بچھو کا زہر ہے یا ہیروئن۔۔۔۔۔۔
وطن عزیز میں بچھو کے زہر کو نشے کے طور پر استعمال کرنے کا رجحان زور پکڑ رہا ہے
کچھ عرصہ قبل پاکستان، بالخصوص سندھ میں لوگ بچھو پکڑنے کے جنون میں مبتلا ہوگئے تھے۔ رات کے وقت پہاڑی اور صحرائی علاقوں میں لوگوں کی بڑی تعداد مخصوص روشنیاں اور دیگر اوزار لیے بچھوؤں کی تلاش میں سرگرداں نظر آتی تھی۔
اس ' اسکورپین رش' کا سبب یہ افواہ بنی تھی کہ کوئی غیرملکی کمپنی سیاہ بچھو پُرکشش قیمت پر خرید رہی ہے۔ چناں چہ لوگ راتوں رات مال دار ہونے کا خواب آنکھوں میں سجائے، گھر بار چھوڑ ، بچھوؤں کی تلاش میں صحراؤں میں بھٹکنے لگے تھے۔ جلد ہی یہ منظر دوبارہ دیکھنے میں آسکتا ہے۔ مگر اس کی وجہ یہ نہیں ہوگی کہ پھر کسی ادویہ ساز کمپنی کو پاکستانی بچھوؤں کی ضرورت پیش آگئی ہے، بلکہ سبب یہ ہوگا کہ وطن عزیز میں بچھو کے زہر کو نشے کے طور پر استعمال کرنے کا رجحان زور پکڑ رہا ہے! یہ عجیب وغریب نشہ یکسر نیا نہیں ہے، جنوبی ایشیائی ممالک میں اس کے استعمال کے بارے میں خبریں آتی رہی ہیں مگر اب اس کا دائرہ پاکستان تک وسیع ہوگیا ہے۔
یہاں ذہن میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ بچھو کے زہر کو بہ طور منشیات کیسے استعمال کیا جاتا ہے؟ اس مقصد کے لیے ایک سادہ مگر مؤثر عمل کے ذریعے زہر کو دھویں کی شکل میں جسم میں منتقل کیا جاتا ہے۔ مُردہ بچھو کو کئی گھنٹے تک دھوپ میں سُکھایا جاتا ہے، پھر اسے آگ دکھا دی جاتی ہے۔ اس کی ' لاش' سے اٹھنے والا دھواں سانس کے ذریعے پھیپھڑوں میں منتقل کرلیا جاتا ہے۔
اگر زندہ بچھو ہاتھ لگ جائے تو پہلے اسے سلگتے کوئلوں پر ڈال کر زندگی کی قید سے آزاد کیا جاتا ہے اور پھر اس کے مُردہ جسم کو شعلوں کی نذر کردیا جاتا ہے۔ اور لاش کے جلنے سے اٹھنے والا دھواں سانس کے ساتھ اندر کھینچ لیا جاتا ہے۔ زہر چوں کہ بچھو کی دُم میں ہوتا ہے، اس لیے بعض نشہ باز خشک دُم کو پیس کر اس کا سفوف بناتے ہیں۔ اس سفوف کو چرس کے ساتھ تمباکو میں ملاتے اور پھر سگریٹ میں بھر کر پیتے ہیں۔
نشہ بازوں کا کہنا ہے بچھو کے زہر کا نشہ ہیروئن کے نشے سے زیادہ تیز ہوتا ہے اور اس کا اثر دس گھنٹے تک برقرار رہتا ہے مگر ابتدائی چھے گھنٹے تکلیف دہ ہوتے ہیں۔ جب جسم اس نشے کو قبول کرلیتا ہے تو اگلے چار گھنٹے تک ان پر انتہائی سرورکی کیفیت طاری رہتی ہے اور وہ خود کو ہواؤں میں اڑتا ہوا محسوس کرتے ہیں۔
نشہ چاہے وہ کسی بھی قسم کا ہو، انسان کی ذہنی و جسمانی صحت پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔ ماہرین صحت کہتے ہیں کہ بچھو کا زہر انسان کے دماغ کو دوسری منشیات سے زیادہ متأثر کرتا ہے، اور انسان کی دماغی و جسمانی صحت کے لیے کہیں زیادہ خطرناک ہے۔ اس نشے کے عادی شخص کی یادداشت متأثر ہوجاتی ہے اور وہ فریب نظر کا شکار بھی ہوجاتا ہے۔ اسے وہ چیزیں دکھائی دینے لگتی ہیں جو حقیقتاً وجود نہیں رکھتیں۔ اس کی نیند اور بُھوک غائب ہوجاتی ہے۔ نتیجتاً صحت پر خطرناک اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں نشے کے عادی افراد کی تعداد 70لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ اکثریت چرس اور ہیروئن کا نشہ کرتی ہے۔ ان کے علاوہ ایک نمایاں تعداد شراب، افیم، اور نشہ آور ادیہ کا استعمال بھی کرتی ہے۔ مگر اب اس انوکھے نشے کا استعمال بھی بڑھتا جارہا ہے۔
اس ' اسکورپین رش' کا سبب یہ افواہ بنی تھی کہ کوئی غیرملکی کمپنی سیاہ بچھو پُرکشش قیمت پر خرید رہی ہے۔ چناں چہ لوگ راتوں رات مال دار ہونے کا خواب آنکھوں میں سجائے، گھر بار چھوڑ ، بچھوؤں کی تلاش میں صحراؤں میں بھٹکنے لگے تھے۔ جلد ہی یہ منظر دوبارہ دیکھنے میں آسکتا ہے۔ مگر اس کی وجہ یہ نہیں ہوگی کہ پھر کسی ادویہ ساز کمپنی کو پاکستانی بچھوؤں کی ضرورت پیش آگئی ہے، بلکہ سبب یہ ہوگا کہ وطن عزیز میں بچھو کے زہر کو نشے کے طور پر استعمال کرنے کا رجحان زور پکڑ رہا ہے! یہ عجیب وغریب نشہ یکسر نیا نہیں ہے، جنوبی ایشیائی ممالک میں اس کے استعمال کے بارے میں خبریں آتی رہی ہیں مگر اب اس کا دائرہ پاکستان تک وسیع ہوگیا ہے۔
یہاں ذہن میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ بچھو کے زہر کو بہ طور منشیات کیسے استعمال کیا جاتا ہے؟ اس مقصد کے لیے ایک سادہ مگر مؤثر عمل کے ذریعے زہر کو دھویں کی شکل میں جسم میں منتقل کیا جاتا ہے۔ مُردہ بچھو کو کئی گھنٹے تک دھوپ میں سُکھایا جاتا ہے، پھر اسے آگ دکھا دی جاتی ہے۔ اس کی ' لاش' سے اٹھنے والا دھواں سانس کے ذریعے پھیپھڑوں میں منتقل کرلیا جاتا ہے۔
اگر زندہ بچھو ہاتھ لگ جائے تو پہلے اسے سلگتے کوئلوں پر ڈال کر زندگی کی قید سے آزاد کیا جاتا ہے اور پھر اس کے مُردہ جسم کو شعلوں کی نذر کردیا جاتا ہے۔ اور لاش کے جلنے سے اٹھنے والا دھواں سانس کے ساتھ اندر کھینچ لیا جاتا ہے۔ زہر چوں کہ بچھو کی دُم میں ہوتا ہے، اس لیے بعض نشہ باز خشک دُم کو پیس کر اس کا سفوف بناتے ہیں۔ اس سفوف کو چرس کے ساتھ تمباکو میں ملاتے اور پھر سگریٹ میں بھر کر پیتے ہیں۔
نشہ بازوں کا کہنا ہے بچھو کے زہر کا نشہ ہیروئن کے نشے سے زیادہ تیز ہوتا ہے اور اس کا اثر دس گھنٹے تک برقرار رہتا ہے مگر ابتدائی چھے گھنٹے تکلیف دہ ہوتے ہیں۔ جب جسم اس نشے کو قبول کرلیتا ہے تو اگلے چار گھنٹے تک ان پر انتہائی سرورکی کیفیت طاری رہتی ہے اور وہ خود کو ہواؤں میں اڑتا ہوا محسوس کرتے ہیں۔
نشہ چاہے وہ کسی بھی قسم کا ہو، انسان کی ذہنی و جسمانی صحت پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔ ماہرین صحت کہتے ہیں کہ بچھو کا زہر انسان کے دماغ کو دوسری منشیات سے زیادہ متأثر کرتا ہے، اور انسان کی دماغی و جسمانی صحت کے لیے کہیں زیادہ خطرناک ہے۔ اس نشے کے عادی شخص کی یادداشت متأثر ہوجاتی ہے اور وہ فریب نظر کا شکار بھی ہوجاتا ہے۔ اسے وہ چیزیں دکھائی دینے لگتی ہیں جو حقیقتاً وجود نہیں رکھتیں۔ اس کی نیند اور بُھوک غائب ہوجاتی ہے۔ نتیجتاً صحت پر خطرناک اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں نشے کے عادی افراد کی تعداد 70لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ اکثریت چرس اور ہیروئن کا نشہ کرتی ہے۔ ان کے علاوہ ایک نمایاں تعداد شراب، افیم، اور نشہ آور ادیہ کا استعمال بھی کرتی ہے۔ مگر اب اس انوکھے نشے کا استعمال بھی بڑھتا جارہا ہے۔