ارتقا کو اور تیز کرو
بہت سست رفتاری سے وہ آگے بڑھے کہ بالآخر بارش تھم جائے گی، بات بیٹھ جائے گی اور اس طرح اس ملک میں ہوتا رہا ہے
پورا ملک بحث کی زد میں ہے۔ پانامہ لیکس سے لے کر بعض اداروں کی بربادیوں تک، رازداریوں سے لے کر راہ داریوں تک۔ جہاں جو چار بیٹھے تو بحث کوئی اور تھی مگر آخر میں بحث نے خود ہی اپنی راہ ادھر کر لی۔ سیاستدانوں کی نااہلیاں کہیں یا حکمرانوں کی ، آپ اس مسئلے کو ٹرخاتے رہے کوئی من پسند جج کی سربراہی میں کمیشن بنانے کی باتیں کرتے رہے، اس لیے کہ لوگ سوئے ہوئے تھے، لوگ کھوئے ہوئے تھے اپنے غموں سے نڈھالی میں، بھوک کی بدحالی میں کہ ان سے اب کے سب کچھ چھن سا گیا ہے، وہ سب کچھ جس سے ان کو اچھی غذا ملتی ہو، ان کے بچوں کو تعلیم ملتی ہو، جہاں سے شعور ان کی دہلیزوں کو چھوتا ہے، جہاں سے بیداری آتی ہے یہ لوگ آئس لینڈ کے لوگوں کی طرح برازیل و یوکرین کی طرح گلیوں میں نہ آسکے، حکمرانوں نے پھر سے یہ سمجھا کہ انھیں کرپشن کرنے کا بھی مینڈیٹ ملا ہوا ہے۔
بہت سست رفتاری سے وہ آگے بڑھے کہ بالآخر بارش تھم جائے گی، بات بیٹھ جائے گی اور اس طرح اس ملک میں ہوتا رہا ہے، اس ملک کی تاریخ میں سو فسانے ایسے ہیں۔ اس ملک کی حقیقی شرح نمو کچھ اور ہے کاغذوں میں کچھ اور یہاں تعلیمی چوری، ذخیرہ اندوزی، ترقیاتی فنڈوں میں ہیر پھیر کرنا کوئی نئی بات نہیں۔ مگر یہ بات اس وقت کچھ اور موڑ لے کے بیٹھ گئی جب کہیں سے بازگشت سننے کو ملی کہ دہشت گردی کی کڑیاں کرپشن و بری حکمرانی سے جڑتی ہیں۔ اور پھر یہ کہ یہ خبر بھی آج کی اخباروں کی زینت ہے کہ فوج نے گیارہ سینئر افسروں کو بمعہ دو حاضر جرنیلوں کو کرپشن کے الزامات ثابت ہونے پر فوج سے نہ صرف فارغ کیا بلکہ سب کچھ ان سے واپس بھی لیا۔
جو بھی ہو سول قیادت پر پریشر بڑھ گیا اور اب اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا اس کا دارومدار بھی اسی بات پر ہے کہ حکمراں ہوش کے ناخن لیں۔ بلاامتیاز تفتیش کرائیں نہ صرف پانامہ لیکس کے حوالے سے بلکہ کس طرح کسی کو ہزاروں ایکڑ زمین ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی نے دی اس کی بھی اور اس احتساب کے عمل کو بہت تیز ہونا چاہیے۔ بلاتفریق ہونا چاہیے۔
رونے کو جی چاہتا ہے۔ امیروں و غریبوں کے درمیان جو دیوار بن گئی ہے۔ اتنی تیزی سے اور اتنی بھیانک شکل بن گئی ہے۔ ہیضہ و یرقان کے مرض، ڈائیریا اور گندے پانی کے پینے کی وجہ سے پھیلی ہوئی بیماریاں جن کو ''واٹر بارن ڈیزیز'' کہا جاتا ہے۔ ہمارے سندھ میں تو سرکاری اسپتال بند پڑے ہیں ۔ ہزاروں سرکاری اسکول بند پڑے ہیں۔ مگر بدنصیبی سے اس ملک میں جب بھی شب خون ہوا اس کا سبب یہ بتایا گیا کہ حکمرانوں نے اقربا پروری کی بازار لگا دی، وہ کرپشن کی جس کا کوئی حساب نہیں۔ ضیا الحق نے بھی ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت پر وائٹ پیپر چھپوایا۔ جنرل مشرف نے بھی اس قسم کا کام کیا اور ہمارا میڈیا جو ہمارا نہ تھا ، سب کچھ گول مول نظر آنے لگا مگر اس ملک میں جنرلوں کا احتساب نہ ہوسکا۔
آئین کا آرٹیکل چھ جوں کا توں سرد خانہ میں اب بھی پڑا ہوا ہے۔ ہاں پھر بھی جنرل راحیل نے جو جنرل کیانی سے کمانڈ اپنے ہاتھ میں لی اس کو یرقان کی آنکھ سے دیکھنا محض اس لیے کہ میں جمہوریت کا شیدائی ہوں اس لیے جمہوریت کی آڑ میں ہوئی کرپشن پر تو آنکھ بند کرسکتا ہوں اور ساتھ ساتھ فوج کے کسی اچھے قدم کو سراہنا بھی برا سمجھتا ہوں یہ زیادتی ہوگی۔
جنرل راحیل نے پاکستان کی فضا میں، بڑے سالوں کے بعد اعتماد بھرا ہے۔ ایک ایسا پاکستان جس کو مذہبی انتہا پرستی سے نجات دلانے میں سول قیادت ناکام ہوچکی تھی۔ مجھے وہ بیان بھی خادم اعلیٰ کا یاد ہے جب آپ نے لاہور کے ایک دھماکے کے ردعمل میں طالبان کو مخاطب ہوتے ہوئے یہ کہا تھا کہ ''ان کو ہمیں نشانہ نہیں بنانا چاہیے کہ ان کے نظریات اور ہمارے نظریات ایک جیسے ہیں'' ہمیں روز خبر ملتی تھی آج میاں صاحب وزیرستان میں آپریشن کرنے کا اعلان کریں گے۔ پھر وہ آج بھی گزر جاتی تھی جس نہج پر قائم علی شاہ نے کراچی کو پہنچایا تھا اس سے آپ سب واقف تھے۔
سرطان پاکستان کی رگوں میں پھیل گیا ہے۔ اس ملک کا واپس بحال ہونا کسی معجزے سے کم نہیں اور اس معجزے میں خلل تب آئے گا جب عزیز ہم وطنوں کہہ کے کوئی اقتدار پر قبضہ کرلے گا۔ ہاں لیکن جہاں تک اس انداز میں صفائی کا عمل جاری ہے، وہ بہت خوش آیند بات ہے۔
جب عوام بیدار نہ ہوں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ آپ کو کرپشن کرنے کی چھوٹ دیتا ہے اور اس کا مطلب یہ بھی ہرگز نہیں کہ جب شب خون لگنے کے خلاف لوگ سڑکوں پر نہ آئیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ لوگ آپ کو شب خون کی اجازت دے بیٹھے ہیں۔
میں نے بارہا لکھا ہوگا کہ پاکستان کا مسئلہ اشرافیہ ہے یہ اشرافیہ کا پاکستان ہے۔ ہم اس اشرافیہ کو قانون کے تابع لانا چاہتے ہیں، ہماری یہی التجا ہے۔ ہماری یہی تحریک ہے۔
پاکستان کی ہر راہ آئین سے تعین ہوتی ہے اور آئین ہی سے بڑھ کر پاکستان کے لیے کوئی اور راہ نہیں ہے۔ اب بھی آئین پر عمل نہیں ہو رہا اب بھی آئین میں ایسی چیزیں موجود ہیں جو آئین کے بنیادی ڈھانچے سے ٹکراؤ میں ہے۔ اب بھی انھی سیاستدانوں کا ڈیرہ ہے جو خود آمریت کی پیداوار ہیں۔
مگر جو سچ ہے وہ یہ ہے کہ آج اس قینچی کے ایک بلیڈ یعنی ملٹری قیادت نے اپنے ماضی کے تمام ریکارڈ توڑ دیے۔ اب باری اس کی ہے اگر وہ قینچی کا بلیڈ ہے جسے عرف عام میں سول قیادت کہا جاتا ہے۔
ہم نے بھی ایک تحریک قانون کی حکمرانی کے نام پر چلائی تھی وہ بھی آخر شب کے ہم سفر ''فیض نہ جانے کیا ہوئے'' کی مانند ہم سے کہیں بھٹک گئی، اگر فوج نے سفر صفائی کرنے کا شروع کیا ہے تو یہ سفر اب سب اداروں میں ہونا چاہیے۔
ہم کو تو انقلاب سحر بھی قبول ہے
لیکن شبِ فراق ترا کیا اصول ہے
(قتیل شفائی)
بہت سست رفتاری سے وہ آگے بڑھے کہ بالآخر بارش تھم جائے گی، بات بیٹھ جائے گی اور اس طرح اس ملک میں ہوتا رہا ہے، اس ملک کی تاریخ میں سو فسانے ایسے ہیں۔ اس ملک کی حقیقی شرح نمو کچھ اور ہے کاغذوں میں کچھ اور یہاں تعلیمی چوری، ذخیرہ اندوزی، ترقیاتی فنڈوں میں ہیر پھیر کرنا کوئی نئی بات نہیں۔ مگر یہ بات اس وقت کچھ اور موڑ لے کے بیٹھ گئی جب کہیں سے بازگشت سننے کو ملی کہ دہشت گردی کی کڑیاں کرپشن و بری حکمرانی سے جڑتی ہیں۔ اور پھر یہ کہ یہ خبر بھی آج کی اخباروں کی زینت ہے کہ فوج نے گیارہ سینئر افسروں کو بمعہ دو حاضر جرنیلوں کو کرپشن کے الزامات ثابت ہونے پر فوج سے نہ صرف فارغ کیا بلکہ سب کچھ ان سے واپس بھی لیا۔
جو بھی ہو سول قیادت پر پریشر بڑھ گیا اور اب اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا اس کا دارومدار بھی اسی بات پر ہے کہ حکمراں ہوش کے ناخن لیں۔ بلاامتیاز تفتیش کرائیں نہ صرف پانامہ لیکس کے حوالے سے بلکہ کس طرح کسی کو ہزاروں ایکڑ زمین ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی نے دی اس کی بھی اور اس احتساب کے عمل کو بہت تیز ہونا چاہیے۔ بلاتفریق ہونا چاہیے۔
رونے کو جی چاہتا ہے۔ امیروں و غریبوں کے درمیان جو دیوار بن گئی ہے۔ اتنی تیزی سے اور اتنی بھیانک شکل بن گئی ہے۔ ہیضہ و یرقان کے مرض، ڈائیریا اور گندے پانی کے پینے کی وجہ سے پھیلی ہوئی بیماریاں جن کو ''واٹر بارن ڈیزیز'' کہا جاتا ہے۔ ہمارے سندھ میں تو سرکاری اسپتال بند پڑے ہیں ۔ ہزاروں سرکاری اسکول بند پڑے ہیں۔ مگر بدنصیبی سے اس ملک میں جب بھی شب خون ہوا اس کا سبب یہ بتایا گیا کہ حکمرانوں نے اقربا پروری کی بازار لگا دی، وہ کرپشن کی جس کا کوئی حساب نہیں۔ ضیا الحق نے بھی ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت پر وائٹ پیپر چھپوایا۔ جنرل مشرف نے بھی اس قسم کا کام کیا اور ہمارا میڈیا جو ہمارا نہ تھا ، سب کچھ گول مول نظر آنے لگا مگر اس ملک میں جنرلوں کا احتساب نہ ہوسکا۔
آئین کا آرٹیکل چھ جوں کا توں سرد خانہ میں اب بھی پڑا ہوا ہے۔ ہاں پھر بھی جنرل راحیل نے جو جنرل کیانی سے کمانڈ اپنے ہاتھ میں لی اس کو یرقان کی آنکھ سے دیکھنا محض اس لیے کہ میں جمہوریت کا شیدائی ہوں اس لیے جمہوریت کی آڑ میں ہوئی کرپشن پر تو آنکھ بند کرسکتا ہوں اور ساتھ ساتھ فوج کے کسی اچھے قدم کو سراہنا بھی برا سمجھتا ہوں یہ زیادتی ہوگی۔
جنرل راحیل نے پاکستان کی فضا میں، بڑے سالوں کے بعد اعتماد بھرا ہے۔ ایک ایسا پاکستان جس کو مذہبی انتہا پرستی سے نجات دلانے میں سول قیادت ناکام ہوچکی تھی۔ مجھے وہ بیان بھی خادم اعلیٰ کا یاد ہے جب آپ نے لاہور کے ایک دھماکے کے ردعمل میں طالبان کو مخاطب ہوتے ہوئے یہ کہا تھا کہ ''ان کو ہمیں نشانہ نہیں بنانا چاہیے کہ ان کے نظریات اور ہمارے نظریات ایک جیسے ہیں'' ہمیں روز خبر ملتی تھی آج میاں صاحب وزیرستان میں آپریشن کرنے کا اعلان کریں گے۔ پھر وہ آج بھی گزر جاتی تھی جس نہج پر قائم علی شاہ نے کراچی کو پہنچایا تھا اس سے آپ سب واقف تھے۔
سرطان پاکستان کی رگوں میں پھیل گیا ہے۔ اس ملک کا واپس بحال ہونا کسی معجزے سے کم نہیں اور اس معجزے میں خلل تب آئے گا جب عزیز ہم وطنوں کہہ کے کوئی اقتدار پر قبضہ کرلے گا۔ ہاں لیکن جہاں تک اس انداز میں صفائی کا عمل جاری ہے، وہ بہت خوش آیند بات ہے۔
جب عوام بیدار نہ ہوں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ آپ کو کرپشن کرنے کی چھوٹ دیتا ہے اور اس کا مطلب یہ بھی ہرگز نہیں کہ جب شب خون لگنے کے خلاف لوگ سڑکوں پر نہ آئیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ لوگ آپ کو شب خون کی اجازت دے بیٹھے ہیں۔
میں نے بارہا لکھا ہوگا کہ پاکستان کا مسئلہ اشرافیہ ہے یہ اشرافیہ کا پاکستان ہے۔ ہم اس اشرافیہ کو قانون کے تابع لانا چاہتے ہیں، ہماری یہی التجا ہے۔ ہماری یہی تحریک ہے۔
پاکستان کی ہر راہ آئین سے تعین ہوتی ہے اور آئین ہی سے بڑھ کر پاکستان کے لیے کوئی اور راہ نہیں ہے۔ اب بھی آئین پر عمل نہیں ہو رہا اب بھی آئین میں ایسی چیزیں موجود ہیں جو آئین کے بنیادی ڈھانچے سے ٹکراؤ میں ہے۔ اب بھی انھی سیاستدانوں کا ڈیرہ ہے جو خود آمریت کی پیداوار ہیں۔
مگر جو سچ ہے وہ یہ ہے کہ آج اس قینچی کے ایک بلیڈ یعنی ملٹری قیادت نے اپنے ماضی کے تمام ریکارڈ توڑ دیے۔ اب باری اس کی ہے اگر وہ قینچی کا بلیڈ ہے جسے عرف عام میں سول قیادت کہا جاتا ہے۔
ہم نے بھی ایک تحریک قانون کی حکمرانی کے نام پر چلائی تھی وہ بھی آخر شب کے ہم سفر ''فیض نہ جانے کیا ہوئے'' کی مانند ہم سے کہیں بھٹک گئی، اگر فوج نے سفر صفائی کرنے کا شروع کیا ہے تو یہ سفر اب سب اداروں میں ہونا چاہیے۔
ہم کو تو انقلاب سحر بھی قبول ہے
لیکن شبِ فراق ترا کیا اصول ہے
(قتیل شفائی)