محتسب میرے اثاثے لے جا

پانامہ لیکس جب سے لیک ہوا ہے، دنیا ہل کر رہ گئی ہے، کئی ممالک کے سربراہان مملکت مستعفی ہوچکے

پانامہ لیکس جب سے لیک ہوا ہے، دنیا ہل کر رہ گئی ہے، کئی ممالک کے سربراہان مملکت مستعفی ہوچکے، ان ممالک کے عوام اپنے دھوکے باز، بے ایمان حکمرانوں کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ ہمارے ملک کے وزیراعظم بھی ''پانامے'' کی زد میں آئے ہوئے ہیں۔ اس پانامے کا چھوٹنا تھا کہ ملکی سیاست میں بھونچال آگیا۔ پاکستان تحریک انصاف نے اپنے سربراہ عمران خان کی قیادت میں سونامی کا طوفان برپا کردیا ہے۔

عمران خان کہتے ہیں ''ہم اس کرپشن کے مسئلے کو دبنے نہیں دیںگے'' وزیراعظم نواز شریف ''پانامہ لیکس'' کے اچانک حملے کے بعد فوری طور پر اپنے معالجوں کے پاس لندن روانہ ہو گئے۔ ادھر ملک میں تمام اپوزیشن جماعتیں حکومت کے خلاف یک زبان ہوگئی ہیں۔ ایسے میں نواز شریف کی تصویر اخبارات و ٹیلی ویژن میں دکھائی گئی جس میں وہ اپنی والدہ صاحبہ کا ہاتھ چوم کر آنکھوں کو لگارہے ہیں، والدہ صاحبہ بیٹے کو دعاؤں کے ساتھ لندن کے لیے رخصت کررہی ہیں۔ سب نے دیکھا دنوں میں وزیراعظم کیچہرے پر پریشانی کے آثار نمایاں ہو گئے، پھر لندن کے اسپتال میںجانے کے بعد، دشمنوں نے خبریں پھیلانا شروع کردیں ''اب گیا وزیراعظم! اب واپس نہیں آئے گا'' مگر نواز شریف نے واپسی کا سفر باندھا، زندہ دلی کا ثبوت دیتے ہوئے لاکھوں روپوں کی قیمتی گھڑی خریدی اور دشمنوں کو یہ پیغام دیا کہ میں زندہ ہوں ابھی۔

وزیراعظم نواز شریف وطن واپس پہنچ چکے ہیں۔ عنان حکومت سنبھال چکے ہیں، اپنا جسمانی معائنہ کرانے کے بہت پہلے وہ آزاد تحقیقاتی کمیشن بنانے کا اعلان کرچکے تھے۔ جو کسی ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں ہوگا۔ جسٹس سرمد جلال عثمانی کا نام بطور سربراہ کمیشن بھی سامنے آچکا ہے مگر تمام اپوزیشن جماعتوں نے اس کمیشن کو مسترد کردیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ موجود چیف جسٹس سپریم کورٹ کی سربراہی میں پانامہ لیکس کی تحقیقات کروائی جائیں۔ ایک ''نیا پوآڑا پے گیا اے'' ابھی تو پچھلے ''رولے مکے'' نہیں ہیں۔

کرپشن کے معاملات، مقدمات کسی 'بنے' نہیں لگ رہے۔ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ کہہ رہے ہیں کہ سب کا احتساب ہونا چاہیے۔ بہت خوب! بہت اچھے، شاہ صاحب نے بالکل صیح سوا سولہ آنے صحیح بات کی ہے۔ وزیر داخلہ چوہدری نثار علی بھی سب کے احتساب کی بات کررہے ہیں۔ عمران خان تو سب کے احتساب کی بات کے چیمپئن بنے ہوئے ہیں۔ چوہدری نثار بیوی کے علاج کے لیے جرمنی چلے گئے، جرمنی سے لندن پہنچے، نواز شریف کی عیادت کی اور امریکا بہادر کے پاس چلے گئے، بیمار جنرل پرویز مشرف دبئی گئے، اب وہاں صحت مند زندگی گزار رہے ہیں، سابق صدر آصف علی زرداری بھی بیرون ملک بیمار ہیں۔ استاد دامن نے لکھا تھا کہ ہنری کسنجر وزیر خارجہ امریکا تھے، استاد نے لکھا:

کی کری جاریاں ایں
کدی شملے جاریاں ایں
کدی مری جاریاں ایں
کی کری جاریاں ایں
آج استاد دامن ہوتے تو لکھتے:
کی کری جاریاں ایں
کدی لندن جاریاں ایں

کدی جرمن جاریاں ایں
کدی امریکا جاریاں ایں
کدی دبئی جاریاں ایں
کی کری جاریاں ایں

بس پانامہ لیکس بھی اسی ''آنڑیاں جانڑیاں'' کی نذر ہوجائے گا۔ یہاں کبھی کسی کا احتساب نہیں ہوگا، جو کہہ رہے سب کا احتساب ہونا چاہیے، چشم حیرت انھیں دیکھ رہی ہے۔ استاد دامن نے جب ''شملے اور مری'' کا ذکر کیا تھا تو مسئلہ انڈیا اور پاکستان کا تھا۔ اس وقت کی حکومت نے شملے اور مری کا ذکر کرنے پر استاد کی ''کھولی'' سے دستی بم اور رائفلیں برآمد کرلی تھیں اور انھیں جیل میں ڈال دیا تھا۔ استاد دامن چھوٹ کر باہر آئے تو بولے ''شکر ہے میں ایک ہی کمرے میں رہتا ہوں، اگر میرا بڑا گھر ہوتا تو 'رانی توپ' بھی میرے گھر سے برآمد ہونی تھی''۔ رانی توپ 65 کی جنگ میں لاہور بارڈر پر استعمال ہوئی تھی۔

جنرل صاحب کہتے ہیں ''ضرب عضب اور دہشت گردی کے خاتمے سے حالات نہیں سدھریں گے، کرپشن کا خاتمہ ضروری ہے، سب کا احتساب ہونا چاہیے، فوج اس بارے میں متفق ہے''۔

لو جی! اب تو جنرل صاحب نے بھی کہہ دیا ہے۔ جنرل ضیا کے دور میں ''پہلے احتساب پھر انتخاب'' کا نعرہ لگا تھا، تب حبیب جالب نے بھی خود کو احتساب کے لیے پیش کرتے ہوئے لکھا تھا۔
میری غربت، مرے قافلے لے جا
محتسب میرے اثاثے لے جا
میں نے لکھے جو وطن کی خاطر
گیت لے جا، وہ ترانے لے جا

تو جناب ہم سب غریب بھی احتساب کے لیے حاضر ہیں، ہماری آہیں، آنسو حاضر ہیں۔
Load Next Story