یوم ارض اور انسانیت کی بقاء کے تقاضے

ہر سال 22 اپریل دنیا بھر میں یوم ارتھ بہ الفاظ دیگر یوم ارض کے طور پر منایا جاتا ہے


امجد عزیز ملک April 25, 2016

LONDON: ہر سال 22 اپریل دنیا بھر میں یوم ارتھ بہ الفاظ دیگر یوم ارض کے طور پر منایا جاتا ہے۔گوکہ یہ جدید دور کی اصطلاح ہے، لیکن تاریخی اعتبار سے بھی اس موضوع کے مقاصد کی اہمیت مسلمہ ہے۔ ماحول کے تحفظ کی کوششوں کا مقصد، کائنات کے حسن کو برقرار رکھنے یا اس میں تباہ کن اثرات کی حامل رخنہ اندازی کے عوامل کی روک تھام کرنا ہے۔

ترقی یافتہ اقوام جدید دور میںمعاشی خوشحالی کے حامل منصوبوں کی بنا پر پیدا شدہ مسائل سے عہدہ برآ ہونے کے لیے بڑی حد تک ٹھوس منصوبہ بندی پرعمل پیرا دکھا ئی دیتی ہیں۔البتہ ہمارے وطن پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک اس حوالے سے کافی حد تک مانگے تانگے پر ہی گذارہ کرتے ہیں، حالانکہ کائنات کی عظمت و خوبصورتی کا عوام کے ذہنوں میں احساس اجاگر کرنے کی ذمے داری ہمارے کاندھوں پر بدرجہ اتم محسوس ہونی چاہیے۔

اس حقیقت سے تو کسی کو بھی انکار نہیں ہو سکتا کہ پاکستان کا شمار کرہ ارض کے ایسے منفرد خطوں میں ہوتا ہے جہاں بیک وقت چاروں موسموں کے اوصاف پائے جاتے ہیں۔ موسمی تغیر و تبدل سے لطف اندوز ہونے کے خواہشمند لوگوں کے لیے تو یہ وطن جنت نظیرخطہ ہے۔ جدید ذرایع آمدورفت کی سہولیات سے استفادہ کی دسترس کے حامل لوگ محض چند گھنٹوں کی مسافت کے بعد اپنے آپ کو مکمل طور پر مختلف موسمی ماحول میں پاتے ہیں۔

بڑے ہوائی اڈوں کے ساتھ ساتھ دور دراز علاقوں میں بھی چھوٹے بڑے فضائی مستقر دستیاب ہیں۔شاہراہوں اور سڑکوں کی سہولیات بھی کافی حد تک پا ئی جا تی ہیں۔ بعض مقامات ایسے بھی ہیں جہاں محض منٹوں اور گھنٹوں کے اندر انتہائی گرم علاقوں سے نکل کر آپ اپنے آپ کو بہت ہی خوشگوار لیکن انتہا ئی سرد علاقے میں پا تے ہیں۔ کراچی ان دنوں گرمی کی شدید لہر کے دہانے پر ہے۔

اگر اسی مقام کو پیمانہ تصور کرتے ہوئے غور کیا جائے تو ہوائی جہاز کے ذریعے محض چند گھنٹوں میں اسلام آباد، گلگت، سکردو، چترال تک پہنچا جا سکتا ہے یا پھر زمینی راستے سے، راولپنڈ ی اور اسلام آباد سے مری تک؛ پشاور اور ایبٹ آباد سے گلیات تک؛مانسہرہ، مردان، مینگورہ، تمر گرہ، کوہاٹ، چترال، بنوں ہی نہیں بلکہ کم و بیش سبھی قبائلی ایجنسیوں کے صدر مقامات کے گرد و پیش میں موجود، خوشگوار آب و ہوا کے حا مل علاقوں تک محض منٹوں اور گھنٹوں میں رسائی ممکن ہے۔

متذکرہ شہروں اور قصبوں میں سے اکثر کے گردونواح میں خوشگوار موسمی ماحول کے حامل علاقوں تک رسائی کے لیے آمدورفت کا نظام بھی موجود ہے لیکن بعض ایسے علاقے بھی ہیں جن تک رسائی ممکن بنا ئی جا سکتی ہے۔ اگلے کالموں میں آپ کو سوپٹ کے شہزادے سے بھی ملوائیں گے اور آپ ضلع کوہستان کی خوبصورتی پر دنگ رہ جائیں گے۔بات موسمی تبدییلیوں کی ہو رہی تھی تو موسمی تغیر و تبدل کے اثرات کے طفیل بے موسمی حالات میںبھی مختلف انواع و اقسام کے پھلوں و سبزیوں اور دیگر زرعی اجناس کی موجودگی بھی ہمیں اپنے وطن کی منفرد اہمیت کا احساس دلاتی ہے۔ چند ماہ قبل آلو پانچ روپے کلو فروخت ہونے کی با ت ہو رہی تھی جو کافی حد تک حقیقت کے قریب تر بھی تھی۔

حالیہ برس کے دوران زرعی اجناس کی قیمتوں میں تغیر و بدل کے حوالے سے ایک حقیقت یہ بھی سامنے آئی کہ ایک عرصے تک آلو، پیاز اور سیب کم و بیش یکساں نرخوں یا تھوڑی بہت تفاوت یعنی چالیس، پچاس اور ساٹھ روپے کلو کے حساب سے دستیاب رہے،حالانکہ طویل عرصے تک سیب کی قیمت ایک سو سے لے کر دو، اڑھائی سوروپے کے درمیان رہی۔ معاشی نقطہ نظر سے یہ صورتحال رسل و رسائل یا بعض دیگر عوامل کی بنا پر بھی ممکن ہوئی ہوگی لیکن ان تمام تر حقائق کے تناظر میںہمارے وطن کی آب و ہوا، ماحول، اور دستیاب قدرتی نعمتوں کی ایک دلکش منظر کشی بھی ہوتی ہے۔ یہ تمام تر نعمتیں قدرت کے مروجہ نظام کے تابع ہیں جو بظاہر پانی کے دستیاب وسائل کی بدولت ممکن ہو تی ہیں۔

اشجار و جنگلات اور ماحول کا درحقیقت ایک دوسرے سے گہر ا رشتہ ہے جن کا وجود ایک دوسرے کے بغیر ممکن بھی نہیں۔ اس ہمہ گیر نوعیت کے حامل خوبصورت امتزاج کے عوام کی صحت، سماجی حالات اور معاشی اونچ نیچ کے ضمن میںبھی گہرے اثرات کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ وطن عزیز کے حوالے سے 1960 کی دہا ئی کو بہت سے پہلوؤںکے حوالے سے منفرد تصور کیا جاتا ہے اور یہ سچ بھی ہے۔ اس عرصے کے دوران شجرکاری کو بھی بہت اہمیت دی گئی تھی۔ (خیبرپختون خوا میں بلین ٹری منصوبے کا ذکر بھی مستقبل میں ہو گا) بہرطور شاہراہوں اور نہری نظام کے متوازی، متوازن انداز سے شجر کاری کی گئی تھی۔ جن میں چنار، شیشم، پاپلر، کیکر، پھلاہ وغیرہ قابل ذکر تھے۔

فضائی سفر سے زمین پر نگاہ پڑتے ہی، درختوں کی قطاروں سے شاہراہوں یا نہروں کی موجودگی کا احساس ہوتا تھا۔ 1965اور 1971 کی پاک بھارت جنگوں کے دوران ایک خوشگوار حقیقت یہ بھی سامنے آئی تھی، کہ جی۔ ٹی روڈ اور دیگر بڑی شاہراہوں سے متصل دستیاب درختوں کی قطاریں، فضائی حملوں سے بچاؤکا وسیلہ ثابت ہو ئیں۔ شاہراہوں پر محو سفر ڈرائیور حضرات جنگی جہازوں کی گڑگڑاہٹ سن کر اپنی گاڑیوں کو گھنٹوں ان درختوں کی قطاروں میں چھپائے رکھتے تھے، عام حالات میں ان سے استفادے کی تو با ت ہی کیا۔اب بھی بعض علاقوں میں ایسا ہے ،لیکن افسوسناک حقیقت یہ بھی ہے کہ وطن عزیز کی سر زمین اپنے اس خوبصورت و نادر زیور سے بتدریج محروم بھی ہوتی جا رہی ہے ۔

شاہراہوں کی توسیع و ترقی ایک خوش آیند پیش رفت ہے لیکن شجر کاری کی اہمیت کو برقرار رکھنا بھی کسی طور کم اہم نہیں ہو سکتا۔ افسوسناک پہلو یہ بھی ہے کہ شاہراہوں کے بنتے ہی ان سے متصل بے ہنگم انداز سے بڑے بڑے پلازے، مکانات، ورکشاپس، کارخانے اور مارکیٹیںجنم لے لیتی ہیں۔جدید سہولیات اور سائنس و ٹیکنالوجی کے شعبے کی ترقی کی اہمیت اپنی جگہ درست ہے لیکن بعض اوقات ذہن میں آتا ہے کہ آمدورفت کے دیرینہ روائتی وسائل کئی پہلوؤں سے کائنات کی خوبصورتی اور معاشی ترقی کا ایک معتدل انداز تھا۔ یقینا انقلابات زمانہ نے اس کرہ عرض کے حسن کو مرجھا دیا ہے۔ جہاز، ریل گاڑیاں، بسیں، ٹرک، موٹر کاریں، انسانی ذہن اور ہاتھ کا کما ل ضرور ہیں لیکن یہ کا ئنات کی خوبصورتی میں اضافے کی بجا ئے، بگاڑ کا زریعہ نسبتاً زیادہ بنے۔ ماحول کے مسائل کی سب سے بڑی وجہ انسان کے خود اپنے تخلیق کر دہ وسائل ہیں۔انسان اپنے ان کمالات پر بہت نازاں بھی ہے اور وہ حق بجانب بھی ہے لیکن اس کی رفتارو استعمال میںاعتدال اورتوازن کا عنصر بتدریج ناپید ہوتا جا رہا ہے۔

درست اور بروقت فیصلے یقینا پختہ اور دور اندیشانہ سوچ و فکر کی دلیل ہو تے ہیں۔اس ضمن میں بہت سے تاریخی واقعات سے یہ حقیقت بھی آشکارا ہوتی ہے کہ فیصلہ سازی کا عنصر کہیں تو انتہا ئی عجلت کا شکار ہو جاتا ہے اور کہیں اتنی لیت و لعل سے کام لیا جاتا ہے کہ منصوبوں کے حقیقی مقاصد ہی فوت ہو کر رہ گئے۔ایسی صورت حال میں چار موسموں کی یہ سرزمین ہماری توجہ کی متقاضی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں