جینا اور جاپان

’’ جینا… آج پھر دیر سے آئی ہو تم، اور کوئی نہ کوئی بہانہ ہو گا تمہارے پاس؟

Shireenhaider65@hotmail.com

'' جینا... آج پھر دیر سے آئی ہو تم، اور کوئی نہ کوئی بہانہ ہو گا تمہارے پاس؟ '' میں نے غصے سے اسے پوچھا... '' ناصر بیٹا ائیر پورٹ کے لیے روانہ ہونے سے قبل انٹر نیٹ پر یا فون کر کے اپنی پرواز کا وقت چیک کر لو!! '' ایک ہی سانس میں،میں نے جینا کی کلاس لی اور ناصر کو اس بات سے متاثر کرنے کی کوشش کی کہ وہ گھر بیٹھے اپنی پروازکا وقت چیک کر سکتا ہے، کہیں وہ یہ نہ سمجھ بیٹھے کہ ہم کسی بات میں جاپان سے پیچھے ہیں۔

'' جی خالہ! میں اپنے فون پر ہی چیک کر لیتا ہوں !! '' کہہ کر وہ اپنے فون پر مصروف ہو گیا اور میں جینا کی طرف متوجہ ہوئی، جینا کا اصل نام تو زرینہ تھا مگر اس مصروف زندگی میں کس کے پاس اتنا وقت ہے کہ وہ اتنے طویل ناموں سے کسی کو پکارے۔

'' پتا تو ہے آپ کو قوبے کا باجی، رات ایسی دھنائی کی اس نے میری کہ میرا جوڑ جوڑ دکھ رہا تھا، صبح بستر سے اٹھا ہی نہیں جا رہا تھا!!!'' اس نے برسوں پرانا جواز پیش کیا۔

'' خالہ انٹر نیٹ کیوں نہیں چل رہا؟ '' ناصر نے پوچھا، '' اور قوبے کیا پاکستان میں بھی ملتا ہے؟ '' اس نے جینا کی بات میں سے ایک لفظ سمجھا تھا غالباً۔

'' قوبا اس کا شوہر ہے، اس کا اصل نام تو یقینا یعقوب ہو گا مگر یہ پیار سے اسے قوبا کہتی ہے ، جیسے میں اسے زرینہ کے بجائے جینا کہتی ہوں !! ''

'' پیار سے؟ '' ناصر نے حیرت سے مجھے دیکھا، '' مگر یہ تو بتا رہی ہے کہ اس نے اسے مار مار کر ادھ موا کر دیا تھا... خالہ انٹر نیٹ نہیں آ رہا؟ ''

'' بیٹا بجلی بند ہے نا اس لیے '' میں نے شرمندگی سے کہا، جیسے بجلی بند ہونے میں میرا اپنا کوئی قصور ہو۔

'' ویسے تم کس کو قوبا کہہ رہے تھے؟ '' میں نے بات کا رخ بدلا۔'' میں قوبے کہہ رہا تھا خالہ... وہ آپ نہیں سمجھیں گی، اصل میں ! '' وہ رکا اور کچھ سوچنے لگا، '' یہ گوشت کی ایک قسم ہے جسے دنیا میں سب سے لذیذ مانا جاتا ہے، ظاہر ہے کہ یہ حلال نہیں ہوتا اور دنیا بھر میں انتہائی مہنگا سپلائی کیا جاتا ہے، اور آپ جینا کو پیار سے جینا کہتی ہیں، ابھی تو آپ اس کے خاندان کی جانے کتنی پشتوں کو گالیاں دے رہی تھیں؟ ''

'' بجلی آ گئی ہے بیٹا، اپنی فلائیٹ کا وقت چیک کرو!! '' میں نے اس کی بات پر گویا اسے گھرکا تھا۔ '' او میرے خدایا، میری فلائیٹ دو گھنٹے لیٹ ہے '' اس نے اپنے ماتھے پر ہاتھ مارا۔

'' موسم کی خرابی کی وجہ سے ہو گا بیٹا، کوئی بات نہیں، اچھا ہے کہ ہم کچھ وقت اور اکٹھے گزار لیں گے!! ''


'' موسم کیا آپ کے گھر اور دس منٹ کی ڈرائیو کے ائیر پورٹ پر مختلف ہوتا ہے؟ '' اس نے کہہ کر کسی کو فون ملایا... '' وی آئی پی موومنٹ ؟ تو یار اس سے کیا فرق پڑتا ہے ہم کون سا وی آئی پی کو منع کر رہے ہیں؟ '' جھنجلا کر اس نے فون بند کر دیا، '' خالہ میرا دوست ہے ائیر پورٹ پر کام کرتا ہے، کہہ رہا تھا کہ کسی وی آئی پی کی پرواز آ رہی ہے اس لیے باقی پروازیں !! '' اس کی پریشانی دیدنی تھی، '' ایسا میرے ساتھ کیوں ہو رہا ہے، کیا ایسا پہلے بھی ہوتا رہا ہے یا صرف میرے ساتھ خصوصی برتاؤ ہو رہا ہے؟ ''

مجھے یاد آ گیا کہ چند دن قبل ہی میں لاہور میں تھی، ایک میڈیکل اسٹور سے دوا لینے کو گئی تو علاقے میں فورسز کی غیر معمولی موجودگی کا احساس ہوا، میں گاڑی روک کر اترنے لگی تو جانے کہاں سے ایک پولیس والا میری طرف بڑھنے لگا، اسی اثنا میں، میں اسٹور کے دروازے کے قریب پہنچی تو شیشے کے دروازے کے پار ایک لڑکے نے ہاتھ میں کارڈ بورڈ پکڑ رکھا تھا جس پر لکھا ہوا تھا، ' ' روٹ کی وجہ سے دکان آدھے گھنٹے کے لیے بند ہے! '' تب تک پولیس والا پہنچ چکا تھا، '' کس بات کا روٹ لگا ہوا ہے بیٹا؟ '' میں نے اس کی سفید داڑھی کو نظر انداز کرتے ہوئے پوچھا تو اس نے میری طرف غور سے دیکھا۔

'' وہ آنٹی جی وی آئی پی موومنٹ ہے، اس لیے!! '' میں ناچار واپس گاڑی میں بیٹھ گئی اور دوبارہ آدھے گھنٹے کے بعد جب دوا لینے گئی تو استفسار پر علم ہوا کہ اس علاقے میں دن میں تین سے چار بار ایسا ہوتا ہے۔ اتنے مصروف اور مرکزی علاقے میں یوں دن میں تین سے چار بار لوگوں کے کاروبار بند کرنے سے ان کا کس قدر نقصان ہوتا ہے۔ میں نے راولپنڈی میں میٹرو کی تعمیر کے دوران مری روڈ اور بلیو ایریا کے دکان داروں کو حکومت کوستے دیکھا ہے۔

'' خالہ میری ساری مربوط پروازیں چھوٹ جائیں گی، اس ملک کے علاوہ تو کسی اور ملک میں ایسا کوئی نظام نہیں ہے کہ پرواز کسی کی خاطر متاثر ہو، اگر ہمارے ملک میں سربراہ مملکت کی وجہ سے کسی کی گاڑی کو ایک منٹ کے لیے بھی رکنا پڑ جائے تو عدالت ہمارے سربراہ کو کٹہرے میں جواب طلبی کے لیے کھڑا کر لے گی!! '' غصے میں وہ اس ملک کو own بھی نہ کر رہا تھا، اور تھا بھی تو درست، وہ کون سا اب اس ملک میں رہتا ہے یا اس میں ان کے لیے کوئی کشش رہ گئی ہے، '' اگر میری ساری فلائٹیں اس طرح چھوٹ گئیں تو میں وقت پر دفتر نہ پہنچ سکوں گا اور پھر میں کام پر کیا جواب دوں گا؟ ''

'' کوئی بات نہیں بیٹا، کوئی بہانہ کر کے چھٹی کر لینا کام سے یا دیر سے چلے جانا!! '' میں نے اسے تشفی دی، اس کے علاوہ میں نہ اسے کچھ دے سکتی تھی نہ ہم اپنے آپ کو کچھ دے سکتے ہیں، ملک کے حالات جس نہج پر پہنچ گئے ہیں اس میں ہم صرف کڑھتے ہیں۔

'' خالہ یہ تصویر دیکھیں اور بتائیں کہ اس میں کیا ہو رہا ہے؟ '' اس نے اپنا فون میری طرف بڑھایا، اس میں ایک تصویر تھی۔

'' یہ غالباً کسی بس یا ٹرین کی تصویر ہے!! '' میں نے قیافہ لگایا۔...'' ہاں یہ اس ٹرین کا اندرونی منظر ہے جس پر بیٹھ کر میں ہر روز کام پر جاتا ہوں ! ''اس نے بتایا۔...'' مگر اس میں مجھے تم تو نظر ہی نہیں آرہے ہو بیٹا؟ '' میں نے تصویر کو نزدیک کر کے غور سے دیکھ کر اسے اس تصویر میں موجود نہ پا کر کہا۔...'' کیونکہ میں تصویر کھینچ رہا تھا خالہ!! '' اس نے چڑ کر کہا۔...'' تو تم وہ کھینچ لیتے نا، سیلفی!! '' میں نے اس پر اپنی قابلیت جھاڑی کہ شاید اسے سیلفی کا مطلب نہیں آتا۔...'' یہ تصویر میں نے کسی مقصد کے لیے کھینچی تھی خالہ، کوئی خلاف معمول اور غیر معمولی بات ہے اس میں، آپ غور سے دیکھیں اور مجھے بتائیں!! '' اس نے فون پھر مجھے پکڑایا۔

'' ہوں ... '' میں غور سے دیکھنے لگی، '' اچھا، سمجھ گئی!! '' میں نے مسکرا کر کہا، '' تم مجھے یہ جیکٹ والا بندہ دکھانا چاہتے ہو نا؟ ''

'' ہاں خالہ!! '' وہ میری معاملہ فہمی سے متاثر تو ہوا مگر اتنا نہیں، '' اچھا بتائیں ذرا کہ وہ کون ہو سکتا ہے اور کیا کر رہا ہے؟ ''...'' کچھ بیچنے والا ہے اور ٹرین میں کچھ بیچ رہا ہے، مگر مجھے تو اس کے ہاتھ میں صرف اس کے اشتہاروں کے کاغذ نظر آ رہے ہیں جو وہ غالباً لوگوںمیں تقسیم کر رہا ہے!! '' میں نے اپنی دانست میں درست قیافہ لگا کر اس کا فون اسے لوٹا دیا ۔...'' خالہ یہ اس ٹرین کا کنڈکٹر ہے... میں جب سے گیا ہوں میں نے پہلی بار اسے دیکھا اور چونکہ یہ منظر میرے لیے غیر معمولی تھا تو میںنے اس کی تصویر کھینچ لی!''

'' اگر تمہیں کبھی کنڈکٹر نظر نہیں آیا تو تم کرایہ کس کو دیتے ہو بیٹا؟ '' میں نے حیرت سے پوچھا۔...'' خالہ کرایے کے لیے ہم ماہانہ پاس لیتے ہیں اور اسی کارڈ کے ذریعے ہم ٹرین اسٹیشن میں داخل ہوتے ہیں ، یہ کنڈکٹر اس روز اس لیے ٹرین میں تھا کہ اس روز ٹرین پہلی بار میں نے وہاں لیٹ ہوتے ہوئے دیکھی تھی، تین منٹ لیٹ خالہ... اور یہ کنڈکٹراس لیے ٹرین میں ہے کہ یہ ہر ایک کے پاس جا کر ان سے ذاتی طور پر معذرت کر رہا ہے اور انھیں یہ خط ٹرین کمپنی کی طرف سے دے رہا ہے، اس ٹرین کے سب مسافروں کو یہ خطوط دیے گئے تھے، اس میں وضاحت کی گئی تھی کہ ٹرین کس وجہ سے تین منٹ کے لیے تاخیر سے آئی، یہ سب خطوط ہم لوگوں نے اپنے کالج، اسکول، یونیورسٹی اور اپنے دفاتر میں دینا تھے تا کہ ہم اپنے تین منٹ تاخیر سے پہنچنے کا جواز پیش کر سکیں!'' اس نے وضاحت کی اور میں جگہ نہ پا رہی تھی کہ کہیں چھپ جاؤں اور میرے چہرے پر نظر آنے والی بے بسی کی کیفیت اسے نظر آئے، '' یہ ہوتی ہیں قومیں خالہ... اور یہ ہوتی ہے وقت کی اہمیت اور یہ ہوتے ہیں رویے!!!'' میں اس کا منہ تک رہی تھی اور مجھے سمجھ میں نہ آرہا تھا کہ کیا کہوں... '' پریشان نہ ہوں خالہ، میں نکلتا ہوں ائیر پورٹ کے لیے، آپ جینا کو دیر سے آنے پر ڈانٹیں!!'' مجھے گلے مل کر وہ ائیر پورٹ کے لیے روانہ ہوا تو میںآنسوؤں سے رو رہی تھی، جانے کیوں !!
Load Next Story