ایم کیو ایم ناقابل تسخیر
ہر واقعے میں کوئی نہ کوئی سبق پنہاں ہوتا ہے،انسان سیکھنا چاہے اورغوروفکر کی عادت ڈالے تو زندگی بھرسیکھتا ہی رہتا ہے،
کسی دانشور نے کیا خوب کہا ہے کہ کوئی اونچی اڑان بھرکر بھی عاجزی کے لبادے میں رہتا ہے تو کوئی پستی کی گہرائی میں اترکر بھی تکبر سے فلک کو تکتا ہے۔ شہر قائد کراچی میں قومی و صوبائی اسمبلی کے ضمنی انتخابات میں یہ بات ایک بار پھر ثابت ہوگئی کہ متحدہ قومی موومنٹ سیاسی طور پر اب تک ناقابل تسخیرہے۔ منحرف رہنماؤں کے تمام ترالزامات کے باوجود متحدہ کے ووٹرزاس کے ساتھ کھڑے ہیں، یہاں یہ بھی واضح ہوگیا ہے کہ ''لڑاؤ اورسیاست کرو''کی پالیسی عوام کی سمجھنے میں آنا شروع ہوگئی ہے،عوام اس قدرباشعورہوگئے ہیں کہ انھیں معلوم ہے کہ کون کس کے ہاتھوں میں کھیل رہا ہے،کس کی ڈوریں کون ہلارہا ہے،آپریٹرکوکون آپریٹ کررہا ہے۔
ہر واقعے میں کوئی نہ کوئی سبق پنہاں ہوتا ہے،انسان سیکھنا چاہے اورغوروفکر کی عادت ڈالے تو زندگی بھرسیکھتا ہی رہتا ہے،البتہ یہ الگ بات ہے کہ سیکھنا اورعمل کرنا دو مختلف شعبے ہیں چنانچہ ہم زندگی کے سفر میں تجربات وواقعات سے جوسبق سیکھتے ہیں، ان پر خال ہی خال عمل کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انسان باربار تجربے کے ایک ہی سوراخ سے ڈسا چلا جاتا ہے۔قیام پاکستان سے لے کر آج تک اس ملک میں اتنے تجربات ہوئے ہیں جس کی مثال کسی اور ملک میں نہیں ملتی۔ ابتداء میں سمندروں میں بٹا ہوا ملک ، ہمارے سیاستدانوں نے صوبوں کو ملاکر ون یونٹ بنادیا، پہلا مارشل لاء، دوسرا مارشل لاء، ون یونٹ توڑ کر دوبارہ مشرقی اور مغربی پاکستان۔ پھر پانچ صوبے۔ مرزا جواد بیگ کراچی صوبے کے روح رواں تھے مگر آوازیں دبا دی گئیں، سارا مرکزی نظام اسلام آباد پہنچادیا گیا۔
آپ پاکستان کی تاریخ کا مطالعہ کریں گے تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوجائے گی کہ پاکستان میں جس نے بھی جماعت بنائی یا پرانی جماعت سے علیحدہ ہوکر نئی پارٹی کی داغ بیل ڈالی، توانھوں نے ہوبہو وہی کہا جو مصطفیٰ کمال اور انیس قائم خانی نے کہا ہے۔ قطع نظر اس کے کہ اب تک جن جن رہنماؤں نے عوامی وملکی تقدیر بدلنے سے متعلق جن جن خیالات کا اظہارکیا،ان پر عمل کبھی بھی نہیں کیا،نئی جماعت کے یہ پرانے رہنما کیسے وہی کرپائیں گے جن کا وہ اظہار کررہے ہیں؟ تاہم اس سے بھی زیادہ اہم امر یہ حقیقت ہے کہ اپنی جماعت سے علیحدہ ہونیوالے یا تو واپس اپنی اپنی جماعتوں میں لوٹ آئے یا اپنی نئی جماعت تحلیل کرکے کسی اور جماعت کا حصہ بن گئے یا پھر ڈیڑھ اینٹ کی مسجد ہی سجائے رہ گئے۔
الیکشن کمیشن میں اس وقت کم وبیش 300پارٹیاں رجسٹرڈ ہیں،ان میں سے بیشتر پارٹیاں وہ ہیں جنہوں نے کسی دوسری پارٹی سے جنم لیا ہے، ہمارے یہاں جس تیزی سے جماعتیں بنتی ہیں پھر اسی تیزی سے قصہ پارینہ بھی بن جاتی ہیں۔ اس وقت سب سے پرانی جماعت مسلم لیگ ہے، یہ جماعت دھڑے بندیوں کے حوالے سے ناقابل یقین حد تک لچکدار واقع ہوئی ہے، یہی جماعت روزاول سے حکمرانوں کے ہاتھوں کھلونا بھی بنی رہی، آمروں نے اس سے خوب فائدہ اٹھایا،ایوب خان، ضیاء الحق اورپرویز مشرف نے مسلم لیگ کو جیب کی گھڑی بناکر رکھا اور اب الف سے لے کر ے تک مسلم لیگیں موجود ہیں، لیکن نواز شریف کی مسلم لیگ (ن) سے جدا ہونے والی مسلم لیگیں برائے نام ہی ہیں۔
اسی طرح ذوالفقارعلی بھٹو نے 1967 میں پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی، بھٹو کی وفات کے بعد اس میں کئی چھوٹے موٹے گروپ بن گئے۔ غلام مصطفیٰ جتوئی کی نیشنل پیپلز پارٹی، بھٹو کے بڑے صاحبزادے میر مرتضیٰ بھٹو کی پیپلز پارٹی شہید بھٹو،سردارممتاز بھٹو کی نیشنل فرنٹ مگر ان سب کے باوجود پیپلز پارٹی اپنی جگہ قائم ہے اور اس سے جدا ہونیوالے راندہ درگاہ ہیں۔ متحدہ قومی موومنٹ میں پہلی دراڑ آفاق احمد کی مہاجر قومی موومنٹ (حقیقی) کے ذریعے پڑی۔ لیکن متحدہ کمزور ہونے کے بجائے وقت کے ساتھ ساتھ اور مضبوط ہوتی چلی گئی۔
جماعت اسلامی سے بھی نامور لوگ الگ ہوئے، ڈاکٹر اسرار احمد نے تنظیم اسلامی کے نام سے جماعت قائم کی، تحریک اسلامی بھی بنائی گئی، اس سے جماعت فکری طور پر توکمزور ہوئی مگر سیاسی طور پر اسے رتی برابر بھی فرق نہیں پڑا۔ جمعیت علمائے اسلام میں درخواستی گروپ، ہزاروی گروپ اور پھر سمیع الحق گروپ بنائے گئے لیکن اصل جے یو آئی کی قیادت مولانا فضل الرحمن کے پاس ہیں۔ جمعیت علمائے پاکستان کو ملک کے سب سے بڑے بریلوی مکتبہ فکرکی ہمدردیاں حاصل ہیں۔ ستر کے عام انتخابات میں اس پارٹی نے نمایاں کامیابی حاصل کی تھی ۔ عوامی نیشنل پارٹی سے نکلنے والوں کو بھی دوسری جماعتوں میں قرار نہ آیا اور نہ ہی کوئی دھڑا دیرپا ثابت ہوا۔
تاریخ نے بار بار یہ عجیب صورتحال بھی ملاحظہ کی کہ اصل پارٹی سے علیحدہ ہونیوالے گروپ میں اس تعداد میں قدر آور شخصیات ہوتی تھیں کہ جن کے سامنے اصل پارٹی میں رہ جانے والے بظاہر کیڑے مکوڑے سے نظر آنے لگتے تھے لیکن چونکہ قیادت و اساس اپنی جگہ اور استقامت سے سرفراز تھی، اس لیے پھر یہی کیڑے مکوڑے، شیر اور شیروں کو گیدڑ بنتے تاریخ نے دیکھا۔ سندھی بلوچ پختون فرنٹ، پی پی ش ب، پیپلز پارٹی پیٹریاٹ کی مثالیں سامنے ہیں۔ اصل میں تمام جماعتوں نے عوام کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کیا، دودھ وشہد کی نہر بہانے کے بڑے بڑے دعوے کیے گئے، مگر ہربار عوام کے ساتھ دھوکا ہوا، عوام جب ان کی حقیقت سمجھے تو ان پر حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ گئے۔
مسلم لیگ، پیپلز پارٹی جیسی پرانی اور تحریک انصاف جیسی نئی جماعت نے یکساں طور پر عوام کو مایوس کیا، اس اعتبار سے کیسے یقین کرلیا جائے کہ مصطفیٰ کمال کی جماعت مذکورہ جماعتوں سے مختلف ثابت ہوسکے گی جب کہ یہ جماعت تو صدارتی نظام کی بات کررہی ہے جو تمام سیاسی جماعتوں کے لیے کسی صورت بھی قابل قبول نہیں ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ ایک مضبوط و منظم جماعت ہے، جتنا کچھ اب تک متحدہ کے ساتھ کیا گیا ہے اس کا نصف بھی اگر کسی دوسری جماعت کے ساتھ کیا جاتا تو اس کا شیرازہ بکھر کر رہ جاتا مگر ضمنی انتخابات میں متحدہ کی بار بارکامیابی ثابت کررہی ہے کہ اس کے قلعے میں کوئی دراڑیں نہیں پڑی ہیں، یہاں کے لوگ اور ان لوگوں کے ووٹ آج بھی متحدہ کے ساتھ ہیں۔
خدارا، خواب کے جزیروں سے نکل کر حقائق کی دنیا میں قدم رکھیے، مائنس الطاف فارمولا کبھی بھی کامیاب نہیں ہوسکتا،آپ کی یہی غلطیاں ہمیں مشرقی پاکستان کے قتل کا تحفہ دے چکی ہے جس کا زخم ابھی تک مندمل نہیں ہوسکا ہے، ملک دشمن عناصر ہماری سالمیت کے خلاف ہیں، دہشتگرد ہماری صفوں میں چھپ کر بیٹھے ہوئے ہیں، ایسے حالات میں قیام پاکستان کے لیے لازوال و ناقابل فراموش قربانیاں دینے والوں کی اولاد سے انتقام لینا کسی بھی صورت ملک کے لیے بہتر نہیں ہوسکتا۔
کراچی میں دہشت گردوں، جرائم پیشہ اور ٹارگٹ کلرزکے خلاف گزشتہ ڈھائی برس سے آپریشن ہورہا ہے،کسی بھی مسلح اور منظم فورس کے لیے کسی آپریشن کی کامیابی میں اتنا عرصہ بہت ہوتا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ تاثر پختہ ہوتا جارہا ہے کہ کراچی آپریشن یکطرفہ ہوکر رہ گیا ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ کراچی کے عوام کو ان کا حق حکمرانی دیا جائے، بااختیار مقامی حکومتی نظام بنایا جائے، شہری انتظام کے شعبہ جات شہری حکومت کے حوالے کیے جائیں۔ ماضی میں جو ہوا سو ہوا، مستقبل کا سوچیے،کراچی کی ترقی درحقیقت پاکستان کی ہی ترقی ہے۔