مسلم امہ کے اتحاد کا خواب اور او آئی سی
ملت اسلامیہ کا اتحاد ان کا خواب تھا ،جوآج تک شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکا
BARA:
شاعر ملت علامہ اقبال نے برسوں پہلے کہا تھا:
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تابہ خاک کاشغر
ملت اسلامیہ کا اتحاد ان کا خواب تھا ،جوآج تک شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکا۔ترکی کے شہر استنبول میں منعقدہ حالیہ او آئی سی سربراہی کانفرنس کو اسی خواب کو شرمندہ تعبیرکرنے کی ایک کوشش کہا جا سکتا ہے۔ ملت اسلامیہ کو ماضی کے مقابلے میں آج انتہائی سنگین چیلنج درپیش ہیں جن کا اگر دور اندیشی اور جرأت مندی سے مقابلہ نہ کیا گیا تو پھر''تمہاری داستان تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں'' والی صورتحال درپیش ہوجائے گی۔اس اعتبار سے استنبول میں ہونے والی تیرہویں اسلامی سربراہی کانفرنس ایک بروقت کوشش کہی جاسکتی ہے۔ کانفرنس کا موضوع تھا ''اتحاد ویکجہتی برائے امن و انصاف''۔
مسلم دنیا کو اس وقت سب سے بڑا چیلنج دہشت گردی کی صورت میں درپیش ہے۔ چنانچہ ترکی کے صدر طیب اردگان نے سب سے زیادہ زور مسلم امت کے اتحاد پر ہی دیا اورکہا کہ مسلم ممالک کے سربراہان مملکت اور حکومت اپنے سارے اختلافات کو بھلا کر دہشت گردی کے خلاف متحد ہوجائیں۔ ان کا یہ کہنا بھی بالکل بجا تھا ۔
ملت اسلامیہ کو لاحق یہ مرض بہت پرانا ہے جس کا جلد ازجلد شافی علاج وقت اور حالات کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ اسلام دشمن قوتیں فرقہ بندیوں کی بنیاد پر مسلمانوں کو تقسیم کرنے اور آپس میں لڑانے کے لیے اسے اپنے سب سے کارگر اورموثر ہتھیار کے طور پراستعمال کررہی ہیں۔ مسلح ملیشیاؤں کو مسلم ممالک میں خلفشار اورانتشار پیدا کرنے اور پھیلانے کے لیے مذہب کے نام پر دھڑلے سے استعمال کیا جارہا ہے۔
عراق، شام، لیبیا اور یمن میں آئی ہوئی افراتفری اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ یہ مسلح ملیشیاء مسلم ممالک میں تقسیم در تقسیم کے حالات پیدا کرنے کے علاوہ امن و امان کے سنگین ترین مسائل بھی کھڑے کر رہی ہیں اور بھائی کو بھائی سے لڑا رہی ہیں۔ سیاسی خلفشار اور بے امنی کے علاوہ اس کے نتیجے میں شدید معاشی عدم استحکام اور بحران بھی پیدا ہو رہا ہے جس کے نتیجے میں عوام کی زندگی اجیرن ہوتی جا رہی ہے۔ سب سے زیادہ افسوس بھی یہی ہے کہ برادر مسلم ممالک وسائل اور افرادی قوت سے مالا مال ہونے کے باوجود اپنے مسائل حل کرنے میں ناکام ہوتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں جوکہ ایک بہت بڑا المیہ ہے۔
شام، لیبیا، عراق، یمن اور فلسطین سمیت مسلم ممالک کے درمیان مسائل کے حل کے معاملے میں مطلوبہ اتحاد دور دور تک نظر نہیں آتا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اپنے تمام مسائل کو حل کرنے کے لیے تمام مسلم ممالک آپس میں سر جوڑ کر بیٹھ جاتے اور ان کا کوئی مثبت حل تلاش کرتے، لیکن بدقسمتی سے ایسا کرنے کے بجائے وہ ان مسائل کے حل کے لیے غیروں کی طرف دیکھ رہے ہیں اور اقوام متحدہ سے آس لگائے بیٹھے ہیں۔ بقول غالب۔
ہم کو ان سے وفا کی ہے امید
جو نہیں جانتے وفا کیا ہے
اس سلسلے میں سب سے بڑی مثال مسئلہ کشمیرکی ہے جسے سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عمل درآمدکے ذریعے کب کا حل ہوجانا چاہیے تھا، لیکن اقوام متحدہ اس سلسلے میں مسلسل ناکامی اور بے بسی کا شکار ہے جب کہ مقبوضہ کشمیر میں نہتے لوگوں پر ظلم وستم ڈھائے جا رہے ہیں اوران کی قربانیوں کا ابھی تک کوئی نتیجہ برآمد ہوتا ہوا دکھائی نہیں دے رہا۔13 ویں اسلامی سربراہی کانفرنس کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے صدر پاکستان ممنون حسین نے بروقت اور برملا کہا کہ مسئلہ کشمیر کا حل اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق ہونا چاہیے۔انھوں نے بجا فرمایا کہ پاکستان کشمیری بھائیوں کی سفارتی اور اخلاقی مدد جاری رکھے گا۔صدر پاکستان کی یہ آواز بر موقع اور برمحل تھی اور مسلم ممالک کے سربراہوں کو اس پر بھرپور توجہ دینی چاہیے۔
صدر پاکستان نے او آئی سی کے فورم پر یہ آواز اٹھا کر پاکستانی قوم کے جذبات کی بالکل درست ترجمانی کی ہے۔ صدر پاکستان نے اپنے خطاب میں کہا کہ پاکستان چاہتا ہے کہ ایک آزاد اور خود مختار فلسطین ریاست قائم کی جائے جس کا دارالخلافہ بیت المقدس ہو۔ انھوں نے کہا کہ تاریخی ناانصافیاں اور نوآبادیاتی طرزعمل وہ عوامل ہیں جو دہشت گردی کو تقویت پہنچا رہے ہیں جس کے لیے مسئلہ کشمیر اور مسئلہ فلسطین کا حل ناگزیر ہے۔ صدر ممنون حسین نے بالکل درست کہا کہ دہشت گردی کا تعلق کسی مذہب، رنگ یا نسل سے نہیں بلکہ یہ ایک بین الاقوامی مسئلہ ہے جس کے خاتمے کے لیے پوری دنیا کو مل کر مقابلہ کرنا ہوگا۔
توجہ طلب بات یہ ہے کہ جب مسلم ممالک میں شکست و ریخت اور انتشار کا عمل شروع ہوا تھا تو ان کے پاس ان مسائل کے حل کے لیے کوئی عملی ایجنڈا موجود نہیں تھا اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ مسائل سنگین سے سنگین تر ہوتے چلے گئے۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ''گربہ کشتن روز اول'' کے مصداق ابتدا میں ہی ان کا حل تلاش کرلیا جاتا، مگر افسوس ایسا نہ ہوسکا جس کے نتیجے میں پانی سر سے اونچا ہوگیا۔
او آئی سی کے 13 ویں اجلاس میں بحرین، یمن، شام اور صومالیہ سمیت خطے کے مختلف ممالک کے داخلی معاملات میں ایران کی (مبینہ) مداخلت اور دہشت گردی کی حمایت کی مذمت کی گئی۔ اس کے علاوہ شام، بحرین، کویت اور یمن میں دہشت گردی کی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کی بناء پر مذمت کی گئی۔کانفرنس کے اختتامی اعلامیے میں ایران اور دیگر مسلم ممالک کے درمیان باہمی تعاون کی ضرورت پر بھی زور دیا گیا۔ ایران کے صدر نے سربراہی کانفرنس میں شریک نمایندوں سے استدعا کی تھی کہ وہ پھوٹ ڈالنے والے پیغامات ارسال کرنے سے گریزکریں۔ صدر حسین روحانی نے احتجاج کے طور پر کانفرنس کے اختتامی اجلاس میں شرکت نہیں کی۔ کاش ایسا نہ ہوتا۔
ترکی کے صدر طیب اردگان نے اختتامی اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کہا کہ استنبول میں ایک بین الاقوامی ثالثی ادارے کا قیام اوآئی سی کے 2025 ایکشن پلان کا ایک حصہ ہے۔ انھوں نے اپنے خطاب میں اس فیصلے کا خیرمقدم کیا جس کے تحت ترکی میں ایک پولیس رابطہ مرکز قائم کیا جائے گا جس کا مقصد دہشت گردی کے خلاف باہمی تعاون کو فروغ دینا ہوگا۔ کانفرنس نے ہر قسم کی دہشت گردی کے خاتمے کا عہدکیا اور عراق میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال پر داعش کی مذمت کی۔
اختتامی اعلامیے میں مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی پرتشدد کارروائیوں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر گہری تشویش کا اظہار کیا گیا اور کہا گیا ہے کہ بھارت کو مزاحمت اور دہشت گردی کے درمیان موجود فرق کو سمجھنا چاہیے۔ کانفرنس کا یہ موقف بلا شبہ حقیقت پسندانہ اور لائق تحسین ہے۔ اسلامی سربراہوں کے اجلاس کی اہمیت سے انکار تو ممکن نہیں ہے مگر حالات کا تقاضا یہ ہے کہ او آئی سی کے ممبران سر جوڑ کر بیٹھنے کے بعد متحد ہوکر مسلم امہ کے مسائل کے حل کے لیے ٹھوس اور عملی کوششیں بھی کریں ورنہ ان کے یہ تمام اجلاس سعی لاحاصل کے مترادف ہوں گے، جس کے نتیجے میں امت مسلمہ کے مسائل مزید بڑھتے اور پیچیدہ تر ہوتے چلے جائیں گے۔
شاعر ملت علامہ اقبال نے برسوں پہلے کہا تھا:
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تابہ خاک کاشغر
ملت اسلامیہ کا اتحاد ان کا خواب تھا ،جوآج تک شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکا۔ترکی کے شہر استنبول میں منعقدہ حالیہ او آئی سی سربراہی کانفرنس کو اسی خواب کو شرمندہ تعبیرکرنے کی ایک کوشش کہا جا سکتا ہے۔ ملت اسلامیہ کو ماضی کے مقابلے میں آج انتہائی سنگین چیلنج درپیش ہیں جن کا اگر دور اندیشی اور جرأت مندی سے مقابلہ نہ کیا گیا تو پھر''تمہاری داستان تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں'' والی صورتحال درپیش ہوجائے گی۔اس اعتبار سے استنبول میں ہونے والی تیرہویں اسلامی سربراہی کانفرنس ایک بروقت کوشش کہی جاسکتی ہے۔ کانفرنس کا موضوع تھا ''اتحاد ویکجہتی برائے امن و انصاف''۔
مسلم دنیا کو اس وقت سب سے بڑا چیلنج دہشت گردی کی صورت میں درپیش ہے۔ چنانچہ ترکی کے صدر طیب اردگان نے سب سے زیادہ زور مسلم امت کے اتحاد پر ہی دیا اورکہا کہ مسلم ممالک کے سربراہان مملکت اور حکومت اپنے سارے اختلافات کو بھلا کر دہشت گردی کے خلاف متحد ہوجائیں۔ ان کا یہ کہنا بھی بالکل بجا تھا ۔
ملت اسلامیہ کو لاحق یہ مرض بہت پرانا ہے جس کا جلد ازجلد شافی علاج وقت اور حالات کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ اسلام دشمن قوتیں فرقہ بندیوں کی بنیاد پر مسلمانوں کو تقسیم کرنے اور آپس میں لڑانے کے لیے اسے اپنے سب سے کارگر اورموثر ہتھیار کے طور پراستعمال کررہی ہیں۔ مسلح ملیشیاؤں کو مسلم ممالک میں خلفشار اورانتشار پیدا کرنے اور پھیلانے کے لیے مذہب کے نام پر دھڑلے سے استعمال کیا جارہا ہے۔
عراق، شام، لیبیا اور یمن میں آئی ہوئی افراتفری اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ یہ مسلح ملیشیاء مسلم ممالک میں تقسیم در تقسیم کے حالات پیدا کرنے کے علاوہ امن و امان کے سنگین ترین مسائل بھی کھڑے کر رہی ہیں اور بھائی کو بھائی سے لڑا رہی ہیں۔ سیاسی خلفشار اور بے امنی کے علاوہ اس کے نتیجے میں شدید معاشی عدم استحکام اور بحران بھی پیدا ہو رہا ہے جس کے نتیجے میں عوام کی زندگی اجیرن ہوتی جا رہی ہے۔ سب سے زیادہ افسوس بھی یہی ہے کہ برادر مسلم ممالک وسائل اور افرادی قوت سے مالا مال ہونے کے باوجود اپنے مسائل حل کرنے میں ناکام ہوتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں جوکہ ایک بہت بڑا المیہ ہے۔
شام، لیبیا، عراق، یمن اور فلسطین سمیت مسلم ممالک کے درمیان مسائل کے حل کے معاملے میں مطلوبہ اتحاد دور دور تک نظر نہیں آتا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اپنے تمام مسائل کو حل کرنے کے لیے تمام مسلم ممالک آپس میں سر جوڑ کر بیٹھ جاتے اور ان کا کوئی مثبت حل تلاش کرتے، لیکن بدقسمتی سے ایسا کرنے کے بجائے وہ ان مسائل کے حل کے لیے غیروں کی طرف دیکھ رہے ہیں اور اقوام متحدہ سے آس لگائے بیٹھے ہیں۔ بقول غالب۔
ہم کو ان سے وفا کی ہے امید
جو نہیں جانتے وفا کیا ہے
اس سلسلے میں سب سے بڑی مثال مسئلہ کشمیرکی ہے جسے سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عمل درآمدکے ذریعے کب کا حل ہوجانا چاہیے تھا، لیکن اقوام متحدہ اس سلسلے میں مسلسل ناکامی اور بے بسی کا شکار ہے جب کہ مقبوضہ کشمیر میں نہتے لوگوں پر ظلم وستم ڈھائے جا رہے ہیں اوران کی قربانیوں کا ابھی تک کوئی نتیجہ برآمد ہوتا ہوا دکھائی نہیں دے رہا۔13 ویں اسلامی سربراہی کانفرنس کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے صدر پاکستان ممنون حسین نے بروقت اور برملا کہا کہ مسئلہ کشمیر کا حل اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق ہونا چاہیے۔انھوں نے بجا فرمایا کہ پاکستان کشمیری بھائیوں کی سفارتی اور اخلاقی مدد جاری رکھے گا۔صدر پاکستان کی یہ آواز بر موقع اور برمحل تھی اور مسلم ممالک کے سربراہوں کو اس پر بھرپور توجہ دینی چاہیے۔
صدر پاکستان نے او آئی سی کے فورم پر یہ آواز اٹھا کر پاکستانی قوم کے جذبات کی بالکل درست ترجمانی کی ہے۔ صدر پاکستان نے اپنے خطاب میں کہا کہ پاکستان چاہتا ہے کہ ایک آزاد اور خود مختار فلسطین ریاست قائم کی جائے جس کا دارالخلافہ بیت المقدس ہو۔ انھوں نے کہا کہ تاریخی ناانصافیاں اور نوآبادیاتی طرزعمل وہ عوامل ہیں جو دہشت گردی کو تقویت پہنچا رہے ہیں جس کے لیے مسئلہ کشمیر اور مسئلہ فلسطین کا حل ناگزیر ہے۔ صدر ممنون حسین نے بالکل درست کہا کہ دہشت گردی کا تعلق کسی مذہب، رنگ یا نسل سے نہیں بلکہ یہ ایک بین الاقوامی مسئلہ ہے جس کے خاتمے کے لیے پوری دنیا کو مل کر مقابلہ کرنا ہوگا۔
توجہ طلب بات یہ ہے کہ جب مسلم ممالک میں شکست و ریخت اور انتشار کا عمل شروع ہوا تھا تو ان کے پاس ان مسائل کے حل کے لیے کوئی عملی ایجنڈا موجود نہیں تھا اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ مسائل سنگین سے سنگین تر ہوتے چلے گئے۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ''گربہ کشتن روز اول'' کے مصداق ابتدا میں ہی ان کا حل تلاش کرلیا جاتا، مگر افسوس ایسا نہ ہوسکا جس کے نتیجے میں پانی سر سے اونچا ہوگیا۔
او آئی سی کے 13 ویں اجلاس میں بحرین، یمن، شام اور صومالیہ سمیت خطے کے مختلف ممالک کے داخلی معاملات میں ایران کی (مبینہ) مداخلت اور دہشت گردی کی حمایت کی مذمت کی گئی۔ اس کے علاوہ شام، بحرین، کویت اور یمن میں دہشت گردی کی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کی بناء پر مذمت کی گئی۔کانفرنس کے اختتامی اعلامیے میں ایران اور دیگر مسلم ممالک کے درمیان باہمی تعاون کی ضرورت پر بھی زور دیا گیا۔ ایران کے صدر نے سربراہی کانفرنس میں شریک نمایندوں سے استدعا کی تھی کہ وہ پھوٹ ڈالنے والے پیغامات ارسال کرنے سے گریزکریں۔ صدر حسین روحانی نے احتجاج کے طور پر کانفرنس کے اختتامی اجلاس میں شرکت نہیں کی۔ کاش ایسا نہ ہوتا۔
ترکی کے صدر طیب اردگان نے اختتامی اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کہا کہ استنبول میں ایک بین الاقوامی ثالثی ادارے کا قیام اوآئی سی کے 2025 ایکشن پلان کا ایک حصہ ہے۔ انھوں نے اپنے خطاب میں اس فیصلے کا خیرمقدم کیا جس کے تحت ترکی میں ایک پولیس رابطہ مرکز قائم کیا جائے گا جس کا مقصد دہشت گردی کے خلاف باہمی تعاون کو فروغ دینا ہوگا۔ کانفرنس نے ہر قسم کی دہشت گردی کے خاتمے کا عہدکیا اور عراق میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال پر داعش کی مذمت کی۔
اختتامی اعلامیے میں مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی پرتشدد کارروائیوں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر گہری تشویش کا اظہار کیا گیا اور کہا گیا ہے کہ بھارت کو مزاحمت اور دہشت گردی کے درمیان موجود فرق کو سمجھنا چاہیے۔ کانفرنس کا یہ موقف بلا شبہ حقیقت پسندانہ اور لائق تحسین ہے۔ اسلامی سربراہوں کے اجلاس کی اہمیت سے انکار تو ممکن نہیں ہے مگر حالات کا تقاضا یہ ہے کہ او آئی سی کے ممبران سر جوڑ کر بیٹھنے کے بعد متحد ہوکر مسلم امہ کے مسائل کے حل کے لیے ٹھوس اور عملی کوششیں بھی کریں ورنہ ان کے یہ تمام اجلاس سعی لاحاصل کے مترادف ہوں گے، جس کے نتیجے میں امت مسلمہ کے مسائل مزید بڑھتے اور پیچیدہ تر ہوتے چلے جائیں گے۔