کرپشن کے ناسورکا خاتمہ ضروری ہے

پاکستان میں بدعنوانی کے ناسور کو ختم کرنے کے لیے کثیرالجہتی عمل کا آغاز ہونا چاہیے


Editorial April 23, 2016
ملکی دولت کا رخ بیرون ملک کی طرف ہے۔ ملک میں غربت اور بدانتظامی بہت زیادہ بڑھ چکی ہے، فوٹو : فائل

پاک فوج کے ایک لیفٹیننٹ جنرل، ایک میجر جنرل،3بریگیڈئیرز اور ایک لیفٹیننٹ کرنل کو کرپشن الزامات پر برطرف کر دیا گیا، یہ برطرفیاں پاک فوج کی داخلی تحقیقات کی روشنی میں کی گئی ہیں۔ ان فوجی افسران سے سرکاری اعزازات اور پلاٹس، زرعی زمین و دیگر تمام مراعات واپس لے لی گئی ہیں تاہم انھیں پنشن اور میڈیکل کی سہولیات حاصل رہیں گی۔ اخباری اطلاعات کے مطابق برطرف کیے گئے تمام افسران فرنٹیئر کور بلوچستان میں خدمات سر انجام دیتے رہے جب کہ ان سے بدعنوانی کے ذریعے کمائی گئی رقم وصول کر لی گئی ہے۔

آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے چند روز قبل سگنل رجمنٹل سینٹر کوہاٹ کے دورے کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ کرپشن کے خاتمے تک دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف جنگ پائیدار امن اور استحکام نہیں لا سکتی، پاکستان کی یکجہتی، سالمیت اور خوشحالی کے لیے سب کا بلاتفریق احتساب ضروری ہے۔ انھوں نے احتساب کے سلسلے میں کی جانے والی ہر با مقصد کوشش کی مکمل حمایت کا بھی اعلان کیا تھا۔ آرمی چیف کرپشن کے خاتمے کا مطالبہ اس وقت سے کر رہے ہیں جب سے دہشت گردوں کے خلاف آپریشن ضرب عضب کا آغاز کیا تھا۔ نیشنل ایکشن پلان میں بھی یہ طے کیا گیا تھا کہ کرپشن کا خاتمہ ترجیحی بنیادوں پر کیا جائے گا کیونکہ دہشت گردوں کے وسائل کا بڑا حصہ کرپشن کی رقم سے آتا ہے۔

دہشت گردوں کے سرپرست کرپشن کی رقم سے ان کی مدد کرتے ہیں۔یہ بات کسی حد تک حقیقت بھی ہے کیونکہ فنانسنگ کے بغیر دہشت گردوں کے گروپوں کو آپریٹ کرنا ممکن نہیں ہے۔ دہشت گردوں کی فنانسنگ یقیناً غیر قانونی ذرایع سے ہی ممکن ہوتی ہے۔ جنرل راحیل شریف نے جب سے آرمی چیف کا عہدہ سنبھالا ہے وہ کہتے ہیں کہ دہشت گردی اور کرپشن کے خلاف وہ زیرو ٹالرنس کی پالیسی پر یقین رکھتے ہیں۔ کرپشن کے خلاف ان کا یہ بیان پہلا نہیں تھا مگر موجودہ اظہار خیال اس لیے زیادہ اہمیت اختیار کر گیا کہ پانامہ لیکس میں وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کے بچوں کے نام آگئے۔

اس پر پاکستان کی سیاست میں ہلچل پیدا ہوئی اور اس معاملے کی تحقیقات کے مطالبات بھی شروع ہو گئے۔بہر حال یہ معاملات ابھی چل رہے ہیں ۔ادھر جمعرات کو 2جنرلوں سمیت 6فوجی افسروں کی کرپشن کے الزامات پر برطرفی سے یہ بات ثابت ہو گئی ہے کہ آرمی چیف بلاتفریق احتساب کے حامی ہیں اور مبصرین کے مطابق انھوں نے اس عمل کا آغاز اپنے گھر سے کیا ہے۔

اس سے پہلے این ایل سی میں کرپشن کے الزامات کے تحت بھی چند فوجی افسروں کے خلاف کارروائی ہو چکی ہے۔ امکانات ہیں کہ فوج اپنے ادارے میں کرپشن کے خلاف اقدامات جاری رکھے گی۔اس سے یہ حقیقت بھی واضح ہوتی ہے کہ پاک فوج کااحتساب کا انٹرنل سسٹم بڑا فعال اور بااختیار ہے۔ اب قوم کی نظریں اپنی سیاسی قیادت پر لگی ہوئی ہیں کہ وہ اس طرف کب اور کتنی پیشرفت کرتی ہے۔ بے یقینی کی موجودہ صورت حال کا خاتمہ بھی اسی صورت ہو سکتا ہے کہ سیاسی قیادت بلاتفریق احتساب کے لیے بلا تاخیر اقدامات کرے۔ ایسا کرنا پاکستان کی بقا اور سلامتی کے لیے انتہائی ضروری ہے۔

پاکستان میں بدعنوانی کے ناسور کو ختم کرنے کے لیے کثیرالجہتی عمل کا آغاز ہونا چاہیے۔ ہمارے ہاں اکثر اوقات کہا جاتا ہے کہ سرکاری اداروں میں نچلی سطح پر بہت کرپشن ہے، بے شک یہ بات کسی حد تک سچ ہے، سرکاری اداروں میں چھوٹے ملازمین بھی کرپشن میں ملوث ہوتے ہیں لیکن ان چھوٹے ملازمین کی بدعنوانی بھی چھوٹی یعنی چند سو روپوں سے لے کر چند ہزار روپے تک ہوتی ہے، زیادہ سے زیادہ کوئی چند لاکھ کی ہیرا پھیری کر لے گا۔

تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ بدعنوانی اور کرپشن کا حجم اوپری سطح پر بہت زیادہ ہے، کرپشن کا دائرہ پوری سرکاری مشینری پر محیط ہے، حتیٰ کہ فوج اور عدلیہ بھی اس سے محفوظ نہیں، ادھر سیاستدان ، پارلیمنٹیرینز، وزراء وغیرہ بھی بدعنوانی میں ملوث ہوجاتے ہیں، ترقیاتی کاموں کے ٹھیکے ،ملازمتوں کے کوٹے اور دیگر معاملات میں کمیشنوں اور بدعنوانیوں کی باتیں گاہے بگاہے منظرعام پر آتی رہتی ہیں۔

ان طاقتور افراد کی بدعنوانی چند ہزار یا چند لاکھ روپے تک نہیں بلکہ کروڑوں اور اربوں روپے تک ہوتی ہے، اگر پاکستان میں بدعنوانی کا خاتمہ کرنا ہے تو اسے اعلیٰ سطح پر ختم کرنا ہو گا۔ایسا کرنا اب اس لیے بھی ضروری ہو گیا ہے کہ پاکستان کا نظام شکست و ریخت کا شکار ہو رہا ہے۔عوامی فلاح کے ادارے مفلوج ہو چکے ہیں۔ ملکی دولت کا رخ بیرون ملک کی طرف ہے۔ ملک میں غربت اور بدانتظامی بہت زیادہ بڑھ چکی ہے۔ ان معاملات کو صحیح راستے پر ڈالنے کے لیے کرپشن کے ناسور کا خاتمہ ضروری ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں