زمانہ قدیم کی لیکس افشا کرنے والا دنیا کا پہلا وسل بلوئر

ایک غلام کی داستان، اس نے ملک وقوم سے غداری کرنے والے آقا کے مذموم عزائم سب پر آشکارا کر دئیے


ایک غلام کی داستان،اس نے ملک وقوم سے غداری کرنے والے آقا کے مذموم عزائم سب پر آشکارا کر دئیے ۔ فوٹو : فائل

لاہور: ماہ اپریل کے پہلے ہفتے ایک پُراسرار اجنبی کی وساطت سے پانامی لا فرم' موساک فونسیکا کے خفیہ راز طشت از بام ہوئے' تو پوری دنیا میں زلزلہ سا آگیا۔ کرپشن کے انکشافات نے دو وزرائے اعظم کو گھر جانے پر مجبور کر دیا اوردیگر حکمرانوں کے سر پر ''استعفیٰ دو'' کی تلوار لٹکنے لگی۔کسی شخص یا کمپنی کے بالعموم منفی خفیہ راز افشا کرنے والا دور جدید کی اصطلاح میں ''وسل بلوئر'' (whistleblower) کہلاتا ہے۔ امریکا اور برطانیہ میں سپاہی اپنے پاس سیٹی رکھتے ہیں۔ جب وہ کوئی غلط کام ہوتا دیکھیں' تو فوراً سیٹی بجاتے ہیں تاکہ دوسرے ہوشیار ہو جائیں۔ وسل بلوئر کی اصطلاح اسی عمل سے ماخوذ ہے۔ اردو میں تو انگریزی اصطلاح ہی مستعمل ہوئی مگر فارسی داں وسل بلوئر کو ''افشاگر'' اور عرب بھائی ''کاشف الفساد'' کہتے ہیں۔

وسل بلوئر یا افشا گر ایک دلیر،باضمیر اور باشعورکردار ہے کیونکہ وہ کسی شخص یا کمپنی کو غلط کاری کرتا دیکھے تو خاموش نہیں رہتا، ''سب چلتا ہے''والا منفی رویہ نہیں اپناتا اور میڈیا کے پاس پہنچ جاتا ہے۔ جیسے جرم سرزد ہونے پر سپاہی سیٹی بجاتا ہے' ویسے ہی وہ میڈیا کو سچائی سے آگاہ کرتا ہے۔ طاقتور میڈیا پھر گناہ گار کا جرم پوری دنیا پر آشکارا کرنے لگتا ہے۔یہ میڈیا کا ایک مثبت روپ ہے۔

شر و خیر کی جنگ چونکہ ازل سے جاری ہے لہٰذا انسانی تاریخ میں کئی وسل بلوئر جنم لے چکے۔ دلچسپ بات یہ کہ مورخین کے مطابق دنیا کا پہلا وسل بلوئر ایک یونانی غلام تھا جس نے اپنے طاقتور مگر جاہ طلب و مغرور آقا کو قانون کے شکنجے تک پہنچا دیا۔اس داستان کا آغاز سپارٹا سے ہوتا ہے۔ 900ق م (قبل مسیح) تا 192ق م قائم رہنے والی یہ یونان کی سب سے بڑی قدیم ریاست تھی۔ اسی لیے فارسیوں (ایرانیوں) کے ساتھ یونانیوں کی لڑائیوں میں اسی ریاست نے کلیدی کردار ادا کیا۔ سپارٹا کی خصوصیت یہ ہے کہ وہاں سات سو سال تک ''دو بادشاہ '' پہلو بہ پہلو حکومت کرتے رہے۔ ان کا تعلق اگید (Agiad) اور یوریپونٹیڈ (Eurypontid) خاندانوں سے تھا۔ روایت کی رو سے یہ دونوں خاندان مشہور یونانی ہیرو' ہرکولیس کے دو بیٹوں کی اولاد تھے۔

سپارٹا میں دونوں بادشاہ یکساں قوت رکھتے تھے' مگر ان پر نظر رکھنے کی خاطر ایک ''مجلس بزرگاں'' بھی موجود تھی۔ پانچ بزرگ جو ''ایفور''(Ephor) کہلاتے' اس مجلس کے بنیادی رکن تھے۔جبکہ وقتاً فوقتاً دیگر بزرگ بھی اس میں شامل ہوتے رہتے۔ بادشاہوں اور مجلس بزرگاں کی قوت برابر تھی،بلکہ بزرگ اکثر اوقات ان پہ حاوی ہو جاتے۔ مجلس کے پانچ بزرگوں کا انتخاب باشندگانِ سپارٹا کرتے تھے۔

ہماری داستان کے کردار' پاؤ سنیاس (Pausanias) کا تعلق اگید شاہی خاندان سے ہے۔ وہ سپارٹا کے بادشاہ 'انکسا ندریداس دوم ( دور حکومت 560ق م تا 520ق م)کا پوتا تھا۔ انکسا ندریداس دوم کی دو بیویاں تھیں۔پہلی بیوی کا بیٹا' کلیومینس اول اس کا جانشین بنا۔ دوسری بیوی سے تین بیٹے تولد ہوئے: لیونیداس ' ڈوریوس اور کلیومبروتس۔ پاؤ سیناس تیسرے بیٹے کا فرزند تھا۔

کلیومینس اول پُراسرار انداز میں مارا گیا تو سوتیلا بھائی ' لیونیداس اول تخت نشین ہوا۔ستمبر480ق م میں لیونیداس فارسی بادشاہ ' زر کیز اول کی فوج کا مقابلہ کرتے ہوئے مارا گیا۔ یہ ایرانی بادشاہ عربی و فارسی میں خشابارشا اول کہلاتا ہے۔لیونیداس کا خاتمہ ہوا تو ڈوریس مر چکا تھا۔ اسی لیے کلیومبروتس نیا بادشاہ بن گیا۔ اس کا دور حکومت (520ق م تا 490ق م) فارسیوں سے لڑائیاں کرتے گزرا۔ جب وہ طبعی موت مر ا' تو مجلس بزرگاں نے لیونیڈاس اول کے بیٹے' پلیسٹرخس کو نیا بادشاہ بنا دیا۔

پلیسٹرخس ابھی کم سن تھا لہٰذا مجلس نے اس کے چچا' پاؤ سنیاس کو وصی یا مختار (Regent) بنا ڈالا۔گویا چچا بھتیجے کی طرف سے حکومت کرنے لگا۔ پاؤ سنیاس ایک قابل جرنیل تھا۔ اس نے اپنے دور اقتدار میں فارسیوں کو کئی لڑائیوں میں شکست دی۔ ان کامیابیوں نے اسے مغررو اور ضدی بنا دیا۔وہ ہر معاملے میں من مانی کرنے لگا۔اس بد روش کی وجہ سے دیگر یونانی ریاستوں کے حاکم اس سے نفرت کرنے لگے۔جب مجلس بزرگاں کو اس کے ہٹیلے پن اور غرور کا علم ہوا' تو انہوںنے پاؤسنیاس کو وصی کے عہدے سے ہٹا دیا۔پاؤ سنیاس خون کے گھونٹ پینے کے سوا کچھ نہ کر سکا ۔وہ مجلس کے خلاف بغاوت کرتا' تو اسے سبھی اہل سپارٹا سے ٹکر لینا پڑتی۔

اقتدار سے محرومی نے پاؤ سنیاس کو ریاست میں عام آدمی بنا دیا۔ یہ بات اسے بہت کھلی ۔ کہاں تو وہ بحیثیت وصی بادشاہوں جیسی شان و شوکت کی زندگی گزار رہا تھا، کہاں اب وہ گلیوں میں عام آدمی کی طرح گھومنے پھرنے لگا۔ اقتدار کا نشہ جس پر ایک بار چڑھ جائے' وہ کم ہی اترتا ہے ۔ چناںچہ پاؤ سنیاس سپارٹا کا اکلوتا بادشاہ بننے کے خواب دیکھنے لگا۔ اس نے اپنے خوابوں کو تعبیر دینے کی خاطر یونانیوں کے دشمن' فارسیوں سے ہاتھ ملا لیے۔ وہ فارسی بادشاہ کو سپارٹا پر حملے کے لیے ابھارنے لگا۔ مدعا یہ تھا کہ فارسی فوج کی واپسی کے بعد وہ سپارٹا کا بلا شرکت غیرے حکمران بن جائے۔ مگر پاؤسنیاس اپنے عزائم خفیہ نہ رکھ سکا۔ سپارٹا میں یہ افواہ پھیل گئی کہ وہ فارسیوں سے ساز باز کرنے میں مصروف ہے۔

اس زمانے میں یونان کا سب سے بڑا دشمن فارس تھا۔ لہٰذا دشمنوں سے دوستی کی پینگیں بڑھانے کو غداری سمجھا گیا جس کی سزا موت تھی۔ مگر مجلس بزرگاں کے ارکان پھونک پھونک کر قدم اٹھانے والے انسان تھے۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ محض افواہوں کی بنیاد پر شاہی خاندان کے ایک معزز رکن کو پھانسی پر چڑھا دیں۔ انہیں کوئی ٹھوس ثبوت درکار تھا۔ دنیا کے پہلے وسل بلوئر ہی نے انہیں یہ ثبوت مہیا کیا۔

پاؤسنیاس نے فارسی حکومت سے رابطہ رکھنے کے لیے خصوصی پیغام بر مقرر کررکھے تھے۔ یہ سبھی اس کے غلام تھے جن پر وہ بے پناہ اعتماد کرتا تھا۔ ان غلاموں میں آرگیلوس نامی غلام اس کا سب سے زیادہ چہیتا تھا۔ ایک دن آرگیلوس کے ہاتھ ہی پاؤسنیاس نے ایک اہم پیغام فارسی بادشاہ کو بھجوایا۔

سپارٹا کے سابق بادشاہ نے اپنے غلاموں کو اس امر سے بے خبر رکھا تھا کہ وہ فارسیوں کے ساتھ مل کر کیا کھچڑی پکارہا ہے۔ تاہم آرگیلوس اور چند دوسرے غلام اپنے آقا کی سرگرمیوں کو شک کی نظر سے دیکھنے لگے تھے۔ اسی لیے اب آرگیلوس نے سوچا کہ وہ خط کھول کر پڑھ ہی لے کہ آخر اس میں کیا لکھا ہے۔

پاؤسنیاس کی بدقسمتی کہ اس نے خط میں فارسی بادشاہ کو پھر سپارٹا پر حملے کی دعوت دے رکھی تھی۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ اس نے معاملہ خفیہ رکھنے کی خاطر فارسی بادشاہ کو مشورہ دیا تھا کہ وہ پیغام بر کو خط پڑھتے ہی موت کے گھاٹ اتار دے۔

یہ خط پڑھنے کے بعد آرگیلوس کے تن بدن میں آگ لگ گئی۔ آرگیلوس نے سوچا بھی نہ تھا کہ آقا اس کی خدمات اور وفاداری کا یہ بھیانک صلہ دے گا۔ غصے میں آکر اس نے فارس کی راہ چھوڑی اور سیدھا مجلس بزرگاں کے پاس پہنچ گیا۔ ارکان مجلس نے خط پڑھا، تو وہ بھی سناٹے میں آگئے۔ بحث کے بعد پاؤسنیاس کو گرفتار کرنے کا فیصلہ ہوا۔



کچھ ہی دیر میں ارکان مجلس بزرگان سپاہیوں کو لیے پاؤسنیاس کے محل پہنچ گئے۔ جب پاؤسنیاس کو ان کے آنے کی خبر ملی،تو چھٹی حس نے اسے خبردار کردیا کہ اس کی سازش کا بھانڈا پھوٹ چکا۔ لہٰذا وہ اپنے محل سے فرار ہوگیا۔وہ سیدھا شہر میں واقع ایتھینا دیوی کے مندر پہنچا اور وہاں پناہ لے لی۔

سپارٹا کے شہری ایتھینا دیوی کے مندر میں کشت و خون سے پرہیز کرتے تھے۔ اسی لیے بعض اوقات مجرم سنگین جرم کرکے مندر میں چھپ جاتے۔انھیں علم ہوتا کہ وہاں سپاہی انھیں قتل نہیں کر سکتے۔ پاؤسنیاس کو مندر میں داخل ہوتے بہت سے لوگوں نے دیکھ لیا،لہذا اس امر کی خبر مجلس بزرگان تک پہنچ گئی۔

مجلس بزرگان چاہتی تھی کہ سابق بادشاہ خود اپنے آپ کو قانون کے حوالے کردے۔لیکن ایک کمرے میں بند پاؤسنیاس نے باہر نکلنے سے انکار کر دیا۔آخر فیصلہ ہوا کہ کمرے کے دروازے پر اینٹیں چن دی جائیں تاکہ پاؤسنیاس فرار نہ ہوسکے۔ شاید یہ پہلا موقع تھا جب دیوار چن کر ایک شہزادے کو قیدی بنایا گیا۔ صدیوں بعد ہندوستان میں ایک حسین کنیز، انارکلی کو بھی اس عذاب جاں سے گزرنا پڑا ۔

سپارٹا کی مجلس بزرگاں کو یقین تھا کہ بھوک پیاس کے ہاتھوں مجبور ہوکر پاؤسنیاس جلد ہتھیار ڈال دے گا۔ مگر سابق بادشاہ بھی کسی قیمت پر سر جھکانے کو تیار نہ ہوا۔ اسے اپنی انا اور نام نہاد غرور جان سے بھی زیادہ پیارا تھا۔ چناں چہ وہ بھوک پیاس سے مندر کے اندر تڑپتا رہا مگر اس نے مجلس زبرگاں سے رحم کی درخواست نہ کی۔دنیا میں ایسے سرپھرے بھی گذرے ہیں۔

آخر پانچویں دن ارکان مجلس دیوار توڑ کر اندر پہنچے۔ دیکھا کہ بھوکا پیاسا سابق بادشاہ ایڑیاں رگڑ رہا ہے۔ موت کا فرشتہ اس کے سرہانے براجمان تھا۔ اس عالم جان کنی میں بھی پاؤسنیاس نے معافی نہ مانگی اور کچھ دیر بعد دنیا سے رخصت ہوگیا۔ عجیب خود پسند، ہٹیلا اور انا پسند انسان تھا۔یوں سابق بادشاہ کا چہیتا غلام اس کی موت کا سامان بن گیا۔ مگر پاؤسنیاس نے اپنی قبر خود کھودی تھی۔ پہلے جاہ طلبی نے اسے غداری کرنے پر اکسایا، پھر وہ اپنے وفادار غلام کو اپنی خواہشات کی بھینٹ چڑھانے پر تل گیا۔ مگر قدرت الٰہی کے کاموں میں کون دخل دے سکتا ہے؟

آرگیلوس کو آقا کے خط سے تلخ حقیقت معلوم ہوئی، تو وہ دنیا کا پہلا وسل بلوئر بن گیا۔ اس نے سیٹی بجائی اور آقا کے مذموم عزائم کا پردہ چاک کردیا۔ تاریخ سپارٹا اس سوال پر خاموش ہے کہ غدار پاؤسنیاس کا منصوبہ ''لیک'' کرنے پر آرگیلوس کو کیا کسی انعام سے نوازا گیا؟ ممکن ہے کہ اپنے آقا کی ملک دشمن سرگرمیاں عیاں کرنے پہ بطور تحفہ اسے آزادی کا پروانہ مل گیا ہو۔

رومی جمہوریہ کی ڈرامائی لیکس
یہ 63 قبل مسیح کی بات ہے، سیسرو( Cicero) کو احساس ہوا کہ رومی جمہوریہ ختم کرنے کے لیے سازش ہورہی ہے۔ مارکوس توبوس سیسرو (یا سیرون) قدیم رومی سلطنت کا ممتاز سیاست داں، خطیب اور فلسفی تھا۔ اسے یقین ہوگیا کہ اس کا معاصر سینٹر، کاتلین(Cataline) اس سازش کا سرغنہ ہے۔سیسرو سازش کی سن گن لینے کی کوشش میں لگ گیا، مگر وہ سرتوڑ سعی کے باوجود سازشیوں کے خلاف ٹھوس ثبوت حاصل نہ کرسکا۔ پھر ایک دن کرشمہ ہوگیا۔ اسے اپنے گھر کے دروازے پر کاغذوں کا پلندہ ملا۔ یہ کاتلین کے حامیوں کے خطوط تھے۔ ان خطوط میں سازش کی تفصیلات درج تھیں۔

سیکڑوں خط سیسروکے ہاتھ آئے، تو وہ خوشی سے پھولے نہ سمایا۔ اب وہ کاتلین کے خلاف عملی قدم اٹھا سکتا تھا۔ لیکن آج تک کسی کو معلوم نہیں ہو سکا کہ سیسرو کے در پر خطوط کون رکھ گیا۔گویا اس واقعے کو زمانہ قدیم کی ''پانامہ لیکس'' سمجھئے۔بس فرق یہ ہے کہ اس واقعے کے ذریعے اجنبی یا اجنبیوں نے دستاویزی لیکس سے خفیہ سازش کرنے والی کئی اہم شخصیات طشت ازبام کردیں۔

سیسرو یہ خطوط رومی سینٹ میں لے گیا۔ اس نے انہی دستاویز کی بنیاد پر کاتلین کو مجرم قرار دیا۔ ادھر کاتلین کو علم ہوا کہ بغاوت کا منصوبہ افشا ہوچکا، تو وہ حامیوں سمیت روم سے فرار ہوگیا۔ کچھ عرصے بعد اس کا رومی جمہوریہ کی فوج سے مقابلہ ہوا۔ جنگ میں کاتلین اور اس کے تمام حامی مارے گئے۔ یوں ایک پُراسرا ر اجنبی کی لیکس اپنے زمانے کے مشہور رومی سیاست داں اور جرنیل کی موت کا سبب بن گئیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں