مشرق وسطیٰ اور امریکی پالیسی

امریکی صدر بارک اوباما نے پچھلے ہفتے سعودی عرب کا دورہ کیا جہاں ان کا سرد مہری سے استقبال کیا گیا۔


Zamrad Naqvi April 25, 2016
www.facebook.com/shah Naqvi

امریکی صدر بارک اوباما نے پچھلے ہفتے سعودی عرب کا دورہ کیا جہاں ان کا سرد مہری سے استقبال کیا گیا۔ اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان کے استقبال کے لیے سعودی فرمانروا ایئرپورٹ پر موجود نہیں تھے کیونکہ وہ دوسرے ایئرپورٹ پر گلف حکمرانوں کے استقبال میں مصروف تھے۔ اوباما کا استقبال ریاض کے گورنر نے کیا۔ تجزیہ کاروں نے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کو اس شادی سے تعبیر کیا ہے جس میں محبت ختم ہو چکی ہو لیکن اس کے باوجود ساتھ رہنے پر مجبور ہوں۔ اس صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے بروس ریڈل، جو بروکنگ انسٹیٹوٹ سے وابستہ ہیں، کہتے ہیں کہ سعودی عرب اور امریکا میں طلاق ہونے نہیں جا رہی کیونکہ دونوں ایک دوسرے کی ضرورت ہیں۔ امریکی صدر کے حالیہ دورے کا سب سے بڑا مقصد یہ تھا کہ امریکا کے تاریخی اتحادی سعودی عرب کے ساتھ تناؤ میں کمی لائی جا سکے۔

جب سے امریکا اور عالمی طاقتوں کی ایران سے جوہری ڈیل ہوئی ہے مشرق وسطیٰ اور امریکا کے تعلقات میں تبدیلی آئی ہے۔ امریکا کا ایران کی طرف جھکاؤ ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھ رہا ہے۔ وہ دن خواب ہوئے جب امریکا ایران جنگی صورت حال میں مبتلا رہے اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ امریکا اور اسرائیل کسی بھی وقت ایران پر حملہ کر سکتے تھے۔ لیکن اب صورتحال بدل چکی ہے۔ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ جس طرح دوستی کا تمام معاملات پر مثبت اثر ہوتا ہے اسی طرح دو ملکوں کے درمیان دشمنی کا تمام معاملات پر منفی اثر ہوتا ہے۔

ایران امریکا جوہری ڈیل صرف ایک ڈیل نہیں بلکہ اس کے کثیر الجہت اثرات ہیں۔ جیسے جیسے یہ ڈیل میچیور ہوتی جائے گی اس کی نئی نئی اشکال سامنے آتی جائیں گی۔ یہ ڈیل مشرق وسطیٰ کے حالات کے بارے میں اگلے پچاس سالوں کا احاطہ کرتی ہے۔ شیل تیل نے امریکا کا مشرق وسطی کے تیل پر انحصار کم کر دیا ہے۔ چنانچہ اسی حساب سے امریکا کی اس خطے میں دلچسپی بھی کم ہوتی جائے گی۔ دلچسپی کم ہونے سے اس خطے میں اس کا کردار کم ہوتا چلا جائے گا۔ دلچسپی کا محور کہیں اور چلا جائے گا۔ مشرق وسطیٰ کے معاملات کو کچھ اور ممالک مل کر سنبھالیں گے جس میں ایران اور ترکی سرفہرست ہیں۔

امریکی میگزین اٹلانٹک میں کئی ہفتے پہلے اوباما کا انٹرویو چھپا۔ انٹرویو کیا تھا چارج شیٹ تھی جس میں صدر اوباما نے بہت کچھ کہا تھا۔ بہت سی باتوں کے علاوہ صدر اوباما نے سعودی حکمرانوں کو نصیحت کی کہ وہ مشرق وسطیٰ کو ایران کے ساتھ مل کر شیئر کریں۔ امریکی صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ سعودی عرب کی سلامتی کو کوئی خطرہ نہیں کیونکہ اس کی حفاظت امریکا کر رہا ہے لیکن سعودی عرب اس کی صحیح قیمت ادا نہیں کر رہا۔ سعودی عرب کا مشرق وسطیٰ پر اثر و نفوذ اور کنٹرول قائم ہے۔

نہ صرف یہ بلکہ مشرق وسطیٰ سے باہر اسلامی ملکوں میں بھی سعودی عرب کا اثرونفوذ موجود ہے۔بہرحال مشرق وسطی کے حوالے سے امریکی پالیسی بدل رہی ہے۔ جن خیالات کا اظہار اوباما نے کیا ہے وہ ذاتی حیثیت میں نہیں کیا بلکہ امریکی صدر کی حیثیت سے کیا ہے۔ ان خیالات کا اظہار کر کے انھوں نے امریکا کی اسٹیبلشمنٹ کی سوچ کی نمایندگی کی ہے جو پوری دنیا پر حکمرانی کرتی ہے۔ امریکا کا مشرق وسطی میں ایران کے حوالے سے یہ کمزور پہلو ہی تھا جس کے نتیجے میں اس خطے میں جمہوریت کی حمایت نہیں کی گئی۔

سعودی شہزادہ ترکی الفیل نے سی این این کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ اوباما کے بیانات اور رویے نے سعودی عرب پر واضح کر دیا ہے کہ امریکا اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات تبدیل ہو چکے ہیں جب کہ میری ذاتی رائے میں امریکا تبدیل ہو چکا ہے۔ اب ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہے کہ امریکی لیڈر شپ پر کتنا انحصار کر سکتے ہیں۔''

حالیہ دورے میں امریکی صدر اوباما کا زیادہ تر زور اس بات پر رہا کہ داعش کو ختم کرنے کے لیے خلیجی ممالک کا زیادہ سے زیادہ تعاون حاصل کیا جائے۔ ایران کے حوالے سے اوباما کا کہنا تھا کہ تہران کے ساتھ محاذ آرائی کا رسک نہیں لیا جا سکتا کیونکہ اس میں بڑے خطرات پوشیدہ ہیں۔ امریکا اور مغرب کی بات کرتے ہوئے امریکی صدر نے کہا کہ ہماری قوموں کو ایران کے ساتھ کشمکش میں کوئی دلچسپی نہیں''۔ یعنی رات گئی بات گئی۔ محاذ آرائی، کشمکش، جنگ ماضی کی بات' اب صلح ہے۔

دنیا اوباما کے سعودی عرب کے دورے کا انتظار کر رہی تھی۔ اب اس کے نتائج دنیا کے سامنے آ گئے ہیں۔ پاکستان کے لیے اس میں سبق ہے کہ وہ قوتیں جو ایران پاکستان دوستی کے خلاف سازشیں کر رہی ہیں ان سے باخبر رہتے ہوئے ایران پاک دوستی کو مضبوط تر بنائیں جب کہ ترکی بھی ہوا کا رخ پہچانتے ہوئے ایران دوستی میں پہل کر چکا ہے۔

جون جولائی اگست میں مشرق وسطیٰ سے پاکستان تک اہم حالات و واقعات رونما ہوں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں