کرپشن کی سچی کہانیاں
پانامہ لیکس کے منظر عام پر آنے کے بعد ہر طرف کرپشن کرپشن کا شور مچا ہے۔
پانامہ لیکس کے منظر عام پر آنے کے بعد ہر طرف کرپشن کرپشن کا شور مچا ہے۔ عوام نے جس رہنما کو ووٹ دے کر وزارت عظمیٰ کے منصب تک پہنچایا' وہ اور اس کا خاندان بھی کرپشن کے الزامات کی زد میں ہے' اک شور ہے کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا کرپشن' رشوت' ڈاکا زنی' زمینوں کی الاٹمنٹ یہ سب کچھ نئی چیزیں ہیں اور کیا ایسا پہلی بار ہو رہا ہے۔
سیدھی سی بات ہے کہ بدعنوانی یا غیر قانونی ذرایع سے دولت کمانے کا سلسلہ قیام پاکستان کے فوراً بعد ہی شروع ہو گیا تھا۔ میرے والدین مشرقی پنجاب سے لاہور آئے تھے' والد صاحب مجھے بتایا کرتے تھے کہ مہاجر کیمپوں میں بعض گھرانوں کے پاس چاندی کے سکے تھے' کچھ کے پاس زیورات وغیرہ تھے' ان مجبور اور بے سہارا مہاجرین نے پیٹ کی بھوک مٹانے کے لیے محض راشن کے عوض چاندی کے سکے اور زیورات سیکیورٹی اہلکاروں کو رشوت کے طور پر دیے' اندازہ لگائیے لٹنے والے کی بے بسی اور لٹیرے کی بے حسی کا۔ اس کے بعد جائیدادوں کی الاٹمنٹ کا سلسلہ شروع ہوا تو یہاں بھی لوٹ مار اور دھوکا دہی کا عمل شروع ہوا' محکمہ ریونیو کے افسروں اور اہلکاروں نے جو کچھ کیا' وہ تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔
کسی کے کلیم غائب ہو گئے' کسی نے اونے پونے فروخت کر دیے' کئی گھرانے فسادات میں مارے گئے' ان کی لاوارث جائیدادوں پر قبضے کر لیے گئے' ابتدا میں سرکاری ملازمتیں ریوڑیوں کی طرح بانٹی گئیں' یہ بدعنوانی اور لوٹ مار اس وقت کے پڑھے لکھے جہاندیدہ افسروں اور تحریک پاکستان کے علمبردار سیاستدانوں نے کی اور اپنے اپنے اکاؤنٹس سیدھے کر لیے۔
سادہ لوگ اور ان پڑھ عوام اس لوٹ مار سے بے خبر رہے' ایسا کیوں ہوا' صرف اس لیے کہ میڈیا موجود نہیں تھا۔ ایک آدھ اخبار تھا' وہ بھی چند محدود لوگوں کی رسائی میں تھا۔ الیکٹرانک میڈیا سرے سے تھا ہی نہیں' آبادی کم تھی' لٹنے والے زیادہ اور لوٹنے والے کم تھے' اس لیے لوٹ مار آسانی سے ہضم ہو جاتی رہی۔ سیاستدانوں' بیوروکریسی اور علماء کا بھرم قائم رہا۔ اب صورت حال بدل گئی ہے' آج میڈیا کا پھیلاؤ بہت زیادہ ہے' انفارمیشن ٹیکنالوجی نے دنیا کو گلوبل ویلیج بنا دیا ہے لہٰذا چیزوں کو چھپانا خاصا مشکل ہو گیا ہے۔
پھر لوٹنے والوں کی تعداد بہت زیادہ بڑھ چکی ہے بلکہ لٹیروں کے لشکر تیار ہو چکے ہیں' ماضی میں وسط ایشیا اور ایران وغیرہ سے لشکر لوٹ مار کے لیے آتے تھے لیکن اب پاکستان مقامی طور پر اس میں خود کفیل ہو چکا ہے۔ اب ہمیں بیرونی لشکروں کی ضرورت نہیں' یہ کام مقامی باشندے بہت اچھے طریقے سے کر رہے ہیں بلکہ ان کی کارکردگی غیر ملکی لشکریوں سے کہیں زیادہ بہتر ہے۔
ہم ارد گرد نظر دوڑائیں تو ہمیں ایسی مثالیں مل جائیں گی کہ ایک گھرانا جو مزدوری کرتا تھا' اس کا ایک فرد کسی نہ کسی طرح سرکاری افسر بن گیا' پھر چند برسوں میں سارا گھرانہ امیر ہو گیا' وطن عزیز کی تو حالت یہ ہے کہ یہاں جو محکمہ کسٹمز میں انسپکٹر بھرتی ہو گیا' وہ بھی چند برس میں کروڑ پتی بن گیا اور جو محکمہ مال میں پٹواری بھرتی ہوا' وہ بھی ریٹائرمنٹ تک ایک دو مربع اراضی کا مالک بن گیا ہے' اعلیٰ افسروں کی تو بات ہی چھوڑیں وہ تو اس ملک کے وی آئی پیز ہیں' بلو پاسپورٹ ہولڈر یہ مخلوق بھی اپنا پیسہ یورپ اور امریکا میں رکھتی ہے۔
سیاستدانوں کی لاٹ بھی چند برسوں میں امیر ہو گئی بلکہ زیادہ ہی امیر ہو گئی ہے۔ مجھے لاہور کے رہنے والے تحریک انصاف کے ایک اہم لیڈر نے مسلم لیگ ن کے ایک لاہوری لیڈر کے بارے میں بتایا کہ 1990ء میں موصوف ان کے پاس ایک پرانی ایف ایکس کار پر اپنی اہلیہ کے ہمراہ تشریف لائے اور کہا کہ ''یار شادی ہو گئی ہے' اب اندرون شہر کے آبائی چھوٹے سے گھر میں گزر بسر نہیں ہوتی' مجھے علامہ اقبال ٹاؤن میں پانچ مرلے کے گھر کا کوئی پورشن کرائے پر لے دو۔ انھوں نے اس سیاستدان کو اپنے ایک دوست پراپرٹی ڈیلر کے پاس بھیج دیا۔
اب تقریباً 26برس بعد وہی صاحب ارب پتی بن چکے ہیں' لینڈ کروزر میں سفر کرتے ہیں۔ تب ان کے پاس اتنے وسائل بھی نہیں تھے کہ پورے مکان کا کرایہ افورڈ کر سکتے۔ یہ ایک مثال ہے' ایسی سیکڑوں مثالیں ہمارے ارد گرد موجود ہیں' ہر شہر اور دیہات کے غریب عوام ایسے معجزوں کو رونما ہوتے دیکھ رہے ہیں۔
اس ملک کے بدنصیب باشندوں کا حال حضرت بابا بلھے شاہ نے بیان کیا ہے۔
کھادا پیتے لاہے دا
باقی احمد شاہے دا
یعنی جو کچھ کھا پی سکتے ہو' وہی تمہارا ہے' باقی سب کچھ احمد شاہ ابدالی اور اس کے سپاہیوں کا ہے۔ پرانے زمانے میں لوٹ مار کھلے عام ہوتی تھی' غیر ملکی لشکری گھوڑوں پر سوار ہو کر آتے اور پورے محلے یا علاقے کے لوگوں کو حکم دیتے تھے کہ اپنی ہر قیمتی چیز کھلے میدان میں رکھ دو' لوگ اس حکم کی تعمیل کرتے اور سارا مال کھلے میدان میں ڈھیر کی صورت رکھ دیا جاتا تھا' پھر یہ گھڑ سوار اسے اکٹھا کر کے لے جاتے۔
اب ٹیکنالوجی آ گئی ہے' سائبر ٹیکنالوجی نے لوٹ مار میں بھی انقلاب برپا کر دیا ہے' اب سب کچھ آن لائن ہوتا ہے' کاغذوں میں ہیر پھیر بھی سیکنڈز کا کھیل ہے' بدعنوانی آج کی ہے تو اسے پرانی تاریخوں میں ڈال کر قانونی بنانا بھی ایک بٹن کی دوری پر ہوتا ہے' دنیا میں سرمائے کے لیے محفوظ جنتیں بن گئی ہیں' کالا دھن جب ان جنتوں میں پہنچتا ہے تو پاک اور پوتر ہو جاتا ہے۔ آف شور کمپنیاں اس کالے دھن کو پاک کرنے کا نسخہ کیمیا ہے۔
چلتے چلتے یاد آیا' ایک دانشورانہ کرپشن بھی ہوتی ہے'پرانے زمانے میں یہ کام درباری شاعر' ادیب' تاریخ نویس اور بعض مذہبی عالم کیا کرتے تھے' ان سب کا کام بادشاہ اور اس کے خاندان کو بہادر' شجاع' ایماندار' رحمدل' سخی' عادل' متقی اور پرہیز گار ثابت کرنا ہوتا تھا۔ اورنگ زیب کو ٹوپیاں سی کر گزر اوقات کرنے والا جب کہ جہانگیر کو عدل کرنے والا بادشاہ کی غیر حقیقی کہانیاں دانشورانہ کرپشن کا شاہکار ہے۔ آج کے دور میں کالم نگار اور اینکرز حضرات بھی اس فہرست میں شامل ہوگئے ہیں۔
قیمتی انٹرویوز اور مہنگے کالم اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ لیکن سچائی اور کھرے پن کی اپنی آب و تاب اور گھن گرج ہوتی ہے' جس طرح خدا کو کسی نے نہیں دیکھا لیکن اس کی قدرت ہر جا نظر آتی ہے' اسی طرح کرپشن چاہے ثابت نہ ہو سکے لیکن اس کے مظاہر کھلے عام نظر آتے ہیں' یہ رولیکس گھڑیاں مہنگی ترین گاڑیاں غیر ممالک میں مہنگے فلیٹس' شاہانہ لباس' عالی شان محلات' یہ سب وہ نشانیاں ہیں جو چیخ چیخ کر سچ بیان کرتی ہیں۔ اس سے آگے کیا کہیں۔
سیدھی سی بات ہے کہ بدعنوانی یا غیر قانونی ذرایع سے دولت کمانے کا سلسلہ قیام پاکستان کے فوراً بعد ہی شروع ہو گیا تھا۔ میرے والدین مشرقی پنجاب سے لاہور آئے تھے' والد صاحب مجھے بتایا کرتے تھے کہ مہاجر کیمپوں میں بعض گھرانوں کے پاس چاندی کے سکے تھے' کچھ کے پاس زیورات وغیرہ تھے' ان مجبور اور بے سہارا مہاجرین نے پیٹ کی بھوک مٹانے کے لیے محض راشن کے عوض چاندی کے سکے اور زیورات سیکیورٹی اہلکاروں کو رشوت کے طور پر دیے' اندازہ لگائیے لٹنے والے کی بے بسی اور لٹیرے کی بے حسی کا۔ اس کے بعد جائیدادوں کی الاٹمنٹ کا سلسلہ شروع ہوا تو یہاں بھی لوٹ مار اور دھوکا دہی کا عمل شروع ہوا' محکمہ ریونیو کے افسروں اور اہلکاروں نے جو کچھ کیا' وہ تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔
کسی کے کلیم غائب ہو گئے' کسی نے اونے پونے فروخت کر دیے' کئی گھرانے فسادات میں مارے گئے' ان کی لاوارث جائیدادوں پر قبضے کر لیے گئے' ابتدا میں سرکاری ملازمتیں ریوڑیوں کی طرح بانٹی گئیں' یہ بدعنوانی اور لوٹ مار اس وقت کے پڑھے لکھے جہاندیدہ افسروں اور تحریک پاکستان کے علمبردار سیاستدانوں نے کی اور اپنے اپنے اکاؤنٹس سیدھے کر لیے۔
سادہ لوگ اور ان پڑھ عوام اس لوٹ مار سے بے خبر رہے' ایسا کیوں ہوا' صرف اس لیے کہ میڈیا موجود نہیں تھا۔ ایک آدھ اخبار تھا' وہ بھی چند محدود لوگوں کی رسائی میں تھا۔ الیکٹرانک میڈیا سرے سے تھا ہی نہیں' آبادی کم تھی' لٹنے والے زیادہ اور لوٹنے والے کم تھے' اس لیے لوٹ مار آسانی سے ہضم ہو جاتی رہی۔ سیاستدانوں' بیوروکریسی اور علماء کا بھرم قائم رہا۔ اب صورت حال بدل گئی ہے' آج میڈیا کا پھیلاؤ بہت زیادہ ہے' انفارمیشن ٹیکنالوجی نے دنیا کو گلوبل ویلیج بنا دیا ہے لہٰذا چیزوں کو چھپانا خاصا مشکل ہو گیا ہے۔
پھر لوٹنے والوں کی تعداد بہت زیادہ بڑھ چکی ہے بلکہ لٹیروں کے لشکر تیار ہو چکے ہیں' ماضی میں وسط ایشیا اور ایران وغیرہ سے لشکر لوٹ مار کے لیے آتے تھے لیکن اب پاکستان مقامی طور پر اس میں خود کفیل ہو چکا ہے۔ اب ہمیں بیرونی لشکروں کی ضرورت نہیں' یہ کام مقامی باشندے بہت اچھے طریقے سے کر رہے ہیں بلکہ ان کی کارکردگی غیر ملکی لشکریوں سے کہیں زیادہ بہتر ہے۔
ہم ارد گرد نظر دوڑائیں تو ہمیں ایسی مثالیں مل جائیں گی کہ ایک گھرانا جو مزدوری کرتا تھا' اس کا ایک فرد کسی نہ کسی طرح سرکاری افسر بن گیا' پھر چند برسوں میں سارا گھرانہ امیر ہو گیا' وطن عزیز کی تو حالت یہ ہے کہ یہاں جو محکمہ کسٹمز میں انسپکٹر بھرتی ہو گیا' وہ بھی چند برس میں کروڑ پتی بن گیا اور جو محکمہ مال میں پٹواری بھرتی ہوا' وہ بھی ریٹائرمنٹ تک ایک دو مربع اراضی کا مالک بن گیا ہے' اعلیٰ افسروں کی تو بات ہی چھوڑیں وہ تو اس ملک کے وی آئی پیز ہیں' بلو پاسپورٹ ہولڈر یہ مخلوق بھی اپنا پیسہ یورپ اور امریکا میں رکھتی ہے۔
سیاستدانوں کی لاٹ بھی چند برسوں میں امیر ہو گئی بلکہ زیادہ ہی امیر ہو گئی ہے۔ مجھے لاہور کے رہنے والے تحریک انصاف کے ایک اہم لیڈر نے مسلم لیگ ن کے ایک لاہوری لیڈر کے بارے میں بتایا کہ 1990ء میں موصوف ان کے پاس ایک پرانی ایف ایکس کار پر اپنی اہلیہ کے ہمراہ تشریف لائے اور کہا کہ ''یار شادی ہو گئی ہے' اب اندرون شہر کے آبائی چھوٹے سے گھر میں گزر بسر نہیں ہوتی' مجھے علامہ اقبال ٹاؤن میں پانچ مرلے کے گھر کا کوئی پورشن کرائے پر لے دو۔ انھوں نے اس سیاستدان کو اپنے ایک دوست پراپرٹی ڈیلر کے پاس بھیج دیا۔
اب تقریباً 26برس بعد وہی صاحب ارب پتی بن چکے ہیں' لینڈ کروزر میں سفر کرتے ہیں۔ تب ان کے پاس اتنے وسائل بھی نہیں تھے کہ پورے مکان کا کرایہ افورڈ کر سکتے۔ یہ ایک مثال ہے' ایسی سیکڑوں مثالیں ہمارے ارد گرد موجود ہیں' ہر شہر اور دیہات کے غریب عوام ایسے معجزوں کو رونما ہوتے دیکھ رہے ہیں۔
اس ملک کے بدنصیب باشندوں کا حال حضرت بابا بلھے شاہ نے بیان کیا ہے۔
کھادا پیتے لاہے دا
باقی احمد شاہے دا
یعنی جو کچھ کھا پی سکتے ہو' وہی تمہارا ہے' باقی سب کچھ احمد شاہ ابدالی اور اس کے سپاہیوں کا ہے۔ پرانے زمانے میں لوٹ مار کھلے عام ہوتی تھی' غیر ملکی لشکری گھوڑوں پر سوار ہو کر آتے اور پورے محلے یا علاقے کے لوگوں کو حکم دیتے تھے کہ اپنی ہر قیمتی چیز کھلے میدان میں رکھ دو' لوگ اس حکم کی تعمیل کرتے اور سارا مال کھلے میدان میں ڈھیر کی صورت رکھ دیا جاتا تھا' پھر یہ گھڑ سوار اسے اکٹھا کر کے لے جاتے۔
اب ٹیکنالوجی آ گئی ہے' سائبر ٹیکنالوجی نے لوٹ مار میں بھی انقلاب برپا کر دیا ہے' اب سب کچھ آن لائن ہوتا ہے' کاغذوں میں ہیر پھیر بھی سیکنڈز کا کھیل ہے' بدعنوانی آج کی ہے تو اسے پرانی تاریخوں میں ڈال کر قانونی بنانا بھی ایک بٹن کی دوری پر ہوتا ہے' دنیا میں سرمائے کے لیے محفوظ جنتیں بن گئی ہیں' کالا دھن جب ان جنتوں میں پہنچتا ہے تو پاک اور پوتر ہو جاتا ہے۔ آف شور کمپنیاں اس کالے دھن کو پاک کرنے کا نسخہ کیمیا ہے۔
چلتے چلتے یاد آیا' ایک دانشورانہ کرپشن بھی ہوتی ہے'پرانے زمانے میں یہ کام درباری شاعر' ادیب' تاریخ نویس اور بعض مذہبی عالم کیا کرتے تھے' ان سب کا کام بادشاہ اور اس کے خاندان کو بہادر' شجاع' ایماندار' رحمدل' سخی' عادل' متقی اور پرہیز گار ثابت کرنا ہوتا تھا۔ اورنگ زیب کو ٹوپیاں سی کر گزر اوقات کرنے والا جب کہ جہانگیر کو عدل کرنے والا بادشاہ کی غیر حقیقی کہانیاں دانشورانہ کرپشن کا شاہکار ہے۔ آج کے دور میں کالم نگار اور اینکرز حضرات بھی اس فہرست میں شامل ہوگئے ہیں۔
قیمتی انٹرویوز اور مہنگے کالم اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ لیکن سچائی اور کھرے پن کی اپنی آب و تاب اور گھن گرج ہوتی ہے' جس طرح خدا کو کسی نے نہیں دیکھا لیکن اس کی قدرت ہر جا نظر آتی ہے' اسی طرح کرپشن چاہے ثابت نہ ہو سکے لیکن اس کے مظاہر کھلے عام نظر آتے ہیں' یہ رولیکس گھڑیاں مہنگی ترین گاڑیاں غیر ممالک میں مہنگے فلیٹس' شاہانہ لباس' عالی شان محلات' یہ سب وہ نشانیاں ہیں جو چیخ چیخ کر سچ بیان کرتی ہیں۔ اس سے آگے کیا کہیں۔