مصطفیٰ کمال کی سیاسی حکمت عملی
ان کے وزیراعظم کو بالآخر قتل کر دیا گیا۔ اس سے بھی مقامی اور غیر مقامی کے مابین خلیج بڑھی
مجھے یاد پڑتا ہے کہ گزشتہ 15 برسوں میں کوئی مضمون ایم کیو ایم کی توصیف میں نہ میں نے تحریر کیا اور نہ ہی کوئی تنقید کی، ماسوائے ایک آرٹیکل مہاجر فیکٹر کے نام سے کچھ عرصہ قبل انھی صفحات پر تحریر کیا، جس میں تنقید بھی تھی جس نے سندھ میں دیہی اور شہری حقوق نے دونوں کے مابین فرق پیدا کر دیا ہے اور اسی فرق کی بنیاد پر مہاجر قومی موومنٹ قائم ہوئی، جو نظم و ضبط میں بے مثال تھی۔ اسٹڈی سرکل سے مزین رہی، گلی کوچوں میں لوگ آپس میں مضبوطی سے جڑے رہے۔ یہ خستہ حال مہاجروں کے مسائل تھے جس نے ان کو متحد کر دیا تھا۔
ملکی پیمانے پر تمام لیڈروں نے مہاجر قومی موومنٹ کے خلاف گفتگو کی تو بالآخر اس کو متحدہ قومی موومنٹ کہا جانے لگا مگر جب بھی کشیدگی میں اضافہ ہوا اور سندھ میں تلخی بڑھی تو لفظ مہاجر بار بار گفتگو میں آیا اور اسی لفظ کے آنے کی بنا پر مصطفیٰ کمال اس پارٹی میں شامل ہوئے تھے مگر وہ اپنے مشاہدے کے طور پر اس سے الگ ہوئے۔ الگ تو لوگ سیاست میں ہوتے ہی رہتے ہیں اور جڑتے رہتے ہیں مگر جس انداز میں مصطفیٰ کمال نے علیحدگی اختیار کی ہے وہ عجیب و غریب ہے۔
انھوں نے بالکل مسلم لیگ کے انداز سے بھی بڑھ کر نئی پارٹی کی بنیاد رکھی ہے۔تمام تر سیکولر ہونے کے باوجود پیپلزپارٹی میں بھی سندھی کو ایک زبان نہیں بلکہ ایک سیاسی اوزار کے طور پر استعمال کیا گیا اور وہ طبقہ جو یہ سوچ کر بھارت سے نقل مکانی کر گیا تھا کہ وہ اپنی انتخابی حلقہ حد بندی خود سجائے گا اور اپنا وزیراعظم ساتھ لائے گا اسے یہاں سے جلد ہٹا دیا گیا۔
ان کے وزیراعظم کو بالآخر قتل کر دیا گیا۔ اس سے بھی مقامی اور غیر مقامی کے مابین خلیج بڑھی اور جس نے اس خلیج کو ہوا دی، اس کے گرد گھیرا مضبوط ہوا، مگر مصطفیٰ کمال ایسی تمام رہگزر سے خود کو دور رکھے ہوئے ہیں جو ایم کیو ایم کے ووٹر کو کاٹ سکے، بلکہ ایک طرف سندھی وڈیرہ ہے اور اس کے پشت در پشت نسلی کارکن ہے جب کہ مصطفیٰ کمال کئی بار واضح اشارہ کر چکے ہیں کہ انھوں نے اپنے سندھی بھائیوں سے کہا کہ وہ دوری چھوڑ دیں۔ یہ بات دیکھنے کی ہے کہ کسی وڈیرے نے مصطفیٰ کمال کے پلڑے میں اپنا وزن نہیں ڈالا ہے، کیونکہ یہ ووٹ کا اصلی وزن تھا اور میڈیا جن کو وکٹیں قرار دے رہا ہے کہ ایک وکٹ گر گئی، دو وکٹیں اور اب چار وکٹیں گر گئی ہیں، درحقیقت یہ خود کوئی وکٹیں نہیں کیونکہ یہ ایم کیو ایم کے ماضی میں فکری اور نظری قوت کی آئینہ دار نہ تھیں جب تک ان وکٹوں کی کوئی اپنی پہچان نہیں بنتی ان ناموں کی کوئی اہمیت نہیں ہے اور جو میڈیا اس قدر شور مچا رہا ہے، بے سود ہے۔ ہاں بعض زاویوں سے مصطفیٰ کمال پاکستان میں عصبیت کا خاتمہ چاہتے ہیں، مہاجروں کی دو نسلیں اسی عصبیت کے ردعمل میں تباہ ہو گئیں۔
اب تک کراچی کی آبادی کی باقاعدگی سے کوئی گنتی نہیں ہوئی، بس مفروضوں پر ہی کام چل رہا ہے، بہرحال کراچی کی مردم شماری نہ ہونے سے ابھی یہ بات ثابت نہیں ہو سکی کہ کراچی دنیا کا سب سے بڑا شہر ہے۔ عجب ستم ظریفی ہے۔
اس شہر کی آبادی ڈھائی کروڑ ہے اور نہ کوئی میئر ہے اس شہر کا اور نہ اتنے بڑے شہر میں کوئی ٹرین اور محض ایک چھوٹے سے بس منصوبے پر یہاں کی آبادی کو ٹال دیا گیا۔ افسوس کہ ایک منظم جماعت ہونے کے باوجود اس شہر میں ٹرانسپورٹ کا نظام بہتر نہ ہو سکا، البتہ اب ایک نئی تنظیم اپنی کارکردگی خصوصاً پلوں کی بنیاد پر ایک تنظیم پاک سرزمین کی بنیاد ڈال رہی ہے، مگر عام آدمی کی مشکلات اور سفر کو غالباً مصطفیٰ کمال نے بسوں کا حال نہیں دیکھا، چھتوں پر پائیدان پر پاؤں، جنگلے میں لٹکے مگر کوئی پرسان حال نہیں، اب انھوں نے کراچی شہر میں لیاری جیسے قدیم علاقے سے کام شروع کیا ہے، اپنی تنظیم کی داغ بیل ڈالی ہے، لیاری کے لوگ پرجوش اور کمٹمنٹ والے ہیں اور جس صاف ستھرے اور پاکستانی نیشنل ازم کی مہک پارٹی میں ڈال دی ہے، وہ خوب ہے، مگر لوگ ابھی اپنی ذات، نسل، رنگ کے حصار میں ہیں، جو پارٹی ہر رنگ و نسل، ذات پات سے بالاتر ہے لوگ ابھی اس کے گرد دائرہ بنانے کو ہرگز تیار نہیں۔ جس ایثار اور قربانی کی بات پر روز درس دیا جا رہا ہے وہ ایثار آسان نہیں مگر ایک اتنی فراخ دل پارٹی کو تنگ نظری کا ثبوت نہیں دینا چاہیے تھا۔
لیکن آخر ایک پارٹی بننے جا رہی ہے بلکہ نئی پارٹی بن چکی ہے تو اب تک یہ معلوم نہیں ہوا کہ اس پارٹی کے معاشی پہلو کیا ہیں؟ عوام کے لیے کون سا اقتصادی نظام چاہتی ہے؟ اگر یہ سندھیوں اور مہاجروں کو ایک ساتھ لے کر چلنا چاہتی ہے تو یہ ایک مشکل مرحلہ ہے۔ لگتا ہے یہ لوگ ابھی اسمبلی سے دس برس باہر بیٹھے رہیں گے یا کہہ نہیں سکتے کوئی انہونی ہو جائے، مگر پیپلز پارٹی تو ایک وڈیرہ پارٹی ہے، وہاں تو پشت در پشت کا مسئلہ ہے جب کہ ایم کیو ایم پیپلز پارٹی کا ردعمل ہے، وڈیرہ شاہی کا زبانی توڑ ہے۔
پاک سرزمین پارٹی کے لیے فوری تیزی سے آگے بڑھنے والی کوئی قوت نہیں، بھارتی جاسوسی کے مطالبے کو بھی حکومت کوئی خاص اہمیت نہیں دے رہی ہے، جب کہ مصطفیٰ کمال بہ زور یہ کہہ رہے ہیں کہ ہم نوجوان نسل کو بھارتی جاسوس نہیں بننے دیں گے۔ گویا اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستانی جوان تیزی سے بھارتی جاسوس بن رہے ہیں۔ اس مسئلے کو عام لوگ زیادہ اہمیت نہیں دے رہے ہیں، عام لوگ ایم کیو ایم کے ارکان کو را کا ایجنٹ نہیں قرار دیتے اور نہ عام لوگوں کو را کے آلہ کاروں کا طریقہ کار معلوم ہے، ہاں البتہ سخت گیری اور دیگر اقسام کے غیر معمولی الزامات عام کارکنوں پر جو مصطفیٰ کمال لگا رہے ہیں ممکن ہے ان میں صداقت نہ ہو۔
البتہ مصطفیٰ کمال میں ان کے علاوہ پارٹی میں تیز گفتار اور منطقی استدلال والے افراد بہت کم ہیں اور نہ ہی ان کی کوئی مہم ہے اور اس قدر آپریشن کے بعد ایم کیو ایم کو جس قدر دیوار سے لگ جانا چاہیے تھا وہ نہیں ہوا بلکہ پیپلز پارٹی اس قدر محدود ہو گئی ہے جیسے وہ بلاول ہاؤس کے اردگرد ہی رہ گئی ہو، محض ایک چیئرمین ہی رہ گئے ہیں جن کے اردگرد پارٹی گھومتی ہے، وہ جہاں جاتے ہیں پارٹی وہیں ہوتی ہے۔
پاکستان میں دستور میں کوئی ترمیم ایسی کبھی نہ ہو گی جو عوام کے مفاد میں ہو، یہاں دستور میں وہ ترامیم کی جاتی ہیں جس سے عوام کمزور اور اسمبلی مضبوط ہو، اب تک جتنی بھی ترامیم کی گئیں ان میں عوامی مفاد میں کچھ نہیں، جہاں بھی اور جب بھی ترامیم سامنے لائی جائیں گی تو وہ انتخابات سے قبل ذرا گہما گہمی پیدا کرنے کے لیے۔ پاکستانی معیشت کھوکھلی ہو چکی ہے، ہر پاکستانی بچہ مقروض پیدا ہو رہا ہے اور امرا کے سکون کے لیے پاکستان میں دنیا کے ہر ملک کا امپورٹڈ آئٹم موجود ہے، کیونکہ ہم ان ممالک کے مقروض ہیں جو ہماری معاشی پالیسی ترتیب دیتے ہیں۔ مصطفیٰ کمال اپنی سوچ کے اعتبار سے پارٹی کے جو بال و پر ترتیب دے رہے ہیں اور امن کو اول ہدف مانا ہے، جس کی ضرورت ہے۔ یہ وہ خیالی باتیں ہیں جس پر ان کو کسی نے قائل کر دیا ہے مگر نتائج کب آنا شروع ہوتے ہیں:
آہ کو چاہیے اک عمر اثر ہونے تک
مگر پاکستان میں فوری نتائج کی دوڑ میڈیا نے لگا رکھی ہے کہ کچھ نہ کچھ ہر پریس کانفرنس میں ہونے والا ہے، ایسا ہرگز نہیں، البتہ ایک پریس کانفرنس تمام خبروں پہ نمایاں ہوتی ہے اور بار بار میڈیا کی رونق بنتی ہے لہٰذا کم خرچ اور بالا نشین کا فارمولا ہی استعمال ہو رہا ہے۔ فی الحال پریس کانفرنس ہی ہر مرض کا علاج سمجھا جا رہا ہے اور یقیناً ایسا لگتا ہے کہ پریس کانفرنس موجودہ حالات میں ایک انوکھا موضوع ہے۔