بال بیکا نہیں ہوسکتا
کہا جارہا ہے کہ برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کی جن آف شور کمپنیوں کا شہرہ ہے
SHABQADAR:
کہا جارہا ہے کہ برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کی جن آف شور کمپنیوں کا شہرہ ہے وہ ان کے وزیراعظم بننے سے پہلے ان کے اجداد کی قائم کی ہوئی ہیں، اگر ایسا ہی ہے تو بہ ظاہر وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون بے گناہ نظر آتے ہیں لیکن جو لوگ کسی ملک کی حکمرانی پر فائز ہوتے ہیں، ان پر یہ ذمے داری ہوتی ہے کہ وہ اپنے متعلقین خاص طور پر قریبی خونی رشتے داروں کو غیر قانونی اور غیر اخلاقی کاموں سے روکیں کیوں کہ کسی بھی غیر قانونی، غیر اخلاقی کام کی ذمے داری بالواسطہ ہی سہی حاضر سروس حکمرانوں پر ہی عائد ہوتی ہے۔
برطانیہ کے عوام اپنے وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کو آف شورکمپنی رکھنے کا ذمے دار ٹھہرا رہے ہیں اور ان کی رہائش گاہ پر سخت مظاہرے کررہے ہیں اور مطالبہ کررہے ہیں کہ وہ اپنے عہدے سے استعفیٰ دیں۔ آف شور کمپنیاں در اصل ٹیکس بچانے اور منی لانڈرنگ کے لیے استعمال کی جاتی ہیں اور یہ نہ صرف اخلاقی بلکہ قانونی جرم ہے۔
برطانیہ کے علاوہ روس، چین اور عرب ملکوں سمیت کئی مغربی ممالک پانامہ لیکس کی فہرست میں شامل ہیں اور ان میں بعض عرب ملکوں کے علاوہ باقی سارے ملزم ملکوں میں جمہوریت رائج ہے جس کا مطالبہ ہے کہ جمہوری ملکوں کا حکمران طبقہ مکمل طور پر اس غیر قانونی، غیر اخلاقی جرائم میں ملوث ہے امریکا کی حکومت کا موقف وزارت خارجہ کے ترجمانوں کے ذریعے دنیا کے سامنے آتا ہے اور امریکا کے صدارتی ترجمان کا کہنا ہے کہ پاکستان کے وزیراعظم محمد نواز شریف پر لگائے جانے والے الزامات کا فیصلہ کرنا پاکستانی عوام کا کام ہے امریکا کا یہ موقف بلاشبہ جمہوری ہے جس میں رائے عامہ کو فیصلہ کن طاقت تسلیم کیا جاتا ہے۔
ہمارے ملک میں اہل سیاست ہی نہیں بلکہ زندگی کے مختلف شعبوں کے رہنماؤں کی طرف سے نواز شریف سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ وہ پانامہ لیکس کے انکشافات کے بعد وزارت عظمیٰ سے استعفیٰ دیں۔ دنیا کے مختلف ملکوں کے حکمرانوں پر جب اس قسم کے الزامات عائد ہوتے ہیں تو وہ از خود استعفیٰ دے کر اپنی اخلاقی ذمے داریاں پوری کرتے ہیں لیکن پاکستانی حکمران طبقے کی یہ روایت رہی ہے کہ وہ بڑے سے بڑے الزامات کو انتہائی ڈھٹائی سے اگر، مگر کے سمندر میں ڈبودیتا ہے اگر کسی ملک میں قانون اور انصاف کا نظام سیاسی دباؤ سے آزاد ہو تو وہ حکمرانوں پر لگائے جانے والے اس قسم کے سنگین الزامات کا از خود نوٹس لے کر قانون اور انصاف کی بالادستی کا عملاً مظاہرہ کرتا ہے۔
ہمارے حکمران پارٹی کے معزز اراکین اور خود میاں صاحب کے برادرخورد میاں شہباز شریف اس بات کا اعتراف کررہے ہیں کہ آف شور کمپنیاں میاں نواز شریف کے صاحبزادوں حسن نواز اور حسین نواز کی ملکیت تو ہیں لیکن میاں نواز شریف اس جرم میں ملوث نہیں۔
ابھی ابھی میاں نواز شریف کے ایک صاحبزادے اس مسئلے پر والد صاحب سے مشاورت کے لیے پاکستان آئے تھے اور مشاورت کے بعد واپس گئے ہیں اگر وزیراعظم کا اس کیس سے کوئی تعلق نہیں تو پھر نہ صرف وزیراعظم کو اس حوالے سے اپنے بیٹوں سے کسی قسم کی مشاورت میں شامل نہیں ہونا چاہیے تھا بلکہ اس سنگین الزام سے لا تعلقی ثابت کرنے اور اپنی اخلاقی ذمے داری پوری کرنے کے لیے ان بیٹوں کو عاق کردینا چاہیے تھا اگر نواز شریف اس طرح کے اقدامات کرتے تو ان پر لگائے جانے والے الزامات کا بوجھ کم ہوجاتا لیکن ہمارے ملک کی اعلیٰ روایات یہی رہی ہیں کہ بیٹوں کے جرائم سے ماں باپ نہ صرف لا تعلقی کا اعلان کرتے ہیں بلکہ بیٹوں کے دفاع کی کوشش بھی کرتے ہیں۔
کسی بھی ملک میں اعلیٰ عدلیہ کے محترم ججزکا عہدہ انتہائی ذمے دارانہ اور قابل احترام عہدہ ہوتا ہے لیکن ہمارے ملک میں ان عہدوں کی حرمت کا عالم یہ ہے کہ ہمارے سابق چیف جسٹس جسٹس افتخار محمد چوہدری کے صاحبزادے پر بڑی بڑی بد عنوانیوں کے الزامات کھلے عام لگتے رہے اور ان سنگین الزامات کی تفصیل جزیات کے ساتھ میڈیا میں آتی رہیں ۔ ہمارے ملک میں اس قسم کی روایات اس قدر مستحکم ہیں کہ قانون اور انصاف منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں ملک کے چیف جسٹس پر دوران ملازمت ان کے صاحبزادے پر بدعنوانیوں کے با ثبوت الزامات لگتے رہے لیکن قانون اور انصاف کھڑا تما شا دیکھتا رہا اب ملک کے وزیراعظم کے بیٹوں، بیٹیوں پر آف شور کمپنیاں رکھنے کے الزامات لگ رہے ہیں اور ان حوالوں سے میڈیا میں چھوٹی چھوٹی تفصیلات بھی آرہی ہیں لیکن اﷲ بھلا کرے میاں صاحب کا، وہ ترنت کہہ رہے ہیں کہ ان الزامات کا تعلق بیٹوں سے ہے باپ سے نہیں ہے۔
پاکستان کے اہل سیاست کی سیاسی بصیرت اور ملک دوستی کا عالم یہ ہے کہ ن لیگ کے ارکان ہی نہیں بلکہ ملک کے جید عالم بھی یہ فرما رہے ہیں کہ اس مسئلے پر ہم نواز شریف کے ساتھ کھڑے ہوئے ہیں یہ مسئلہ نواز شریف کا کچھ نہیں بگاڑسکتا بلکہ ان کا بال بھی بیکا نہیں ہوگا۔ عمران خان نے اس مسئلے کے حوالے سے میاں نوازشریف کی رہائش گاہ پر دھرنے کا اعلان کیا تھا لیکن غالباً ''وقت اورحالات کے دباؤ''کی وجہ سے عمران خان کو دھرنے کی کال واپس لینی پڑی۔
بلاشبہ کسی حکمران کی رہائش گاہ پر دھرنے کی وجہ سے نہ صرف امن وامان کا مسئلہ پیدا ہوتا ہے بلکہ مکینوں کے لیے خطرات پیدا ہوجاتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری سیاست میں 69 سال گزرنے کے باوجود شائستگی پیدا نہیں ہوسکی جب سیاست میں تشدد شامل ہوجائے تو پھر سیاست شائستہ نہیں رہتی بلکہ غنڈہ گردی میں بدل جاتی ہے۔ ہماری سیاست میں تشدد کوئی حیرت کی بات نہیں بلکہ روزمرہ کی عام بات ہے اسی کلچر کی وجہ ہماری سیاست رسوا ہو رہی ہے ورنہ کوئی مغربی ممالک میں پانامہ لیکس کے حوالے سے مظاہرے کررہے ہیں، خود برطانوی وزیراعظم کی رہائش گاہ عوامی مظاہروں کی زد میں ہے۔
ہم نے اپنے ایک پچھلے کالم میں مریض کے علاج کے لیے مرض کی تشخیص کو ضروری اور لازمی قرار دیا تھا، جمہوری ملکوں میں بد عنوانیوں، کرپشن کی جو بہتات ہے اس کی اصل وجہ جرائم کے مرتکب افراد نہیں بلکہ وہ نظام ہے جو جرائم کو جنم دیتا ہے سرمایہ دارانہ نظام کے گندے اور پڑے ہوئے پانی میں جرائم مکھی مچھروں کی طرح پیدا ہوتے ہیں اور جب تک یہ جرائم کی پرورش کرنے والا نظام موجود ہے ہر قدم پر ایک پانامہ لیکس کھڑا ملے گا۔
ہمارے وزیراعظم پر جو سنگین الزامات لگائے جارہے ہیں یہ الزامات ہزاروں لوگوں پر لگ رہے ہیں اس کے احتساب کا مثبت طریقہ یہ ہے کہ حکمران طبقہ ہی نہیں بلکہ اپوزیشن کے محترم اراکین بھی اپنے اندرون ملک اور بیرون ملک اثاثے ڈکلیئر کریں اور ان کی تحقیق اور احتساب کے لیے ایسی کمیٹی قائم کی جائے جو ہر قسم کے دباؤ سے آزاد ہو اور اپنا کام مکمل غیر جانبداری اور ایمانداری سے انجام دے ورنہ نواز شریف کا ہی نہیں پوری ایلیٹ کا کوئی بال بیکا نہیں کرسکتا۔