پاناما لیکس کمیشن کی تحقیقات میں مجھ پر کوئی الزام ثابت ہوا تو گھر چلا جاؤں گا وزیراعظم

پاناما لیکس کی تحقیقات کے لیے وزیراعظم کا چیف جسٹس پاکستان کو خط لکھنے کا اعلان۔


ویب ڈیسک April 22, 2016
ایک بار پھر خود کو اور اپنے خاندان کو احتساب کے لیے پیش کررہا ہوں، وزیراعظم کا قوم سے خطاب، فوٹو؛ پی آئی ڈی

UNITED NATIONS: وزیراعظم نوازشریف نے پاناما لیکس کے معاملے پر تحقیقاتی کمیشن کے لیے چیف جسٹس پاکستان کو خط لکھنے کا اعلان کردیا جب کہ ان کا کہنا ہے کہ تحقیقات میں مجھ پر کوئی الزام ثابت ہوا تو بلا کسی تاخیر کے گھر چلا جاؤں گا۔



وزیراعظم نواز شریف نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس دفعہ ایک نہایت اہم مسئلے پر آپ کو اعتماد میں لینا چاہتا ہوں، آپ جانتے ہیں کہ میری ساری زندگی کھلی کتاب کی طرح ہے، میں پاکستان میں پیدا ہوا، اسی کی گلیوں میں بچپن، لڑکپن، جوانی سب یہیں گزارا اور یہیں تعلیم حاصل کی، میری اولاد بھی پاکستان میں پیدا ہوئی اور سب کی پرورش بھی یہیں ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا پورا خاندان پاکستان کےساتھ دل و جان سے وابستہ ہے، فخر ہے کہ میں اس مٹی سے اٹھا ہوں اور ایک دن اسی مٹی میں چلا جاؤں گا۔



وزیراعظم کا کہنا تھا کہ مجھے وطن کی مٹی سے عشق ہے، پاکستانی ہونے کے ناطے میرا جینا مرنا پاکستان کے ساتھ ہے، میں نے تین دہائیوں میں بہت نشیب و فراز دیکھے، ان سب میں سب سے زیادہ تکلیف دہ وقت وہ تھا جب مجھے جلا وطن کرکے پاکستان سے دور رہنے پر مجبور کیا گیا اور خدا جانتا ہے کہ ان 8 برسوں کا یک ایک لمحہ کس طرح وطن کو یاد کرکے گزارا جس کے بعد خدا وہ وقت لایا جب نہ صرف میں وطن واپس آیا بلکہ عوام نے مجھ پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے تیسری مرتبہ خدمت کی ذمہ داری سونپی۔



وزیراعظم نے کہا کہ ایک معاملے کو بنیاد بنا کر ہوس اقتدار کی خاطر ایک مرتبہ پھر ملک کو غیر مستحکم کرنے کوشش کی جارہی ہے، پاناما لیکس کے منظر عام پر آنے کے بعد فوری قوم کو اعتماد میں لیا، میری ذات پر کسی قسم کا کوئی الزام نہیں، مگر میں نے ایک جمہوری ملک کے وزیراعظم ہونے کی ذمہ داری نبھاتے ہوئے آزاد و غیر جانبدار کمیشن بنانے کا اعلان کیا جو سپریم کورٹ کے ریٹارئرڈ جج پر مشتمل ہو وہ اس معاملے کی پوری جانچ کرے تا کہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے۔



وزیراعظم نوازشریف کا کہنا تھا کہ پاناما لیکس کو بنیاد بنا کر جو الزامات لگائے جارہے ہیں وہ کئی برس پرانے ہیں، یہ وہی کیس ہیں جن کی مکمل چھان بین پہلے 90 کی دہائی میں کی گئی، اس کے بعد پرویز مشرف کی غیر آئینی حکومت نے باریک بینی سے اس کی چھان پھٹک کی مگرا خدا کے فضل سے بد عنوانی تو دور کی بات ایک پائی کی غیر قانونی ٹرانزکشن بھی ثابت نہ کرسکے، ہم پر کسی کرپشن، کک بیک، کمیشن کا مقدمہ نہیں بنا سکے لیکن اس کے باوجود ایک مرتبہ خود کو اور اپنے خاندان کو احتساب کے لیے پیش کرتا ہوں۔



وزیراعظم نے کہا کہ جمہوری حکومتوں کی یہی روایت ہے، ہمارے اثاثوں کی تفصیلات قوم کے سامنے ہیں، ہمارا خاندان اس وقت سے ٹیکس دے رہا ہے جب اس کے ہجے بھی کسی کو نہیں آتے تھے اور یہ بھی ہماری حکومت کا ہی کریڈٹ ہے کہ ہم نے پہلی مرتبہ ٹیکس پیئرز ڈائریکٹری شائع کی۔ انہوں نے کہا کہ میرے علم میں جب یہ بات آئی کہ ارکان پارلیمنٹ کے اثاثوں کی تفصیلات الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ سے ہٹا دی گئی ہیں تو میں نے وزیرخزانہ کو ہدایت دی کہ یہ سب جاننا عوام کا حق ہے لہذا اثاثوں کی تفصیلات ویب سائٹ پر دوبارہ شائع کی جائیں۔



وزیراعظم کا کہنا تھا کہ بہتان لگانے والوں نے یہاں تک کہا کہ وہ نوازشریف سے زیادہ ٹیکس دیتے ہیں، ان لوگوں نے اس تواتر سے جھوٹ بولا کہ لوگ اسے سچ سمجھنے لگے لیکن میں انہیں بتانا چاہتا ہوں کہ پاکستان کے عوام باشعور ہیں، انہوں نے ہمیشہ اپنے ووٹ کے ذریعے ان جھوٹ اور الزمات کو شکست دی، اس کے لیے میں عوام کو سلام پیش کرتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ اگر کسی کے پاس کوئی ثبوت ہیں تو عوام کے سامنے پیش کریں تاہم اگر کمیشن کے ذریعے مجھ پر الزام ثابت ہوا تو ایک لمحہ ضائع کیے بغیر گھر چلا جاؤں گا۔



وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان کا میڈیا ایک ذمہ دار اور آزاد میڈیا ہے جس نے اپنے آپ کو آمریت کی زنجیروں سے آزاد کیا، میں ان سے درخواست کرتا ہوں کہ الزامات کی تحقیقات کرلیا کریں کیوں کہ میڈیا کے کئی لوگ بھی بہتان تراشی اور جھوٹے الزامات کا شکار ہوجاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آپ کسی پر بھی الزام لگانے سے پہلے خود کواس جگہ رکھ کر سوچیں کہ ہمیں کیا لکھنا اور کیا دکھانا چاہیے لیکن افسوس کہ ابھی کمیشن بنا نہیں اور کچھ لوگوں نے فیصلہ سنانا بھی شروع کردیا۔ انہوں نے کہا کہ جمہوریت میں نمایندوں سے سوال پوچھنا عوام کا حق ہے، ہم نے ماضی میں بھی ان تمام سوالوں اور الزامات کا جواب دیا اور اب بھی دیں گے کیوں کہ جواب دینا حکمران کا فرض ہے لیکن کچھ سوال ہمارے بھی ہیں اور ہمیں بھی ان کا جواب ملنا چاہے۔



وزیراعظم نے کہا کہ سعودی عرب میں فیکٹری لگانے کا سوال کرنے والے یہ تو بتائیں ہمیں سعودی عرب کس نے بھیجا، قانون کےعملدرآمد کا ڈھنڈورا پیٹنے والے یہ بتائیں ہمیں کیوں جلا وطن کیا گیا، کس قانون کے تحت ایک منتخب وزیراعظم کو کال کوٹھری میں پھینکا گیا، بتایا جائے کہ جب ہمیں جلاوطن کیا گیا تو اس وقت سپریم کورٹ کو کسی نے کیوں نہ جگایا، ہمارے گھروں پرتالے پڑے تو لوگوں کی زبانوں پر بھی تالے پڑگئے تھے اور مجھ پر ہائی جیکنگ کا جھوٹا مقدمہ بنانے کا حساب کون دے گا۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے تو قید ، جلاوطنی ، صعوبتیں کاٹ کر ناکردہ گناہوں کا کفارہ ادا کرنے کی کوشش کی لیکن اخلاقیات کا سبق پڑھانے والے یہ تو بتائیں آئین کی کون سی شق پڑھ کرانھوں نے فوجی آمر کی بیعت کی۔



وزیراعظم کا کہنا تھا کہ آئین توڑنے سے لے کر 17ویں ترمیم کی منظوری تک ساتھ دینے والوں کا احتساب ہونا چاہیے جب کہ ان تمام باتوں کے باوجود تحقیقاتی کمیشن بنانے کو تیار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہماری حکومت کرپشن کے خاتمے اور گڈگورننس و شفافیت پر یقین رکھتی ہے، یہی وجہ ہے کہ بین الاقوامی اداروں نے بھی ہماری شفاف گورننس کا اعتراف کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ پر حملہ کرنے والے آج قانون کی بالادستی کا راگ آلاپ رہے ہیں اور جن لوگوں کے خلاف بین الاقوامی عدالتوں نے فیصلے سنائیں وہ ہم سے حساب مانگنے آئیں ہیں جب کہ ایک کمیشن 2014 میں بھی بنایا تھا، جس نے کنٹینر پر کھڑے ہو کر لگائے گئے الزامات کی تحقیقات کیں، کمیشن نے پوری تحقیقات کے بعد انہیں جھوٹ کا پلندہ قرار دے کر رد کردیا اور قوم اس بات سے آگاہ ہے، کیا الزامات لگانے والے نے اتنی اخلاقی جرت دکھائی کہ اس جھوٹ پر معافی مانگتے۔



وزیراعظم نے کہا کہ ہمارا خاندان 1972 سے ایک ایک پائی کا حساب دیتا رہا ہے اور دیتا رہے گا، لیکن دھرنے کے سرکس کے دوران اس ملک کو اربوں، کھربوں روپوں کا نقصان پہنچایا گیا اس کا حساب کون دیگا اور نوجوانوں کے ذہن میں اس ملک کے اداروں کی بدنما تصویر کھینچی گئی اس کا حساب کون دے گا۔ انہوں نے کہا کہ یہ وہ فاشسٹ رویہ ہے جس کےتحت لوگ ملک کوتباہ کرنے کے درپے ہیں جب کہ میں تو اپنی وزارت عظمیٰ کے اس تنخوا کا حساب دینے کو بھی تیار ہوں جو میں نے کبھی نہیں لی، لیکن کاروبار نہ کر کے بھی پرائیویٹ جہازوں میں پھرنے والوں سے حساب کون لے گا۔



وزیراعظم کا کہنا تھا کہ حکومت اپنے 5 سال پورے کرے گی تو اپنے وعدے کے مطابق معاشی ترقی کے اہداف عوام تک پہنچانے میں کامیاب ہوگی اور یہی وجہ ہے کہ ہوس اقتدار میں مبتلا لوگوں کو اپنی شکست واضح نظر آرہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ دکھ اس بات کا ہے قو م کا قیمتی وقت ضائع کرکے نقصان پہنچایا جارہا ہے لیکن اس کا حساب بھی عوام نے ہی لینا ہے ، دراصل یہ چاہتے ہیں عوام کے مسائل حل کرنے کے بجائے میں تمام تر وقت ان جھوٹوں الزمات کی وضاحت میں لگا دوں لیکن اس سے صرف ملک کو نقصان ہورہا ہے، مگر ہم پاکستان کو خوشحال بنانا چاہتے ہیں۔



وزیراعظم نے کہا کہ عوامی سطح پر کوئی مطالبہ نہ ہونے کے باجود ہم نے آزاد کمیشن بنانے کا فیصلہ کیا اور میں ان گیدڑ بھبکیوں سے ڈرنے والا نہیں، میں نے کبھی خوف کی سیاست نہیں کی، خدا پر ایمان ہے جس کی بدولت پاکستان کے باشعور عوام نے تیسری بار منتخب کیا اور اللہ کے بعد صرف عوام کو جوابدہ ہوں۔ انہوں نے کہا کہ میں اہم اعلان کرنا چاہتا ہوں کہ میں چیف جسٹس پاکستان محترم انور ظہیر جمالی کو خط لکھوں گا جس میں ان سے پاناما لیکس کے معاملے کی تحقیقات کے لیے کمیشن تشکیل دینے کا کہوں گا اور چیف جسٹس کی سربراہی میں کمیشن کی سفارشات قبول کروں گا جب کہ مجھ پر الزامات ثابت نہ ہوئے تو الزام لگانے والے قوم سے معافی مانگیں گے اور یہ میں عوام پر چھوڑتا ہوں کہ وہ انہیں معاف کریں گے یا نہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں