ڈینگی‘ ہر چند کہیں کہ نہیں ہے مگر ہے

ڈینگی مچھر کے تو رنگ ڈھنگ نرالے ہیں۔ دوسرے مچھروں سے الگ اس کی چال ہے۔ بلکہ کہنا چاہیے کہ اس کی الٹی چال ہے۔

rmvsyndlcate@gmail.com

سب بلائیں آسمانی اور زمینی ایک طرف اور ڈینگی کی بلا دوسری طرف۔ یاد کیجیے پچھلے برس کو ڈینگی کی بلا بلائے بے درماں نظر آ رہی تھی۔

ہم شاید کچھ زیادہ ہی ڈرے ہوئے تھے کیونکہ پچھلے برس سے پہلے ہی ہم ڈینگی مچھر کی زد میں آ چکے تھے۔ مگر ایک ہم ہی تو نہیں جس طرح سے ڈینگی بخار نے زور باندھا تھا اور جس طرح اس سے بڑھ کر ڈینگی بخار سے ڈرانے والوں نے زور باندھا تھا اس سے اور ہمیں ڈرا رہے تھے اس سے ایک ہم ہی کیا سب ہی خوف زدہ نظر آ رہے تھے۔ مگر وہ جو پچھلے برس پیشگوئیاں کی گئی تھیں آنے والے برس میں ڈینگی کی یورش اب سے بڑھ کر ہو گی وہ پیشگوئیاں تو پوری نہیں ہوئیں۔ ڈینگی کا موسم آیا تو سہی مگر اس نے کچھ زیادہ زور نہیں باندھا اور ابھی دو تین دن پہلے کی بات ہے کہ خبر آئی کہ ڈینگی کا خطرہ ٹل گیا۔ ڈاکٹروں کی طرف سے اور محکمہ صحت والوں کی طرف سے بہت اطمینان کا اظہار کیا گیا۔ وزیراعلیٰ پنجاب نے بھی ایک فاتحانہ انداز میں ڈینگی کے خلاف سرگرم ڈاکٹروں کی تعریف کی۔یہ سب کچھ دیکھ کر ہم نے ابھی اطمینان کا سانس لیا کہ ع

رسیدہ بود بلائے ولے بخیر گذشت

یار دوستوں کو بھی اطمینان دلایا کہ اب کوئی فکر کی بات نہیں۔ موج کرو۔ ڈینگی نے منہ کی کھائی۔ اب کے اسے پنپنے اور اپنی کارستانی دکھانے کا موقعہ نہیں ملا۔

مگر عجب ہوا کہ جب ہم ڈینگی کی طرف سے مطمئن ہو گئے تو پھر ایک اعلان ہوا کہ ڈینگی کا خطرہ ابھی ٹلا نہیں ہے بلکہ ڈینگی کے خلاف جنگ کا تو اب آغاز ہوا ہے۔ لو ہماری ساری خوشی پر پانی پھر گیا۔ مگر یہ کس کی کالی زبان ہے۔ سرکاری سطح پر اطمینان دلائے جانے کے بعد اب ہمیں کون ڈرا رہا ہے۔ اخبار سے اس کی تفصیل اس طرح معلوم ہوئی کہ وہ جو وزیراعلیٰ کی سیکریٹریٹ میں بین الاقوامی ڈینگی کانفرنس منعقد ہوئی تھی اور جہاں ڈینگی کے بین الاقوامی ماہرین جمع تھے وہاں یہ کہا گیا کہ ڈینگی کے خلاف لڑائی کا زور ابھی ٹوٹا نہیں ہے۔ بلکہ یہ ظالم لڑائی تو اب شروع ہوئی ہے۔

اور وہ جو سنگا پور سے ایک ماہر ڈینگی اس کانفرنس میں شریک تھا اس نے یہ بتا کر ہمیں اور پریشان کیا کہ یہ جو تم لوگ گھر سے باہر مچھر کش گیس چھڑک کر سمجھتے ہو کہ ڈینگی کو آپ نے پرے دھکیل دیا یہ محض خوش فہمی ہے۔ ڈینگی مچھر باہر سے زیادہ گھروں کے اندر قیام کرنا پسند کرتا ہے۔ تو مت سمجھیے کہ اگر آپ اپنے بیڈ روم میں ہیں یا ڈرائنگ روم میں دوستوں سے مل رہے ہیں تو آپ محفوظ ہیں۔ نہیں' یہیں تو آپ زیادہ خطرے میں ہیں۔


صاحب عجب بات ہے۔ ڈینگی مچھر کے تو رنگ ڈھنگ نرالے ہیں۔ دوسرے مچھروں سے الگ اس کی چال ہے۔ بلکہ کہنا چاہیے کہ اس کی الٹی چال ہے۔ باقی مچھروں کے جو طور طریقے ہیں اس سے بالکل الٹ اس مچھر کے طور طریقے ہیں۔ باقی مچھر گندگی میں پلتے ہیں۔ صاف ستھری جگہیں انھیں راس نہیں آتیں۔ گندگی کا کیڑا گندگی ہی میں خوش رہتا ہے۔ مگر ڈینگی مچھر کا تو باوا آدم ہی نرالا ہے۔ گندگی سے اسے نفور ہے۔ بہت صفائی پسند واقع ہوا ہے۔ گندے پانی کی طرف رخ نہیں کرتا۔ پانی صاف ستھرا ہونا چاہیے۔ ایسے پانی سے اس کی طبیعت میل کھاتی ہے۔ ڈرائنگ روم میں سجے گلدان میں اگر پانی جمع ہے تو وہاں اسے اپنے لیے گنجائش نظر آئے گی۔ باتھ روم میں اگر بالٹی میں صاف پانی بھرا رکھا ہے تو وہ لپک کر وہاں پہنچے گا۔

تو کیا ڈینگی ہم سے یہ تقاضا کر رہا ہے کہ صفائی سے باز آئو۔ گندگی کے ساتھ گزارہ کرو۔ بہت صفائی پسند بننے کی کوشش کی تو پھر ہم سے برا کوئی نہ ہو گا۔ صاحب یہ بھی اچھی رہی۔ ہم نے مچھروں سے یہ سمجھوتہ کیا تھا کہ تم گندگی کے کیڑے ہو۔ اپنی گندگی میں خوش رہو۔ ہمیں صفائی عزیز ہے۔ سو جہاں بیٹھیں اٹھیں گے' جہاں آرام کریں گے سوئیں گے وہاں مچھر مار گیس استعمال کر کے تمہیں بھگائیں گے۔ تم نے گندگی کے پیٹ سے جنم لیا ہے۔ گندگی میں رہو۔ مگر ڈینگی کے ساتھ اس طرح کا استدلال نہیں کیا جا سکتا۔ وہ ایسا مچھر ہے جو اینٹی مچھر ہے۔ یعنی مچھر مار مچھر۔ اس کی ساری صفات غیر مچھرانہ ہیں۔

ویسے مچھروں کی کتنی قسمیں ہیں۔ ہم تو اب تک ہر پھر کر ملیریا کے مچھر سے آشنا چلے آتے تھے۔ آشنا بھی اور خوف زدہ بھی مگر مچھر کی مختلف اقسام ہیں۔ انسانی تاریخ میں سب سے ظالم مچھر تو وہ ہوا ہے جس نے نمرود کو ہلاک کیا تھا۔ نمرود تو اپنے حساب سے خدا بن بیٹھا تھا۔ مگر ایک مچھر نے اس کے ساتھ وہ کیا کہ اس کی خدائی کا سارا نشہ ہرن ہو گیا۔

مگر ایک مچھر وہ بھی ہے جس کے دم سے یہ دنیا قائم وبرقرار ہے۔ قصص الانبیا میں لکھا ہے کہ اللہ میاں نے پہلے زمین بنائی۔ پھر ایک گائے بنائی۔ زمین کے گولے کو گائے کے سینگوں پر ٹکایا پھر ایک مچھر بنایا۔ اور گائے کے نتھنوں کے سامنے بٹھا دیا۔ اب گائے سینگ نہیں ہلا سکتی۔ ہلائے گی تو مچھر سیدھا اس کے نتھنوں میں جائے گا۔ اس طرح دنیا کے برقرار رہنے کی گارنٹی دی۔

تو قدرت نے رنگ رنگ کے مچھر پیدا کیے ہیں۔ اچھے بھی اور برے بھی۔ انسان ضعیف البنیان کے لیے کئی طرح کے مچھر پیدا کیے۔ ایک مچھر نمرود کی سرکشی کے جواب میں۔ اور ایک مچھر آج کے سرکش انسانوں کی سرکوبی کے لیے۔

قصہ مختصر یہ کہ یہ جو ننھا سا مچھر ڈینگی ہے اس سے ڈرو اور اس سے بچو۔ ورنہ سمجھ لو کہ مچھر نے جب نمرود کا ناک میں دم کر دیا تو پھر ہم تم کیا چیز ہیں۔ سو اس سے بچنے کی تدبیر کرو۔ اور ماہرین جو احتیاطی تدابیر بتا رہے ہیں ان پر عمل کرو۔ انھوں نے بر وقت خبردار کیا ہے کہ ڈینگی سے لڑائی ابھی ختم نہیں ہوئی ہے بلکہ اصلی لڑائی تو اب شروع ہونے لگی ہے۔ ہمارے لیے یہ دفاعی جنگ ہے۔ حملہ ڈینگی کی طرف سے ہو گا یا ہو چکا ہے۔ ہمیں ان حفاظتی تدبیروں پر عمل پیرا ہو کر اپنا دفاع کرنا ہے۔
Load Next Story