صنف نازک کی قابل رحم حالت
بھارت میں پنچائتوں کے لیے منتخب ہونے والے سرپنچوں میں آدھی سے زیادہ عورتیں ہوتی ہیں ۔
سوات میں طالبان کی گولیوں کا نشانہ بننے والی 14سالہ ملالہ یوسفزئی جو لڑکیوں کی تعلیم کے حق کی وکالت کر رہی تھی، اس کی جان بچانے کی کوششیں کامیاب ہو رہی ہیں لیکن اس کے باوجود برصغیر میں خواتین کے خلاف بہیمانہ ظلم و تشدد میں کوئی کمی نہیں آرہی۔
بھارتی صوبہ ہریانہ میں ایک اور دلت لڑکی پر مجرمانہ حملہ کیا گیا جب کہ پاکستان کے شمالی علاقے میں والدین نے خود اپنے ہاتھوں اپنی بیٹی کو غیرت کے نام پر قتل کر دیا۔ بھارت کے دارالحکومت دہلی میں ایک شادی شدہ لڑکی نے اپنی بیٹی سمیت خودکشی کر لی کیونکہ اس کے سسرال والے اس کی شادی کے پانچ سال بعد بھی اس کو جہیز نہ لانے کے طعنے دینے سے باز نہیں آئے تھے۔
یہ تمام واقعات ایک دوسرے سے خاصے فاصلے پر وقوع پذیر ہوئے اور ان کی تفصیلات بھی مختلف تھیں لیکن اس کے باوجود ان کی بنیاد ایک ہی تھی۔ بھارت' پاکستان اور بنگلہ دیش میں ایک عورت کے کوئی حقوق نہیں چہ جائیکہ مرد عورت کی مساوات کی بات کی جائے۔ مجھے یقین ہے کہ مغربی معاشرے میں بھی عورتوں کو ذلت کا نشانہ بننا پڑتا ہے تاہم ان کے ترقی یافتہ معاشرے میں عورت کی تذلیل کے طریقے قدرے مہذب ہیں۔ ہمارے معاشرے میں ایک لڑکی کو پیدائش سے ہی ایک بوجھ یا وبال سمجھ لیا جاتا ہے جب کہ لڑکے کو کمائو پوت تصور کیا جاتا ہے۔
لڑکی کو خاندان کے لیے حوصلہ شکنی کی علامت سمجھا جاتا ہے، اس میں اقتصادی عنصر مزید شدت پیدا کرتا ہے لیکن لڑکی کا کمائی نہ کرنا اصل وجہ نہیں، اصل المیہ یہ ہے کہ خواتین خود یعنی مائیں اور ساسیں بذات خود لڑکیوں کے خلاف ان جرائم کی محرک بنتی ہیں۔ جہیز کی وجہ سے رونما ہونے والے المیوں یا غیرت کے نام پر ہونے والے قتل کے پیچھے بھی عورتوں ہی کا ہاتھ ہوتا ہے۔ بعض خون آشام واقعات کے بعد تھوڑا سا احتجاج بھی نظر آتا ہے مگر اگلے ہی روز سب کچھ فراموش کر دیا جاتا ہے۔ اور پھر وہی سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔
میرا خیال تھا کہ ملالہ پر حملے کے بعد وزیرستان اور سوات وغیرہ میں سخت کارروائی کی جائے گی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ غیظ و غضب موجود ہے لیکن اس کا نتیجہ اسی صورت نکل سکتا ہے جب متفقہ کوششیں کی جائیں۔ مذہبی جنونی لوگ بلاشبہ رکاوٹ ہیں بلکہ اصل ذمے دار بھی وہی ہیں۔ حکومت کی طرف سے آنے والے تمام بیانات یہ ظاہر کرتے ہیں کہ وہ دہشتگردوں کو، مراد طالبان کو، کوئی راہ فرار نہیں دی جائے گی لیکن ان کے خلاف کارروائی میں وہ عزم نظر نہیں آتا جس کی ضرورت ہے۔ ممکن ہے اس کی وجہ یہ ہو کہ طالبان ان کی اپنی صفوں میں بھی گھس چکے ہیں۔
بھارت کو خطے کا سب سے ترقی یافتہ ملک کہا جاتا ہے جہاں عورتوں پر ظلم کے خلاف آواز کا آہنگ سب سے بلند ہے۔ وہاں بہت سی سیاسی اور سماجی خواتین رہنما موجود ہیں۔ جن میں سب سے زیادہ طاقتور خود سونیا گاندھی ہے۔ اس کے باوجود وہ بھی خواتین کے لیے کچھ زیادہ نہیں کر سکیں۔ بالخصوص خواتین کے لیے 33 فیصد نشستیں بھی مخصوص نہیں کرا سکیں۔ اس حوالے سے تیار کیا جانے والا مسودہ قانون سالہا سال کے انتظار کے بعد ابھی صرف راجیہ سبھا (ایوان بالا) تک ہی پہنچ پایا ہے جب کہ پارلیمنٹ سے اس کے منظور ہونے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔
مردوں کی برتری پر یقین رکھنے والے' بالخصوص دلتوں اور دیگر پسماندہ طبقات میں' عورتوں کے لیے نشستوں کو مخصوص کرنے کے سختی سے خلاف ہیں کیونکہ ان کا موقف ہے کہ اس رعایت سے تمام تر فائدہ شہروں کی تعلیم یافتہ خواتین کو ہی ہو گا۔ لیکن ان کا یہ خوف بے بنیاد ہے کیونکہ پنچائتوں کے لیے منتخب ہونے والے سرپنچوں میں آدھی سے زیادہ عورتیں ہوتی ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ نچلی سطح پر عورتوں کو خود پر مکمل اعتماد ہے۔
کم از کم دلت اور دیگر پسماندہ طبقات کی نمایندہ خواتین کو اشرافیہ کی عورتوں کے بارے میں ایسی بات کہنے کا کوئی حق نہیں کیونکہ وہ خود اپنی صفوں میں اپنے طبقے کی دیگر عورتوں کو داخل ہونے کی اجازت نہیں دیتیں۔ ''مرد و خواتین 2012'' کے عنوان سے تیار کی جانے والی ایک سرکاری رپورٹ میں ظاہر کیا گیا ہے کہ حکمرانی اور مالیاتی شعبوں میں عورتوں کی شرکت بے حد کم ہے حتیٰ کہ صحت' تعلیم' معیشت اور جرائم کے انڈیکیٹر بھی باعث تشویش ہیں۔ جہاں تک عدلیہ کا تعلق ہے تو سپریم کورٹ کے 26 ججوں میں صرف 2 عورتیں ہیں جب کہ ہائی کورٹس کے 634 ججوں میں عورتوں کی تعداد صرف 54ہے یہی تناسب دیگر اہم شعبوں میں بھی ہے۔ 2009 میں مرکزی حکومت کے عہدوں میں عورتوں کا تناسب صرف 10 فیصد تھا البتہ شیڈول کمرشل بینکوں میں عورتوں کی نمایندگی میں تھوڑا سا اضافہ ضرور ہوا یعنی 2009میں ان کی شرح 15.9 فیصد تھی جو 2010 میں بڑھ کر 16.6 فیصد تک پہنچ گئی۔
بالفرض اگر عورتوں کی نمایندگی میں کبھی اضافہ بھی کیا گیا تب بھی انھیں اپنا جائز حصہ لینے میں بہت سے کٹھن مراحل سے گزرنا ہو گا۔ عورتوں کی طرف سے مساوات کے دعوے میں مذہبی روایتوں نے بھی رکاوٹ ڈال رکھی ہے۔ ہندوئوں میں عظیم سمجھی جانے والی شخصیت پنڈت منو نے تو شروع ہی سے عورتوں کو کمتر درجے کی مخلوق قرار دے رکھا ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ اگر وہ مردوں کے مساوی حیثیت کا مطالبہ کریں تو انھیں انسانیت سوز سزائوں کا نشانہ بنایا جائے۔ حتی کہ آج کے جدید دور میں بھی بھارت کے کئی مندروں میں عورتوں کا داخلہ ممنوع ہے اور ان سے بدسلوکی کرنے کو مذہبی تحفظ حاصل ہے۔
جہاں تک مسلمان عورتوں کا تعلق ہے تو ان پر اور بھی زیادہ سخت پابندیاں ہیں وہ بالعموم مذہبی مقامات میں داخل نہیں ہو سکتیں۔ دہلی میں حضرت نظام الدین کی درگاہ میں ان کا داخلہ منع ہے۔ ممبئی میں حاجی علی درگاہ کے متولیوں نے چند روز قبل ایک حکمنامہ جاری کیا کہ عورتیں اس درگاہ کی حدود میں داخل نہیں ہو سکتیں۔ یہ درگاہ سیکڑوں سال سے قائم ہے مگر ایسا حکمنامہ پہلی مرتبہ جاری کیا گیا ہے۔ اس کے برعکس اسلام اس قدر ترقی پسند مذہب ضرور ہے کہ اس میں بیوہ عورت کے شادی کرنے پر کوئی پابندی نہیں ہے۔
یہ حقیقت میں عورت کے احساسات کے بارے میں مرد کی بے حسی ہے جس نے عورت کو اس قدر قابل رحم بنا دیا ہے۔ اسے اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ اس کی اس بدسلوکی کا عورت پر کتنا برا اثر پڑتا ہو گا۔ عورت کو جس تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اس کا مقصد محض مرد کو برتر ثابت کرنا ہوتا ہے۔ فسادات کے موقع پر سب سے پہلے عورت کو مجرمانہ حملے کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ لیکن اس سے بھی بدتر وہ توہین اور تذلیل ہے جس کا عورت شکار ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے حکومت عورت پر مجرمانہ حملے کو محض ایک جرم کا درجہ دیتی ہے حالانکہ یہ صنف نازک کے اجتماعی قتل کے مترادف ہے۔
اس کی سزا ان سب لوگوں کو بھی دی جانی چاہیے جو خاموشی سے ایسا ہوتے دیکھتے رہے۔ وہ بھی اتنے ہی مجرم ہیں جتنے ہریانہ کی اس پنچایت کے اراکین جو نوجوان لڑکیوں کو اپنے پسند کے کپڑے پہننے پر یا مرضی کے شخص کے ساتھ شادی کرنے پر بہیمانہ سزاؤں کا نشانہ بناتے ہیں۔ برصغیر کے تمام ملکوں میں ایک ایسی تحریک کی ضرورت ہے جو عورتوں پر ہونے والے ظلم کے خلاف آواز بلند کرے اور عامۃ الناس کو عورتوں کی حالت زار سے آگاہ کرے۔ اس تحریک کا مقصد عورت کو معاشرے میں اس کا جائز مقام دلوانا ہو اور ان کو یہ احساس دلانا کہ وہ کسی میدان میں مردوں سے کم نہیں خواہ یہ سیاست ہو یا معیشت۔ اس وقت تک ملک کی ترقی کا کوئی فائدہ نہیں جب تک عورتوں سے امتیازی سلوک ختم نہیں کیا جاتا۔
(ترجمہ: مظہر منہاس)
بھارتی صوبہ ہریانہ میں ایک اور دلت لڑکی پر مجرمانہ حملہ کیا گیا جب کہ پاکستان کے شمالی علاقے میں والدین نے خود اپنے ہاتھوں اپنی بیٹی کو غیرت کے نام پر قتل کر دیا۔ بھارت کے دارالحکومت دہلی میں ایک شادی شدہ لڑکی نے اپنی بیٹی سمیت خودکشی کر لی کیونکہ اس کے سسرال والے اس کی شادی کے پانچ سال بعد بھی اس کو جہیز نہ لانے کے طعنے دینے سے باز نہیں آئے تھے۔
یہ تمام واقعات ایک دوسرے سے خاصے فاصلے پر وقوع پذیر ہوئے اور ان کی تفصیلات بھی مختلف تھیں لیکن اس کے باوجود ان کی بنیاد ایک ہی تھی۔ بھارت' پاکستان اور بنگلہ دیش میں ایک عورت کے کوئی حقوق نہیں چہ جائیکہ مرد عورت کی مساوات کی بات کی جائے۔ مجھے یقین ہے کہ مغربی معاشرے میں بھی عورتوں کو ذلت کا نشانہ بننا پڑتا ہے تاہم ان کے ترقی یافتہ معاشرے میں عورت کی تذلیل کے طریقے قدرے مہذب ہیں۔ ہمارے معاشرے میں ایک لڑکی کو پیدائش سے ہی ایک بوجھ یا وبال سمجھ لیا جاتا ہے جب کہ لڑکے کو کمائو پوت تصور کیا جاتا ہے۔
لڑکی کو خاندان کے لیے حوصلہ شکنی کی علامت سمجھا جاتا ہے، اس میں اقتصادی عنصر مزید شدت پیدا کرتا ہے لیکن لڑکی کا کمائی نہ کرنا اصل وجہ نہیں، اصل المیہ یہ ہے کہ خواتین خود یعنی مائیں اور ساسیں بذات خود لڑکیوں کے خلاف ان جرائم کی محرک بنتی ہیں۔ جہیز کی وجہ سے رونما ہونے والے المیوں یا غیرت کے نام پر ہونے والے قتل کے پیچھے بھی عورتوں ہی کا ہاتھ ہوتا ہے۔ بعض خون آشام واقعات کے بعد تھوڑا سا احتجاج بھی نظر آتا ہے مگر اگلے ہی روز سب کچھ فراموش کر دیا جاتا ہے۔ اور پھر وہی سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔
میرا خیال تھا کہ ملالہ پر حملے کے بعد وزیرستان اور سوات وغیرہ میں سخت کارروائی کی جائے گی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ غیظ و غضب موجود ہے لیکن اس کا نتیجہ اسی صورت نکل سکتا ہے جب متفقہ کوششیں کی جائیں۔ مذہبی جنونی لوگ بلاشبہ رکاوٹ ہیں بلکہ اصل ذمے دار بھی وہی ہیں۔ حکومت کی طرف سے آنے والے تمام بیانات یہ ظاہر کرتے ہیں کہ وہ دہشتگردوں کو، مراد طالبان کو، کوئی راہ فرار نہیں دی جائے گی لیکن ان کے خلاف کارروائی میں وہ عزم نظر نہیں آتا جس کی ضرورت ہے۔ ممکن ہے اس کی وجہ یہ ہو کہ طالبان ان کی اپنی صفوں میں بھی گھس چکے ہیں۔
بھارت کو خطے کا سب سے ترقی یافتہ ملک کہا جاتا ہے جہاں عورتوں پر ظلم کے خلاف آواز کا آہنگ سب سے بلند ہے۔ وہاں بہت سی سیاسی اور سماجی خواتین رہنما موجود ہیں۔ جن میں سب سے زیادہ طاقتور خود سونیا گاندھی ہے۔ اس کے باوجود وہ بھی خواتین کے لیے کچھ زیادہ نہیں کر سکیں۔ بالخصوص خواتین کے لیے 33 فیصد نشستیں بھی مخصوص نہیں کرا سکیں۔ اس حوالے سے تیار کیا جانے والا مسودہ قانون سالہا سال کے انتظار کے بعد ابھی صرف راجیہ سبھا (ایوان بالا) تک ہی پہنچ پایا ہے جب کہ پارلیمنٹ سے اس کے منظور ہونے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔
مردوں کی برتری پر یقین رکھنے والے' بالخصوص دلتوں اور دیگر پسماندہ طبقات میں' عورتوں کے لیے نشستوں کو مخصوص کرنے کے سختی سے خلاف ہیں کیونکہ ان کا موقف ہے کہ اس رعایت سے تمام تر فائدہ شہروں کی تعلیم یافتہ خواتین کو ہی ہو گا۔ لیکن ان کا یہ خوف بے بنیاد ہے کیونکہ پنچائتوں کے لیے منتخب ہونے والے سرپنچوں میں آدھی سے زیادہ عورتیں ہوتی ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ نچلی سطح پر عورتوں کو خود پر مکمل اعتماد ہے۔
کم از کم دلت اور دیگر پسماندہ طبقات کی نمایندہ خواتین کو اشرافیہ کی عورتوں کے بارے میں ایسی بات کہنے کا کوئی حق نہیں کیونکہ وہ خود اپنی صفوں میں اپنے طبقے کی دیگر عورتوں کو داخل ہونے کی اجازت نہیں دیتیں۔ ''مرد و خواتین 2012'' کے عنوان سے تیار کی جانے والی ایک سرکاری رپورٹ میں ظاہر کیا گیا ہے کہ حکمرانی اور مالیاتی شعبوں میں عورتوں کی شرکت بے حد کم ہے حتیٰ کہ صحت' تعلیم' معیشت اور جرائم کے انڈیکیٹر بھی باعث تشویش ہیں۔ جہاں تک عدلیہ کا تعلق ہے تو سپریم کورٹ کے 26 ججوں میں صرف 2 عورتیں ہیں جب کہ ہائی کورٹس کے 634 ججوں میں عورتوں کی تعداد صرف 54ہے یہی تناسب دیگر اہم شعبوں میں بھی ہے۔ 2009 میں مرکزی حکومت کے عہدوں میں عورتوں کا تناسب صرف 10 فیصد تھا البتہ شیڈول کمرشل بینکوں میں عورتوں کی نمایندگی میں تھوڑا سا اضافہ ضرور ہوا یعنی 2009میں ان کی شرح 15.9 فیصد تھی جو 2010 میں بڑھ کر 16.6 فیصد تک پہنچ گئی۔
بالفرض اگر عورتوں کی نمایندگی میں کبھی اضافہ بھی کیا گیا تب بھی انھیں اپنا جائز حصہ لینے میں بہت سے کٹھن مراحل سے گزرنا ہو گا۔ عورتوں کی طرف سے مساوات کے دعوے میں مذہبی روایتوں نے بھی رکاوٹ ڈال رکھی ہے۔ ہندوئوں میں عظیم سمجھی جانے والی شخصیت پنڈت منو نے تو شروع ہی سے عورتوں کو کمتر درجے کی مخلوق قرار دے رکھا ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ اگر وہ مردوں کے مساوی حیثیت کا مطالبہ کریں تو انھیں انسانیت سوز سزائوں کا نشانہ بنایا جائے۔ حتی کہ آج کے جدید دور میں بھی بھارت کے کئی مندروں میں عورتوں کا داخلہ ممنوع ہے اور ان سے بدسلوکی کرنے کو مذہبی تحفظ حاصل ہے۔
جہاں تک مسلمان عورتوں کا تعلق ہے تو ان پر اور بھی زیادہ سخت پابندیاں ہیں وہ بالعموم مذہبی مقامات میں داخل نہیں ہو سکتیں۔ دہلی میں حضرت نظام الدین کی درگاہ میں ان کا داخلہ منع ہے۔ ممبئی میں حاجی علی درگاہ کے متولیوں نے چند روز قبل ایک حکمنامہ جاری کیا کہ عورتیں اس درگاہ کی حدود میں داخل نہیں ہو سکتیں۔ یہ درگاہ سیکڑوں سال سے قائم ہے مگر ایسا حکمنامہ پہلی مرتبہ جاری کیا گیا ہے۔ اس کے برعکس اسلام اس قدر ترقی پسند مذہب ضرور ہے کہ اس میں بیوہ عورت کے شادی کرنے پر کوئی پابندی نہیں ہے۔
یہ حقیقت میں عورت کے احساسات کے بارے میں مرد کی بے حسی ہے جس نے عورت کو اس قدر قابل رحم بنا دیا ہے۔ اسے اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ اس کی اس بدسلوکی کا عورت پر کتنا برا اثر پڑتا ہو گا۔ عورت کو جس تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اس کا مقصد محض مرد کو برتر ثابت کرنا ہوتا ہے۔ فسادات کے موقع پر سب سے پہلے عورت کو مجرمانہ حملے کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ لیکن اس سے بھی بدتر وہ توہین اور تذلیل ہے جس کا عورت شکار ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے حکومت عورت پر مجرمانہ حملے کو محض ایک جرم کا درجہ دیتی ہے حالانکہ یہ صنف نازک کے اجتماعی قتل کے مترادف ہے۔
اس کی سزا ان سب لوگوں کو بھی دی جانی چاہیے جو خاموشی سے ایسا ہوتے دیکھتے رہے۔ وہ بھی اتنے ہی مجرم ہیں جتنے ہریانہ کی اس پنچایت کے اراکین جو نوجوان لڑکیوں کو اپنے پسند کے کپڑے پہننے پر یا مرضی کے شخص کے ساتھ شادی کرنے پر بہیمانہ سزاؤں کا نشانہ بناتے ہیں۔ برصغیر کے تمام ملکوں میں ایک ایسی تحریک کی ضرورت ہے جو عورتوں پر ہونے والے ظلم کے خلاف آواز بلند کرے اور عامۃ الناس کو عورتوں کی حالت زار سے آگاہ کرے۔ اس تحریک کا مقصد عورت کو معاشرے میں اس کا جائز مقام دلوانا ہو اور ان کو یہ احساس دلانا کہ وہ کسی میدان میں مردوں سے کم نہیں خواہ یہ سیاست ہو یا معیشت۔ اس وقت تک ملک کی ترقی کا کوئی فائدہ نہیں جب تک عورتوں سے امتیازی سلوک ختم نہیں کیا جاتا۔
(ترجمہ: مظہر منہاس)