شفاف انتخابات کے تقاضے
فخر الدین جی ابراہیم ایک غیر متنازع اور اصولوں کی پاسداری کرنے والی شخصیت کے طور پر جانے جاتے ہیں۔
چیف الیکشن کمشنر فخرالدین جی ابراہیم کو ملکی تاریخ میں یہ اعزاز حاصل ہے کہ ان کی تقرری حکومت اور اپوزیشن کا متفقہ فیصلہ ہے جو مستقبل قریب کی نگراں حکومت کے معاملات میں بھی اہم کردار ادا کرنے والا ہے۔
فخر الدین جی ابراہیم ایک غیر متنازع اور اصولوں کی پاسداری کرنے والی شخصیت کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ فخر الدین جی ابراہیم 12 فروری 1928 کو غیر منقسم بھارت کی ریاست گجرات کے علاقے کاٹھیاواڑ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم انھوں نے بمبئی میں حاصل کی جہاں وہ اسکاؤٹ کے ٹروپ لیڈر تھے۔ تقسیم ہند کے بعد آباؤاجداد کے ساتھ ہجرت کرکے پاکستان آئے اور کراچی میں قانون کے پیشے سے منسلک ہوئے۔ 1971 میں اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اٹارنی جنرل بنایا، اس کے بعد وہ ان کے لیگل ایڈوائزر کے طور پر بھی کام کرتے رہے، بعدازاں سندھ ہائی کورٹ کے جج مقرر ہوئے اور یہاں چیف جسٹس کے عہدے پر بھی فائز ہوئے۔
1981 میں سپریم کورٹ کے ایڈہاک جج تعینات ہوئے، اس دوران جنرل ضیاء الحق نے ملک میں پہلی بار پی سی او نافذ کیا، تاہم فخرالدین جی ابراہیم نے پی سی او کے تحت حلف اُٹھانے سے انکار کردیا اور جج کے منصب سے سبکدوش ہوگئے، بے نظیر بھٹو کی حکومت قائم ہوئی تو آپ کو گورنر سندھ بنایا گیا، 1996 میں بے نظیر کی دوسری حکومت کے خاتمے کے بعد بننے والی نگراں حکومت میں وزیرقانون بھی رہے، سی پی ایل سی کے قیام کا سہرا بھی انھی کے سر ہے۔
اگرچہ فخرالدین جی ابراہیم کی عمر 80 برس سے تجاوز کرچکی ہے، لیکن ان کا عزم جواں ہے، ان کا کہنا ہے کہ منصفانہ اور شفاف انتخابات میرا ہدف ہے اور یہ قوم کے پاس آخری موقع ہے۔ وقت آگیا ہے کہ ماضی کی غلطیوں پر بات کی جائے اور اس سے سبق سیکھا جائے۔ انتخابی فہرستوں میں تبدیلی کا عمل انتخابی شیڈول تک جاری رہنے کا امکان ہے تاکہ لوگ انتخابی فہرستوں میں نئے ناموں کی رجسٹریشن اور درستی کرسکیں۔ الیکشن کمیشن سے جاری اعداد وشمار کے مطابق اب تک 4کروڑ 77لاکھ 3 ہزار 692 مرد اور 3کروڑ 65لاکھ 91ہزار 359خواتین ووٹرز کی رجسٹریشن مکمل ہوچکی ہے۔اب تک کل ووٹرز کی تعداد 8کروڑ 43 لاکھ 65ہزار 51ہے۔
تاہم آیندہ برس تک 18سال کی عمر کو پہنچنے والے نوجوانوںسے ووٹرز کی تعداد بڑھے گی۔ حکومت نے عام انتخابات کے لیے بجٹ میں ایک ارب 57 کروڑ روپے رکھے ہیں جو انتخابی فہرستوں کی تیاری پر خرچ ہوجائیں گے، سیکریٹری الیکشن کمیشن اشتیاق احمد خان کا کہنا ہے کہ آیندہ عام انتخابات پرانی حلقہ بندیوں پر ہوں گے کیونکہ مردم شماری نہ ہونے سے نئی حلقہ بندیاں نہیں ہوئیں، الیکشن کمیشن نے فیصلہ کیا ہے کہ مئی تا جولائی شناختی کارڈ حاصل کرنیوالے 10 لاکھ افراد کے نام تصدیق کے بعد ووٹرز لسٹوں میں شامل کیے جائیں گے۔
نادرا رپورٹ کے مطابق نادرا کے ملک بھر میں 452نیشنل رجسٹریشن سینٹر، 252 موبائل رجسٹریشن وینز، 70 سیمی موبائل یونٹس دور دراز اور دیہی علاقوں میں رجسٹریشن کی خدمات فراہم کر رہے ہیں۔ نادرا ہر مہینے 4لاکھ کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ جاری کر رہا ہے۔ اس وقت 9کروڑ 20لاکھ شہریوں کے پاس کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ موجود ہے اور آیندہ چند ماہ میں یہ تعداد 9 کروڑ 60لاکھ تک پہنچ جائے گی۔ الیکشن کمیشن کے مذکورہ بالا فیصلے اور نادرا کے اعداد وشمار کے تقابلی جائزے کے بعد یہ بات سامنے آتی ہے کہ کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ رکھنے والے 50 لاکھ شہری ووٹرز لسٹوں میں اپنا نام اندراج کرنے سے محروم رہ جائیں گے جو بڑا خلاء ہوگا۔
ادھر سندھ ہائی کورٹ میں الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کردہ نئی ووٹر لسٹ کے خلاف درخواست دائر کی گئی ہے۔ حاجی گل نے دائر کردہ متفرق درخواست میں مؤقف اختیار کیا ہے کہ کراچی کے 40 فیصد ووٹرز کا رہائشی پتہ تبدیل کردیا گیا ہے، انتخابات شفاف نہیں ہوسکتے، تمام ریکارڈ عدالت طلب کرکے جائزہ لیا جائے اور درستی تک انتخابات روکے جائیں، الیکشن کمیشن میں ایک کروڑ ایسے ووٹرز رجسٹرڈ ہیں جو اس دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں اور تقریباً 75 لاکھ ووٹرز نادرا کے ریکارڈ کے مطابق رجسٹر ہی نہیں ہیں، غلط پتوں والے ووٹروں کی تعداد بھی تقریباً 10لاکھ ہے، اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ نئی ووٹر لسٹ کے اندراجات غیر تصدیق شدہ اور اغلاط سے بھرپور ہیں، درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ ایسا محسوس ہورہا ہے کہ کسی نے کچھ خاص مفادات کے لیے 2002کی ووٹر لسٹوں کو موجودہ ووٹر لسٹوں سے تبدیل کردیا ہے۔
کیونکہ 2008 کی ووٹر لسٹ میں میرے شناختی کارڈ میں دیئے گئے پتے کے مطابق ووٹر لسٹ میں میرا نام ضلع شرقی میں درج تھا، لیکن حالیہ لسٹ میں نام ضلع جنوبی میں درج کردیا گیا۔ سندھ کے صوبائی الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کردہ حتمی ووٹر لسٹ کے تحت پورے سندھ میں ایک کروڑ 84لاکھ سے زائد ووٹرز کا اندراج ہوا ہے جب کہ کراچی میں ووٹرز کی تعداد 68لاکھ 51 ہزار 948 ہے، غیر تصدیق شدہ اور بوگس ووٹرز کے نام خارج کرکے سندھ میں ووٹرز کی تعداد 2007 کی ووٹرز لسٹ کے مقابلے میں 13لاکھ کم ہوئی ہے جب کہ کراچی میں دو لاکھ سے زائد ووٹرز کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔
کراچی میں حتمی انتخابی فہرست کے تحت ووٹرز کی تعداد ضلع وسطی میں 16 لاکھ 10 ہزار 364، ضلع شرقی میں 20 لاکھ 30 ہزار 689 ، ضلع جنوبی میں 10 لاکھ 67 ہزار 603 ، ضلع غربی میں 14 لاکھ 16ہزار 411 اور ضلع ملیر میں 7لاکھ 26 ہزار881 ہے، مجموعی طور پر کراچی میں ووٹرز کی تعداد 68 لاکھ 51 ہزار 984 ہے جب کہ 2007 میں یہ تعداد 66 لاکھ 34ہزار 238 تھی، حتمی کمپیوٹرائزڈ فہرست کے تحت پورے سندھ میں ووٹرز کی تعداد ایک کروڑ 84 لاکھ 52 ہزار 843 تھی اس طرح سندھ میں 13 لاکھ ووٹرز کم ہوگئے۔
سندھ کے صوبائی الیکشن کمشنر سونو خان بلوچ کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن نے صوبے میں نئے شناختی کارڈ بننے والے ڈھائی لاکھ سے زائد ووٹرز کا اندراج کیا، سندھ کے ایک لاکھ 20 ہزار ووٹرز کے نام بلوچستان کی ووٹرز لسٹ میں شامل ہوگئے تھے وہ تمام ووٹرز اب دوبارہ سندھ کی ووٹر لسٹ میں شامل کر دیے گئے ہیں اور اس معاملے میں غفلت برتنے والے اہلکاروں کے خلاف تحقیقات ہورہی ہے۔ ادھر حکمران جماعت پیپلز پارٹی سندھ کے جنرل سیکریٹری تاج حیدر نے چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) فخر الدین جی ابراہیم کو خط لکھ کر مطالبہ کیا ہے کہ 1998 کی حلقہ بندیوں کے مطابق ووٹنگ مشین کے ذریعے الیکشن کرائے جائیں، 1998 کے بعد کی گئی حلقہ بندیوں کو منسوخ کیا جائے، ماضی میں انتخابی عمل میں غیر جمہوری قوتوں کی مداخلت کے باعث منصفانہ انتخابات نہیں ہوئے، جب تک غیر جمہوری قوتوں کی رکاوٹوں کو ختم نہیں کیا جائے گا آزاد اور شفاف انتخابات ممکن نہیں ہوں گے۔
عوامی نیشنل پارٹی سندھ کے صدر سینیٹر شاہی سید کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے کراچی کی بدامنی پر سوموٹو نوٹس کی سماعت کے بعد جاری کردہ سفارشات کا ایک اہم نقطہ کراچی کی منصفانہ حلقہ بندیاں ہیں، الیکشن کمیشن کی جانب سے موجودہ حلقہ بندیوں پر انتخابات کا اعلان انتہائی افسوسناک ہے، پرانی حلقہ بندیوں پر الیکشن کے انعقاد کو کسی صورت قبول نہیں کریں گے۔ اسی طرح جماعت اسلامی کراچی کے قائم مقام امیر برجیس احمد نے الیکشن کمیشن کی جانب سے ووٹر لسٹوں کو تاحال درست نہ کیے جانے پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔
چیف الیکشن کمشنر مجموعی رجسٹرڈ 193سیاسی جماعتوں کے سربراہوں اور ان کے نمایندوں کے ساتھ انتخابی ضابطہ اخلاق کے حوالے سے مشاورت کر رہے ہیں ۔ انتخابات میں امیدواروں کے اخراجات، الیکشن کمیشن کے پہلے سے طے کردہ بینرز اور ہورڈنگز کے سائز، امیدواروں کے جلسے جلوس، انتخابی مہم کے دوران امیدواروں کی ایک دوسرے کے خلاف الزامات پر مبنی مہم پر پابندی کے حوالے سے ضابطہ اخلاق مرتب کیا گیا اور اس کو الیکشن کے مستقل قانون کی شکل دینے کی بھی تجویز ہے مزید برآں ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کی صورت میں سزا مقرر کی جائے گی۔ مذکورہ بالا معروضی حالات و واقعات کی روشنی میں آیندہ ہونیوالے عام انتخابات نہ صرف چیف الیکشن کمشنر بلکہ ان تمام اداروں کے ذمے داران کے لیے امتحان ہوگا جن میں ان کا کردار ہوگا۔ یہ دیکھنا ہوگا کہ الیکشن کمیشن کے تمام عملے سیاست سے بالاتر ہوکر قومی مفاد میں کس حد تک کام کریں گے ۔
فخر الدین جی ابراہیم ایک غیر متنازع اور اصولوں کی پاسداری کرنے والی شخصیت کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ فخر الدین جی ابراہیم 12 فروری 1928 کو غیر منقسم بھارت کی ریاست گجرات کے علاقے کاٹھیاواڑ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم انھوں نے بمبئی میں حاصل کی جہاں وہ اسکاؤٹ کے ٹروپ لیڈر تھے۔ تقسیم ہند کے بعد آباؤاجداد کے ساتھ ہجرت کرکے پاکستان آئے اور کراچی میں قانون کے پیشے سے منسلک ہوئے۔ 1971 میں اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اٹارنی جنرل بنایا، اس کے بعد وہ ان کے لیگل ایڈوائزر کے طور پر بھی کام کرتے رہے، بعدازاں سندھ ہائی کورٹ کے جج مقرر ہوئے اور یہاں چیف جسٹس کے عہدے پر بھی فائز ہوئے۔
1981 میں سپریم کورٹ کے ایڈہاک جج تعینات ہوئے، اس دوران جنرل ضیاء الحق نے ملک میں پہلی بار پی سی او نافذ کیا، تاہم فخرالدین جی ابراہیم نے پی سی او کے تحت حلف اُٹھانے سے انکار کردیا اور جج کے منصب سے سبکدوش ہوگئے، بے نظیر بھٹو کی حکومت قائم ہوئی تو آپ کو گورنر سندھ بنایا گیا، 1996 میں بے نظیر کی دوسری حکومت کے خاتمے کے بعد بننے والی نگراں حکومت میں وزیرقانون بھی رہے، سی پی ایل سی کے قیام کا سہرا بھی انھی کے سر ہے۔
اگرچہ فخرالدین جی ابراہیم کی عمر 80 برس سے تجاوز کرچکی ہے، لیکن ان کا عزم جواں ہے، ان کا کہنا ہے کہ منصفانہ اور شفاف انتخابات میرا ہدف ہے اور یہ قوم کے پاس آخری موقع ہے۔ وقت آگیا ہے کہ ماضی کی غلطیوں پر بات کی جائے اور اس سے سبق سیکھا جائے۔ انتخابی فہرستوں میں تبدیلی کا عمل انتخابی شیڈول تک جاری رہنے کا امکان ہے تاکہ لوگ انتخابی فہرستوں میں نئے ناموں کی رجسٹریشن اور درستی کرسکیں۔ الیکشن کمیشن سے جاری اعداد وشمار کے مطابق اب تک 4کروڑ 77لاکھ 3 ہزار 692 مرد اور 3کروڑ 65لاکھ 91ہزار 359خواتین ووٹرز کی رجسٹریشن مکمل ہوچکی ہے۔اب تک کل ووٹرز کی تعداد 8کروڑ 43 لاکھ 65ہزار 51ہے۔
تاہم آیندہ برس تک 18سال کی عمر کو پہنچنے والے نوجوانوںسے ووٹرز کی تعداد بڑھے گی۔ حکومت نے عام انتخابات کے لیے بجٹ میں ایک ارب 57 کروڑ روپے رکھے ہیں جو انتخابی فہرستوں کی تیاری پر خرچ ہوجائیں گے، سیکریٹری الیکشن کمیشن اشتیاق احمد خان کا کہنا ہے کہ آیندہ عام انتخابات پرانی حلقہ بندیوں پر ہوں گے کیونکہ مردم شماری نہ ہونے سے نئی حلقہ بندیاں نہیں ہوئیں، الیکشن کمیشن نے فیصلہ کیا ہے کہ مئی تا جولائی شناختی کارڈ حاصل کرنیوالے 10 لاکھ افراد کے نام تصدیق کے بعد ووٹرز لسٹوں میں شامل کیے جائیں گے۔
نادرا رپورٹ کے مطابق نادرا کے ملک بھر میں 452نیشنل رجسٹریشن سینٹر، 252 موبائل رجسٹریشن وینز، 70 سیمی موبائل یونٹس دور دراز اور دیہی علاقوں میں رجسٹریشن کی خدمات فراہم کر رہے ہیں۔ نادرا ہر مہینے 4لاکھ کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ جاری کر رہا ہے۔ اس وقت 9کروڑ 20لاکھ شہریوں کے پاس کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ موجود ہے اور آیندہ چند ماہ میں یہ تعداد 9 کروڑ 60لاکھ تک پہنچ جائے گی۔ الیکشن کمیشن کے مذکورہ بالا فیصلے اور نادرا کے اعداد وشمار کے تقابلی جائزے کے بعد یہ بات سامنے آتی ہے کہ کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ رکھنے والے 50 لاکھ شہری ووٹرز لسٹوں میں اپنا نام اندراج کرنے سے محروم رہ جائیں گے جو بڑا خلاء ہوگا۔
ادھر سندھ ہائی کورٹ میں الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کردہ نئی ووٹر لسٹ کے خلاف درخواست دائر کی گئی ہے۔ حاجی گل نے دائر کردہ متفرق درخواست میں مؤقف اختیار کیا ہے کہ کراچی کے 40 فیصد ووٹرز کا رہائشی پتہ تبدیل کردیا گیا ہے، انتخابات شفاف نہیں ہوسکتے، تمام ریکارڈ عدالت طلب کرکے جائزہ لیا جائے اور درستی تک انتخابات روکے جائیں، الیکشن کمیشن میں ایک کروڑ ایسے ووٹرز رجسٹرڈ ہیں جو اس دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں اور تقریباً 75 لاکھ ووٹرز نادرا کے ریکارڈ کے مطابق رجسٹر ہی نہیں ہیں، غلط پتوں والے ووٹروں کی تعداد بھی تقریباً 10لاکھ ہے، اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ نئی ووٹر لسٹ کے اندراجات غیر تصدیق شدہ اور اغلاط سے بھرپور ہیں، درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ ایسا محسوس ہورہا ہے کہ کسی نے کچھ خاص مفادات کے لیے 2002کی ووٹر لسٹوں کو موجودہ ووٹر لسٹوں سے تبدیل کردیا ہے۔
کیونکہ 2008 کی ووٹر لسٹ میں میرے شناختی کارڈ میں دیئے گئے پتے کے مطابق ووٹر لسٹ میں میرا نام ضلع شرقی میں درج تھا، لیکن حالیہ لسٹ میں نام ضلع جنوبی میں درج کردیا گیا۔ سندھ کے صوبائی الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کردہ حتمی ووٹر لسٹ کے تحت پورے سندھ میں ایک کروڑ 84لاکھ سے زائد ووٹرز کا اندراج ہوا ہے جب کہ کراچی میں ووٹرز کی تعداد 68لاکھ 51 ہزار 948 ہے، غیر تصدیق شدہ اور بوگس ووٹرز کے نام خارج کرکے سندھ میں ووٹرز کی تعداد 2007 کی ووٹرز لسٹ کے مقابلے میں 13لاکھ کم ہوئی ہے جب کہ کراچی میں دو لاکھ سے زائد ووٹرز کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔
کراچی میں حتمی انتخابی فہرست کے تحت ووٹرز کی تعداد ضلع وسطی میں 16 لاکھ 10 ہزار 364، ضلع شرقی میں 20 لاکھ 30 ہزار 689 ، ضلع جنوبی میں 10 لاکھ 67 ہزار 603 ، ضلع غربی میں 14 لاکھ 16ہزار 411 اور ضلع ملیر میں 7لاکھ 26 ہزار881 ہے، مجموعی طور پر کراچی میں ووٹرز کی تعداد 68 لاکھ 51 ہزار 984 ہے جب کہ 2007 میں یہ تعداد 66 لاکھ 34ہزار 238 تھی، حتمی کمپیوٹرائزڈ فہرست کے تحت پورے سندھ میں ووٹرز کی تعداد ایک کروڑ 84 لاکھ 52 ہزار 843 تھی اس طرح سندھ میں 13 لاکھ ووٹرز کم ہوگئے۔
سندھ کے صوبائی الیکشن کمشنر سونو خان بلوچ کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن نے صوبے میں نئے شناختی کارڈ بننے والے ڈھائی لاکھ سے زائد ووٹرز کا اندراج کیا، سندھ کے ایک لاکھ 20 ہزار ووٹرز کے نام بلوچستان کی ووٹرز لسٹ میں شامل ہوگئے تھے وہ تمام ووٹرز اب دوبارہ سندھ کی ووٹر لسٹ میں شامل کر دیے گئے ہیں اور اس معاملے میں غفلت برتنے والے اہلکاروں کے خلاف تحقیقات ہورہی ہے۔ ادھر حکمران جماعت پیپلز پارٹی سندھ کے جنرل سیکریٹری تاج حیدر نے چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) فخر الدین جی ابراہیم کو خط لکھ کر مطالبہ کیا ہے کہ 1998 کی حلقہ بندیوں کے مطابق ووٹنگ مشین کے ذریعے الیکشن کرائے جائیں، 1998 کے بعد کی گئی حلقہ بندیوں کو منسوخ کیا جائے، ماضی میں انتخابی عمل میں غیر جمہوری قوتوں کی مداخلت کے باعث منصفانہ انتخابات نہیں ہوئے، جب تک غیر جمہوری قوتوں کی رکاوٹوں کو ختم نہیں کیا جائے گا آزاد اور شفاف انتخابات ممکن نہیں ہوں گے۔
عوامی نیشنل پارٹی سندھ کے صدر سینیٹر شاہی سید کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے کراچی کی بدامنی پر سوموٹو نوٹس کی سماعت کے بعد جاری کردہ سفارشات کا ایک اہم نقطہ کراچی کی منصفانہ حلقہ بندیاں ہیں، الیکشن کمیشن کی جانب سے موجودہ حلقہ بندیوں پر انتخابات کا اعلان انتہائی افسوسناک ہے، پرانی حلقہ بندیوں پر الیکشن کے انعقاد کو کسی صورت قبول نہیں کریں گے۔ اسی طرح جماعت اسلامی کراچی کے قائم مقام امیر برجیس احمد نے الیکشن کمیشن کی جانب سے ووٹر لسٹوں کو تاحال درست نہ کیے جانے پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔
چیف الیکشن کمشنر مجموعی رجسٹرڈ 193سیاسی جماعتوں کے سربراہوں اور ان کے نمایندوں کے ساتھ انتخابی ضابطہ اخلاق کے حوالے سے مشاورت کر رہے ہیں ۔ انتخابات میں امیدواروں کے اخراجات، الیکشن کمیشن کے پہلے سے طے کردہ بینرز اور ہورڈنگز کے سائز، امیدواروں کے جلسے جلوس، انتخابی مہم کے دوران امیدواروں کی ایک دوسرے کے خلاف الزامات پر مبنی مہم پر پابندی کے حوالے سے ضابطہ اخلاق مرتب کیا گیا اور اس کو الیکشن کے مستقل قانون کی شکل دینے کی بھی تجویز ہے مزید برآں ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کی صورت میں سزا مقرر کی جائے گی۔ مذکورہ بالا معروضی حالات و واقعات کی روشنی میں آیندہ ہونیوالے عام انتخابات نہ صرف چیف الیکشن کمشنر بلکہ ان تمام اداروں کے ذمے داران کے لیے امتحان ہوگا جن میں ان کا کردار ہوگا۔ یہ دیکھنا ہوگا کہ الیکشن کمیشن کے تمام عملے سیاست سے بالاتر ہوکر قومی مفاد میں کس حد تک کام کریں گے ۔