبہ بندی کے ساتھ حملے کرتے آئے ہیں۔
چنانچہ شہر میں پولیس کی جانب سے ٹارگٹڈ کارروائیوں، سرچ آپریشن اور بڑی تعداد میں دہشت گردوں اور ٹارگٹ کلرز سمیت دیگر جرائم پیشہ عناصر کی گرفتاریوں اور مبینہ مقابلوں میں ہلاکت کے باوجود اورنگی ٹاؤن میں پولیس اہلکاروں کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا جانا شہر میں دہشت گردی کا بڑا واقعہ ہے۔ شہر میں دہشت گرد منظم انداز میں کارروائیاں کر رہے ہیں، رواں سال کے دوران شہر کے مختلف علاقوں میں مجموعی طور پر اے ایس آئی سمیت11 پولیس اہلکاروں کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا جا چکا ہے۔ ضرورت سیکیورٹی پر مامور فورسز کے مزید الرٹ اور مستعد رہنے کی ہے۔ حکام اب تک پکڑے گئے دہشتگردوں کے خلاف تفتیش میں تیزی لائیں تا کہ دہشتگردوں اور اورنگی کے اس دردناک واقعے میں ملوث ملزمان کو جلد کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔
پہلے واقعے میں اورنگی ٹاؤن کے علاقے ڈسکو موڑ پر پولیو مہم کے دوران پولیو ٹیم کی حفاظت پر مامور پولیس موبائل پر نامعلوم موٹرسائیکل سواروں نے فائرنگ کر کے 4 پولیس اہلکاروں کو شہید کر دیا جب کہ دوسرے واقعے میں بنگلہ بازار میں موٹرسائیکل سواروں نے فائرنگ کر کے 3 اہلکاروں کو شہید کر دیا۔ دونوں واقعات 7 منٹ کے وقفے سے پیش آئے۔ تھانہ پاکستان بازار کے سپاہی یونس کے مطابق شہید اہلکاروں میں سپاہی رستم، سپاہی اسماعیل، سپاہی وزیر احمد، سپاہی غلام رسول، سپاہی دائم الدین، سپاہی غازی خان اور سپاہی یاسین شامل ہیں۔ تمام اہلکاروں کے سر اور سینے میں گولیاں لگی ہیں۔
واقعے کے بعد علاقے میں خوف و ہراس پھیل گیا، دکانیں و مارکیٹیں بند کر دی گئیں جب کہ اورنگی ٹاؤن میں انسداد پولیو مہم بند کر دی گئی۔ محکمہ انسداد دہشتگردی کے انچارج راجہ عمر خطاب نے کہا ہے کہ دہشتگردوں نے ہیلمٹ پہن رکھے تھے اور چار موٹرسائیکلوں پر 8 ملزمان سوار تھے۔ ڈی آئی جی ویسٹ فیروز شاہ کا کہنا ہے کہ ہدف پولیو ورکرز نہیں پولیس اہلکار تھے، واقعہ دہشتگردی ہے۔ اگر پولیو ورکرز ہدف نہ تھے تو پولیس اہلکاروں کو ٹارگٹ کرنے والوں سے کون واقف نہیں۔ یوں اس دردناک سانحے کا یہ پہلو انتہائی سنگین خود احتسابی کا متقاضی ہے جب کہ دہشت گردوں کا ایک بھرے بازار میں دن دہاڑے 7 اہلکاروں کو ہلاک کرتے ہوئے دہشت پھیلا کر وقوعہ سے فرار ہو جانا ایک سوالیہ نشان ہے۔
اورنگی ٹاؤن کے علاوہ دیگر سانحات میں بھی دہشتگرد کارروائیوں کے بعد سین سے غائب ہونے کی کئی اعصاب شکن مثالیں قائم کر چکے ہیں، سوال یہ ہے کہ مضافاتی علاقوں میں ہی پولیو ورکرز پر حملے کا شدید خطرہ ظاہر کیا جاتا رہا ہے اور ہلاکتیں یا قاتلانہ حملے بھی زیادہ تر ان ہی علاقوں میں ہوئے ہیں، تو اورنگی ٹاؤن جیسے حساس علاقے میں قاتلوں سے مڈبھیڑ یا ان پر پیشگی حملہ کی کارروائی میں ناکامی ایک ہولناک سیکیورٹی لیپس نہیں تو اور کیا ہے۔ ایک اطلاع یہ ہے کہ اہلکار زیر تربیت تھے۔
ادھر پولیو ٹیم پر حملے کی ذمے داری کالعدم تنظیم الحرار نے قبول کر لی ہے۔ ڈی جی رینجرز سندھ میجر جنرل بلال اکبر نے جائے وقوعہ پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ تحقیقات کا آغاز کر دیا گیا ہے، پولیس پر حملے کرنیوالے اور کروانیوالے ضرور پکڑے جائینگے، آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ نے شہید پولیس اہلکاورں کے لواحقین کو محکمہ پولیس میں دو ملازمتیں اور 20 لاکھ روپے دینے کا اعلان کیا ہے جب کہ ملزمان کی گرفتاری میں مدد دینے والے کو 50 لاکھ روپے انعام دیا جائے گا۔ وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کو وزیر داخلہ سندھ سہیل انور سیال نے پولیس اہلکاروں پر حملے کی رپورٹ دی۔
تاہم اس رپورٹ سے قطع نظر زمینی حقیقت یہ ہے کہ اورنگی ٹاؤن میں دہشتگرد جیت گئے اور پولیس فورس کو اپنے اہلکاروں کی قیمتی جانوں سے محروم ہونا پڑا،8 دہشتگرد 4 موٹرسائیکلوں پر اپنا سفاکانہ مشن پورا کر کے چلتے بنے۔ واضح رہے اورنگی میں چند روز قبل دو سگی بہنوں سمیت کمسن بچے کو بہیمانہ طریقہ سے قتل کر دیا گیا، ابھی اس تہرے قتل پر لوگوں کے آنسو خشک نہیں ہوئے تھے کہ پولیس اہلکاروں نے قومی فرض کی ادائیگی میں اپنی جانیں نثار کیں، جب کہ حکام کو ادراک کرنا چاہیے تھا کہ وہ ان اہلکاروں کو در اصل شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنے کا حکم دے رہے ہیں۔
اور پولیو ورکرز کی حفاظت کے لیے سیکیورٹی اتنی کمزور اور اپنے دفاع سے معذوری پر مبنی نہیں ہونی چاہیے تھی۔ علاقے میں سیاسی کشیدگی عروج پر ہے، ایشیا کی اس سب سے بڑی کچی آبادی میں کالعدم تنظیموں، ٹارگٹ کلرز، بھتہ خوروں اور گینگ وار کے کارندوں کے درجنوں خفیہ ٹھکانے ہیں جہاں سے نکل کر دہشتگرد اور نامعلوم مسلح افراد قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں اور شہریوں پر کثیر جہتی منصوبہ بندی کے ساتھ حملے کرتے آئے ہیں۔
چنانچہ شہر میں پولیس کی جانب سے ٹارگٹڈ کارروائیوں، سرچ آپریشن اور بڑی تعداد میں دہشت گردوں اور ٹارگٹ کلرز سمیت دیگر جرائم پیشہ عناصر کی گرفتاریوں اور مبینہ مقابلوں میں ہلاکت کے باوجود اورنگی ٹاؤن میں پولیس اہلکاروں کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا جانا شہر میں دہشت گردی کا بڑا واقعہ ہے۔ شہر میں دہشت گرد منظم انداز میں کارروائیاں کر رہے ہیں، رواں سال کے دوران شہر کے مختلف علاقوں میں مجموعی طور پر اے ایس آئی سمیت11 پولیس اہلکاروں کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا جا چکا ہے۔ ضرورت سیکیورٹی پر مامور فورسز کے مزید الرٹ اور مستعد رہنے کی ہے۔ حکام اب تک پکڑے گئے دہشتگردوں کے خلاف تفتیش میں تیزی لائیں تا کہ دہشتگردوں اور اورنگی کے اس دردناک واقعے میں ملوث ملزمان کو جلد کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔