دورہ انگلینڈ بورڈکوعامرسے محرومی کا خدشہ ستانے لگا
سزا یافتہ کرکٹرزکو برطانیہ میں داخلے کی اجازت ملنے کاامکان کم ہے ،امیگریشن وکلا
پی سی بی کو دورئہ انگلینڈ میں محمد عامر کی خدمات سے محرومی کا خدشہ ستانے لگا، سلمان بٹ کے بعد نوجوان پیسرکی بھی سیریز میں شرکت مشکوک ہو گئی ہے،دونوں محمد آصف کے ساتھ 6 سال پہلے انگلش ٹیم سے سیریز میں اسپاٹ فکسنگ کے مرتکب ہوئے تھے۔ امیگریشن وکلا کے مطابق سزا یافتہ کرکٹرز کو برطانیہ میں داخلے کی اجازت ملنے کا امکان بہت کم ہے۔
تفصیلات کے مطابق لارڈز ٹیسٹ میں اسپاٹ فکسنگ کرنے والے پیسر محمد عامر کی5 سال بعد کرکٹ کے میدانوں میں واپسی ہو چکی، وہ دورئہ نیوزی لینڈ کے بعد بنگلہ دیش میں منعقدہ ایشیا کپ اور بھارت میں ورلڈ ٹی 20 کے دوران اسکواڈ کا حصہ رہے، انھیں برطانیہ میں 6ماہ قید کی سزا سنائی گئی لیکن تین ماہ بعد رہا کر دیاگیا تھا،ابھی تک یہ واضح نہیں کہ انھیں برطانوی ویزا مل پائے گا یا نہیں،2014 میں ان کی ایسی کوشش ناکام ہوگئی تھی،امیگریشن وکلا کا کہنا ہے کہ سزایافتہ کرکٹرز کو برطانیہ میں داخلے کی اجازت ملنا بیحد مشکل ہوگا، جیل سے جلدی رہائی کی اسکیم کے تحت باہر آنے والے افراد کو قانون کی نظر میں ملک بدر ہی سمجھا جاتا ہے،وہ سزا کی مدت ختم ہونے کے دس سال تک واپس برطانیہ میں آنے کے اہل نہیں ہوتے۔
قانون کی نظر میں قید کی مدت کا خاتمہ اس تاریخ سے تصور کیا جاتا ہے جب عدالت کی جانب سے دی گئی سزا کا وقت پورا ہو، حکومت کی کسی اسکیم کے تحت جلد رہائی کی تاریخ کو 'مدت کے خاتمے کی تاریخ' تصور نہیں کیا جاتا۔ برطانیہ نے مجرموں کی اپنی سرزمین پر واپسی سے متعلق قانون میں ترمیم 2012 میں کی تھی، اس کا پہلا اطلاق باکسر مائیک ٹائیسن پر ہوا جب انھیں 2013 میں برطانیہ آنے سے روک دیاگیا،ان پر ریپ کے جرم میں قید کی سزا پوری ہونے کے ابھی دس برس مکمل نہیں ہوئے ہیں۔
سابق کپتان سلمان بٹ کو2011 میں برطانوی عدالت نے30 ماہ قید کی سزا سنائی تھی لیکن حکومت کی ایک اسکیم کے تحت صرف7ماہ قید کے بعد رہائی دے کر پاکستان بھیج دیاگیا تھا، برطانوی ویزا قوانین کے تحت اگر کسی شخص کو 12 ماہ سے چار سال تک کی سزا سنائی گئی ہو تو ویزا انٹری کلیئرنس آفیسر کے لیے دس برس تک اس کی درخواست کو مسترد کرنا لازم ہے، اسپاٹ فکسنگ کیس میں سزا یافتہ تیسرے پاکستانی کرکٹر محمد آصف پر سے پابندی ختم ہو چکی لیکن وہ ابھی قومی ٹیم میں واپسی کے قریب نہیں پہنچ پائے ہیں۔
تفصیلات کے مطابق لارڈز ٹیسٹ میں اسپاٹ فکسنگ کرنے والے پیسر محمد عامر کی5 سال بعد کرکٹ کے میدانوں میں واپسی ہو چکی، وہ دورئہ نیوزی لینڈ کے بعد بنگلہ دیش میں منعقدہ ایشیا کپ اور بھارت میں ورلڈ ٹی 20 کے دوران اسکواڈ کا حصہ رہے، انھیں برطانیہ میں 6ماہ قید کی سزا سنائی گئی لیکن تین ماہ بعد رہا کر دیاگیا تھا،ابھی تک یہ واضح نہیں کہ انھیں برطانوی ویزا مل پائے گا یا نہیں،2014 میں ان کی ایسی کوشش ناکام ہوگئی تھی،امیگریشن وکلا کا کہنا ہے کہ سزایافتہ کرکٹرز کو برطانیہ میں داخلے کی اجازت ملنا بیحد مشکل ہوگا، جیل سے جلدی رہائی کی اسکیم کے تحت باہر آنے والے افراد کو قانون کی نظر میں ملک بدر ہی سمجھا جاتا ہے،وہ سزا کی مدت ختم ہونے کے دس سال تک واپس برطانیہ میں آنے کے اہل نہیں ہوتے۔
قانون کی نظر میں قید کی مدت کا خاتمہ اس تاریخ سے تصور کیا جاتا ہے جب عدالت کی جانب سے دی گئی سزا کا وقت پورا ہو، حکومت کی کسی اسکیم کے تحت جلد رہائی کی تاریخ کو 'مدت کے خاتمے کی تاریخ' تصور نہیں کیا جاتا۔ برطانیہ نے مجرموں کی اپنی سرزمین پر واپسی سے متعلق قانون میں ترمیم 2012 میں کی تھی، اس کا پہلا اطلاق باکسر مائیک ٹائیسن پر ہوا جب انھیں 2013 میں برطانیہ آنے سے روک دیاگیا،ان پر ریپ کے جرم میں قید کی سزا پوری ہونے کے ابھی دس برس مکمل نہیں ہوئے ہیں۔
سابق کپتان سلمان بٹ کو2011 میں برطانوی عدالت نے30 ماہ قید کی سزا سنائی تھی لیکن حکومت کی ایک اسکیم کے تحت صرف7ماہ قید کے بعد رہائی دے کر پاکستان بھیج دیاگیا تھا، برطانوی ویزا قوانین کے تحت اگر کسی شخص کو 12 ماہ سے چار سال تک کی سزا سنائی گئی ہو تو ویزا انٹری کلیئرنس آفیسر کے لیے دس برس تک اس کی درخواست کو مسترد کرنا لازم ہے، اسپاٹ فکسنگ کیس میں سزا یافتہ تیسرے پاکستانی کرکٹر محمد آصف پر سے پابندی ختم ہو چکی لیکن وہ ابھی قومی ٹیم میں واپسی کے قریب نہیں پہنچ پائے ہیں۔