پاکستان نائن الیون کے بعد فوجی حکمران کے غلط فیصلوں کی سزا آج تک بھگت رہا ہے چوہدری نثار

پاکستان کو دہشت گردوں اور انتہا پسندوں سے لڑنے کے لیے تنہا چھوڑدیا گیا، وفاقی وزیر داخلہ


ویب ڈیسک April 26, 2016
پاکستان کو دہشت گردوں اور انتہا پسندوں سے لڑنے کے لیے تنہا چھوڑدیا گیا، وفاقی وزیر داخلہ، فوٹو؛ فائل

JAIPUR: وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثار کا کہنا ہے کہ نائن الیون حملے بڑے غیر انسانی حملے تھے لیکن ان حملوں کے کسی ملزم کا تعلق پاکستان سے نہیں تھا تاہم نائن الیون کے بعد فوجی حکمران نے جلد بازی میں غلط فیصلے کیے جس کی سزا پاکستان آج تک بھگت رہا ہے۔

لندن میں انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اسٹریٹیجک اسٹڈیزمیں خطاب کرتے ہوئے وزیر داخلہ چوہدری نثار نے کہا کہ مغربی ممالک میں پاکستان پر تنقید زیادہ ہوتی ہے کیوں کہ ان کو پاکستان کی قربانیوں کا احساس نہیں حالانکہ پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف شعور بیدار ہوگیا ہے، مغرب کو اپنے حل ہم پرمسلط نہیں کرنے چاہییں، ہمیں اپنے مسائل اپنے طورپر حل کرنے دیں۔ انہوں نے کہا مغرب کو سمجھنا ہوگا کہ مسلمان امن کے دشمن نہیں وہ تو خود دہشت گردی کا شکارہیں جب کہ دہشت گرد جو کررہے ہیں وہ اسلام نہیں ہے۔

چوہدری نثار نے کہا کہ نائن الیون حملے بڑے غیر انسانی حملے تھے لیکن ان حملوں کے کسی ملزم کا تعلق پاکستان سے نہیں تھا تاہم نائن الیون کے بعد فوجی حکمران نے جلد بازی میں غلط فیصلے کیے جس کی سزا پاکستان آج تک بھگت رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ خطے میں عالمی طاقتوں کی مداخلت سے اثرات پڑے، پاکستان کے کئی سیکیورٹی مسائل دوسروں کی وجہ سے پیدا ہوئے کیوں کہ افغانستان پر حملہ ہوا تو پاکستان اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا جب کہ پاکستان کوافغانستان کے معاملے میں جلد بازی نہیں کرنی چاہیے تھی۔

وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ پاکستان کو سیکیورٹی کے کثیرالجہتی مسائل کا سامنا ہے، نائن الیون کے بعد تمام تر بوجھ پاکستان پر لاد دیا گیا اور پاکستان کو دہشت گردوں اور انتہا پسندوں سے لڑنے کے لیے تنہا چھوڑدیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کا مسئلہ سرحد کے آرپارجانے والے چند دہشت گردوں تک محدود نہیں، یہ مسئلہ ذہنیت سے جڑا ہوا ہے اور یہ ایک عالمی مسئلہ بن چکا ہے جس میں عالمی برادری ہماری مدد کرے۔

چوہدری نثار نے کہا کہ ماضی میں پاکستان میں انسداد دہشت گردی کی پالیسی نہیں تھی لیکن گزشتہ 8 سال میں امن و امان کی صورتحال اس وقت سب سے بہتر ہے اور دہشت گردی کے واقعات میں مجموعی طور پر 38 فیصد کمی ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملکی اداروں نے خودکش حملے روکنے میں قابل قدر کامیابی حاصل کی، ایک سال میں 2200 سے زیادہ دہشت گرد حملے ریکارڈ کیے گئے جب کہ ملک میں روزانہ 6 سے 7 دہشت گردی کے واقعات پیش آرہے تھے اور روزانہ 50 سے 70 افراد جاں بحق ہو رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں 30 سے زیادہ انٹیلی جنس ادارے مربوط اندازمیں کام کررہے ہیں اور اسی بنیاد پر 14 ہزار آپریشن کیے گئے جب کہ دہشت گردی سے اسلام آباد جیسے شہر میں کئی افراد کی جانوں کا ضیاع ہوا اور ماضی میں دہشت گردی کے اتنے واقعات ہوئے کہ عوامی ردعمل ختم ہوگیا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں