لوٹ سیل

کیونکہ یہ تفریح کے بجائے مہنگائی کی وجہ سے ایک اور محنت اور مشقت ہی ہے۔



ٹی وی تو آپ دیکھتے ہی ہوں گے کہ آج کل اس کی ہم قافیہ کے علاوہ یہی ایک دیکھنے کی چیز رہ گئی ہے ۔ سینما جانا ایک روزکی مزدوری کو ضایع کرنے کے برابر ہے۔

کیونکہ یہ تفریح کے بجائے مہنگائی کی وجہ سے ایک اور محنت اور مشقت ہی ہے۔ ویسے تو ہمارے معاشرے میں اب کوئی چیز آسان نہیں ہے سوائے ''تن آسانی'' کے اور ایسا کرنے والے چھوٹے موٹے چور اور ڈاکا زن اب عوام کی ''آتشزدگی'' کا شکار ہورہے ہیں عوام بھی دراصل تنگ آچکے ہیں کس کس کو TAX دیں۔ حکومت نے سر سے پاؤں تک ہر چیزکو TAX کیا ہوا ہے بچوں کے دودھ پر ٹیکس اور بوڑھوں کی دواؤں پر ٹیکس۔ ایسا کوئی اعلان سننے میں نہیں آیا کہ 60 برس سے زیادہ عمرکے شہریوں کو خصوصی کارڈز ''ہیلتھ کارڈ'' جاری کیے جائیں گے جس سے وہ کسی بھی بڑے سے بڑے اسپتال میں مفت علاج کروائیں گے۔

یہ ہمارا ایک اور ایسا خواب ہے ان خوابوں کی طرح جن کی تعبیریں نہیں ہوتیں۔ توحکومت کو صبح سے شام تک TAX دیتے دیتے اگر راستوں پر یہ ''غنڈے'' اور ''بدمعاش'' TAX لینے آجائیں اور آپ کا بچا کھچا لوٹنے کی کوشش کریں تو مزاحمت ضروری ہے، پہلے اس مزاحمت میں اکا دکا راہگیروں کی جان جاتی تھی، مگر اب عوام نے جینے کا راستا ڈھونڈ لیا ہے اور وہ ہے عوامی اتحاد اور ایسے کسی بھی موقعے پر عوام متحد ہوکر اس چور اچکے بدمعاش کو نہ صرف خوب دھنتے ہیں بلکہ اکثر اب تو وہ حال کردیتے ہیں کہ یا تو وہ موقعے پر ہی ہلاک ہوجاتے ہیں یا پھر اسپتال میں ان کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔

''کٹی عمر ہوٹلوں میں مرے اسپتال جا کر'' یہی ہے ایک المیہ ہمارے ان نوجوانوں کا جو محنت میں عظمت پر یقین رکھنے کے بجائے حصول دولت کے آسان راستے تلاش کرتے ہیں۔ یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ آسان راستے آسان نہیں ہوتے پرخطر ہوتے ہیں اور ہمیشہ سے چوروں ڈاکوؤں کا انجام طویل قید یا موت ہی ہوتا رہا ہے اور خاندان کے خاندان برباد ہوتے رہے ہیں، ہمارا معاشرہ بظاہر جو نظرآتا ہے وہ ہے نہیں، پرت اندر پرت اس معاشرے کو دیمک لگ رہی ہے، اس کی عزت آبرو کے جنازے خاموشی سے اٹھ رہے ہیں۔کہا جاتا تھا کہ تیسری جنس کے لوگوں کے جنازے راتوں کو اٹھتے ہیں، مگرکیا کوئی لب کشائی کرسکتا ہے کہ اب پہلی اور دوسری جنس کے جنازے عزت اورآبرو کے ساتھ دن رات اٹھتے ہیں اورکوئی نہیں بولتا دیکھتی آنکھیں، اندھی ہیں اور سنتے کان بہرے۔ یہ سب عذاب حکمرانوں کے سر جائے گا ۔

جنھوں نے اپنے خاندان اور اپنے حمایتیوں کے خاندانوں کی خوشحالی کے لیے قوم کی خوشحالی کے چمن کو اجاڑ دیا ہے اور جو TAX کی لوٹ کھسوٹ میں اخلاقی اقدار سے محروم ہوچکے ہیں، کوئی پانی کا بل نہیں دے سکتا پانی کاٹ دو، کوئی بجلی کا بل نہیں دے سکتا بجلی کاٹ دو۔ یہ وہ ضروریات زندگی ہیں جن کی آسانی سے فراہمی حکومت کی ذمے داری ہے۔ اس دور میں بعض ملکوں میں عوام کے لیے بجلی اور ٹیلی فون مفت ہیں تو ہم کس دور میں رہ رہے ہیں ''پتھروں کے دور میں'' اور یہ پتھر ہیں حکمرانوں کے دل جو کسی طرح بھی عوام کو کوئی آرام کی سانس لینے کا موقع نہیں دیتے کیونکہ انھیں عوام کے TAX سے دنیا بھر کی سیر کرنی ہے، اپنے کاروبار کو دنیا بھر میں وسیع کرنا ہے، پاکستان کے نام پر اپنی تجوریوں کے منہ بھرنے ہیں۔ جب حکومت کاروبار کرنے لگے اوراس کی نوعیت ذاتی ہو تو عوام کو تو بھوکوں مرنا ہی پڑے گا۔ حکمرانوں کے کیک کے لیے انھیں اپنی جوکی روٹی سے بھی ہاتھ اٹھانا پڑے گا۔

پاکستان میں خودکشیوں کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ذہنی بیمار بڑھ رہے ہیں۔ نفسیاتی مریض بڑھتے جا رہے ہیں۔ یہ کیا ہوگیا ہے اس ملک کو، ایک روٹی تھی بانٹ کرکھا رہے تھے، اچانک ہماری خوشیوں کو کس کی نظر لگ گئی، ان خوشیوں کو ان چند ''خود غرضوں'' کی نظر لگ گئی ہے جو ''میرا اور صرف میرا'' کا راگ الاپ رہے ہیں، اور اب اس میں اضافہ ہو رہا ہے، بہت سے نئے کھلاڑی بھی اس میں شامل ہوگئے ہیں، ''شاہد مشہود'' سب ایک صف میں آگئے ہیں اور وہ صف ہے ''ظالموں کی صف'' اور ان کا نشانہ ہیں عوام۔ گانے بجانے والوں نے نئے چولے زیب تن کر لیے اور وہ اب درس دینے لگے۔ توفیق اور ہدایت جسے چاہے اللہ دے اس پر کسی کی اجارہ داری ہے نہ کوئی ایسا کرسکتا ہے مگر انسان کے پاس ایک آنکھ ہے اندر کی آنکھ وہ سب کچھ دیکھتی ہے سمجھتی ہے، مگر بولتی نہیں، بولے تو ''دار اور منصور'' کی کہانی دہرا دی جائے گی۔

شہرت کا ایک ''ہوکا'' پڑا ہوا ہے، کسی طرح مشہورہوجاؤ، کوئی ایسا حلیہ، طریقہ، بازی گری کا حیلہ اختیارکرو کہ دنیا کو یقین ہوجائے کہ تم سچے ہو اور باقی سب جھوٹ ہے۔ پہلے اکا دکا فنانسنگ کمپنیاں دھوکے کرتی تھیں۔ اب معاشرے میں لوٹ سیل لگی ہے، لوٹو جی بھرکے لوٹو، اپنی قوم ہے یہ کچھ تو کہے گی ہی نہیں کہ ہم نے اسے علم سے بے بہرہ کرکے جیب کاٹنے پر لگا دیا ہے۔ تدریسی جیبیں کٹ رہی ہیں، علمی سرقے ہو رہے ہیں۔ ڈگریاں واپس لی جا رہی ہیں کینسل کی جا رہی ہیں تو یہ کیا اقدام ہوا ''ایگزیکٹ'' کا کیا بگڑا۔ کل اور کسی نام سے آجائیں گے ہم لوگ۔ سوال یہ ہے کہ غلط ڈگری ثابت ہوجائے تو کیا سزا ڈگری کو دی جائے گی کینسل کرکے۔ یا اس شخص کو جس نے غلط ڈگری لی اور جس نے غلط ڈگری دی، اندھیر نگری چوپٹ راج، ڈگری کو سزا ہو رہی ہے، مرض کو سزا ہورہی ہے، نہ ڈاکٹر کو سزا کہ جعلی ڈگری سے ڈاکٹر بنا ہے نہ ڈگری کے ذمے داروں کو سزا۔

یہ ہے ہمارا معاشرہ اور ہمارا قانون۔ الیکشن میں جعلی ڈگری ثابت ہونے پر سیٹ سے محروم کردیا ،کورٹ نے جرم کی سزا نہیں دی۔ اگر ایک کیس میں بھی کورٹ جعلی ڈگری رکھنے والے کو سزا دے دیتی تو یہ کاروبار ختم ہوجاتا۔ قانون ایسے بنائے جاتے ہیں کہ ان میں چور راستے رکھ دیے جاتے ہیں کہ کس طرح اس قانون سے بچا جاسکے گا۔قوانین میں یہ ''اگر مگر'' کیوں، جرم اور سزا کا سیدھا سچا اصول کیوں نہیں اپنایا جاتا۔ سارے معاشرے کے افراد کو پتہ ہے کہ Experts موجود ہیں وہ ہر قانون سے بچا لیں گے۔ کیا وکیلوں کا کام یہی رہ گیا ہے کہ وہ مجرموں کو معصوم ثابت کریں جب کہ شواہد کو مسخ کرنے سے پہلے وہ جانتے ہیں کہ یہ مجرم ہے مگر وہ اسے ملزم میں تبدیل کرکے بچا لیتے ہیں۔

یہ رزق حلال ہے؟ اگر نہیں ہے تو یہ رزق جہاں جہاں جائے گا وہاں زہر کے پودے پیدا کرے گا اور یہ زہر ایک دن انھی لوگوں کے رگ و پے میں شامل ہوگا جو اس کے پیدا کرنے کے ذمے دار ہیں۔ نسلوں تک اس کا اثر رہے گا۔ یہ قانون قدرت ہے انسانوں کا قانون نہیں ہے۔ قدرت کے قانون میں جزا اور سزا کا تصور نہیں ہے۔ حقیقت ہے، جزا بھی ملتی ہے سزا بھی۔ آپ اسے چاہے کوئی بھی نام دے دیں فیصلہ وہاں سے ہی ہوتا ہے اور ضرور ہوتا ہے۔ دیر سویر قدرت کے نظام کا ایک حصہ ہے اور یقینا بامقصد ہے ضروری ہے کہ خدا نے کسی چیز، کسی قانون کو بے کار نہیں بنایا، بے کار کا لفظ قدرت کی لغت میں نہیں ہے۔ قدرت کوئی چیز بے کار تخلیق نہیں کرتی۔ چیز کی ایک وجہ ہے۔

ایک سبب ہے مگر اپنے جرائم کو قدرت کے کھاتے میں نہ ڈالو کہ یہ لکھا ہوا تھا، نہیں یہ تم نے لکھا ہے اوراپنے لکھے کے تم ذمے دار ہو۔ اس نے سادہ اصول کے تحت تمہیں عقل سے آراستہ کرکے بھیجا ہے۔ عقل ہوشیار ہے، اس کا استعمال درست کروگے تو بلند مقامات ہیں تمہارے لیے ورنہ یہی عقل تمہیں ذلت کے گہرے غاروں میں لے جائے گی جہاں سے روز قیامت سزا کے لیے برآمد کیے جاؤگے۔ یہ سبق میرے لیے ہے۔ آپ کے لیے ہے اور ہر اس شخص کے لیے ہے جس کو قدرت نے ذرا سا بھی اختیار دیا ہے۔ یہ نہیں جاگیں گے جن سے ہم نے توقع رکھی ہے۔ توقع صرف اللہ سے اور ارادہ اپنا اور عمل مستحکم بس یہ ہے آسان زندگی۔ ٹی وی سے بات شروع کی تھی وہ بات کچھ اور تھی پھر کریں گے کبھی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں