اللہ احتساب اور عوام کا ڈر
جناب سردار محمد نصراللہ نیویارک میں پاکستانی کمیونٹی کی معروف سیاسی اور سماجی شخصیت ہیں۔
جناب سردار محمد نصراللہ نیویارک میں پاکستانی کمیونٹی کی معروف سیاسی اور سماجی شخصیت ہیں۔ پاکستان اور قائداعظم پر جان چھڑکنے والے۔ اگر مبالغہ نہ سمجھا جائے تو کہا جا سکتا ہے امریکا میں مسلم لیگ کا پودا سردار نصراللہ صاحب کے ہاتھوں ہی لگایا گیا۔ کبھی وہ نیویارک میں میاں محمد نواز شریف کا دست و بازو ہوا کرتے تھے۔ اور یہ اس وقت کی بات ہے جب میاں صاحب نے وزارتِ عظمیٰ کا لطف ابھی ایک بار بھی نہیں لیا تھا۔
اب مگر یہ قربتیں بوجوہ دوریوں میں بدل چکی ہیں۔ گزشتہ روز سردار نصراللہ صاحب نے اسلام آباد کے نیشنل پریس کلب میں ایک بھرپور پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔ پاکستان میں پاناما لیکس کا غلغلہ بلند ہوا ہے تو سردار صاحب اپنے چند معتمد سیاسی ساتھیوں کے ساتھ اٹھارہ ہزار کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے اسلام آباد پہنچے۔ این پی سی میں سامعین و اخبار نویسوں سے خطاب کرتے ہوئے سردار صاحب نے کہا کہ اگر پاکستان کے حکمرانوں کو واقعی معنوں میں اللہ اور عوام کا ڈر ہوتا، جوابدہی کا ہمیشہ احساس رہتا اور یہ خیال بھی پیشِ نگاہ ہوتا کہ کبھی ان کا بھی کڑا احتساب ہو سکتا ہے تو پانامہ لیکس کی داستانیں کبھی منصہ شہود پر نہ آ سکتی تھیں۔
انھوں نے اپنے خطاب میں یہ مطالبہ بھی کیا کہ جنرل راحیل شریف کو ابھی ریٹائرمنٹ نہیں لینی چاہیے۔ کونسل مسلم لیگ کے صدر جناب سردار نصر اللہ کے آخری الذکر مطالبے سے اتفاق کرنا اگرچہ ہمارے لیے مشکل امر ہے لیکن بنیادی طور پر سردار صاحب کی گفتگو معنی خیز بھی تھی اور حقائق پر مبنی بھی۔ وہ پریس کلب میں باتیں کر رہے تھے اور مجھے مغربی حکمرانوں کے احتساب ہی کے حوالے سے کئی کہانیاں یاد آ رہی تھیں۔ مَیں نے برطانوی خاتونِ آہن مسز مارگریٹ تھیچر کو لندن کی ایک سبزی منڈی میں خود دکانداروں سے بھاؤ تاؤ کے ساتھ سبزیاں خریدتے اور خود تھیلے اٹھا کر گاڑی میں رکھتے ہوئے دیکھ رکھا ہے۔ یہ منظر مَیں نے لندن میں اس وقت دیکھا جب مارگریٹ تھیچر برطانیہ کی نہایت طاقتور وزیراعظم تھیں۔
میرے لیے واقعی یہ نظارہ بڑا ہی ششدر انگیز تھا۔ لیکن لندن کے شہریوں کے لیے یہ منظر قطعی حیران کن نہیں تھا۔ دراصل بات یہ تھی کہ وہ نہ ڈرائیور افورڈ کر سکتی تھیں نہ گھر میں کوئی ملازم رکھنا ان کے لیے ممکن تھا۔ ان کی ذاتی تنخواہ اتنی محدود تھی کہ دونوں میاں بیوی بس درمیانے درجے کا گزارا کر لیتے تھے۔ یہ اللہ، احتساب اور عوام کا ڈر تھا جس نے انھیں کرپشن کی طرف مائل نہ ہونے دیا تھا۔
لندن میں -10 ڈاؤننگ اسٹریٹ پر واقع برطانوی وزیراعظم کی رہائشگاہ کے لیے جو سرکاری ملازم تھے، وزیراعظم مارگریٹ ذاتی کاموں کے لیے ان کی خدمات حاصل نہیں کر سکتی تھیں۔ ایک مغربی اخبار میں سابق امریکی صدر بِل کلنٹن اور ان کی اہلیہ ہیلری کلنٹن، جو امریکی وزیرِخارجہ بھی رہیں اور آجکل امریکی صدارتی انتخاب کے لیے میدان میں ہیں، کے مالی معاملات کے بارے میں شایع ہونے والی ایک تازہ خبر پڑھ کر مدتوں قبل کا مذکورہ بالا منظر مجھے پھر سے یاد آ گیا۔
ہیلری کلنٹن نے نیویارک میں اخبار نویسوں سے گفتگو کرتے ہوئے اپنے شوہر اور اپنی اکلوتی بیٹی (چیلسی) کے اخراجات اور اپنی آمدنی کے بارے میں بتایا: ''سچی بات یہ ہے کہ جس سال ہم وہائٹ ہاؤس سے فارغ ہو کر باہر نکلے، ہماری مالی حالت بڑی ہی خراب تھی۔ ہم تقریباً خالی ہاتھ تھے۔ بعد ازاں گھریلو اخراجات پورے کرنے کے لیے ہم دونوں میاں بیوی کو بڑی تگ و دَو کرنا پڑی۔'' مَیں یہ اعترافات پڑھ کر حیرت زدہ رہ گیا۔ لیکن فی الحقیقت حیرانی کی بات اس لیے نہیں ہے کہ کڑے عوامی احتساب کے ڈر سے امریکا اور مغرب کے حکمران ناجائز کمائی کی طرف ہاتھ اور قدم بڑھاتے ہوئے سو بار سوچتے ہیں۔ ہیلری بتاتی ہیں کہ جو بچت کیا ہوا میرے پاس پیسہ تھا، وہ بیٹی کے تعلیمی اخراجات اور بل کلنٹن کے مقدمات پر خرچ ہو گیا تھا۔
کلنٹن و ان کی بیگم نے وائیٹ ہاؤس سے نکل کر نیویارک کے مضافات (اَپ سٹیٹ) میں ایک درمیانہ درجے کا گھر قسطوں میں قرض پر خریدا تو میڈیا والوں نے سوال پوچھ پوچھ کر انھیں ہلکان کر دیا تھا کہ مکان کی خریداری کے لیے بنیادی رقم کہاں سے آئی؟سابق امریکی صدر کی اہلیہ اور سابق امریکی وزیرخارجہ ہیلری کلنٹن امریکی صحافیوں کو بتاتی ہیں کہ ہم دونوں میاں بیوی کی پینشن وغیرہ سے سالانہ چار لاکھ ڈالر ملتے ہیں لیکن قرضے پر لیے گئے مکان کی قسط ادا کرنے، گھریلو اخراجات اور بیٹی چیلسی کی بھاری تعلیمی فیسیں پوری کرنے کے لیے یہ رقم ناکافی پڑ جاتی تھی؛ چنانچہ ان کے شوہر کو یونیورسٹیوں اور بیرون ملک لیکچر دینے پڑتے جن سے کچھ مالی مدد مل جاتی اور مالی بوجھ اٹھانے کی سکت پیدا ہوتی۔
وہ کہتی ہیں: ''لوگ سمجھتے ہیں کہ بل کلنٹن کو لیکچروں کے عوض ملنے والی رقم اتنی بھاری ہوتی ہے کہ ہم تو عیش سے زندگی بسر کرتے ہوں گے لیکن یہ تو مَیں ہی جانتی ہوں کہ ہم کتنے عیش و عشرت کی زندگی گزارتے ہیں۔ ایک تو انکم ٹیکس کا محکمہ ہی لٹھ لے کر تعاقب کرتا رہتا ہے اور ہم ان سے فرار ہو سکتے ہیں نہ ان کا کچھ بگاڑ سکتے ہیں۔'' ہیلری کلنٹن کی آہ و زاری اور انکم ٹیکس والوں کی ''زیادتیوں'' کا یہ بیان پڑھا ہے تو مَیں حیرت میں ڈوب گیا ہوں۔ ہمارے حکمران اور سیاسی اشرافیہ جتنا اور جس شکل میں ٹیکس ادا کرتے ہیں، یہ تفصیلات آئے روز اخبارات اور ٹی وی میں سامنے آتی رہتی ہیں۔ ہیلری کلنٹن کی گفتگو کا آخری جملہ تو دل نکال کر لے گیا ہے۔
عالمِ جبر میں کہتی ہیں: ''اخراجات پورے کرنے کے لیے مَیں لابیسٹ بھی بن گئی۔ بعض عالمی فرموں کی لابنگ کرتی تو چار پیسے ہاتھ لگتے لیکن یہ سوچ کر جی کڑا ہوتا کہ لابنگ کرنا تو روح فروخت کرنے کے مترادف ہے۔'' یہ ایک زندہ، طاقتور اور دیانت دار معاشرے کی ایک دیانتدار سیاستدان، قانون دان اور سابق خاتونِ اوّل کے اعترافات ہیں۔ کیا ہم، جو اجتماعی طور پر ہر وقت اپنی ''عظمتوں'' کے جھنڈے لہراتے ہوئے بلند نعرے لگاتے رہتے ہیں، ایسی ایک مثال بھی پیش کر سکتے ہیں؟ خدا کے خوف، احتساب کا ہمہ وقت ڈر، عوام کے دباؤ، دیانتدار میڈیا کی آنکھ اور ہر کسی کے لیے ایک ہی قانون کے نفاذ کی وجہ سے امریکی اور مغربی ممالک کے سیاستدان، مقتدر افراد اور سرکاری عمال بددیانتی اور کرپشن کے جرائم میں کم کم ملوث پائے جاتے ہیں۔
ابھی مَیں امریکا میں صدارت کی امیدوار ہیلری کلنٹن کے اعترافات پڑھ رہا تھا کہ ایک طویل خبر سابق افغان صدر کے بارے میں بھی نظر سے گزری۔ حامد کرزئی صاحب دو بار افغان صدارت کے مزے لوٹ کر اقتدار سے رخصت ہو چکے ہیں۔ ان کے بارے میں شایع ہونے والی رپورٹ کہتی ہے کہ طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد وہ حامد کرزئی جو پاکستان سے صرف ایک موٹر سائیکل پر سوار ہو کر کابل پہنچا تھا، دو بار افغان صدر بننے کے بعد ایوانِ اقتدار سے رخصت ہوئے تو اس کے پاس دنیا کی مہنگی ترین گاڑیوں کا بیڑہ تھا، اس کا خاندان کھرب پتی ہو چکا تھا اور اپنے خاندان کو امیر ترین بنانے میں حامد کرزئی نے کرپشن اور رشوت خوری کی کھلی چھوٹ دیے رکھی۔
رپورٹ نے انکشاف کیا ہے کہ حامد کرزئی نے دانستہ افغانستان میں مقتدر مذہبی طبقات، مذہبی لیڈروں اور مذہبی جماعتوں کو بھی کرپشن کی بہتی گنگا میں پوری طرح ہاتھ دھونے کے بھرپور مواقع فراہم کیے تا کہ یہ لوگ بھی ان کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھ سکیں نہ کبھی مخالفت میں انگشت نمائی کے قابل ہو سکیں۔ دیکھا جائے تو کرپشن کے اعتبار سے پاکستان، افغانستان اور تیسری دنیا کے کئی ممالک کی کہانی ایک ہی ہے۔ پانامہ لیکس کی گیارہ ملین دستاویزات نے تو کئی ممالک کے حکمرانوں، سیاسی جماعتوں اور کاروباری طبقات کو بے نقاب کر دیا ہے۔
وطنِ عزیز میں ایک درجن کے قریب سینئر فوجی افسروں کو بدعنوانی کے الزامات کے تحت فارغ کیے جانے کی خبر کے بعد یہ ظاہر ہوا ہے کہ کرپشن کی لعنت نے ہمارے سیکیورٹی اداروں کو بھی متاثر کیا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ پانامہ لیکس نے عوام پر عیاں کر دیا ہے کہ اگر طاقتوروں اور صاحبانِ اختیار کے دلوں سے اللہ، احتساب اور عوام کی پرسش کا ڈر جاتا رہے تو پھر ایسی نقب لگانا کوئی مشکل کام رہتا ہے نہ کسی کے ضمیر پر بوجھ بنتا ہے۔
اب مگر یہ قربتیں بوجوہ دوریوں میں بدل چکی ہیں۔ گزشتہ روز سردار نصراللہ صاحب نے اسلام آباد کے نیشنل پریس کلب میں ایک بھرپور پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔ پاکستان میں پاناما لیکس کا غلغلہ بلند ہوا ہے تو سردار صاحب اپنے چند معتمد سیاسی ساتھیوں کے ساتھ اٹھارہ ہزار کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے اسلام آباد پہنچے۔ این پی سی میں سامعین و اخبار نویسوں سے خطاب کرتے ہوئے سردار صاحب نے کہا کہ اگر پاکستان کے حکمرانوں کو واقعی معنوں میں اللہ اور عوام کا ڈر ہوتا، جوابدہی کا ہمیشہ احساس رہتا اور یہ خیال بھی پیشِ نگاہ ہوتا کہ کبھی ان کا بھی کڑا احتساب ہو سکتا ہے تو پانامہ لیکس کی داستانیں کبھی منصہ شہود پر نہ آ سکتی تھیں۔
انھوں نے اپنے خطاب میں یہ مطالبہ بھی کیا کہ جنرل راحیل شریف کو ابھی ریٹائرمنٹ نہیں لینی چاہیے۔ کونسل مسلم لیگ کے صدر جناب سردار نصر اللہ کے آخری الذکر مطالبے سے اتفاق کرنا اگرچہ ہمارے لیے مشکل امر ہے لیکن بنیادی طور پر سردار صاحب کی گفتگو معنی خیز بھی تھی اور حقائق پر مبنی بھی۔ وہ پریس کلب میں باتیں کر رہے تھے اور مجھے مغربی حکمرانوں کے احتساب ہی کے حوالے سے کئی کہانیاں یاد آ رہی تھیں۔ مَیں نے برطانوی خاتونِ آہن مسز مارگریٹ تھیچر کو لندن کی ایک سبزی منڈی میں خود دکانداروں سے بھاؤ تاؤ کے ساتھ سبزیاں خریدتے اور خود تھیلے اٹھا کر گاڑی میں رکھتے ہوئے دیکھ رکھا ہے۔ یہ منظر مَیں نے لندن میں اس وقت دیکھا جب مارگریٹ تھیچر برطانیہ کی نہایت طاقتور وزیراعظم تھیں۔
میرے لیے واقعی یہ نظارہ بڑا ہی ششدر انگیز تھا۔ لیکن لندن کے شہریوں کے لیے یہ منظر قطعی حیران کن نہیں تھا۔ دراصل بات یہ تھی کہ وہ نہ ڈرائیور افورڈ کر سکتی تھیں نہ گھر میں کوئی ملازم رکھنا ان کے لیے ممکن تھا۔ ان کی ذاتی تنخواہ اتنی محدود تھی کہ دونوں میاں بیوی بس درمیانے درجے کا گزارا کر لیتے تھے۔ یہ اللہ، احتساب اور عوام کا ڈر تھا جس نے انھیں کرپشن کی طرف مائل نہ ہونے دیا تھا۔
لندن میں -10 ڈاؤننگ اسٹریٹ پر واقع برطانوی وزیراعظم کی رہائشگاہ کے لیے جو سرکاری ملازم تھے، وزیراعظم مارگریٹ ذاتی کاموں کے لیے ان کی خدمات حاصل نہیں کر سکتی تھیں۔ ایک مغربی اخبار میں سابق امریکی صدر بِل کلنٹن اور ان کی اہلیہ ہیلری کلنٹن، جو امریکی وزیرِخارجہ بھی رہیں اور آجکل امریکی صدارتی انتخاب کے لیے میدان میں ہیں، کے مالی معاملات کے بارے میں شایع ہونے والی ایک تازہ خبر پڑھ کر مدتوں قبل کا مذکورہ بالا منظر مجھے پھر سے یاد آ گیا۔
ہیلری کلنٹن نے نیویارک میں اخبار نویسوں سے گفتگو کرتے ہوئے اپنے شوہر اور اپنی اکلوتی بیٹی (چیلسی) کے اخراجات اور اپنی آمدنی کے بارے میں بتایا: ''سچی بات یہ ہے کہ جس سال ہم وہائٹ ہاؤس سے فارغ ہو کر باہر نکلے، ہماری مالی حالت بڑی ہی خراب تھی۔ ہم تقریباً خالی ہاتھ تھے۔ بعد ازاں گھریلو اخراجات پورے کرنے کے لیے ہم دونوں میاں بیوی کو بڑی تگ و دَو کرنا پڑی۔'' مَیں یہ اعترافات پڑھ کر حیرت زدہ رہ گیا۔ لیکن فی الحقیقت حیرانی کی بات اس لیے نہیں ہے کہ کڑے عوامی احتساب کے ڈر سے امریکا اور مغرب کے حکمران ناجائز کمائی کی طرف ہاتھ اور قدم بڑھاتے ہوئے سو بار سوچتے ہیں۔ ہیلری بتاتی ہیں کہ جو بچت کیا ہوا میرے پاس پیسہ تھا، وہ بیٹی کے تعلیمی اخراجات اور بل کلنٹن کے مقدمات پر خرچ ہو گیا تھا۔
کلنٹن و ان کی بیگم نے وائیٹ ہاؤس سے نکل کر نیویارک کے مضافات (اَپ سٹیٹ) میں ایک درمیانہ درجے کا گھر قسطوں میں قرض پر خریدا تو میڈیا والوں نے سوال پوچھ پوچھ کر انھیں ہلکان کر دیا تھا کہ مکان کی خریداری کے لیے بنیادی رقم کہاں سے آئی؟سابق امریکی صدر کی اہلیہ اور سابق امریکی وزیرخارجہ ہیلری کلنٹن امریکی صحافیوں کو بتاتی ہیں کہ ہم دونوں میاں بیوی کی پینشن وغیرہ سے سالانہ چار لاکھ ڈالر ملتے ہیں لیکن قرضے پر لیے گئے مکان کی قسط ادا کرنے، گھریلو اخراجات اور بیٹی چیلسی کی بھاری تعلیمی فیسیں پوری کرنے کے لیے یہ رقم ناکافی پڑ جاتی تھی؛ چنانچہ ان کے شوہر کو یونیورسٹیوں اور بیرون ملک لیکچر دینے پڑتے جن سے کچھ مالی مدد مل جاتی اور مالی بوجھ اٹھانے کی سکت پیدا ہوتی۔
وہ کہتی ہیں: ''لوگ سمجھتے ہیں کہ بل کلنٹن کو لیکچروں کے عوض ملنے والی رقم اتنی بھاری ہوتی ہے کہ ہم تو عیش سے زندگی بسر کرتے ہوں گے لیکن یہ تو مَیں ہی جانتی ہوں کہ ہم کتنے عیش و عشرت کی زندگی گزارتے ہیں۔ ایک تو انکم ٹیکس کا محکمہ ہی لٹھ لے کر تعاقب کرتا رہتا ہے اور ہم ان سے فرار ہو سکتے ہیں نہ ان کا کچھ بگاڑ سکتے ہیں۔'' ہیلری کلنٹن کی آہ و زاری اور انکم ٹیکس والوں کی ''زیادتیوں'' کا یہ بیان پڑھا ہے تو مَیں حیرت میں ڈوب گیا ہوں۔ ہمارے حکمران اور سیاسی اشرافیہ جتنا اور جس شکل میں ٹیکس ادا کرتے ہیں، یہ تفصیلات آئے روز اخبارات اور ٹی وی میں سامنے آتی رہتی ہیں۔ ہیلری کلنٹن کی گفتگو کا آخری جملہ تو دل نکال کر لے گیا ہے۔
عالمِ جبر میں کہتی ہیں: ''اخراجات پورے کرنے کے لیے مَیں لابیسٹ بھی بن گئی۔ بعض عالمی فرموں کی لابنگ کرتی تو چار پیسے ہاتھ لگتے لیکن یہ سوچ کر جی کڑا ہوتا کہ لابنگ کرنا تو روح فروخت کرنے کے مترادف ہے۔'' یہ ایک زندہ، طاقتور اور دیانت دار معاشرے کی ایک دیانتدار سیاستدان، قانون دان اور سابق خاتونِ اوّل کے اعترافات ہیں۔ کیا ہم، جو اجتماعی طور پر ہر وقت اپنی ''عظمتوں'' کے جھنڈے لہراتے ہوئے بلند نعرے لگاتے رہتے ہیں، ایسی ایک مثال بھی پیش کر سکتے ہیں؟ خدا کے خوف، احتساب کا ہمہ وقت ڈر، عوام کے دباؤ، دیانتدار میڈیا کی آنکھ اور ہر کسی کے لیے ایک ہی قانون کے نفاذ کی وجہ سے امریکی اور مغربی ممالک کے سیاستدان، مقتدر افراد اور سرکاری عمال بددیانتی اور کرپشن کے جرائم میں کم کم ملوث پائے جاتے ہیں۔
ابھی مَیں امریکا میں صدارت کی امیدوار ہیلری کلنٹن کے اعترافات پڑھ رہا تھا کہ ایک طویل خبر سابق افغان صدر کے بارے میں بھی نظر سے گزری۔ حامد کرزئی صاحب دو بار افغان صدارت کے مزے لوٹ کر اقتدار سے رخصت ہو چکے ہیں۔ ان کے بارے میں شایع ہونے والی رپورٹ کہتی ہے کہ طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد وہ حامد کرزئی جو پاکستان سے صرف ایک موٹر سائیکل پر سوار ہو کر کابل پہنچا تھا، دو بار افغان صدر بننے کے بعد ایوانِ اقتدار سے رخصت ہوئے تو اس کے پاس دنیا کی مہنگی ترین گاڑیوں کا بیڑہ تھا، اس کا خاندان کھرب پتی ہو چکا تھا اور اپنے خاندان کو امیر ترین بنانے میں حامد کرزئی نے کرپشن اور رشوت خوری کی کھلی چھوٹ دیے رکھی۔
رپورٹ نے انکشاف کیا ہے کہ حامد کرزئی نے دانستہ افغانستان میں مقتدر مذہبی طبقات، مذہبی لیڈروں اور مذہبی جماعتوں کو بھی کرپشن کی بہتی گنگا میں پوری طرح ہاتھ دھونے کے بھرپور مواقع فراہم کیے تا کہ یہ لوگ بھی ان کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھ سکیں نہ کبھی مخالفت میں انگشت نمائی کے قابل ہو سکیں۔ دیکھا جائے تو کرپشن کے اعتبار سے پاکستان، افغانستان اور تیسری دنیا کے کئی ممالک کی کہانی ایک ہی ہے۔ پانامہ لیکس کی گیارہ ملین دستاویزات نے تو کئی ممالک کے حکمرانوں، سیاسی جماعتوں اور کاروباری طبقات کو بے نقاب کر دیا ہے۔
وطنِ عزیز میں ایک درجن کے قریب سینئر فوجی افسروں کو بدعنوانی کے الزامات کے تحت فارغ کیے جانے کی خبر کے بعد یہ ظاہر ہوا ہے کہ کرپشن کی لعنت نے ہمارے سیکیورٹی اداروں کو بھی متاثر کیا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ پانامہ لیکس نے عوام پر عیاں کر دیا ہے کہ اگر طاقتوروں اور صاحبانِ اختیار کے دلوں سے اللہ، احتساب اور عوام کی پرسش کا ڈر جاتا رہے تو پھر ایسی نقب لگانا کوئی مشکل کام رہتا ہے نہ کسی کے ضمیر پر بوجھ بنتا ہے۔