چاند دیکھنے سے چاند پر پہنچنے تک

ماضی ہی میں نہیں بلکہ حال میں بھی ان قدرتی آفات کو انسان کے گناہوں کی سزا مانا جاتا رہا ہے

zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

لاطینی امریکا کے ملک ایکواڈور میں شدید زلزلے سے، جس کی شدت 7.8 ریکارڈ کی گئی ہے 233 افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور 1500 سے زیادہ افراد زخمی ہو گئے، سیکڑوں عمارتیں اور پل منہدم ہو گئے ہیں، مونٹا کے ایئرپورٹ پر کنٹرول ٹاور گرنے سے فضائی آپریشن معطل کر دیا گیا ہے۔ ایکواڈور سے 160 کلومیٹر دور کہوٹو شہر کی عمارتیں بھی متاثر ہو گئی ہیں۔ زلزلے، طوفان، سیلاب بڑے پیمانے پر تباہی مچانے والی ایسی قدرتی آفات ہیں جن کا سامنا کرۂ ارض کا انسان ہزاروں سال سے کر رہا ہے۔

ماضی ہی میں نہیں بلکہ حال میں بھی ان قدرتی آفات کو انسان کے گناہوں کی سزا مانا جاتا رہا ہے اور مذہبی قیادت عام لوگوں کو ایسے مواقع پر اپنے گناہوں سے معافی مانگنے کی ہدایت کرتی ہے، اس قسم کی ذہنی پسماندگی کی جڑیں ہزاروں سال کی گہرائی میں گڑی ہوئی ہیں، خاص طور پر ترقی پذیر ملکوں میں جہاں آج بھی زلزلوں، طوفانوں، سیلابوں، وبائی بیماریوں کو انسانوں کے گناہوں کی سزا اور قسمت کا لکھا مانا جاتا ہے، اس طرز فکر کے بڑے سنگین اثرات انسانی زندگی پر مرتب ہوتے ہیں۔

ماضی قریب میں یعنی بیسویں صدی کے اوائل تک یہ کلچر بہت مضبوط تھا، کیوں کہ جاگیردارانہ اور قبائلی نظام کی بنیادیں ان ہی تصورات پر استوار تھیں، بعض انسانی امراض کو بھی مقدر سے جوڑا جاتا تھا، جس کا نتیجہ یہ ہوتا تھا کہ انسان آنکھ بند کر کے ان آفات کو قبول ہی نہیں کرتا تھا بلکہ ان آفات کو اپنے ناکردہ گناہوں کی سزا سمجھ کر بے چوں و چرا قبول بھی کرتا تھا۔ لیکن جب بیسویں صدی میں سائنس و ٹیکنالوجی سمیت زندگی کے مختلف شعبوں میں تحقیق، تجربات اور انکشافات کا سلسلہ شروع ہوا تو بہت ساری عقائدی روایات ہوا میں اڑتی چلی گئیں۔

ماضی میں سورج اور چاند گرہن کے بارے میں بھی احمقانہ تصورات مستحکم تھے، لیکن جب ماہرین فلکیات نے چاند گرہن اور سورج گرہن جیسے قدرتی عوامل کے حقائق کا پتہ لگا لیا تو خواندہ اور باعقل عوام کے قدیم تصورات کی دھند سے باہر آنے لگے۔ اس حوالے سے آئی ٹی کے انقلاب نے عوام میں فکری بیداری پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا، لیکن بدقسمتی سے اب بھی توہم پرستی، مقدر پرستی کو مستحکم کرنے کا کام کیا جا رہا ہے ۔اس قسم کے تصورات کا معاشرے پر سب سے بڑا منفی اثر یہ پڑتا ہے کہ انسان قدرتی آفات کے محرکات کا پتہ چلانے اور ان کا تدارک کرنے کے بجائے انھیں قسمت کا لکھا یا اپنے گناہوں کی سزا سمجھ کر قبول کرنے لگ جاتا ہے۔

قدرتی آفات میں زلزلہ ایک ایسی آفت ہے جس کی آمد کا ایک لمحہ پہلے تک علم نہیں ہوتا، اس لیے انسان ان آفات سے بچاؤ کرنے کے قابل نہیں رہتا، اس کے برخلاف طوفانوں، سمندری طوفانوں، سیلابوں کا اب وقت سے بہت پہلے ہی پتہ چلا لیا جاتا ہے اور ان سے بچاؤ کی بڑی حد تک کامیاب کوششیں کر لی جاتی ہیں۔ زلزلے بلاشبہ آن واحد میں آ کر بستیوں کو کھنڈروں میں اور انسانوں کو لاشوں میں بدل دیتے ہیں لیکن یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے ماہرین ارضیات نے ابھی تک اس حوالے سے وہ تحقیق و جستجو نہیں کی جو اس ناگہانی آفت کو روکنے اور انسانوں کو نقصان پہنچانے کے لیے ضروری ہے۔


ہماری زمین کے اندر اتھل پتھل کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے۔ کہا جاتا ہے کہ زیر زمین سیکڑوں کلومیٹر نیچے کئی کئی کلومیٹر لمبی چوڑی آہنی پلیٹوں کی حرکت کا سلسلہ جاری رہتا ہے اور لاوے کے دریا بہتے رہتے ہیں۔ جب یہ پلیٹیں حرکت کرتی ہوئی ایک دوسرے سے ٹکراتی ہیں تو زیر زمین پیدا ہونے والے اس ٹکراؤ کا نتیجہ زلزلوں کی شکل میں زمین کے پھٹنے اور خطرناک حرکت کرنے کی شکل میں سامنے آتا ہے۔

یہ زیر زمین جاری رہنے والا ایک فطری عمل ہے، اگر ہم اسے قسمت کا لکھا یا اپنے گناہوں کی سزا مان لیتے ہیں تو فطری طور پر ہمارے اندر ان آفات کی وجوہات تلاش کرنے اور ان آفات سے انسان کو بچانے کے لیے تحقیق و تجربات کرنے کا جذبہ ختم ہو جاتا ہے۔ لیکن خوش قسمتی کی بات یہ ہے کہ مغرب ان تصورات سے باہر نکل کر تحقیق اور تجربات میں اپنی ساری توانائیاں لگا رہا ہے اور انسان کو ان قدرتی آفات سے بچانے یا کم سے کم نقصان اٹھانے میں کامیاب ہو رہا ہے۔

ہماری بدقسمتی بلکہ مسلم ملکوں کی اجتماعی بدقسمتی یہ ہے کہ یہ ملک سائنس و ٹیکنالوجی، آئی ٹی سمیت مختلف شعبوں میں اب تک زیرو پوائنٹ پر کھڑے ہیں۔ اس کی ایک وجہ تو ان ملکوں کا معاشرتی نظام ہے، دوسری وجہ مسلم ملکوں کے حکمرانوں کی نالائقی اور کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ دولت جمع کرنے کا وہ جنون ہے جو انھیں ملک اور عوام کے مستقبل کے حوالے سے اندھا بنا کر رکھ رہا ہے۔ اس حوالے سے ہماری ذہنی اور فکری پستی کی ایک بڑی وجہ ان طاقتوں کا استحکام ہے جو دانستہ یا نادانستہ ہر عوامی مسئلے پر قدرتی آفت کو مذہب سے جوڑ کر تحقیق اور تجربات کے علاوہ فکری آزادی کی راہ میں دیواریں کھڑی کر دیتے ہیں۔

آج کی دنیا میں اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ صدیوں ہزاروں سال پرانے تصورات اور حقائق میں ایک ایسا تضاد پیدا ہو گیا ہے جس پر مغرب نے تو بڑی حد تک قابو پا لیا ہے لیکن مشرق ابھی تک نہ صرف ان زنجیروں میں اس طرح جکڑا ہوا ہے کہ ان سے آزادی کی ہر کوشش میں وہ پہلے سے زیادہ مضبوطی سے جکڑا جا رہا ہے۔ آج کی دنیا پر مذہبی انتہاپسندی اور دہشت گردی پر نظر ڈالیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ مسلم ممالک سائنس و ٹیکنالوجی اور تحقیق کے شعبوں میں زیروپوائنٹ پر کیوں کھڑے ہیں۔

اس خوفناک نظریاتی جمود سے باہر نکلنے کے لیے سب سے پہلے مسلم ملکوں کو جاگیردارانہ اور قبائلی ذہنیت کے حامل حکمرانوں سے نجات حاصل کرنا ہو گا، کیوں کہ یہ حکمران طبقہ ہی ہے جس کی ترجیحات میں علم، آگہی، تحقیق اور تلاش کا سرے سے کوئی ذکر ہی نہیں، اس کی اجتماعی توجہ کا مرکز دولت اور اختیارات کا حصول ہے۔ جب حکمرانوں کی ترجیح یہ ہو گی تو سائنس و ٹیکنالوجی اور تحقیق کے شعبوں میں اُلو بولتے ہی نظر آئیں گے، جس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ ملک و ملت ذہنی اور فکری پسماندگی کے دلدل سے باہر نہیں نکل سکیں گے اور ہم چاند پر پہنچنے کے بجائے چاند دیکھنے کی فضول مشق میں الجھے رہیں گے اور قدرتی آفات سے نجات کے راستے بند ہوتے رہیں گے۔
Load Next Story