اقبال حیدر جنہیں جرم ِعشق پہ ناز تھا
اقبال حیدر اس قبیلے سے تعلق رکھتے تھے جو ذات پات،جاتی دھرم ،اونچ نیچ کے فرق سے بے نیاز انسان کو صرف انسان مانتا ہے۔
بڑے شوق سے سن رہا تھا زمانہ
ہمیں سو گئے، داستان کہتے کہتے
ایک اور آواز خاموش ہوگئی ۔ اقبال حیدر چلے گئے میرا ہاتھ ٹی وی چینلز بدلتے بدلتے اقبال کو دیکھ کر رک جاتا تھا۔شستہ زبان،بے باک لہجہ، سچائی تلخی کی حد تک ،جذبات سے بھرائی آواز غصے سے تمتماتا ہوا چہرہ اور پر عزم آنکھیں جو ہر برائی کو جڑ سے اکھاڑ دینا چاہتی تھیں۔سب کو اپنی طرف متوجہ کر لیتیں ۔ اقبال کھری بات ببانگ ِ دہل کرتے۔وہ لگی لپٹی رکھنا جانتے ہی نہیں تھے۔ کبھی ان کی سچائی سے خوف آتا اور میں ان سے کہتی۔اقبال آپ تھوڑا خیال رکھیں تو وہ ہنس دیتے ۔ایک مرتبہ کہا ! ارے بی بی ، صرف ایک ہی کام تو کر سکتے ہیں۔
اب وہ بھی چھوڑ دیں ! بھئی ہم پر زباں بندی کا کوئی ضابطہ لاگو نہیں ہوتا۔ بہت غصہ آتا ہے۔ اور واقعی یہ سچ تھا اپنی گفتگو کے دوران وہ کئی باردانت پیستے اور جھلاتے ہوئے نظر آتے تھے۔ مگر مایوس ہوکر گھر بیٹھ جانیوالوں میں سے نہیں تھے۔کوئی بھی اچھا مقصد ہو اقبال علم اٹھانے کو تیار ہوجاتے ۔ وہ تشدد کے سخت خلاف تھے۔انسانی حقوق کا کوئی مسئلہ ہو ، مزدوروں کے حق کی بات ہو،عدم رواداری، فرقہ بندی، غیر مسلموں کے ساتھ ناانصافی،گم شدہ افراد کے لیے آواز اٹھانا ہو،خواتین کا کوئی مسئلہ ہو، پاک وہند کے درمیان امن کی بات ہو اقبال حیدر ہر ایسے قافلے میں شامل تھے۔ میں انھیں 70 کی دہائی سے جانتی تھی۔ اور 1980 میں خواتین محاذ عمل بنی تو اقبال ہمارے مضبوط حمایتیوں میں شامل تھے۔ انھوں نے صرف ڈرائینگ روم یا ٹی وی اسکرین پر بیٹھ کر باتیں نہیں کیں۔
بلکہ ویف کے ساتھ جلسے جلوسوں میں برابر کے شریک تھے۔ وہ ایک کامیاب وکیل ،سینیٹر، وزیر بہت کچھ تھے۔ مگر وہ کبھی سڑکوں پر آکر احتجاج کرنے سے نہیں جھجکتے تھے ہم بیس پچیس عورتیں بھی پریس کلب پر کھڑی ہوتیں تو اقبال ضرور ہمارا ساتھ دیتے ۔ شہر میں نہ ہوں تو الگ بات ہے مگر انھیں کہیں سے پتہ چلتا یا ہم میں سے کوئی فون کرتا تو اقبال ضرور آتے اور بھر پور حصہ لیتے۔
بلکہ جس دن اسپتال سے چھٹی ملی اسی دن شام کو ایک سیمینار میں چاق و چوبند نظر آئے۔ آج کل وہ فرقہ واریت کے خلاف شدومد سے کام کررہے تھے۔ وہ اس قبیلے سے تعلق رکھتے تھے جو ذات پات،جاتی دھرم ،اونچ نیچ کے فرق سے بے نیاز انسان کو صرف انسان مانتا ہے۔ ایسے لوگ جب چلے جاتے ہیں تو ایک خلاء چھوڑ جاتے ہیں جو کبھی پر نہیں ہوتا۔ اقبال حیدر کی بے وقت موت ایک عظیم سانحہ ہے۔ انفرادی نقصان بھی ہے اور اجتماعی بھی، میںنے ان کے ساتھ بہت کام کیا ہے ویف، عورت فائونڈیشن، نیشنل کمیشن، اک انڈیا پیپلز فورم، ہیومن رائٹس کمیشن جس کی پہلی میٹنگ 1980 میں کراچی میں اقبال حیدر کے دفتر ہی میں ہوئی تھی۔
ہارون سے بھی اقبال کی بہت قربت تھی۔ صرف سیاست نہیں بلکہ ہمارے ذاتی دوستوں کے حلقے میں بھی اقبال شامل تھے۔ ان کے ساتھ ہندوستان اور پاکستان میں سفر بھی بہت کیے۔وہ خوش ذوق ، خوش لباس ،پرمزاح اور نفیس طبیعت کے مالک تھے۔ کبھی کسی بات کا برا نہ مناتے تھے۔ آرام دہ زندگی کے عادی تھے۔ مگر سفر کی تکلیف خندہ پیشانی سے برداشت کرتے۔ہم نے مونا بائوکا راستہ کھلنے کے بعد تھر ایکسپریس کا پہلا یاد گاڑی سفر اکٹھے کیا تھا۔
تھر کا راستہ کھلوانے میں پاکستان انڈیا پیپلز فورم کے دونوں چیپٹرز کا بہت ہاتھ تھا۔ دسمبر 2003 میں پاکستان ہندوستان کے چیپٹرز نے ایک بڑے کارواں کے ساتھ تھر کے سخت موسم اور ریگزار سے امن مارچ کیا تھا۔ زیرو پوائنٹ پر دونوں ٹیمیں آمنے سامنے تھیں۔ پتن بوس ہندوستان اور میں ان دنوں پاکستان کی جنرل سیکریٹری تھی۔امن کے نعرے لگ رہے تھے۔ راستہ کھولنے کا مطالبہ تھا جانے کہاں ،کہاں سے لوگ ہمارے قافلے میں آملے تھے۔ اور جب فروری 2005 میں پہلی ٹرین چلی تو ہمارے ساٹھ ممبران کا وفد پاکستان سے دوستی و خیر سگالی کا پیغام لے جارہا تھا۔ اقبال بہت جذباتی ہورہے تھے اور طبیعت میں ایک شگفتگی تھی۔ وہ مذاق بھی کرتے تھے۔ اور سہنا بھی جانتے تھے۔ واپسی میں جب ہندوستانی ٹرین کے کھلے ڈبوں میںہم ریت کے طوفان سے دو چار ہوئے تو اچھے اچھے لوگوں کے چھکے چھوٹ گئے۔ مگر اقبال یہ بھی برداشت کر گئے۔
اچھے کھانے خصوصاً پائے کے بہت شوقین تھے۔میرے ہاتھ کے بنے ہوئے پائے انھیں بہت پسندتھے۔ ''اگر تم نے پائے پکائے اور مجھے نہ بلایا تو ناراض ہوجائونگا''۔ کب ارادہ ہے؟ وہ سردیاں آنے سے پہلے ہی یاد دلایا کرتے تھے۔ اپنے گھر میں بھی احباب کی دعوت بڑے شوق سے کیا کرتے اور انواع و اقسام کے کھانوں سے تواضع کرتے تھے۔ مہمان نوازی بھی ان کے مزاج کا خاصہ تھی۔ ان سے آخری ملاقات بھی ایک مہینہ قبل ایسی ہی محفل میںہوئی تھی۔ اس بار وہ میرے گھر چٹخارے لے لے کر پائے کھارہے تھے۔ کہ اچانک انھیں یاد آیا کہ انھیں تو کسی اور دعوت میں جانا تھا اور ہمارے فون پر یہاں چلے آئے۔
کیا کہوں ۔ذاتی نقصان بھی ہے۔ اور اجتماعی بھی۔ چاہے نجی محفل ہو۔ مظاہرہ ہو یا سنجیدگی سے بیٹھ کر کوئی قانون کا مسودہ بنانا ہو اقبال کی شرکت ضروری تھی۔ اب ایسے لوگ بہت کم ہوتے جارہے ہیں۔ یادوں کی ایک قطار ہے جس میں کئی چہرے جھانک رہے ہیں۔
8نومبر 2012 کو ان کا آخری پیغام ملاتھا۔ ''میں سائوتھ سٹی اسپتال کے آئی سی یو میں ہوں۔ دل کے عارضے کا خدشہ ہے'' ہم روم میں تھے۔ ہارون نے کہا اقبال کی خیریت پوچھ لو۔ ہم 10 تاریخ کو تو واپس پہنچ جائینگے سی سی یو میں ڈسٹرب کرنا ٹھیک نہیں ہے۔ جاکر مل لیں گے۔ میں نے یہی سوچا تھا۔ مگر اقبال نے انتظار ہی نہیں کیا۔ ہم رات کو پہنچے اور وہ صبح چار بجے اپنے گھروالوں ،دوستوں اور مداحوں کو اچانک چھوڑ کر چلے گئے۔ وہ اچھے دوست تھے۔ محفلوں میں سیاسی گفتگو زور و شور سے کرتے ۔زندگی سے پیارکرنیوالے انسان تھے شاید مرنے کے بارے میں تو انھوں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا۔ وہ جینا چاہتے تھے تاکہ عام انسان کے لیے زندگی کو بدل سکیں۔ امن و آشتی لاسکیں۔انصاف کا بول بالا کرسکیں۔ ہاں ان کی زندگی کا یہی مقصد تھا۔ ایسا شخص یوں اچانک چپ چاپ چلاجائے گا۔کبھی سوچا بھی نہ تھا۔حالانکہ کچھ عرصہ پہلے انھیں سانس کی تکلیف کا شدید حملہ ہوا تھا۔ کراچی کے ایک اسپتال میں داخل رہے اور پھر صحتیاب ہوکر واپس اپنی ایکٹوازم کی دنیا میں لوٹ آئے تھے۔
جب اقبال حیدر سینیٹر بنے اور وزیر قانون تھے تو عورتوں کے حقوق پر ان کی خاص توجہ تھی۔ گھریلو تشدد کے خاتمے کے بل کی پہلی ڈرافٹنگ میں ان کا بڑا ہاتھ تھا۔ اور ہم یہ کیسے بھول سکتے ہیں کہ سمیعہ سرور کے مشہور کیس کے بعد 1991 کی سینیٹ میں کاروکاری کے خلاف کھڑے ہونیوالے وہ واحد شخص تھے۔ دوسری خاتون نسرین جلیل تھیں۔ لیکن یہ ایک افسوسناک واقعہ تھا کہ ہماری سینیٹ کے پروگریسو ممبران نے بھی کاروکاری کے خلاف قرار داد مسترد کردی تھی۔ اقبال بہت مایوس تو ہوئے مگر کاروکاری کے خلاف ان کی جدوجہد میں تیزی آگئی۔ کتنے ہی کیس ہم نے ساتھ کیے اور خصوصاً شائستہ عالمانی کیس میں ان کا مرکزی کردار رہا۔
مقدرو ہو تو خاک سے پوچھوں کہ اے لئیم
تو نے وہ گنج ہائے گراں مایہ کیا کیے