عالمی سرمایہ داری کا ہولناک تسلسل
2010 کے بعد امریکی دولت میں 44 فیصد اور غربت میں 41 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
اپنے ایک گزشتہ کالم میں ہم نے یہ لکھا تھا کہ دہائیوں قبل عالمی سرمایہ داری کی لوٹ مار کے خلاف صرف سوشلسٹ، کمیونسٹ، انارکسٹ یا ایماندار لوگ ہی بولتے تھے، مگر آج سرمایہ داری کا سڑا ہوا انڈا پھٹ گیا ہے اور اس کی بدبو سے سب پریشان ہیں۔ 2010 کے بعد امریکی دولت میں 44 فیصد اور غربت میں 41 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اس طبقاتی خلیج کی بات برصغیر کے عظیم انقلابی شہید بھگت سنگھ نے 23 مارچ 1931 میں اپنی پھانسی سے قبل کہی تھی کہ ''انقلابی اچھی طرح جانتے ہیں کہ سوشلسٹ سماج انسانی نجات کی واحد ضمانت ہے''۔ ان کے ساتھ سکھ دیو اور راج گرو کو بھی پھانسی ہوئی تھی۔
حال ہی میں یعنی مارچ 2016 کا واقعہ ہے کہ ہندوستان کے ایک اچھوت طالب علم کو یونیورسٹی سے نکالنے کے بعد اس نے خودکشی کی،۔ پھر دہلی میں جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں کشمیری رہنما افضل گورو کی برسی منانے پر حکومت کی جانب سے کمیونسٹ پارٹی طلبا ونگ آل انڈیا اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے رہنما کنہیا کمار کی گرفتاری کے خلاف 18 یونیورسٹیوں میں ہڑتال ہوئی۔ 5 مارچ کو تہاڑ جیل سے رہا ہونے کے بعد کنہیا کمار نے اپنے خطاب میں کہا کہ ''ہمیں ہندوستان سے نہیں بلکہ ہندوستان کے اندر آزادی چاہیے، ہمیں بھوک اور غربت سے آزادی چاہیے، ہمیں سرمایہ داری کے نظام سے آزادی چاہیے۔ سوشلزم، فرقہ پرستی اور سرمایہ داری پر فتح مند ہوگا''۔ انھوں نے مزید کہا کہ ''گجرات میں مسلمانوں کا قتل عام ریاستی مشینری نے کرایا''۔
جس طرح دنیا بھر میں سات ارب کی آبادی میں سے پانچ ارب کی آبادی غربت کی لکیرکے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے تو دوسری جانب چند ہاتھوں میں دولت کا انبار جمع ہوگیا ہے۔ اس بے روزگاری، مہنگائی، لاعلاجی اور غربت کو ختم کرنے کے بجائے جگہ جگہ، خطوں اور علاقوں میں نان ایشوز کو ابھارا جارہا ہے۔ ہرچند کہ پانامہ پیپرز میں شایع ہونے والے تمام لوگوں نے یقیناً لوٹ مار مچا رکھی ہے لیکن دنیا کے دس بڑے سرمایہ داروں میں سات امریکا کے ہیں۔
امریکا کی صنعتی پیداوار میں سے 70 فیصد اسلحے کی ہے۔ اگر دنیا بھر سے اسلحے کی پیداوار ختم کردی جائے تو کوئی بھوکا نہیں مرے گا، کوئی لاعلاج، جاہل یا بیروزگار نہیں رہے گا۔ اسی طرح سے پاکستان میں نان ایشوز کو ابھارا جارہا ہے، جس میں عوام دال، دلیہ کے بجائے نان ایشوز میں لگے رہیں۔ ایک جانب پاکستان کے امیرترین لوگ سوئس ینک، بینک آف انگلینڈ اور دنیا بھر میں دولت منتقل کرکے ارب پتی سے کھرب پتی بن رہے ہیں اور دوسری جانب لوگ بھوک سے مررہے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ پاک چین راہداری، گوادر پورٹ، میٹروبس سروس اور اورینج ٹرین کے قیام سے روزگار ملے گا۔ دو فیصد لوگوں کو روزگار دلانے کے بجائے کارخانوں کا جال بچھا کر بے روزگاری کو سرے سے ختم کیوں نہ کردیا جائے؟ اس وقت پاکستان کی معیشت، صحت، تعلیم، فلاح و بہبود کا یہ حال ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ ان پڑھ لوگ برطانیہ، دوسرے نمبر پہ ہیٹی اور تیسرے نمبر پر پاکستان ہے۔ یو این او کی رپورٹ کے مطابق مردہ بچوں کی پیدائش میں ایک سو چھیاسی ملکوں میں پاکستان نمبر ون ہے۔ بیس سال میں 36 لاکھ ایکڑ زمین سیم کا شکار ہوچکی ہے۔
کچھ دنوں قبل سندھ پروفیسرز اینڈ لیکچرارز ایسوسی ایشن کے صدر پروفیسر علی مرتضیٰ نے کہا کہ ''ہم اپنے حقوق کی جدوجہد کے سلسلے میں مظاہرہ کررہے تھے اور وزیراعلیٰ سے ملنا چاہتے تھے جب کہ ہم پر لاٹھی چارج، واٹرکینن اور آنسوگیس کا استعمال کیا گیا''۔ غریب بچوں کی فیس معاف کرنے کا اعلان حکومت تین سال قبل کرچکی ہے لیکن ابھی تک اس پر عمل نہیں ہوا۔ وفاقی اردو یونیورسٹی کے ساتھ بھی ایسا ہی ہورہا ہے۔ ایک جانب استادوں پر تشدد اور دوسری جانب رجعت پرست ملاؤں سے دوستانہ مذاکرات اور مطالبات تسلیم کرنا اس بات کی غمازی ہے کہ ہماری حکومت جمہوری مطالبات ماننے کے بجائے رجعتی اور نان ایشوز خود ابھارنے کا موقع دے رہی ہے۔
یہی صورتحال سیاسی اکھاڑے میں واضح نظر آرہی ہے۔ ایک جانب پی پی پی کے رہنما شروع میں نواز خاندان کی بدعنوانی پر شدید تنقید کرتے ہیں تو پھر چند دنوں میں کہتے ہیں کہ ہم حکومت گرانا نہیں چاہتے ہیں۔ ایک طرف عمران خان استعفے کا مطالبہ کرتے ہیں تو دوسری طرف چوہدری نثار سے مذاکرات کرتے ہیں، جماعتوں کے اندر کے تضادات بھی کھل کر عوام کے سامنے آگئے ہیں۔ سیاسی جماعتیں عوام کی نمایندہ نہیں، بلکہ مقتدر اداروں اور سامراج کی نمایندہ ہیں، جب کہ عوام کے مسائل بڑھتے ہی جارہے ہیں۔ لوگ مہنگائی، بے روزگاری، لاعلاجی اور غربت کے شکار ہیں۔
یہ جماعتیں اور رہنما ان کے مسائل پر ردعمل کے بجائے نان ایشوز کے بحث مباحثے میں لگے ہوئے ہیں۔ ابھی حال ہی میں گوشت، مچھلی، آٹا، چینی، دال، دودھ، دہی، سبزی، کتابیں، ادویات، کھاد، بجلی اور ٹریکٹر وغیرہ کے مہنگا ہونے پر کوئی ردعمل ہے اور نہ کوئی ہڑتال۔ اگر ہڑتال اور دھرنا دیا جاتا ہے تو صرف نان ایشوز پر جیسا کہ عمران خان کا دھرنا، علما کونسل کا دھرنا، مصطفیٰ کمال کا مطالبہ، ایم کیو ایم کی شکایت، جے یوآئی اور اے این پی کی تقریباً خاموشی اس بات کا اظہار ہے کہ ان کو عوام کے مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔
یہ سب عالمی سرمایہ داری کے تسلسل میں کام کرتے ہیں۔ اب عالمی سرمایہ داروں کی خیر نہیں۔ ان کی معیشت کی کشتی ڈوبنے والی ہے۔ عالمی سرمایہ داری کی سالانہ شرح نمو صرف دو فیصد رہ گئی ہے۔ عوام کے سامنے اتنے شرمسار ہیں کہ بیلجیئم اور اسپین کے وزیروں نے اپنے عہدوں سے استعفیٰ دے دیا ہے، ادھرکرغستان، یوکرائن، آئس لینڈ کے وزرائے اعظم پہلے ہی استعفیٰ دے چکے ہیں۔ برطانیہ، نیوزی لینڈ، ہالینڈ، نائیجیریا، روس اور آسٹریلیا کے وزرائے اعظم پر استعفیٰ کے لیے شدید دباؤ ہے۔ اس لیے نہیں کہ وہ شریف ہوگئے ہیں بلکہ عوام کا دباؤ بڑھ گیا ہے۔
پاکستان میں عوام سڑکوں پر ابھی تک نہیں آئے ہیں۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی بادشاہتیں بھی ملوث ہیں اور چین بھی، لیکن یہاں آمرانہ طرز حکمرانی ہے، اس لیے معاملات دبے ہوئے ہیں۔ بہرحال بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی۔ اب تو سعودی عرب میں موجود امریکی اثاثوں کی ضبطگی کی بات بھی ہورہی ہے۔ کاش ایسا ہوجاتا، مگر میرے خیال میں یہ سب گیڈر بھبکیاں ہیں۔ آخری معرکہ تب ہوگا جب عوام اور محنت کش طبقہ سڑکوں پر نکلے گا۔
حال ہی میں یعنی مارچ 2016 کا واقعہ ہے کہ ہندوستان کے ایک اچھوت طالب علم کو یونیورسٹی سے نکالنے کے بعد اس نے خودکشی کی،۔ پھر دہلی میں جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں کشمیری رہنما افضل گورو کی برسی منانے پر حکومت کی جانب سے کمیونسٹ پارٹی طلبا ونگ آل انڈیا اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے رہنما کنہیا کمار کی گرفتاری کے خلاف 18 یونیورسٹیوں میں ہڑتال ہوئی۔ 5 مارچ کو تہاڑ جیل سے رہا ہونے کے بعد کنہیا کمار نے اپنے خطاب میں کہا کہ ''ہمیں ہندوستان سے نہیں بلکہ ہندوستان کے اندر آزادی چاہیے، ہمیں بھوک اور غربت سے آزادی چاہیے، ہمیں سرمایہ داری کے نظام سے آزادی چاہیے۔ سوشلزم، فرقہ پرستی اور سرمایہ داری پر فتح مند ہوگا''۔ انھوں نے مزید کہا کہ ''گجرات میں مسلمانوں کا قتل عام ریاستی مشینری نے کرایا''۔
جس طرح دنیا بھر میں سات ارب کی آبادی میں سے پانچ ارب کی آبادی غربت کی لکیرکے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے تو دوسری جانب چند ہاتھوں میں دولت کا انبار جمع ہوگیا ہے۔ اس بے روزگاری، مہنگائی، لاعلاجی اور غربت کو ختم کرنے کے بجائے جگہ جگہ، خطوں اور علاقوں میں نان ایشوز کو ابھارا جارہا ہے۔ ہرچند کہ پانامہ پیپرز میں شایع ہونے والے تمام لوگوں نے یقیناً لوٹ مار مچا رکھی ہے لیکن دنیا کے دس بڑے سرمایہ داروں میں سات امریکا کے ہیں۔
امریکا کی صنعتی پیداوار میں سے 70 فیصد اسلحے کی ہے۔ اگر دنیا بھر سے اسلحے کی پیداوار ختم کردی جائے تو کوئی بھوکا نہیں مرے گا، کوئی لاعلاج، جاہل یا بیروزگار نہیں رہے گا۔ اسی طرح سے پاکستان میں نان ایشوز کو ابھارا جارہا ہے، جس میں عوام دال، دلیہ کے بجائے نان ایشوز میں لگے رہیں۔ ایک جانب پاکستان کے امیرترین لوگ سوئس ینک، بینک آف انگلینڈ اور دنیا بھر میں دولت منتقل کرکے ارب پتی سے کھرب پتی بن رہے ہیں اور دوسری جانب لوگ بھوک سے مررہے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ پاک چین راہداری، گوادر پورٹ، میٹروبس سروس اور اورینج ٹرین کے قیام سے روزگار ملے گا۔ دو فیصد لوگوں کو روزگار دلانے کے بجائے کارخانوں کا جال بچھا کر بے روزگاری کو سرے سے ختم کیوں نہ کردیا جائے؟ اس وقت پاکستان کی معیشت، صحت، تعلیم، فلاح و بہبود کا یہ حال ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ ان پڑھ لوگ برطانیہ، دوسرے نمبر پہ ہیٹی اور تیسرے نمبر پر پاکستان ہے۔ یو این او کی رپورٹ کے مطابق مردہ بچوں کی پیدائش میں ایک سو چھیاسی ملکوں میں پاکستان نمبر ون ہے۔ بیس سال میں 36 لاکھ ایکڑ زمین سیم کا شکار ہوچکی ہے۔
کچھ دنوں قبل سندھ پروفیسرز اینڈ لیکچرارز ایسوسی ایشن کے صدر پروفیسر علی مرتضیٰ نے کہا کہ ''ہم اپنے حقوق کی جدوجہد کے سلسلے میں مظاہرہ کررہے تھے اور وزیراعلیٰ سے ملنا چاہتے تھے جب کہ ہم پر لاٹھی چارج، واٹرکینن اور آنسوگیس کا استعمال کیا گیا''۔ غریب بچوں کی فیس معاف کرنے کا اعلان حکومت تین سال قبل کرچکی ہے لیکن ابھی تک اس پر عمل نہیں ہوا۔ وفاقی اردو یونیورسٹی کے ساتھ بھی ایسا ہی ہورہا ہے۔ ایک جانب استادوں پر تشدد اور دوسری جانب رجعت پرست ملاؤں سے دوستانہ مذاکرات اور مطالبات تسلیم کرنا اس بات کی غمازی ہے کہ ہماری حکومت جمہوری مطالبات ماننے کے بجائے رجعتی اور نان ایشوز خود ابھارنے کا موقع دے رہی ہے۔
یہی صورتحال سیاسی اکھاڑے میں واضح نظر آرہی ہے۔ ایک جانب پی پی پی کے رہنما شروع میں نواز خاندان کی بدعنوانی پر شدید تنقید کرتے ہیں تو پھر چند دنوں میں کہتے ہیں کہ ہم حکومت گرانا نہیں چاہتے ہیں۔ ایک طرف عمران خان استعفے کا مطالبہ کرتے ہیں تو دوسری طرف چوہدری نثار سے مذاکرات کرتے ہیں، جماعتوں کے اندر کے تضادات بھی کھل کر عوام کے سامنے آگئے ہیں۔ سیاسی جماعتیں عوام کی نمایندہ نہیں، بلکہ مقتدر اداروں اور سامراج کی نمایندہ ہیں، جب کہ عوام کے مسائل بڑھتے ہی جارہے ہیں۔ لوگ مہنگائی، بے روزگاری، لاعلاجی اور غربت کے شکار ہیں۔
یہ جماعتیں اور رہنما ان کے مسائل پر ردعمل کے بجائے نان ایشوز کے بحث مباحثے میں لگے ہوئے ہیں۔ ابھی حال ہی میں گوشت، مچھلی، آٹا، چینی، دال، دودھ، دہی، سبزی، کتابیں، ادویات، کھاد، بجلی اور ٹریکٹر وغیرہ کے مہنگا ہونے پر کوئی ردعمل ہے اور نہ کوئی ہڑتال۔ اگر ہڑتال اور دھرنا دیا جاتا ہے تو صرف نان ایشوز پر جیسا کہ عمران خان کا دھرنا، علما کونسل کا دھرنا، مصطفیٰ کمال کا مطالبہ، ایم کیو ایم کی شکایت، جے یوآئی اور اے این پی کی تقریباً خاموشی اس بات کا اظہار ہے کہ ان کو عوام کے مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔
یہ سب عالمی سرمایہ داری کے تسلسل میں کام کرتے ہیں۔ اب عالمی سرمایہ داروں کی خیر نہیں۔ ان کی معیشت کی کشتی ڈوبنے والی ہے۔ عالمی سرمایہ داری کی سالانہ شرح نمو صرف دو فیصد رہ گئی ہے۔ عوام کے سامنے اتنے شرمسار ہیں کہ بیلجیئم اور اسپین کے وزیروں نے اپنے عہدوں سے استعفیٰ دے دیا ہے، ادھرکرغستان، یوکرائن، آئس لینڈ کے وزرائے اعظم پہلے ہی استعفیٰ دے چکے ہیں۔ برطانیہ، نیوزی لینڈ، ہالینڈ، نائیجیریا، روس اور آسٹریلیا کے وزرائے اعظم پر استعفیٰ کے لیے شدید دباؤ ہے۔ اس لیے نہیں کہ وہ شریف ہوگئے ہیں بلکہ عوام کا دباؤ بڑھ گیا ہے۔
پاکستان میں عوام سڑکوں پر ابھی تک نہیں آئے ہیں۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی بادشاہتیں بھی ملوث ہیں اور چین بھی، لیکن یہاں آمرانہ طرز حکمرانی ہے، اس لیے معاملات دبے ہوئے ہیں۔ بہرحال بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی۔ اب تو سعودی عرب میں موجود امریکی اثاثوں کی ضبطگی کی بات بھی ہورہی ہے۔ کاش ایسا ہوجاتا، مگر میرے خیال میں یہ سب گیڈر بھبکیاں ہیں۔ آخری معرکہ تب ہوگا جب عوام اور محنت کش طبقہ سڑکوں پر نکلے گا۔