ہاتھی کے دانت دکھانے کے اور کھانے کے اور
فلاحی خدمت کی آڑ میں من پسند افراد کو نوازنے کا سلسلہ جاری، متاثرینِ کچابندر اور’’آل پارٹیز کونسل‘‘ احتجاجاً سڑکوں پر
KARACHI:
یہ فلاحی خدمت کے نام پر نمود و نمایش اور بدعنوانی ہی کا نتیجہ ہے کہ سیکڑوں سماجی تنظیموں کی موجودگی میں آج ہر گلی، ہر محلے میں دو وقت کی روٹی کے لیے لگائی جانے والی صدائیں سُنائی دے رہی ہیں۔
سکھر میں مقیم مختلف برادریوں سے تعلق رکھنے والے کئی معززین فلاحی خدمت کے میدان میں سرگرم ہیں، تاہم اُن میں سے چند ایسے بھی ہیں، جو اِسے آڑ بنا کر اپنے مقاصد کی تکمیل میں جٹے ہیں۔
دو برس قبل سیلاب کی تباہ کاریوں سے شہر کو محفوظ رکھنے کے لیے وفاقی حکومت کی جانب سے، بندروال کے اردگرد قائم تجاوزات ہٹانے کے لیے خصوصی مہم شروع کی گئی تھی، جس کے تحت لانچ موڑ سے لینس ڈائون برج تک سولہ ہزار فٹ کے رقبے پر موجود عمارتوں کو منہدم کردیا گیا۔ مکانات کے علاوہ دینی مدارس،آستانے، کُتب خانے، دکانیں اور دیگر عمارتیں اِس مُہم کی زد میں آئے۔ متاثرین کی تعداد لگ بھگ دو ہزار تھی، جن میں سے 150 بدقسمت خاندان زرتلافی سے محروم رہے۔
اِس مہم سے متاثر ہونے والے کسی شخص کو متبادل جگہ فراہم نہیں کی گئی، البتہ بعض منتخب نمایندوں نے ایک بااثر برادری سے تعلق رکھنے والی انجمن کو، جس کی لائبریری اور دفتر مہم کی زد میں آئے تھے، متبادل جگہ دینے کا وعدہ کیا تھا، جسے بنیاد بنا کر چند ماہ قبل اِس انجمن میں شامل بااثر تاجروں نے ایوان صنعت و تجارت سے متصل قیمتی اراضی پر تعمیراتی کام شروع کروا دیا، جس پر زرتلافی سے محروم متاثرین شدید غم و غصے کا شکار ہوگئے۔
واضح رہے کہ انتظامیہ نے بندروال کے اطراف سے تجاوزات ختم کرنے کے لیے گیارہ رکنی کمیٹی تشکیل دی تھی، جس میں علاقے کے معززین بھی شامل تھے۔ متاثرین کچابندر نے اُس کمیٹی کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اُس پر کرپشن کے الزامات عاید کیے۔ فلاحی ادارے کے نام پر قیمتی اراضی پر شروع ہونے والے تعمیراتی کام کے خلاف شروع ہونے والے مظاہروں کا نوٹس لیتے ہوئے ضلعی انتظامیہ نے مذکورہ عمارت منہدم کر دی تھی، تاہم بااثر شخصیات کی مداخلت کے بعد تعمیراتی کام دوبارہ شروع ہوگیا، جس پر متاثرین کے علاوہ آل پارٹیز کونسل، جس میں مختلف سیاسی، سماجی اور مذہبی تنظیمیں شامل ہیں، میدان میں نکل آئی، اور احتجاج کا سلسلہ تیز ہوگیا۔
گذشتہ دنوں آل پارٹیز کونسل کی جانب سے بندر روڈ پر اے پی سی منعقد کی گئی، جس میں جماعت اسلامی، تحریک انصاف، مسلم لیگ فنکشنل، جمعیت علمائے پاکستان، سنی تحریک، جمعیت اہل حدیث اور نظام مصطفیٰ پارٹی سمیت مختلف جماعتوں کے راہ نمائوں نے شرکت کی، اور اتفاق رائے سے اعلان کیا کہ 150سے زاید خاندانوں کو نظر انداز کرنے اور بااثر افراد کو فلاحی خدمت کے نام پر پلاٹ الاٹ کیے جانے کے خلاف قانونی جنگ لڑی جائے گی۔
یہ سکھر کی بدقسمتی رہی ہے کہ فلاحی کاموں کے نام پر الاٹ ہونے والے متعدد قیمتی پلاٹس کمرشل مقاصد کے لیے استعمال کیے گئے، وہاں درس گاہیں، پلازا، اسپتال اور شادی ہال تعمیر کیے گئے۔ اے پی سی کے شرکا کا کہنا تھا کہ دو سال قبل انتظامیہ، خصوصاً سینیٹر، اسلام الدین شیخ کی جانب سے بندرروڈ پر موجود درس گاہیں، مساجد، آستانے اور دیگر عمارات یہ کہتے ہوئے منہدم کی گئی تھیں کہ تمام متاثرین کو زرتلافی کے طور پر یا تو پلاٹس دیے جائیں گے، یا معاوضہ، لیکن ایسا نہیں ہوسکا۔ شرکا کا یہ بھی کہنا تھا کہ منتخب نمایندے اپنا ووٹ بینک مضبوط کرنے کے لیے قیمتی پلاٹس فلاحی خدمت کے نام پر من پسند افراد کو الاٹ کر رہے ہیں، جس کی مثال ایوان صنعت و تجارت کے ساتھ تعمیر ہونے والا سوئمنگ پول اور اِس سے متصل پلاٹ پر جاری تعمیراتی کام ہے۔
متاثرین کا کہنا تھا کہ سیلاب کے بعد انتظامیہ اور کچابندر ایکشن کمیٹی کی جانب سے نمبر الاٹ کرنے کے لیے جو سروے کیا گیا تھا، اُس میں بلاک 3 کے 150سے زاید خاندانوں کو جان بوجھ کر نظر انداز کیا گیا، جس کی وجہ سے وہ مظلوم آج کسم پرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ متاثرین کچابندر اور اے پی سی کے شرکا کا یہ بھی کہنا تھا کہ مذکورہ پلاٹ پر ایک ایسی بااثر کاروباری شخصیت فلاحی ادارہ تعمیر کر رہی ہے، جو شہر میں موجود کئی کثیرالمنزلہ عمارتوں کی مالک ہے، اگر انسانیت کی خدمت ہی مقصود ہے، تو یہ عمارتیں فلاحی سرگرمیوں کے لیے وقف کر دی جائیں۔
شرکا نے کہا کہ اگلے چند روز میں ایک کمیٹی تشکیل دے کر انتظامیہ سے متاثرین کو معاوضہ دلوانے اور فلاحی ادارے کے نام پر جاری تعمیراتی کام رکوانے کے لیے مذاکرات شروع کیے جائیں گے، اگر یہ کوشش نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوئی، تو عدالت سے رجوع کرنے کے علاوہ بھرپور احتجاجی تحریک شروع کی جائے گی۔
اے پی سی اور متاثرین کی جانب سے گذشتہ ماہ شروع کی جانے والی احتجاجی تحریک تیزی سے زور پکڑ رہی ہے۔ ایک جانب بااثر تاجر اور منتخب نمایندے ہیں، تو دوسری جانب متاثرین، جو ضلعی انتظامیہ کو کڑی تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ حکم راں جماعت سے تعلق رکھنے والے منتخب نمایندے آیندہ انتخابات میں من پسند نتائج حاصل کرنے کے لیے بااثر اور من پسند افراد کو نواز رہے ہیں۔
واضح رہے کہ سکھر کے منتخب نمایندوں نے گذشتہ ساڑھے چار سال کے دوران درجنوں ترقیاتی منصوبوں کا اعلان کیا، جن میں چند ہی پایۂ تکمیل تک پہنچے۔ البتہ من پسند افراد کو نوازنے کا سلسلہ جاری رہا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اِس سازباز کے خلاف شروع ہونے والی تحریک کا کیا نتیجہ برآمد ہوتا ہے۔
یہ فلاحی خدمت کے نام پر نمود و نمایش اور بدعنوانی ہی کا نتیجہ ہے کہ سیکڑوں سماجی تنظیموں کی موجودگی میں آج ہر گلی، ہر محلے میں دو وقت کی روٹی کے لیے لگائی جانے والی صدائیں سُنائی دے رہی ہیں۔
سکھر میں مقیم مختلف برادریوں سے تعلق رکھنے والے کئی معززین فلاحی خدمت کے میدان میں سرگرم ہیں، تاہم اُن میں سے چند ایسے بھی ہیں، جو اِسے آڑ بنا کر اپنے مقاصد کی تکمیل میں جٹے ہیں۔
دو برس قبل سیلاب کی تباہ کاریوں سے شہر کو محفوظ رکھنے کے لیے وفاقی حکومت کی جانب سے، بندروال کے اردگرد قائم تجاوزات ہٹانے کے لیے خصوصی مہم شروع کی گئی تھی، جس کے تحت لانچ موڑ سے لینس ڈائون برج تک سولہ ہزار فٹ کے رقبے پر موجود عمارتوں کو منہدم کردیا گیا۔ مکانات کے علاوہ دینی مدارس،آستانے، کُتب خانے، دکانیں اور دیگر عمارتیں اِس مُہم کی زد میں آئے۔ متاثرین کی تعداد لگ بھگ دو ہزار تھی، جن میں سے 150 بدقسمت خاندان زرتلافی سے محروم رہے۔
اِس مہم سے متاثر ہونے والے کسی شخص کو متبادل جگہ فراہم نہیں کی گئی، البتہ بعض منتخب نمایندوں نے ایک بااثر برادری سے تعلق رکھنے والی انجمن کو، جس کی لائبریری اور دفتر مہم کی زد میں آئے تھے، متبادل جگہ دینے کا وعدہ کیا تھا، جسے بنیاد بنا کر چند ماہ قبل اِس انجمن میں شامل بااثر تاجروں نے ایوان صنعت و تجارت سے متصل قیمتی اراضی پر تعمیراتی کام شروع کروا دیا، جس پر زرتلافی سے محروم متاثرین شدید غم و غصے کا شکار ہوگئے۔
واضح رہے کہ انتظامیہ نے بندروال کے اطراف سے تجاوزات ختم کرنے کے لیے گیارہ رکنی کمیٹی تشکیل دی تھی، جس میں علاقے کے معززین بھی شامل تھے۔ متاثرین کچابندر نے اُس کمیٹی کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اُس پر کرپشن کے الزامات عاید کیے۔ فلاحی ادارے کے نام پر قیمتی اراضی پر شروع ہونے والے تعمیراتی کام کے خلاف شروع ہونے والے مظاہروں کا نوٹس لیتے ہوئے ضلعی انتظامیہ نے مذکورہ عمارت منہدم کر دی تھی، تاہم بااثر شخصیات کی مداخلت کے بعد تعمیراتی کام دوبارہ شروع ہوگیا، جس پر متاثرین کے علاوہ آل پارٹیز کونسل، جس میں مختلف سیاسی، سماجی اور مذہبی تنظیمیں شامل ہیں، میدان میں نکل آئی، اور احتجاج کا سلسلہ تیز ہوگیا۔
گذشتہ دنوں آل پارٹیز کونسل کی جانب سے بندر روڈ پر اے پی سی منعقد کی گئی، جس میں جماعت اسلامی، تحریک انصاف، مسلم لیگ فنکشنل، جمعیت علمائے پاکستان، سنی تحریک، جمعیت اہل حدیث اور نظام مصطفیٰ پارٹی سمیت مختلف جماعتوں کے راہ نمائوں نے شرکت کی، اور اتفاق رائے سے اعلان کیا کہ 150سے زاید خاندانوں کو نظر انداز کرنے اور بااثر افراد کو فلاحی خدمت کے نام پر پلاٹ الاٹ کیے جانے کے خلاف قانونی جنگ لڑی جائے گی۔
یہ سکھر کی بدقسمتی رہی ہے کہ فلاحی کاموں کے نام پر الاٹ ہونے والے متعدد قیمتی پلاٹس کمرشل مقاصد کے لیے استعمال کیے گئے، وہاں درس گاہیں، پلازا، اسپتال اور شادی ہال تعمیر کیے گئے۔ اے پی سی کے شرکا کا کہنا تھا کہ دو سال قبل انتظامیہ، خصوصاً سینیٹر، اسلام الدین شیخ کی جانب سے بندرروڈ پر موجود درس گاہیں، مساجد، آستانے اور دیگر عمارات یہ کہتے ہوئے منہدم کی گئی تھیں کہ تمام متاثرین کو زرتلافی کے طور پر یا تو پلاٹس دیے جائیں گے، یا معاوضہ، لیکن ایسا نہیں ہوسکا۔ شرکا کا یہ بھی کہنا تھا کہ منتخب نمایندے اپنا ووٹ بینک مضبوط کرنے کے لیے قیمتی پلاٹس فلاحی خدمت کے نام پر من پسند افراد کو الاٹ کر رہے ہیں، جس کی مثال ایوان صنعت و تجارت کے ساتھ تعمیر ہونے والا سوئمنگ پول اور اِس سے متصل پلاٹ پر جاری تعمیراتی کام ہے۔
متاثرین کا کہنا تھا کہ سیلاب کے بعد انتظامیہ اور کچابندر ایکشن کمیٹی کی جانب سے نمبر الاٹ کرنے کے لیے جو سروے کیا گیا تھا، اُس میں بلاک 3 کے 150سے زاید خاندانوں کو جان بوجھ کر نظر انداز کیا گیا، جس کی وجہ سے وہ مظلوم آج کسم پرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ متاثرین کچابندر اور اے پی سی کے شرکا کا یہ بھی کہنا تھا کہ مذکورہ پلاٹ پر ایک ایسی بااثر کاروباری شخصیت فلاحی ادارہ تعمیر کر رہی ہے، جو شہر میں موجود کئی کثیرالمنزلہ عمارتوں کی مالک ہے، اگر انسانیت کی خدمت ہی مقصود ہے، تو یہ عمارتیں فلاحی سرگرمیوں کے لیے وقف کر دی جائیں۔
شرکا نے کہا کہ اگلے چند روز میں ایک کمیٹی تشکیل دے کر انتظامیہ سے متاثرین کو معاوضہ دلوانے اور فلاحی ادارے کے نام پر جاری تعمیراتی کام رکوانے کے لیے مذاکرات شروع کیے جائیں گے، اگر یہ کوشش نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوئی، تو عدالت سے رجوع کرنے کے علاوہ بھرپور احتجاجی تحریک شروع کی جائے گی۔
اے پی سی اور متاثرین کی جانب سے گذشتہ ماہ شروع کی جانے والی احتجاجی تحریک تیزی سے زور پکڑ رہی ہے۔ ایک جانب بااثر تاجر اور منتخب نمایندے ہیں، تو دوسری جانب متاثرین، جو ضلعی انتظامیہ کو کڑی تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ حکم راں جماعت سے تعلق رکھنے والے منتخب نمایندے آیندہ انتخابات میں من پسند نتائج حاصل کرنے کے لیے بااثر اور من پسند افراد کو نواز رہے ہیں۔
واضح رہے کہ سکھر کے منتخب نمایندوں نے گذشتہ ساڑھے چار سال کے دوران درجنوں ترقیاتی منصوبوں کا اعلان کیا، جن میں چند ہی پایۂ تکمیل تک پہنچے۔ البتہ من پسند افراد کو نوازنے کا سلسلہ جاری رہا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اِس سازباز کے خلاف شروع ہونے والی تحریک کا کیا نتیجہ برآمد ہوتا ہے۔