طالبعلموں کی خودکشی اور تعلیمی اداروں کی بے حسی پہلا حصہ
ہمارے ملک میں خودکشی کا رجحان بہت تیزی سے بڑھ رہا ہے
ہمارے ملک میں خودکشی کا رجحان بہت تیزی سے بڑھ رہا ہے، آئے دن ایسے سانحات منظر عام پر آتے ہیں جنھیں سن کر، پڑھ کر اور دیکھ کر دل دہل جاتا ہے۔ کیا ہم نے ان حالات کے تناظر میں یہ بات سوچنے کی کوشش کی کہ آخر وہ کیا عوامل یا ایسے معاملات ہیں، جن کے باعث لوگ خودکشی کو ترجیح دیتے ہیں۔ بظاہر جو وجوہات سامنے آتی ہیں، بس ان کو ہی مدنظر رکھا جاتا ہے کہ اگر ایسا ظلم نہ ڈھایا جاتا یا بے انصافی متوفی کے ساتھ نہ کی جاتی تب وہ اپنی جان نہ گنواتا، خودکشی کو روکنے کے لیے کسی قسم کے اقدامات نہیں کیے جاتے ہیں، سوائے المیہ منظرنامہ پیش کرنے کے۔
خودکشی کرنے کی بنیادی اور ٹھوس وجہ تو یہ ہے کہ آج کے والدین اپنے بچوں کو اعتماد میں نہیں لیتے ہیں، انھیں اپنا دوست اور رازدار نہیں بناتے ہیں، ان رشتوں کو قائم کرنے کے لیے وقت درکار ہوتا ہے، لیکن فی زمانہ وقت کی بے حد کمی ہے، اپنی اولاد کے لیے بھی اتنا وقت میسر نہیں ہے کہ اپنی اولاد کے بہتر مستقبل کے لیے دان کردیں۔ والدین سے اچھے تو پھر وہ دہشت گرد ہوئے جو چند ہی ماہ میں مغوی بچوں کو اپنے اعتماد میں لے لیتے ہیں اور پھر وہ جو چاہتے ہیں ان معصوم بچوں سے کرواتے ہیں۔ یہ معصوم طلبا استاد کے فرمانبردار، جنت اور حوروں کے طالب، باغات و میوہ جات، دودھ کی نہروں کے تمنائی، بادلوں پر سفر کرنے کے لیے اپنی مرضی سے قربان ہوجاتے ہیں اور اپنے ساتھ درجنوں افراد کو خون و خاک کے جنگل میں اتار دیتے ہیں۔
دکھ کی بات یہ ہے کہ والدین اپنے فرائض انجام نہیں دے پاتے ہیں، بلکہ تدریس کے لیے اجنبی لوگوں کے پاس اعتماد سے چھوڑ آتے ہیں اور پھر چند روٹی کی ٹکڑوں کی خاطر ان کی خبر بھی نہیں لیتے، انھیں اطمینان ہوتا ہے کہ ان کا بچہ مدرسے میں پڑھ بھی رہا ہے اور بھوکے شکم کو رزق بھی مل رہا ہے۔ اکثر اوقات غربت اور پیسے کے لالچ میں اپنی تنگدستی کو دور کرنے کے لیے دہشت گردوں سے پیسے بھی وصول کرلیتے ہیں، وہ یہ نہیں جانتے ہیں کہ یہ نذرانہ ان کے لخت جگر کو اس کے ہی خون میں ڈبو کر دیا ہے، اس کی نسلوں کو برباد اور نیست و نابود کیا۔ اگر والدین خود تعلیم یافتہ ہوں تو اپنی اولاد کے دماغ کی سلیٹ پر ایسے حروف لکھ دیں جو ہمیشہ کے لیے امر ہوجاتے ہیں، دماغ میں پیوست ہوجاتے ہیں، اجالے، اندھیرے اور صدق وکذب کی شناخت میں مددگار ہوتے ہیں، تب یہ بچے اور ان کے والدین تخریب کاروں کے گھناؤنے اور قاتلانہ کھیل میں کبھی شریک نہ ہوں۔
والدین کی توجہ، محبت، درس، اخلاقی تقاضے، عفو و درگزر، جزا و سزا کا سبق بچے کی زندگی کو بدل دیتا ہے، پھر وہ کبھی مایوس ہوکر خودکشی کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا ہے۔ اسے معلوم ہوتا ہے کہ دکھ سکھ، غم اور خوشی، شکست و ریخت زندگی کا حصہ ہیں، ہر رات کے بعد صبح کا روشن اجالا نئی امیدیں ساتھ لے کر آتا ہے، لہٰذا بہادری و جرأت و شجاعت کا تقاضا یہ ہے کہ زندگی صبر و شکر کے ساتھ گزاری جائے اور اپنی زندگی کی کشتی کو ساحل پر لانے کے لیے تگ و دو کی جائے تو یقیناً محنت اور جدوجہد سے ساحل ضرور ملے گا۔
پچھلے دنوں کئی طالب علموں کی خودکشیاں اخبارات کی شہ سرخیاں بنیں، الیکٹرانک میڈیا پر چھائی رہیں اور لوگوں کو خون کے آنسو رلاتی رہیں۔ تھوڑا ہی عرصہ گزرا ہے جب ایبٹ آباد کے عبدالمبین ولد سردار محمد رفیق نے خودکشی کرلی، یہ بچہ ساتویں جماعت کا طالب علم تھا۔ عمر بمشکل 11 یا 12 سال ہوگی، وہ ہاسٹل میں رہنا نہیں چاہتا تھا، اس کی وجہ استاد کا رویہ ظالمانہ اور اس کی تذلیل کا باعث تھا۔ جسے اس کا ننھا ذہن برداشت نہ کرسکا۔ فرار کی جب اسے کوئی راہ نظر نہ آئی، تب اس نے اپنے آپ کو ختم کرنے اور دنیا سے رخصت ہونے کا مصمم ارادہ کرلیا۔ اپنے ارادے کو عملی جامہ پہنانے سے قبل اس نے اپنی ماں کو خط لکھا۔ وہ ماں جو دنیا کی سب سے زیادہ شفیق ہستی ہوتی ہے جس کی کل کائنات اس کی اولاد ہوتی ہے، اولاد کے لیے جینا مرنا زندگی کا نصب العین سمجھتی ہے۔
عبدالمبین کے بعد از مرگ اس کی جیب سے ایک خط برآمد ہوا۔ وہ لکھتا ہے کہ ''ماں! تم میرے جانے کے بعد بہت روؤ گی، لہٰذا میری قبر پر آکر رو لینا اور میری الماری میں ایک ڈائری رکھی ہے اسے ضرور پڑھ لینا، ماں! مجھے دنیا سے بڑا پیار تھا، مگر مجھے یہ ہاسٹل کی وجہ سے کرنا پڑ رہا ہے۔ منیبہ اور مانی کو ہاسٹل داخل نہ کرانا اور میری چیزیں ہاسٹل سے لے آنا۔ عبدالمبین نے کس دل گردے کے ساتھ یہ تحریر لکھی ہوگی، یہ تو وہی جانتا ہوگا۔ معصوم بچے نے ماں کو زیادہ نہ رونے کی بھی تاکید کی۔ عبدالمبین کے والد سردار محمد رفیق نے پولیس کو بتایا کہ اس کی ٹیچر اسے چھوٹی چھوٹی غلطیوں پر سزا دیتی تھی، میرے بیٹے کی موت کی ذمے دار ٹیچر ہی ہے۔
اس کے خلاف کارروائی کی جائے تاکہ ہمیں انصاف ملے۔ یقیناً بچے کا خط پڑھ کر صاحب اولاد کا دل بھر آتا ہے، کاش کہ بچے کے والدین اس کی شکایت کا نوٹس لیتے، نقصان ہوجانے کے بعد ایک لفظ باقی رہ جاتا۔ وہ ہے ''کاش''۔ کاش یہ ہوجاتا، کاش وہ ہوجاتا، وغیرہ وغیرہ۔ یہ واقعہ بھی دو ماہ قبل کا ہی ہے۔ جب قلعہ عبداللہ ڈسٹرکٹ بلوچستان میں ثاقبہ نامی طالبہ نے پرنسپل کے ظالمانہ سلوک کی بنا پر اپنی زندگی کا خاتمہ کرلیا تھا۔ اس کا تعلیمی کیریئر بہت شاندار تھا، کالج کی پرنسپل نے انٹرمیڈیٹ کا ایڈمیشن فارم نہیں بھیجا تھا، پرنسپل کے اس رویے سے یقیناً وہ امتحان میں نہیں بیٹھ سکتی تھی، یقیناً یہ اس کے ساتھ بہت بڑا ظلم تھا۔ لہٰذا اس جواں سالہ لڑکی نے خودکشی کو ترجیح دی۔
اس حادثے نے اہل دل کو خون کے آنسو رلا دیا اور خوشیوں بھرا گھر ماتم کدہ بن گیا۔ اس نے بھی اپنے پیغام میں پرنسپل کو ہی اپنی خودکشی کا ذمے دار ٹھہرایا تھا۔ 12 اپریل 2016 کو ایک ڈینٹل کالج کے طالب علم عبدالباسط کی خودکشی نے پورے شہر کو اداس کردیا۔ ہر شخص کو اس کی موت کا صدمہ تھا اور ہونا چاہیے۔ ایک گھرانے کا چراغ گل ہوگیا اور روشن گھر، خوشیوں سے بھرا گھر اندھیروں اور دکھوں میں ڈوب گیا۔
ہمارے شہر کراچی میں ٹرانسپورٹ کے بے حد مسائل ہیں، رش کے باعث ٹریفک جام ہوجاتا ہے، ایمبولینسیں پھنس جاتی ہیں اور جاں بلب مریض دم توڑ جاتے ہیں لیکن عبدالباسط کے ساتھ یہ مسئلہ نہیں تھا، اس بے چارے مظلوم نوجوان کی گاڑی خراب ہوگئی تھی اور وہ اسے خود ٹھیک کرتا رہا یا کسی مکینک کو دکھانے میں اتنا وقت بیت گیا کہ امتحان کا مقررہ وقت ختم ہوگیا اور ممتحن حضرات پرچے اپنے ساتھ لے گئے، بے شک ہر ادارے کے اپنے قوانین اور اصول و ضوابط ہوتے ہیں لیکن ساتھ میں انسانیت کی بقا اور علم و اخلاق کے تقاضے بھی کچھ ہوتے ہیں، کسی کی ختم ہوتی زندگی اور ذہنی تکلیف اور مستقبل کی بربادی کو مدنظر رکھتے ہوئے ہر قانون ہیچ ہے۔
ویسے بھی ہمارے ملک میں قانون کو مٹی کے برتنوں کی طرح بے دردی کے ساتھ توڑ دیا جاتا ہے۔ اپنے ارادوں اور اصولوں میں لچک دکھانا اور بگڑتے حالات کو سنوارنا ایک تعلیم یافتہ شخص کا پہلا اصول ہوتا ہے، لیکن ڈینٹل کالج کے اساتذہ و منتظمین نے تمام اخلاقیات کو بالائے طاق رکھ کر عبدالباسط کو مایوسی اور شکست کی دلدل میں دھکیل دیا۔ کیا ہی اچھا ہوتا معلمین اس کے سر پر ہاتھ رکھتے، اسے حوصلہ دیتے کہ تمھارا پرچہ آج یا کل ضرور لے لیا جائے گا۔ چونکہ عبدالباسط گزشتہ دو سال سے اسی پرچے میں فیل ہورہا تھا تو نتیجہ اس کا الٹ ہوتا۔ انسانیت کی جیت ہوجاتی۔
(جاری ہے)
خودکشی کرنے کی بنیادی اور ٹھوس وجہ تو یہ ہے کہ آج کے والدین اپنے بچوں کو اعتماد میں نہیں لیتے ہیں، انھیں اپنا دوست اور رازدار نہیں بناتے ہیں، ان رشتوں کو قائم کرنے کے لیے وقت درکار ہوتا ہے، لیکن فی زمانہ وقت کی بے حد کمی ہے، اپنی اولاد کے لیے بھی اتنا وقت میسر نہیں ہے کہ اپنی اولاد کے بہتر مستقبل کے لیے دان کردیں۔ والدین سے اچھے تو پھر وہ دہشت گرد ہوئے جو چند ہی ماہ میں مغوی بچوں کو اپنے اعتماد میں لے لیتے ہیں اور پھر وہ جو چاہتے ہیں ان معصوم بچوں سے کرواتے ہیں۔ یہ معصوم طلبا استاد کے فرمانبردار، جنت اور حوروں کے طالب، باغات و میوہ جات، دودھ کی نہروں کے تمنائی، بادلوں پر سفر کرنے کے لیے اپنی مرضی سے قربان ہوجاتے ہیں اور اپنے ساتھ درجنوں افراد کو خون و خاک کے جنگل میں اتار دیتے ہیں۔
دکھ کی بات یہ ہے کہ والدین اپنے فرائض انجام نہیں دے پاتے ہیں، بلکہ تدریس کے لیے اجنبی لوگوں کے پاس اعتماد سے چھوڑ آتے ہیں اور پھر چند روٹی کی ٹکڑوں کی خاطر ان کی خبر بھی نہیں لیتے، انھیں اطمینان ہوتا ہے کہ ان کا بچہ مدرسے میں پڑھ بھی رہا ہے اور بھوکے شکم کو رزق بھی مل رہا ہے۔ اکثر اوقات غربت اور پیسے کے لالچ میں اپنی تنگدستی کو دور کرنے کے لیے دہشت گردوں سے پیسے بھی وصول کرلیتے ہیں، وہ یہ نہیں جانتے ہیں کہ یہ نذرانہ ان کے لخت جگر کو اس کے ہی خون میں ڈبو کر دیا ہے، اس کی نسلوں کو برباد اور نیست و نابود کیا۔ اگر والدین خود تعلیم یافتہ ہوں تو اپنی اولاد کے دماغ کی سلیٹ پر ایسے حروف لکھ دیں جو ہمیشہ کے لیے امر ہوجاتے ہیں، دماغ میں پیوست ہوجاتے ہیں، اجالے، اندھیرے اور صدق وکذب کی شناخت میں مددگار ہوتے ہیں، تب یہ بچے اور ان کے والدین تخریب کاروں کے گھناؤنے اور قاتلانہ کھیل میں کبھی شریک نہ ہوں۔
والدین کی توجہ، محبت، درس، اخلاقی تقاضے، عفو و درگزر، جزا و سزا کا سبق بچے کی زندگی کو بدل دیتا ہے، پھر وہ کبھی مایوس ہوکر خودکشی کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا ہے۔ اسے معلوم ہوتا ہے کہ دکھ سکھ، غم اور خوشی، شکست و ریخت زندگی کا حصہ ہیں، ہر رات کے بعد صبح کا روشن اجالا نئی امیدیں ساتھ لے کر آتا ہے، لہٰذا بہادری و جرأت و شجاعت کا تقاضا یہ ہے کہ زندگی صبر و شکر کے ساتھ گزاری جائے اور اپنی زندگی کی کشتی کو ساحل پر لانے کے لیے تگ و دو کی جائے تو یقیناً محنت اور جدوجہد سے ساحل ضرور ملے گا۔
پچھلے دنوں کئی طالب علموں کی خودکشیاں اخبارات کی شہ سرخیاں بنیں، الیکٹرانک میڈیا پر چھائی رہیں اور لوگوں کو خون کے آنسو رلاتی رہیں۔ تھوڑا ہی عرصہ گزرا ہے جب ایبٹ آباد کے عبدالمبین ولد سردار محمد رفیق نے خودکشی کرلی، یہ بچہ ساتویں جماعت کا طالب علم تھا۔ عمر بمشکل 11 یا 12 سال ہوگی، وہ ہاسٹل میں رہنا نہیں چاہتا تھا، اس کی وجہ استاد کا رویہ ظالمانہ اور اس کی تذلیل کا باعث تھا۔ جسے اس کا ننھا ذہن برداشت نہ کرسکا۔ فرار کی جب اسے کوئی راہ نظر نہ آئی، تب اس نے اپنے آپ کو ختم کرنے اور دنیا سے رخصت ہونے کا مصمم ارادہ کرلیا۔ اپنے ارادے کو عملی جامہ پہنانے سے قبل اس نے اپنی ماں کو خط لکھا۔ وہ ماں جو دنیا کی سب سے زیادہ شفیق ہستی ہوتی ہے جس کی کل کائنات اس کی اولاد ہوتی ہے، اولاد کے لیے جینا مرنا زندگی کا نصب العین سمجھتی ہے۔
عبدالمبین کے بعد از مرگ اس کی جیب سے ایک خط برآمد ہوا۔ وہ لکھتا ہے کہ ''ماں! تم میرے جانے کے بعد بہت روؤ گی، لہٰذا میری قبر پر آکر رو لینا اور میری الماری میں ایک ڈائری رکھی ہے اسے ضرور پڑھ لینا، ماں! مجھے دنیا سے بڑا پیار تھا، مگر مجھے یہ ہاسٹل کی وجہ سے کرنا پڑ رہا ہے۔ منیبہ اور مانی کو ہاسٹل داخل نہ کرانا اور میری چیزیں ہاسٹل سے لے آنا۔ عبدالمبین نے کس دل گردے کے ساتھ یہ تحریر لکھی ہوگی، یہ تو وہی جانتا ہوگا۔ معصوم بچے نے ماں کو زیادہ نہ رونے کی بھی تاکید کی۔ عبدالمبین کے والد سردار محمد رفیق نے پولیس کو بتایا کہ اس کی ٹیچر اسے چھوٹی چھوٹی غلطیوں پر سزا دیتی تھی، میرے بیٹے کی موت کی ذمے دار ٹیچر ہی ہے۔
اس کے خلاف کارروائی کی جائے تاکہ ہمیں انصاف ملے۔ یقیناً بچے کا خط پڑھ کر صاحب اولاد کا دل بھر آتا ہے، کاش کہ بچے کے والدین اس کی شکایت کا نوٹس لیتے، نقصان ہوجانے کے بعد ایک لفظ باقی رہ جاتا۔ وہ ہے ''کاش''۔ کاش یہ ہوجاتا، کاش وہ ہوجاتا، وغیرہ وغیرہ۔ یہ واقعہ بھی دو ماہ قبل کا ہی ہے۔ جب قلعہ عبداللہ ڈسٹرکٹ بلوچستان میں ثاقبہ نامی طالبہ نے پرنسپل کے ظالمانہ سلوک کی بنا پر اپنی زندگی کا خاتمہ کرلیا تھا۔ اس کا تعلیمی کیریئر بہت شاندار تھا، کالج کی پرنسپل نے انٹرمیڈیٹ کا ایڈمیشن فارم نہیں بھیجا تھا، پرنسپل کے اس رویے سے یقیناً وہ امتحان میں نہیں بیٹھ سکتی تھی، یقیناً یہ اس کے ساتھ بہت بڑا ظلم تھا۔ لہٰذا اس جواں سالہ لڑکی نے خودکشی کو ترجیح دی۔
اس حادثے نے اہل دل کو خون کے آنسو رلا دیا اور خوشیوں بھرا گھر ماتم کدہ بن گیا۔ اس نے بھی اپنے پیغام میں پرنسپل کو ہی اپنی خودکشی کا ذمے دار ٹھہرایا تھا۔ 12 اپریل 2016 کو ایک ڈینٹل کالج کے طالب علم عبدالباسط کی خودکشی نے پورے شہر کو اداس کردیا۔ ہر شخص کو اس کی موت کا صدمہ تھا اور ہونا چاہیے۔ ایک گھرانے کا چراغ گل ہوگیا اور روشن گھر، خوشیوں سے بھرا گھر اندھیروں اور دکھوں میں ڈوب گیا۔
ہمارے شہر کراچی میں ٹرانسپورٹ کے بے حد مسائل ہیں، رش کے باعث ٹریفک جام ہوجاتا ہے، ایمبولینسیں پھنس جاتی ہیں اور جاں بلب مریض دم توڑ جاتے ہیں لیکن عبدالباسط کے ساتھ یہ مسئلہ نہیں تھا، اس بے چارے مظلوم نوجوان کی گاڑی خراب ہوگئی تھی اور وہ اسے خود ٹھیک کرتا رہا یا کسی مکینک کو دکھانے میں اتنا وقت بیت گیا کہ امتحان کا مقررہ وقت ختم ہوگیا اور ممتحن حضرات پرچے اپنے ساتھ لے گئے، بے شک ہر ادارے کے اپنے قوانین اور اصول و ضوابط ہوتے ہیں لیکن ساتھ میں انسانیت کی بقا اور علم و اخلاق کے تقاضے بھی کچھ ہوتے ہیں، کسی کی ختم ہوتی زندگی اور ذہنی تکلیف اور مستقبل کی بربادی کو مدنظر رکھتے ہوئے ہر قانون ہیچ ہے۔
ویسے بھی ہمارے ملک میں قانون کو مٹی کے برتنوں کی طرح بے دردی کے ساتھ توڑ دیا جاتا ہے۔ اپنے ارادوں اور اصولوں میں لچک دکھانا اور بگڑتے حالات کو سنوارنا ایک تعلیم یافتہ شخص کا پہلا اصول ہوتا ہے، لیکن ڈینٹل کالج کے اساتذہ و منتظمین نے تمام اخلاقیات کو بالائے طاق رکھ کر عبدالباسط کو مایوسی اور شکست کی دلدل میں دھکیل دیا۔ کیا ہی اچھا ہوتا معلمین اس کے سر پر ہاتھ رکھتے، اسے حوصلہ دیتے کہ تمھارا پرچہ آج یا کل ضرور لے لیا جائے گا۔ چونکہ عبدالباسط گزشتہ دو سال سے اسی پرچے میں فیل ہورہا تھا تو نتیجہ اس کا الٹ ہوتا۔ انسانیت کی جیت ہوجاتی۔
(جاری ہے)