یہ کھیل کب تک چلے گا
مختلف تقریبات اور محافل میں لوگ اکثر یہ سوال پوچھتے ہیں کہ جس خطے پر پاکستان بنا ہے
مختلف تقریبات اور محافل میں لوگ اکثر یہ سوال پوچھتے ہیں کہ جس خطے پر پاکستان بنا ہے، وہاں نہ تو وسائل کی کمیابی ہے اور نہ ہی افرادی قوت کی کمی ہے۔ لوگ بھی ذہین، باحوصلہ اور جفاکش ہیں، جب کہ سندھ اور پنجاب میں اتنی اجناس پیدا ہو جاتی ہیں، جو پورے ملک کے ہر شہری کی غذائی ضروریات سے کچھ زیادہ ہی ہوتی ہیں۔
ہر موسم میں پھلوں اور سبزیوں کی درجن بھر اقسام وافر مقدار میں اگتی ہیں، پھر معدنیات کی بھی کوئی کمی نہیں ہے۔ نصف درجن سے زائد دریا اس کے سینے پر ناگن کی طرح لہراتے بل کھاتے اس کی زمینوں کو سیراب کرتے رہے ہیں۔ گرم ترین سے سرد ترین موسموں کی لذت بھی یہاں میسر ہے۔ بہار کی شگفتگی اور خزاں کی اداسی سے لطف اندوز ہونے کے مواقعے بھی میسر ہیں، مگر ان تمام خصوصیات اور قدرت کی بے پایاں عنایات کے باوجود یہ ملک اغیار کا دست نگر اور غربت و افلاس کا شکار کیوں ہے؟
سوال بہرحال اپنی جگہ اہم ہے۔ اس قسم کے ان گنت سوالات ہر متوشش اور ذی شعور شخص کے ذہن پر کچوکے لگا رہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ معالات و مسائل اتنے سادہ نہیں جتنے بیان کیے جاتے ہیں یا حکمران اشرافیہ سمجھ رہی ہے، بلکہ کثیرالجہتی ہونے کے ساتھ انتہائی پیچیدہ بھی ہوتے جا رہے ہیں۔ اس وقت سب سے بڑا مسئلہ جو بحرانی شکل اختیار کر چکا ہے، وہ ریاست کے منطقی جواز کا معاملہ ہے، جو 68 برس گزر جانے کے باوجود ہنوز متنازع ہے۔
دوئم، نظم حکمرانی یعنی Governance کے مسائل بھی انتہائی پیچیدہ ہو چکے ہیں۔ ریاست منطقی طور پر ایک وفاقی جمہوریہ کے طور پر وجود میں آئی تھی، مگر ریاستی اشرافیہ اسے وحدانی ریاست بنانے پر تلی ہوئی ہے۔ ہر چند برس بعد یا تو صدارتی نظام کے حق میں کسی سمت سے نعرہ مستانہ بلند ہو جاتا ہے، یا پھر کوئی صوبائی خودمختاری کے خلاف زہر اگلنا شروع کر دیتا ہے۔
سوئم، میرٹ، شفافیت اور احتساب دنیا بھر میں اچھی حکمرانی کے کلیدی اوصاف تصور کیے جاتے ہیں، مگر نہ تو 36 برسوں کے دوران قائم ہونے والی کسی سیاسی حکومت نے نظم حکمرانی کو ان اصولوں کے مطابق ڈھالنے کی کوئی عملی کوشش کی اور نہ ہی مجموعی طور پر 32 برس اقتدار میں رہنے والی فوجی آمریتیں اس سلسلے میں کوئی اقدام کر سکیں۔
خرابیِ بسیار کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ سیاسی جماعتیں اور ان کی قیادتیں اس دوراندیشی، تدبر، بصیرت اور سیاسی عزم سے عاری ہیں، جو اچھی حکمرانی کے لیے لازمی صفات تصور کی جاتی ہیں۔ چہارم، ریاست اور سیاست پر تسلسل کے ساتھ وہ طبقات حاوی ہیں، جن کا Stake اس ملک میں نہیں ہے۔ اس لیے انھیں نہ تو عوام کو درپیش مسائل کا ادراک ہے اور نہ ہی انھیں حل کرنے میں کوئی دلچسپی ہے۔
پانچویں خرابی یہ ہے کہ ملک میں قبائلی اور فیوڈل کلچر کی جڑیں گہری ہونے کے باعث اقتدار و اختیار کی مرکزیت کی نفسیات ہر ادارے اور شعبے میں حاوی ہے۔ ہر بااختیار شخص اپنے آئینی و قانونی اختیارات سے تجاوز اور ان کے ارتکاز کو طاقت تصور کرتا ہے، بلکہ اکثر اوقات وہ دوسرے شعبہ جات میں بھی مداخلت سے گریز نہیں کرتا۔ اس رجحان نے اداروں کے درمیان تعاون کے بجائے ان میں فاصلے بڑھا دیے ہیں۔
جس کے نتیجے میں ایک طرف اقتدار و اختیار کی نچلی سطح تک منتقلی میں رکاوٹیں آ رہی ہیں، جب کہ دوسری طرف ادارہ جاتی تعاون اور ورکنگ ریلیشن شپ بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔ سیاسی قیادتیں بیوروکریسی پر اور سول اور ملٹری بیوروکریسی سیاسی قیادتوں پر اعتماد نہیں کرتیں، بلکہ انتظامی اداروں کے درمیان بھی عدم اعتماد کی فضا پیدا ہو چکی ہے۔ جس کی کئی ناقابل تردید مثالیں موجود ہیں۔ اس طرز عمل کی وجہ سے نئے اداروں کا قیام اور نئے قوانین کی تیاری ممکن نہیں رہی ہے۔ نتیجتاً نو آبادیاتی دور کے ادارے بھی صحیح طور سے نہیں چل پا رہے، بلکہ وہ بھی تباہی کے دہانے تک پہنچ گئے ہیں۔
میرٹ، شفافیت اور احتساب کا واضح مکینزم نہ ہونے کی وجہ سے اقربا پروری، رشوت ستانی اور بدعنوانی جیسی خرابیوں کی جڑیں خاصی گہری ہو گئی ہیں۔ حکمران اشرافیہ اپنے مخصوص مفادات کی تکمیل کی خاطر ان برائیوں کی سرپرستی کرتی ہے۔ ہر محکمہ اور شعبے میں من پسند افراد کی تقرری اور تعیناتی کے نتیجے میں پیشہ ورانہ استعداد کی کمی، نااہلی اور جذبہ شوق کے فقدان کو جنم دیا ہے۔
مفاد پرستی، بدنیتی، بیگانگی اور بے عملی ریاستی انتظامی اداروں کی شناخت بن چکی ہے۔ اس صورتحال کے نتیجے میں پورا ریاستی انتظامی ڈھانچہ زمیں بوس ہو چکا ہے۔ جس میں اب ڈیلیور کرنے کی قطعی کوئی سکت باقی نہیں رہ گئی ہے۔ چنانچہ ملک کو گزشتہ 68 برسوں سے محض غلط بیانیوں کے ذریعے چلانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس لیے جو کچھ ہو رہا ہے یا جو کچھ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، وہ سوائے خود فریبی کے اور کچھ نہیں ہے۔ اردو کا ایک محاورہ ہے کہ 'اونٹ رے اونٹ تیری کون سی کل سیدھی' یہ محاورہ سب سے زیادہ پاکستان پر صادق آتا ہے۔
ویسے تو پورا ریاستی انتظامی ڈھانچہ بدترین تباہی کا شکار ہے، لیکن پولیس کا محکمہ جو ریاستی انتظام میں خصوصی اہمیت کا حامل ہے، اس وقت بدترین انتظامی بندوبست کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس محکمے کو ریاستی اشرافیہ جس بدترین انداز میں اپنے سیاسی مقاصد اور مفادات کے لیے استعمال کر رہی ہے، اس نے اس ادارے کی رہی سہی توقیر کو بھی خاک میں ملا دیا ہے۔ آج یہ محکمہ سرتاپا سیاسی (Politicised) ہو چکا ہے۔ حکومتیں خواہ سیاسی ہوں یا غیر سیاسی، دونوں ہی پولیس کو اپنے مخصوص مفادات کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ اس لیے پولیس کے محکمے میں تطہیر اور اصلاحات سے دانستہ گریز کیا جا رہا ہے۔ جس کی وجہ سے یہ محکمہ مسلسل ابتری کی جانب گامزن ہے۔ پولیس کے نظام میں پائی جانے والی خرابیوں کا اجمالی جائزہ لیا جائے تو چند درج ذیل ہیں۔
1۔ نان گزیٹڈ پوزیشنوں بالخصوص کانسٹیبل وغیرہ کی تقرری میں اہلیت اور استعداد کو قطعی طور پر نظر انداز کیا جا رہا ہے، جس کی وجہ سے نااہل افراد کی ایک بڑی تعداد نچلی سطح پر بھرتی ہو چکی ہے۔ ASI سے انسپکٹر تک کے عہدوں پر ترقی، تقرری اور تعیناتی کے لیے رشوت کا کلچر عام ہو چکا ہے، جب کہ تھانے بکنے کی باتیں بھی عام ہیں۔یوں تھانہ عام آدمی کو تحفظ فراہم کرنے کے بجائے اس کے لیے عدم تحفظ کا ذریعہ بن گیا ہے۔ 2۔ انگریز نے انتظامی اداروں کے افسران اور اہلکاروں کو کسی ایک مقام پر کم از کم تین سال تک تعینات رکھنے کا اصول وضع کیا تھا۔ ہمارے حکمران پسند، ناپسند کی خاطر افسران اور اہلکاروں کو کسی ایک جگہ چند مہینے بھی ٹکنے نہیں دیتے۔ نتیجتاً وہ تھانیدار جو رشوت دے کر کسی تھانے میں تعیناتی حاصل کرتا ہے، اس کی دلچسپی علاقے میں امن و امان سے زیادہ اس رقم کی واپسی ہے، جو اس نے تعیناتی کے لیے دی تھی۔
یہی کچھ معاملہ ضلع میں SSP اور اس سے اوپر DIG اور IG کی تقرری کا ہے۔ ان عہدوں پر بھی خوشامدی اور من پسند افسران کو تعینات کیا جاتا ہے، تا کہ لاٹ صاحب کے جائز اور ناجائز معاملات کی نگہبانی ہو سکے۔ 3۔ پولیس کے افسران اور اہلکاروں کی تربیت کا وہی طریقہ کار مروج ہے، جو نوآبادیاتی دور میں رائج کیا گیا تھا۔ اسی طرح پولیس ٹریننگ انسٹیٹیوٹس میں تربیت کے لیے جو ماڈیولز (Modules) استعمال کیے جا رہے ہیں، وہ آج کے دور میں Outdated ہو چکے ہیں۔ 4۔ پولیس کے افسران اور اہلکاروں کی تنخواہیں انتہائی قلیل ہیں، جب کہ ان کی ذمے داریاں اور اختیارات بہت زیادہ ہیں۔ آمدنی اور اختیارات کے درمیان اس عدم توازن نے رشوت ستانی اور بدعنوانیوں کو مزید تقویت پہنچائی ہے۔ اسی طرح انھیں جو اسلحہ دیا جاتا ہے اور جو موبائل گاڑیاں ان کے تصرف میں ہوتی ہیں، وہ انتہائی خستہ اور ناگفتہ بہ حالت میں ہوتی ہیں، جب کہ جرائم پیشہ افراد پولیس کے مقابلے کہیں زیادہ جدید اسلحہ اور گاڑیاں استعمال کر رہے ہوتے ہیں۔
5۔ آخری، لیکن سب سے اہم معاملہ یہ ہے کہ دنیا بھر میں مقامی پولیس کا تصور نہایت کامیاب ثابت ہوا ہے، خاص طور پر میٹروپولیٹن شہروں میں یہ تجربہ خاصا کامیاب رہا ہے۔ نیویارک، ممبئی اور کولکتہ جیسے شہر جو 1980ء کے عشرے تک خاصی حد تک بدامنی کا شکار تھے، بااختیار مقامی حکومت کے ماتحت مقامی پولیس کے قیام نے ان شہروں میں امن و امان کی صورتحال کو بہتر بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ بیسویں صدی کی آخری دہائی کے دوران مقامی اور کمیونٹی پولیسنگ کے تصور کو خاصی کامیابی اور مقبولیت حاصل ہوئی۔ اس لیے پاکستان میں بھی ضروری ہو گیا ہے کہ ہر ضلع میں پولیس کے نان گزیٹڈ عملے کی تقرری اس ضلع کی شہریت رکھنے والے افراد میں سے کی جائے۔ البتہ اعلیٰ افسران (گزیٹڈ) کا تبادلہ اور تقرری صوبائی سطح پر اصول و ضوابط کے مطابق ہونا چاہیے۔
لیکن پاکستان میں حکمران اشرافیہ سے یہ توقع نہیں ہے کہ وہ عقل و دانش کی بنیاد پر ایسے فیصلے اور اقدامات کرے گی، جو براہ راست عوام کے مفاد میں ہوں۔ پھر عرض ہے کہ اس کی وجہ فیوڈل Mindset ہے، جو اقتدار و اختیار کی عدم مرکزیت اور انتظامی اداروں کی اصلاحات کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے، مگر ہم بقول اقبال حکم اذاں پر اذان دیتے رہیں گے۔ کبھی تو یہ آواز ایوانوں تک پہنچے گی۔
ہر موسم میں پھلوں اور سبزیوں کی درجن بھر اقسام وافر مقدار میں اگتی ہیں، پھر معدنیات کی بھی کوئی کمی نہیں ہے۔ نصف درجن سے زائد دریا اس کے سینے پر ناگن کی طرح لہراتے بل کھاتے اس کی زمینوں کو سیراب کرتے رہے ہیں۔ گرم ترین سے سرد ترین موسموں کی لذت بھی یہاں میسر ہے۔ بہار کی شگفتگی اور خزاں کی اداسی سے لطف اندوز ہونے کے مواقعے بھی میسر ہیں، مگر ان تمام خصوصیات اور قدرت کی بے پایاں عنایات کے باوجود یہ ملک اغیار کا دست نگر اور غربت و افلاس کا شکار کیوں ہے؟
سوال بہرحال اپنی جگہ اہم ہے۔ اس قسم کے ان گنت سوالات ہر متوشش اور ذی شعور شخص کے ذہن پر کچوکے لگا رہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ معالات و مسائل اتنے سادہ نہیں جتنے بیان کیے جاتے ہیں یا حکمران اشرافیہ سمجھ رہی ہے، بلکہ کثیرالجہتی ہونے کے ساتھ انتہائی پیچیدہ بھی ہوتے جا رہے ہیں۔ اس وقت سب سے بڑا مسئلہ جو بحرانی شکل اختیار کر چکا ہے، وہ ریاست کے منطقی جواز کا معاملہ ہے، جو 68 برس گزر جانے کے باوجود ہنوز متنازع ہے۔
دوئم، نظم حکمرانی یعنی Governance کے مسائل بھی انتہائی پیچیدہ ہو چکے ہیں۔ ریاست منطقی طور پر ایک وفاقی جمہوریہ کے طور پر وجود میں آئی تھی، مگر ریاستی اشرافیہ اسے وحدانی ریاست بنانے پر تلی ہوئی ہے۔ ہر چند برس بعد یا تو صدارتی نظام کے حق میں کسی سمت سے نعرہ مستانہ بلند ہو جاتا ہے، یا پھر کوئی صوبائی خودمختاری کے خلاف زہر اگلنا شروع کر دیتا ہے۔
سوئم، میرٹ، شفافیت اور احتساب دنیا بھر میں اچھی حکمرانی کے کلیدی اوصاف تصور کیے جاتے ہیں، مگر نہ تو 36 برسوں کے دوران قائم ہونے والی کسی سیاسی حکومت نے نظم حکمرانی کو ان اصولوں کے مطابق ڈھالنے کی کوئی عملی کوشش کی اور نہ ہی مجموعی طور پر 32 برس اقتدار میں رہنے والی فوجی آمریتیں اس سلسلے میں کوئی اقدام کر سکیں۔
خرابیِ بسیار کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ سیاسی جماعتیں اور ان کی قیادتیں اس دوراندیشی، تدبر، بصیرت اور سیاسی عزم سے عاری ہیں، جو اچھی حکمرانی کے لیے لازمی صفات تصور کی جاتی ہیں۔ چہارم، ریاست اور سیاست پر تسلسل کے ساتھ وہ طبقات حاوی ہیں، جن کا Stake اس ملک میں نہیں ہے۔ اس لیے انھیں نہ تو عوام کو درپیش مسائل کا ادراک ہے اور نہ ہی انھیں حل کرنے میں کوئی دلچسپی ہے۔
پانچویں خرابی یہ ہے کہ ملک میں قبائلی اور فیوڈل کلچر کی جڑیں گہری ہونے کے باعث اقتدار و اختیار کی مرکزیت کی نفسیات ہر ادارے اور شعبے میں حاوی ہے۔ ہر بااختیار شخص اپنے آئینی و قانونی اختیارات سے تجاوز اور ان کے ارتکاز کو طاقت تصور کرتا ہے، بلکہ اکثر اوقات وہ دوسرے شعبہ جات میں بھی مداخلت سے گریز نہیں کرتا۔ اس رجحان نے اداروں کے درمیان تعاون کے بجائے ان میں فاصلے بڑھا دیے ہیں۔
جس کے نتیجے میں ایک طرف اقتدار و اختیار کی نچلی سطح تک منتقلی میں رکاوٹیں آ رہی ہیں، جب کہ دوسری طرف ادارہ جاتی تعاون اور ورکنگ ریلیشن شپ بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔ سیاسی قیادتیں بیوروکریسی پر اور سول اور ملٹری بیوروکریسی سیاسی قیادتوں پر اعتماد نہیں کرتیں، بلکہ انتظامی اداروں کے درمیان بھی عدم اعتماد کی فضا پیدا ہو چکی ہے۔ جس کی کئی ناقابل تردید مثالیں موجود ہیں۔ اس طرز عمل کی وجہ سے نئے اداروں کا قیام اور نئے قوانین کی تیاری ممکن نہیں رہی ہے۔ نتیجتاً نو آبادیاتی دور کے ادارے بھی صحیح طور سے نہیں چل پا رہے، بلکہ وہ بھی تباہی کے دہانے تک پہنچ گئے ہیں۔
میرٹ، شفافیت اور احتساب کا واضح مکینزم نہ ہونے کی وجہ سے اقربا پروری، رشوت ستانی اور بدعنوانی جیسی خرابیوں کی جڑیں خاصی گہری ہو گئی ہیں۔ حکمران اشرافیہ اپنے مخصوص مفادات کی تکمیل کی خاطر ان برائیوں کی سرپرستی کرتی ہے۔ ہر محکمہ اور شعبے میں من پسند افراد کی تقرری اور تعیناتی کے نتیجے میں پیشہ ورانہ استعداد کی کمی، نااہلی اور جذبہ شوق کے فقدان کو جنم دیا ہے۔
مفاد پرستی، بدنیتی، بیگانگی اور بے عملی ریاستی انتظامی اداروں کی شناخت بن چکی ہے۔ اس صورتحال کے نتیجے میں پورا ریاستی انتظامی ڈھانچہ زمیں بوس ہو چکا ہے۔ جس میں اب ڈیلیور کرنے کی قطعی کوئی سکت باقی نہیں رہ گئی ہے۔ چنانچہ ملک کو گزشتہ 68 برسوں سے محض غلط بیانیوں کے ذریعے چلانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس لیے جو کچھ ہو رہا ہے یا جو کچھ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، وہ سوائے خود فریبی کے اور کچھ نہیں ہے۔ اردو کا ایک محاورہ ہے کہ 'اونٹ رے اونٹ تیری کون سی کل سیدھی' یہ محاورہ سب سے زیادہ پاکستان پر صادق آتا ہے۔
ویسے تو پورا ریاستی انتظامی ڈھانچہ بدترین تباہی کا شکار ہے، لیکن پولیس کا محکمہ جو ریاستی انتظام میں خصوصی اہمیت کا حامل ہے، اس وقت بدترین انتظامی بندوبست کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس محکمے کو ریاستی اشرافیہ جس بدترین انداز میں اپنے سیاسی مقاصد اور مفادات کے لیے استعمال کر رہی ہے، اس نے اس ادارے کی رہی سہی توقیر کو بھی خاک میں ملا دیا ہے۔ آج یہ محکمہ سرتاپا سیاسی (Politicised) ہو چکا ہے۔ حکومتیں خواہ سیاسی ہوں یا غیر سیاسی، دونوں ہی پولیس کو اپنے مخصوص مفادات کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ اس لیے پولیس کے محکمے میں تطہیر اور اصلاحات سے دانستہ گریز کیا جا رہا ہے۔ جس کی وجہ سے یہ محکمہ مسلسل ابتری کی جانب گامزن ہے۔ پولیس کے نظام میں پائی جانے والی خرابیوں کا اجمالی جائزہ لیا جائے تو چند درج ذیل ہیں۔
1۔ نان گزیٹڈ پوزیشنوں بالخصوص کانسٹیبل وغیرہ کی تقرری میں اہلیت اور استعداد کو قطعی طور پر نظر انداز کیا جا رہا ہے، جس کی وجہ سے نااہل افراد کی ایک بڑی تعداد نچلی سطح پر بھرتی ہو چکی ہے۔ ASI سے انسپکٹر تک کے عہدوں پر ترقی، تقرری اور تعیناتی کے لیے رشوت کا کلچر عام ہو چکا ہے، جب کہ تھانے بکنے کی باتیں بھی عام ہیں۔یوں تھانہ عام آدمی کو تحفظ فراہم کرنے کے بجائے اس کے لیے عدم تحفظ کا ذریعہ بن گیا ہے۔ 2۔ انگریز نے انتظامی اداروں کے افسران اور اہلکاروں کو کسی ایک مقام پر کم از کم تین سال تک تعینات رکھنے کا اصول وضع کیا تھا۔ ہمارے حکمران پسند، ناپسند کی خاطر افسران اور اہلکاروں کو کسی ایک جگہ چند مہینے بھی ٹکنے نہیں دیتے۔ نتیجتاً وہ تھانیدار جو رشوت دے کر کسی تھانے میں تعیناتی حاصل کرتا ہے، اس کی دلچسپی علاقے میں امن و امان سے زیادہ اس رقم کی واپسی ہے، جو اس نے تعیناتی کے لیے دی تھی۔
یہی کچھ معاملہ ضلع میں SSP اور اس سے اوپر DIG اور IG کی تقرری کا ہے۔ ان عہدوں پر بھی خوشامدی اور من پسند افسران کو تعینات کیا جاتا ہے، تا کہ لاٹ صاحب کے جائز اور ناجائز معاملات کی نگہبانی ہو سکے۔ 3۔ پولیس کے افسران اور اہلکاروں کی تربیت کا وہی طریقہ کار مروج ہے، جو نوآبادیاتی دور میں رائج کیا گیا تھا۔ اسی طرح پولیس ٹریننگ انسٹیٹیوٹس میں تربیت کے لیے جو ماڈیولز (Modules) استعمال کیے جا رہے ہیں، وہ آج کے دور میں Outdated ہو چکے ہیں۔ 4۔ پولیس کے افسران اور اہلکاروں کی تنخواہیں انتہائی قلیل ہیں، جب کہ ان کی ذمے داریاں اور اختیارات بہت زیادہ ہیں۔ آمدنی اور اختیارات کے درمیان اس عدم توازن نے رشوت ستانی اور بدعنوانیوں کو مزید تقویت پہنچائی ہے۔ اسی طرح انھیں جو اسلحہ دیا جاتا ہے اور جو موبائل گاڑیاں ان کے تصرف میں ہوتی ہیں، وہ انتہائی خستہ اور ناگفتہ بہ حالت میں ہوتی ہیں، جب کہ جرائم پیشہ افراد پولیس کے مقابلے کہیں زیادہ جدید اسلحہ اور گاڑیاں استعمال کر رہے ہوتے ہیں۔
5۔ آخری، لیکن سب سے اہم معاملہ یہ ہے کہ دنیا بھر میں مقامی پولیس کا تصور نہایت کامیاب ثابت ہوا ہے، خاص طور پر میٹروپولیٹن شہروں میں یہ تجربہ خاصا کامیاب رہا ہے۔ نیویارک، ممبئی اور کولکتہ جیسے شہر جو 1980ء کے عشرے تک خاصی حد تک بدامنی کا شکار تھے، بااختیار مقامی حکومت کے ماتحت مقامی پولیس کے قیام نے ان شہروں میں امن و امان کی صورتحال کو بہتر بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ بیسویں صدی کی آخری دہائی کے دوران مقامی اور کمیونٹی پولیسنگ کے تصور کو خاصی کامیابی اور مقبولیت حاصل ہوئی۔ اس لیے پاکستان میں بھی ضروری ہو گیا ہے کہ ہر ضلع میں پولیس کے نان گزیٹڈ عملے کی تقرری اس ضلع کی شہریت رکھنے والے افراد میں سے کی جائے۔ البتہ اعلیٰ افسران (گزیٹڈ) کا تبادلہ اور تقرری صوبائی سطح پر اصول و ضوابط کے مطابق ہونا چاہیے۔
لیکن پاکستان میں حکمران اشرافیہ سے یہ توقع نہیں ہے کہ وہ عقل و دانش کی بنیاد پر ایسے فیصلے اور اقدامات کرے گی، جو براہ راست عوام کے مفاد میں ہوں۔ پھر عرض ہے کہ اس کی وجہ فیوڈل Mindset ہے، جو اقتدار و اختیار کی عدم مرکزیت اور انتظامی اداروں کی اصلاحات کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے، مگر ہم بقول اقبال حکم اذاں پر اذان دیتے رہیں گے۔ کبھی تو یہ آواز ایوانوں تک پہنچے گی۔