تھا جو ناخوب بتدریج وہی خوب ہوا

گزشتہ سال پیرس حملوں کے بعد سی این این ایفل ٹاور پہ اظہار یکجہتی مظاہرے کی براہ راست کوریج کررہا تھا


قدسیہ ممتاز April 23, 2016

گزشتہ سال پیرس حملوں کے بعد سی این این ایفل ٹاور پہ اظہار یکجہتی مظاہرے کی براہ راست کوریج کررہا تھا۔غم زدہ متاثرین کے جذبات عروج پہ تھے حالانکہ اس دوران شام میں فرانسیسی ڈرون حساب برابر ہی نہیں دوگنا چکتا کر چکے تھے۔ ایک دلچسپ منظر پہ کیمرہ فوکس ہوا۔ ایک مسلم نوجوان آنکھوں پہ عربی رومال باندھے، سر جھکائے ندامت کی تصویر بنا کھڑا تھا۔

اس کے ہاتھ میں موجود پلے کارڈ پہ درج تھا کہ ہونگے وہ بدبخت دہشت گرد میں تو مسلمان ہوں! فرانسیسی دوشیزائیں اسے گلے لگا کر تسلیاں دے رہی تھیں کہ جی ہمیں معلوم ہے کون تھے وہ کلموہے تم ناحق جی چھوٹا نہ کرو۔ وہ تو خیر گذری کہ تسلی تشفی کے اس عمل میں دوشیزاؤں کا ہم قومیت مشہور زمانہ بوسہ پیکیج میں شامل نہ تھا ورنہ نوجوان وہیں عربی رومال کا پھندہ بنا کر بخوشی دار چڑھ جاتا!دوسری جانب سی این این کی نمایندہ جو محبت و مودت کے اس مظاہرے سے بجا طور پہ متاثر تھی۔

ایک مسلم نوجوان سے فرانس میں مسلم تشخص کے متعلق گفتگو کر رہی تھی ۔نوجوان کہہ رہا تھا : فرانس ہمارا پیارا وطن ہے البتہ یہاں کی پولیس کچھ ڈھیلی ڈھالی سی ہے حالانکہ یہاں والدین خود اپنے بچوں کی مخبری کرتے ہیں کہ وہ جہادی گروپوں میں شامل ہو رہے ہیں لیکن پولیس ان شکایتوں کو سیریس نہیں لیتی!رپورٹر ایک لمحے کے لیے سن ہوگئی!یہ سارا واقعہ یوں یاد آیا کہ پیرس حملوں میں ملوث چھبیس سالہ صالح عبدالسلام جو برسلز حملوں میں بھی ملوث رہا، کو گذشتہ رات برسلز میں سزا سنا دی گئی۔

جس عمر میں نوجوان جرابوں کی طرح گرل فرینڈز بدلتے ، لاٹری کے ٹکٹ ہر بار ایک نئی امید سے خریدتے اور مایوس ہوتے اور کیرئیر بناتے ہیں اسی بالی عمر میں ان ہی میں سے کچھ اتنے خوفناک کیوں ہو جاتے ہیں کہ اپنی اور دوسروں کی جان پہ کھیل جاتے ہیں، مغرب کو سچ مچ اس بات کی بہت تشویش ہے اور وجہ اس کی یہ ہے کہ یہ تمام نوجوان خود مغرب سے تعلق رکھتے ہیں، وہیں پیدا ہوتے، تعلیم حاصل کرتے اور جان دینے اور لینے کی حد تک پہنچ کر مارتے، مرتے یا مار دیے جاتے ہیں ۔یہ نوجوان مغرب کی اصطلاح میں home grown jihadist کہلاتے ہیں یعنی گھر کے پلے ہوئے جہادی!

زکریا عمار بھی ایسے ہی جہادیوں میں سے تھا۔ اردن میں پیدا ہونے والا یہ نوجوان صرف تیرہ سال کی عمر میں کینیڈا آگیا۔وہیں پلا بڑھا، تعلیم حاصل کی اور شادی کی۔ اپنے دوستوں، خاندان اوراستادوں کی نظر میں وہ ایک کھلنڈرا، محبت کرنے والا زندہ دل نوجوان تھا۔ پھر دیوانے کے من میں کیا سمائی کہ وہ 2006 میں کینیڈا میں بھیانک دہشت گردی کی منصوبہ بندی کرنے والے سترہ نوجوانوں جو Toronto 18 کے نام سے جانے جاتے ہیں، کا سرغنہ بن گیا۔ یہ سوال McGill University کینیڈا کے شعبہ نفسیات کا موضوع بن گیا۔

یونیورسٹی نے نیویارک پولیس ڈپارٹمنٹ اور چار ریسرچ اسکالرز کے اشتراک سے ایک عمیق تحقیقی مقالہ 2011 میں شایع کیا جس میں اپنے ہی ملک میں پلنے والے (home growns) نوجوانوں میں انتہا پسندی کے اس رجحان کی وجوہات تلاش کی گئیں جسے مغرب میں radicalization کے نام سے یاد کیا اور کوسا جاتا ہے۔

اس رپورٹ میں واضح طور پہ اقرار کیا گیا ہے کہ پہلے انتہا پسند کہیں باہر سے آتے اور دہشت پھیلاتے تھے اب ہمارے ہی درمیان پلتے بڑھتے ہیں۔یہ رپورٹ ان نوجوانوں کے نفسیاتی اور معاشرتی پس منظر کے مطالعے کے بعد پانچ ایسے ماڈل پیش کرتی ہے جن سے کسی طرح یہ سمجھ آئے کہ ایک اچھا بھلا مغربی سا ہنستا کھیلتا مسلمان نوجوان کیوں غیر محسوس طریقے سے انتہا پسند ہوجاتا ہے اور اس کے ارد گرد والوں کو پتا بھی نہیں چلتا۔یہ نوجوان القاعدہ سے نہیں کینیڈا کے Toronto 18، ڈنمارک کےVollsmose group اور آسٹریلیا کے Benbrika group جیسے مقامی گروپوں سے تعلق رکھتا ہے اور یہی تشویش کی بات ہے۔اب یہی گھر کے جہادی تقریبا ہر مغربی ملک کی سیکوریٹی کے لیے اولین خطرہ بن گئے ہیں۔

اس رپورٹ میں پہلے چار ماڈل جو Borum ، Wiktorowicz ، نیویارک پولیس اور "The Globalization of Martyrdom" کے مصنف ایساف مقدوم نے پیش کیے ، کم و بیش یکساں ہیں جن کے مطابق ایک معقول نوجوان چار مرحلوں سے گذر کر نامعقول ہوجاتا ہے۔ پہلا جب وہ محسوس کرتا ہے کہ اس کے ساتھ کچھ ٹھیک نہیں ہورہا۔دوسری اسٹیج پہ یہ کچھ ٹھیک نہ ہونا احساس محرومی میں بدل جاتا ہے۔ تیسری اسٹیج میں وہ اس ناانصافی کے ذمے داروں کا تعین کرلیتا ہے جو ظاہر ہے اس کے اردگرد کے ہی لوگ ہوتے ہیں۔چوتھی اسٹیج میں وہ اپنے حریفوں کے متعلق ہر منفی بات پہ یقین کرنے لگتا ہے اور ان سے بدلہ لینے کی ٹھان لیتا ہے۔

پھر وہ ایسے گروپ ڈھونڈ لیتا ہے جو بزور قوت اسلام نافذ کرنا چاہتے ہیں اب چونکہ دکھا ہو ا دل غصہ سے بھی بھرا ہوتا ہے لہٰذا وہ صوفی یا شاعر نہیں بنتا، جہادی بن جاتا ہے اور سب کا ناک میں دم کر دیتا ہے۔یہ ریسرچ جن نوجوانوں کو موضوع بنا کے کی گئی ان میں قدر مشترک یہ تھی کہ تمام نوجوان مڈل کلاس سے تعلق رکھتے تھے اعلی تعلیم یافتہ تھے، آبادکاروںکی دوسری یا تیسری نسل سے تھے اور کوئی مجرمانہ پس منظر نہیں رکھتے تھے۔دلچسپ بات یہ کہ بہت زیادہ مذہبی بھی نہیں تھے۔پانچواں اور آخری ماڈل جو Sageman نے پیش کیا وہ تھوڑا سیاسی ہے۔

ان کا خیال ہے کہ مسلم نوجوانوں کو لگتا ہے کہ ان کی مذہبی شناخت کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اور مغرب اسلام کے خلاف حالت جنگ میں ہے۔ عراق پہ حملہ اس کی بہترین مثال ہے جس کے بعد مسلم نوجوانوں نے بڑی تعداد میں القاعدہ کو جوائن کیا۔یہ وہ نکتہ ہے جس کو واشنگٹن پوسٹ نے اپنے ایک آرٹیکل میں بڑی صراحت سے واضح کیا۔وہ لکھتا ہے کہ جب ہم نے دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کا فیصلہ کیا اور وہ جہاں ہیںان کو وہیں مارو کا نعرہ لگا کر اپنی جنگ ان کے گھر لے گئے تو جواب میں وہ اپنی جنگ اٹھا کر ہمارے گھر لے آئے۔

ہم نے مغرب میں امن کے نام پہ پاکستان، افغانستان، عراق، صومالیہ، فلسطین اور یمن کو جہنم بنا دیا۔اب جب ساری دنیا میدان جنگ بن گئی ہے اور ہم اپنے گھر میں ہی محفوظ نہیں تو حیرت کی کیا بات ہے۔ پچھلے سال امریکا نے اسلامک اسٹیٹ کے خلاف شام اور عراق میں 23 ہزار بم گرائے اور جھوٹ بولا کہ صرف چھ شہری ہلاک ہوئے جب کہ ان کی تعداد ہزاروں میں تھی۔اور ایسا ہر بار ہوتا ہے لیکن کیا فرق پڑتا ہے۔ وہ ہمارے شہری تھوڑی ہیں۔پھر جب ہماری رائے شماری یہ بتاتی ہے کہ مسلمان مغرب کو خودغرض ، متشدد اور اخلاقی دیوالیہ سمجھتے ہیں تو ہم اسلام کو اس کا ذمے دار ٹہراتے ہیں، اسلامو فوبیا میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور اسے اپنی انتخابی مہم کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

ہم نے نائن الیون کے بعد انتہا پسندی کی وجوہات جاننے کے لیے اربوں ڈالر خرچ کرکے تھنک ٹینک بنائے لیکن سامنے کی بات نہ سمجھ سکے کہ تشدد تشدد کو جنم دیتا ہے۔کیا ہم نے اسلامک اسٹیٹ کے ان نوجوانوں کو نہیں دیکھا جو یورپ میں پلے بڑھے اور شام چلے گئے۔یہ کسی مدرسے کے پڑھے ہوئے نہیں تھے۔ ان میں سے کچھ فرنچ وہسکی پیتے اور منشیات استعمال کرتے تھے۔ ان کے سامنے ایک ہی بات تھی۔ ایک طرف جارح اور باطل پرست مغرب ہے دوسری طرف مظلوم مسلمان جن کی حمایت ہم پہ مذہبی طور پہ فرض ہے۔

یہ آرٹیکل بھی خاصہ طویل ہے لیکن اس مذہبی فریضہ کی اہمیت کو ایک اور تھنک ٹینکn TonyblairFaithFoundatioکی ریسرچ واضح کرتی ہے۔ وہ کہتی ہے کہ ساری باتیں ایک طرف، جہاد مسلمانوں کا مذہبی فریضہ ہے جو قرآن ، حدیث اور سنت سے ثابت ہے اس سے کیسے صرف نظر کیا جاسکتا ہے۔یہ اس لیے بھی درست معلوم ہوتا ہے کہ اگر محض ذاتی مسائل ہی جہاد کی طرف لے جاتے ہیں تو یورپ کا غیر مسلم نوجوان اپنی محرومی غصے اور منفی تحرک کو کہاں لے جاتا ہے؟کیا وہ نیٹو جوائن کرلیتا ہے؟

جارج بش کے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نعرے کے بعد ایک آرٹیکل "جنگ مگر کس کے خلاف "شایع ہوا جس میں بڑی تفصیل سے جہادی تنظیموں اور radical اسلام کی تاریخ کھنگالی گئی۔بڑی نفرت ، حقارت اور باریک بینی سے کی گئی اس تحقیق کا لب لباب یہ تھا کہ تمام جہادی تنظیمیں اس وقت وجود میں آئیں جب خلافت عثمانیہ کے ٹکڑے کر دیے گئے اور مسلم نوجوان کو احساس ہوا کہ اس کی مذہبی شناخت کے تحفظ کے لیے کوئی مرکزی قوت اب باقی نہیں رہی اور خلافت علی الارض کی ذمے داری تنہا اس کے کاندھوں پہ آگئی ہے۔

ہم عجیب لوگ ہیں۔ اپنے جوانوں کی جوانمرگی پہ ماتم کرتے ہیں سامنے کی بات نہیں سمجھتے حالانکہ اربوں ڈالروں اور اپنے اعلی دماغوں کی سرمایہ کاری کے بعد انھوں نے مفت میں ہمیں یہ بات سمجھا دی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں