’ کلبھوشن سنگھ یادیو لیکس ‘
پانامہ لیکس نے بھارتی ایجنٹ کلبھوشن سنگھ یادیو کے ایشو کو فی الوقت پس منظر میں دھکیل دیا ہے
PESHAWAR:
پانامہ لیکس نے بھارتی ایجنٹ کلبھوشن سنگھ یادیو کے ایشو کو فی الوقت پس منظر میں دھکیل دیا ہے ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ کلبھوشن یادیو لیکس ، پانامہ لیکس سے زیادہ اہم ہیں ۔
کلبھوشن سنگھ یادیو کوئی پہلا بھارتی جاسوس نہیں ہے ، جسے پاکستان کی سیکیورٹی ایجنسیوں نے پکڑا ہے ۔اس سے پہلے بھی کئی بھارتی جاسوس پکڑے جا چکے ہیں ، مثلاً : ۱۔ 1983ء میں رویندرا کوشک کو پکڑا گیا ، جو ' نبی احمد شاکر' کے نام سے سرگرم کار تھا ۔ کہا جاتا ہے ، رویندرا کوشک25 سال کی عمر میں1975ء میں سرحد پارکرکے پاکستان پہنچا تھا ۔ پاکستان بھیجنے سے پہلے اسکو اردواور پنجابی ، پاکستانی لہجہ میں بولنے کی تربیت کے علاوہ مذہبی تعلیمات بھی ازبر کرائی گئیں ۔ رویندرا کوشک کو ملڑی کورٹ نے سزائے موت سنائی ، جو بعد میں سپریم کورٹ نے عمر قید میں تبدیل کردی۔26 اپریل1999ء کو وہ ملتان جیل میں تھا ، اور قریب قریب16 برس قید کاٹ چکا تھا کہ پھیپھڑوں کی انفیکشن کا شکار ہو گیا اور جانبر نہ ہو سکا ۔۲ ،1990 ء میں سربجیت سنگھ بھی پکڑا گیا۔ تحقیقات کے دوران میں معلوم ہوا کہ وہ فیصل آباد اور لاہور بم دھماکوں میں بھی ملوث ہے۔
ان بم دھماکوں میں کئی بے گناہ شہری جاں بحق ہو گئے تھے۔اس دہرے جرم کی پاداش میں ملٹری کورٹ میں اس پر مقدمہ چلا اور سزاے موت سنائی گئی۔ ہائی کورٹ نے بھی اس کی سزائے موت کو بحال رکھا اور2006 ء میں سپریم کورٹ نے بھی اس کی نظرثانی کی درخواست مسترد کردی ۔ لیکن اس سے پہلے کہ اس کی سزائے موت پر عمل درآمد ہوتا، 26 اپریل 2013 ء کو قید کے دوران میں اس پر بعض ساتھی قیدیوں نے حملہ کر دیا ۔ وہ شدید زخمی ہو گیا ۔ اسکو اسپتال لے جایا گیا ، لیکن وہ زخموں کی تاب نہ کر دم توڑ گیا ۔
رویندرا کوشک اور سربجیت سنگھ کے برعکس بھارتی جاسوس کشمیر سنگھ اورسرجیت سنگھ بالترتیب35 سال اور30 سال قیدکاٹنے کے بعد رہائی پانے میں کامیاب ہو گئے ۔۱، کشمیر سنگھ ، جو 'ابراہیم' کے نام سے آپریٹ کر رہا تھا ،1973 ء میں پکڑا گیا ۔ معلوم ہوا کہ1962-66ء کے عرصہ میں ، وہ بھارتی فوج میں خدمات بھی انجام دے چکا ہے۔ کشمیر سنگھ 35 سال تک پاکستان کی مختلف جیلوں میں قید رہا ، جن میں16 برس قید تنہائی کے تھے ۔ 4 مارچ 2008 ء کو اس شک کی بنیاد پر اسکو رہا کرکے بھارت بھجوا دیا گیا کہ شاید وہ جاسوس نہیں تھا۔کشمیر سنگھ کو'را' نے کبھی اپنا باقاعدہ ایجنٹ تسلیم نہیں کیا تھا ۔
حتی ٰ کہ جب وہ رہا ہو کر بھارت پہنچا تو بھی اس کے ساتھ سردمہری کا سلوک کیا گیا۔ کشمیر سنگھ بھی پہلے یہی کہتا رہا تھا کہ وہ 'را' کا باقاعدہ کارندہ نہیں ہے ، تاہم بھارت واپس پہنچ کر اس نے کہا کہ وہ بھارت کے لیے جاسوسی کرنے ہی پاکستان آیا تھا ۔ ۲، سرجیت سنگھ 1985 ء میں پکڑا گیا تھا۔ ملٹری کورٹ نے اسکو سزائے موت سنائی ، لیکن1989ء میں اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان نے اس کی رحم کی اپیل منظور کرلی اور سزائے موت کو عمر قید سے بدل دیا ۔30 برس پاکستان کی مختلف جیلوں میں قید کاٹنے کے بعد73 برس کی عمر میں سرجیت سنگھ رہا ہوکر بھارت پہنچا۔ سرجیت سنگھ کا کیس کشمیر سنگھ سے ملتا جلتا تھا۔ وہ کہتا تھا کہ بھارت کے لیے جاسوسی کی غرض سے ہی وہ پاکستان آیا تھا ، لیکن 'را' اس کے دعوے کو تسلیم نہیں کرتی تھی ۔لہٰذا واپسی پر اسکو کسی خصوصی مالی امداد کا مستحق نہیں سمجھا گیا ۔
کلبھوشن سنگھ یادیو کی گرفتاری اوراس کے انکشافات کے جو قانونی مضمرات ہیں، وہ نریندرا کوشک اور سربجیت سنگھ کی تھے، نہ کشمیر سنگھ اور سرجیت سنگھ کے ۔ کلبھوشن سنگھ یادیو نے بھارتی فوج کا حاضر سروس افسر ہے۔ اقوام متحدہ کے وضع کردہ موجودہ قواعد کے تحت کسی ایک ملک کے حاضرسروس فوجی افسر کا خفیہ طور پرکسی دوسرے ملک میں جانا ، اور اس کی سلامتی کے خلاف سرگرمیوں میں ملوث ہونا ، جنگی ایکشن کے مترادف ہے ۔
یوں کلبھوشن سنگھ یادیوکا معاملہ قانونی طور پر محض دہشت گردی کا کوئی معاملہ نہیں ہے ، جیسا کہ عام طور پر سمجھا جا رہا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ باوجود بھرپور کوشش کے ، بھارتی حکومت کلبھوشن سنگھ یادیو تک براہ راست سفارتی رسائی حاصل کرنے میں کام یاب ہو سکی ہے ، نہ قانونی طور پر ہو سکتی ہے ۔اس ضمن میں عالمی قوانین کی بعض شقیں ایجنٹ کی جسمانی خبر گیری کی اجازت دیتی ہیں ۔کلبھوشن سنگھ یادیو مگر جس طرح ہنس ہنس کراپنا بیان ریکارڈ کر ا رہا تھا، یہ دیکھ کر بقائمی ہوش وحواس کوئی شخص اس کی جسمانی صحت پر تشویش ظاہر نہیں کر سکتا ہے ۔
کلبھوشن سنگھ یادیو کی گرفتاری پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں کی پیشہ ورانہ مہارت کا ثبوت ہے ۔ بھارت نے پٹھانکوٹ حملہ کو بغیرکسی ٹھوس ثبوت کے ، پاکستان کے ساتھ جوڑ کر اور حکومت پاکستان کو اس کا مقدمہ پاکستان میں درج کرنے پر مجبورکر کے عالمی سطح پر جو سیاسی اور سفار تی کامیابی حاصل کی تھی ،کلبھوشن سنگھ یادیو کی گرفتاری اور انکشافات نے اسکو ناکامی میں بدل دیا ہے ۔ وفاقی حکومت نے عوام کی توقعات کے مطابق کلبھوشن کے ایشو پر کھل کر ردعمل نہیں دیا۔ کلبھوشن سنگھ یادیواعتراف کرچکا ہے کہ وہ بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کو منظم کرنے اور پاک چین راہداری منصوبہ کو سبوتاژ کرنے کے لیے پاکستان میں سرگرم عمل تھا اور یہ سب کچھ بھارتی فوج کے حاضر سروس فوجی افسر کی حیثیت سے کر رہا تھا۔ یہ بھارتی اقدام اقوام متحدہ کے وارکنونشنزکے تحت جنگی اقدام ہے ۔
بھارتی وزیراعظم نریندرمودی کی پاکستان دشمنی ڈھکی چھپی نہیں ہے ۔ بھارتی ریاست گجرات کے وزیراعلیٰ کے طو ر پر ان کا ماضی گواہ ہے کہ وہ مسلمانوں کے خلاف جنگی جنون کا شکار ہیں ۔ گجرات میں ہزاروں مسلمانوں کے قتل پرانھوں نے کبھی شرمندگی ظاہر نہیں کی ہے ۔بنگلہ دیش کے دورہ کے دوران میں، وہ1971ء میںمشرقی پاکستان کو علیحدہ کرنے کی بھارتی فوجی مہم میں بطور' رضاکار' حصہ لینے کا اعتراف کر چکے ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ سانحہ مشرقی پاکستان کے تناظر میں نریندرمودی کے اعترافی بیان کے جو قانونی مضمرات تھے ،حکومت پاکستان اسکو اجاگر کر سکی ، نہ بلوچستان کے تناظر میں کلبھوشن کے اعترافی بیان کے جو قانونی مضمرات ہیں ، انکو سمجھنے کے لیے تیار ہے۔یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ موجودہ حکومت کو اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ جو مسائل درپیش ہیں ، ان میں سے ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ بھارت کے ضمن می اس کی پالیسی یہ ہے کہ
دے وہ جس قدرذلت ، ہم ہنسی میں ٹالیں گے
یہ پالیسی لیکن پاکستانی فوج کو قبول نہیں ہے اور کیوں قبول نہیں ہے ، اسکا جواب کلبھوشن سنگھ یادیو کے اعترافی بیان میں موجود ہے ۔
پانامہ لیکس نے بھارتی ایجنٹ کلبھوشن سنگھ یادیو کے ایشو کو فی الوقت پس منظر میں دھکیل دیا ہے ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ کلبھوشن یادیو لیکس ، پانامہ لیکس سے زیادہ اہم ہیں ۔
کلبھوشن سنگھ یادیو کوئی پہلا بھارتی جاسوس نہیں ہے ، جسے پاکستان کی سیکیورٹی ایجنسیوں نے پکڑا ہے ۔اس سے پہلے بھی کئی بھارتی جاسوس پکڑے جا چکے ہیں ، مثلاً : ۱۔ 1983ء میں رویندرا کوشک کو پکڑا گیا ، جو ' نبی احمد شاکر' کے نام سے سرگرم کار تھا ۔ کہا جاتا ہے ، رویندرا کوشک25 سال کی عمر میں1975ء میں سرحد پارکرکے پاکستان پہنچا تھا ۔ پاکستان بھیجنے سے پہلے اسکو اردواور پنجابی ، پاکستانی لہجہ میں بولنے کی تربیت کے علاوہ مذہبی تعلیمات بھی ازبر کرائی گئیں ۔ رویندرا کوشک کو ملڑی کورٹ نے سزائے موت سنائی ، جو بعد میں سپریم کورٹ نے عمر قید میں تبدیل کردی۔26 اپریل1999ء کو وہ ملتان جیل میں تھا ، اور قریب قریب16 برس قید کاٹ چکا تھا کہ پھیپھڑوں کی انفیکشن کا شکار ہو گیا اور جانبر نہ ہو سکا ۔۲ ،1990 ء میں سربجیت سنگھ بھی پکڑا گیا۔ تحقیقات کے دوران میں معلوم ہوا کہ وہ فیصل آباد اور لاہور بم دھماکوں میں بھی ملوث ہے۔
ان بم دھماکوں میں کئی بے گناہ شہری جاں بحق ہو گئے تھے۔اس دہرے جرم کی پاداش میں ملٹری کورٹ میں اس پر مقدمہ چلا اور سزاے موت سنائی گئی۔ ہائی کورٹ نے بھی اس کی سزائے موت کو بحال رکھا اور2006 ء میں سپریم کورٹ نے بھی اس کی نظرثانی کی درخواست مسترد کردی ۔ لیکن اس سے پہلے کہ اس کی سزائے موت پر عمل درآمد ہوتا، 26 اپریل 2013 ء کو قید کے دوران میں اس پر بعض ساتھی قیدیوں نے حملہ کر دیا ۔ وہ شدید زخمی ہو گیا ۔ اسکو اسپتال لے جایا گیا ، لیکن وہ زخموں کی تاب نہ کر دم توڑ گیا ۔
رویندرا کوشک اور سربجیت سنگھ کے برعکس بھارتی جاسوس کشمیر سنگھ اورسرجیت سنگھ بالترتیب35 سال اور30 سال قیدکاٹنے کے بعد رہائی پانے میں کامیاب ہو گئے ۔۱، کشمیر سنگھ ، جو 'ابراہیم' کے نام سے آپریٹ کر رہا تھا ،1973 ء میں پکڑا گیا ۔ معلوم ہوا کہ1962-66ء کے عرصہ میں ، وہ بھارتی فوج میں خدمات بھی انجام دے چکا ہے۔ کشمیر سنگھ 35 سال تک پاکستان کی مختلف جیلوں میں قید رہا ، جن میں16 برس قید تنہائی کے تھے ۔ 4 مارچ 2008 ء کو اس شک کی بنیاد پر اسکو رہا کرکے بھارت بھجوا دیا گیا کہ شاید وہ جاسوس نہیں تھا۔کشمیر سنگھ کو'را' نے کبھی اپنا باقاعدہ ایجنٹ تسلیم نہیں کیا تھا ۔
حتی ٰ کہ جب وہ رہا ہو کر بھارت پہنچا تو بھی اس کے ساتھ سردمہری کا سلوک کیا گیا۔ کشمیر سنگھ بھی پہلے یہی کہتا رہا تھا کہ وہ 'را' کا باقاعدہ کارندہ نہیں ہے ، تاہم بھارت واپس پہنچ کر اس نے کہا کہ وہ بھارت کے لیے جاسوسی کرنے ہی پاکستان آیا تھا ۔ ۲، سرجیت سنگھ 1985 ء میں پکڑا گیا تھا۔ ملٹری کورٹ نے اسکو سزائے موت سنائی ، لیکن1989ء میں اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان نے اس کی رحم کی اپیل منظور کرلی اور سزائے موت کو عمر قید سے بدل دیا ۔30 برس پاکستان کی مختلف جیلوں میں قید کاٹنے کے بعد73 برس کی عمر میں سرجیت سنگھ رہا ہوکر بھارت پہنچا۔ سرجیت سنگھ کا کیس کشمیر سنگھ سے ملتا جلتا تھا۔ وہ کہتا تھا کہ بھارت کے لیے جاسوسی کی غرض سے ہی وہ پاکستان آیا تھا ، لیکن 'را' اس کے دعوے کو تسلیم نہیں کرتی تھی ۔لہٰذا واپسی پر اسکو کسی خصوصی مالی امداد کا مستحق نہیں سمجھا گیا ۔
کلبھوشن سنگھ یادیو کی گرفتاری اوراس کے انکشافات کے جو قانونی مضمرات ہیں، وہ نریندرا کوشک اور سربجیت سنگھ کی تھے، نہ کشمیر سنگھ اور سرجیت سنگھ کے ۔ کلبھوشن سنگھ یادیو نے بھارتی فوج کا حاضر سروس افسر ہے۔ اقوام متحدہ کے وضع کردہ موجودہ قواعد کے تحت کسی ایک ملک کے حاضرسروس فوجی افسر کا خفیہ طور پرکسی دوسرے ملک میں جانا ، اور اس کی سلامتی کے خلاف سرگرمیوں میں ملوث ہونا ، جنگی ایکشن کے مترادف ہے ۔
یوں کلبھوشن سنگھ یادیوکا معاملہ قانونی طور پر محض دہشت گردی کا کوئی معاملہ نہیں ہے ، جیسا کہ عام طور پر سمجھا جا رہا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ باوجود بھرپور کوشش کے ، بھارتی حکومت کلبھوشن سنگھ یادیو تک براہ راست سفارتی رسائی حاصل کرنے میں کام یاب ہو سکی ہے ، نہ قانونی طور پر ہو سکتی ہے ۔اس ضمن میں عالمی قوانین کی بعض شقیں ایجنٹ کی جسمانی خبر گیری کی اجازت دیتی ہیں ۔کلبھوشن سنگھ یادیو مگر جس طرح ہنس ہنس کراپنا بیان ریکارڈ کر ا رہا تھا، یہ دیکھ کر بقائمی ہوش وحواس کوئی شخص اس کی جسمانی صحت پر تشویش ظاہر نہیں کر سکتا ہے ۔
کلبھوشن سنگھ یادیو کی گرفتاری پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں کی پیشہ ورانہ مہارت کا ثبوت ہے ۔ بھارت نے پٹھانکوٹ حملہ کو بغیرکسی ٹھوس ثبوت کے ، پاکستان کے ساتھ جوڑ کر اور حکومت پاکستان کو اس کا مقدمہ پاکستان میں درج کرنے پر مجبورکر کے عالمی سطح پر جو سیاسی اور سفار تی کامیابی حاصل کی تھی ،کلبھوشن سنگھ یادیو کی گرفتاری اور انکشافات نے اسکو ناکامی میں بدل دیا ہے ۔ وفاقی حکومت نے عوام کی توقعات کے مطابق کلبھوشن کے ایشو پر کھل کر ردعمل نہیں دیا۔ کلبھوشن سنگھ یادیواعتراف کرچکا ہے کہ وہ بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کو منظم کرنے اور پاک چین راہداری منصوبہ کو سبوتاژ کرنے کے لیے پاکستان میں سرگرم عمل تھا اور یہ سب کچھ بھارتی فوج کے حاضر سروس فوجی افسر کی حیثیت سے کر رہا تھا۔ یہ بھارتی اقدام اقوام متحدہ کے وارکنونشنزکے تحت جنگی اقدام ہے ۔
بھارتی وزیراعظم نریندرمودی کی پاکستان دشمنی ڈھکی چھپی نہیں ہے ۔ بھارتی ریاست گجرات کے وزیراعلیٰ کے طو ر پر ان کا ماضی گواہ ہے کہ وہ مسلمانوں کے خلاف جنگی جنون کا شکار ہیں ۔ گجرات میں ہزاروں مسلمانوں کے قتل پرانھوں نے کبھی شرمندگی ظاہر نہیں کی ہے ۔بنگلہ دیش کے دورہ کے دوران میں، وہ1971ء میںمشرقی پاکستان کو علیحدہ کرنے کی بھارتی فوجی مہم میں بطور' رضاکار' حصہ لینے کا اعتراف کر چکے ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ سانحہ مشرقی پاکستان کے تناظر میں نریندرمودی کے اعترافی بیان کے جو قانونی مضمرات تھے ،حکومت پاکستان اسکو اجاگر کر سکی ، نہ بلوچستان کے تناظر میں کلبھوشن کے اعترافی بیان کے جو قانونی مضمرات ہیں ، انکو سمجھنے کے لیے تیار ہے۔یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ موجودہ حکومت کو اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ جو مسائل درپیش ہیں ، ان میں سے ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ بھارت کے ضمن می اس کی پالیسی یہ ہے کہ
دے وہ جس قدرذلت ، ہم ہنسی میں ٹالیں گے
یہ پالیسی لیکن پاکستانی فوج کو قبول نہیں ہے اور کیوں قبول نہیں ہے ، اسکا جواب کلبھوشن سنگھ یادیو کے اعترافی بیان میں موجود ہے ۔