سروس کا اگلا پڑاؤ مظفّرگڑھ
پاکپتن میں آئے دن ممبروں کی شکایتوں اور جواب طلبیوں سے تنگ آچکا تھا
پاکپتن میں آئے دن ممبروں کی شکایتوں اور جواب طلبیوں سے تنگ آچکا تھا اور وہاں مزید رہنے کے لیے تیاّر نہ تھا اس لیے ایک روز جب ایس ایس پی حاجی حبیب الرحمن صاحب نے فون پر کہا کہ "میری بات ہوگئی ہے، ہم آپ کو یہاں سے جانے نہیں دیں گے" تو میں نے صاف صاف کہہ دیا "سر میرا ٹَمپو ٹوٹ گیا ہے اب میں یہاں نہیں رہناچاہتا " اُسوقت تک نثار چیمہ صاحب آئی جی بن چکے تھے، انھوں نے بھی حاجی صاحب کو کہہ دیا کہ "میں نہیں چاہتا کہ ذوالفقار اس محاذ آرائی کے ماحول میں پاکپتن رہے" چند روز بعد مجھے تبادلے کے احکامات موصول ہوگئے، میرے اگلی منزل مظفّر گڑھ قرار پائی۔
ساہیوال کی نسبت مظفر گڑھ کا موسم گرم تھا مگر میرا استقبال بہت ٹھنڈا ٹھار رہا۔جس سے کچھ مایوسی ہوئی۔ دراصل ضلعے کا ایس پی کوئی نہیں تھا۔ ڈی ایس پی ھیڈکوارٹر زکے پاس چارج تھا (وہ ذہنی طور پر پریشان رہتے تھے انھی پریشانیوں کی وجہ سے انھوں نے بعد میں خودکشی کرلی تھی) جو بڑی سرد مہری سے ملے، اور مجھے بتایا کہ ایس ڈی پی او صدر ہونے کے ناتے شہر اور دیہاتی علاقے کے چھ تھانوں کا چارج میرے پاس ہوگا۔
چارج لینے کے بعدمیں نے سب سے پہلے خان گڑھ تھانے کادورہ کیا۔ خان گڑھ ملک کی انتہائی قابلِ احترام شخصیت نوابزادہ نصراﷲخان صاحب کا آبائی قصبہ تھا اوروہ جنرل ضیأالحق کی مخالفت کی وجہ سے یہیں اپنی رہائش گاہ میںنظر بند تھے۔ میں نے نوابزادہ صاحب کے بارے میں SHOسے سرسری سا پوچھا جس پر اس نے بتایا کہ وہ تھانے کچہری کی سیاست نہیں کرتے۔ یہ بات میرے قیام کے دوران بھی ثابت ہوئی کہ وہ ضلع افسران کو بھی کسی کام کے لیے فون نہیں کرتے۔ ان کے بیٹے اور بھتیجے ملتے رہے، بڑے وضع دار اور اعلیٰ روایات کے امین خاندانی لوگ ہیں۔
میں نے یہاں بھی بڑے جوش وخروش سے جرائم کے سَّدِباب کے لیے جدّو جہد شروع کردی۔ جب لوگوں کی شنوائی اور دادرسی ہونے لگی تو کھلی کچہریوں میں ہزاروں لوگ شریک ہونے لگے۔ میری تعیّناتی کے دو ہفتوںکے بعد ضلعے کا چارج مجھے سونپ دیا گیا اس حیثیّت سے ضلع کی دوسری تحصیلوں کوٹ اَدّو اور علی پور کے دورے بھی شروع ہوگئے ۔
ڈپٹی کمشنر عامر خان بڑے سلجھے ہوئے آدمی تھے وہ پی سی ایس آفیسر تھے مگر بہت سے سی ایس پی افسروں سے زیادہ معاملہ فہم تھے بلدیاتی انتخابات ہونے والے تھے اس لیے ہم دونوں تیاّریوں میں مصروف ہوگئے، ایک دو میٹنگیں ڈویژنل ہیڈکوارٹر ز (ڈیرہ غازی خان) میں بھی ہوئیں ۔کمشنر سردار محمد اسلم سکھیرا پرانی وضع کے بڑے منجھے ہوئے افسر تھے اور لاہور کی سٹی مجسٹریٹس کے واقعات مزے لے لے کر سنا تے رہتے تھے۔ ایک میٹنگ جس میں تمام ضلعوں کے ڈی سی اور ایس پی شریک تھے انھوں نے انتخابات کے ممکنہ نتائج کے بارے میں پوچھنا شروع کیا۔ میرے تجزئیے سے وہ بہت متاثر ہوئے اور اس کے بعد ہر اِشو پر میری رائے کو بہت اہمیّت دینے لگے ۔
سیاسی طور پر مظفّر گڑھ بہت زرخیز ضلع رہا ہے یہاں سے مشتاق احمد گورمانی اورملک غلام مصطفیٰ کھر پنجاب کے گورنر اور عبدالحمید دستی اور کھر صاحب وزیرِ اعلیٰ رہے ہیں۔ اُسوقت تک ملک غلام مصطفیٰ کھر کی مقبولیت کی وجہ سے کھر خاندان سب سے زیادہ اہمیّت کا حامل تھا۔ ان کے ایک بھائی غازی کھر ڈسٹرکٹ کونسل کے چیئرمین تھے جو ایک بااصول آدمی تھے۔
افسروں کے ساتھ ان کا روّیہ بڑا جارحانہ ہوتاتھامگر میرے ساتھ بڑی عزّت و احترام سے ملتے تھے وہ جوانعمری میں ہی وفات پاگئے۔ ایک اوربھائی ایم این اے اور ایک ایم پی اے تھے۔ ایم پی اے غلام رباّنی کھر تعلیم سے بالکل کورے تھے اور انھوں نے درخواستوں پر صرف" "G. Rabbani لکھنا سیکھ رکھا تھا، انھی کی تعلیم یافتہ بیٹی حنا رباّنی بعد میںملک کی پہلی خاتون وزیرِ خارجہ بنیں۔
الیکشن سے ایک دو روز قبل میرے پاس ایک امیدوار کی درخواست آئی کہ کھر صاحبان کی اپنے گاؤں میں بڑی دہشت ہے اور وہاںوہ اپنے مخالف امیدوار کے پولنگ ایجنٹ کو بھی جانے کی اجازت نہیں دیتے اس لیے تمام امیدواروں کو تخفظّ فراہم کرنے کے انتظامات کیے جائیں۔ پولیس افسر کی حیثیّت سے میرے یہ پہلے انتخابات تھے جن میں مجھے اندازہ ہوگیا کہ الیکشن کمیشن وغیرہ سے زیادہ مقامی پولیس کا غیر جانبدار ہونا زیادہ اہم ہے اور ضلع میں تعینات پولیس افسرکسی امیدوار کو کس قدر فائدہ یا نقصان پہنچا سکتا ہے۔
مظفّر گڑھ کا تجربہ بعد میں میرے لیے بہت مفید ثابت ہوا۔ میں نے الیکشن ڈیوٹی پر تعینات ریگولر پولیس، رضاکاروں اور اسپیشل پولیس کی نفری سے ہر تھانے کی سطح پر جاکر خطاب کیا اور انھیں واضح ہدایات دیں کہ "آپ نے ہر صورت غیرجانبدار رہ کر امن و امان برقرار رکھنا ہے" امیدواروں کو بھی سخت میسج دیا گیا کہ کوئی بھی بدمعاشی کرنے کی کوشش نہ کرے ورنہ امیدوار کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔
سخت انتظامات کی وجہ سے الیکشن پر امن رہے،شہر میں ایک پولنگ اسٹیشن پر گنتی کے وقت ایک برادری کے ہزار پندرہ سو افراد نے گڑبڑ کرنے کی کوشش کی۔ میں فوری طور ر وہاں پہنچا، انھیں پیارسے سمجھانے کی کوشش کی جب انھوں نے بات ماننے سے انکار کیا تو غنڈہ گردی کرنے والوں کی ٹھکائی کرنی پڑی۔ مظفّرگڑھ پولیس کو لاٹھی اٹھائے ہوئے عرصہ گزر گیا تھا اس الیکشن میںاُن کی جھجک اتر گئی اور مجرموں کے خلاف وہ پورے اعتماد کے ساتھ کارروائیاں کرنے لگے۔ میں اور ڈی سی سارا دن اکٹھے مختلف جگہوں پر راؤنڈ لگاتے رہے اور امن و امان کا جائزہ لیتے رہے۔
جن جگہوں کا ہم نے راؤنڈکیا ان میں کھر صاحبان کا گاؤں دڑہ بھی شامل تھا۔ ہمارے ساتھ پولیس کی ایک دو گاڑیاں بھی تھیںیہ دورہ جاگیردارانہ ذہن پر گراں گزرا اور کھربرادران نے ہمارے دورے کواپنے ڈیرے پر ریڈ قرار دے کر اوپر شکایت کردی (کھر برادران اسوقت حکومتِ پنجاب کے چہیتے تھے)جس پر چیف منسٹر آفس کی طرف سے جواب طلبی ہوئی اور سکھیرا صاحب نے اپنے اثرورسوخ سے معاملے کو سنبھالا۔
الیکشن کے روز وزیرِاعلیٰ میاں نوازشریف نے کئی شہروں کا دورہ کیا جسمیں مظفّر گڑھ بھی شامل تھا۔ ان کے ساتھ چیف سیکریٹری انور زاہدصاحب اور آئی جی نثار چیمہ صاحب بھی تھے۔ چائے پر کمشنر سکھیرا صاحب نے آئی جی صاحب سے کہا" یہاں تو آپکو ایس پی لگانے کی ضرورت ہی نہیں، ذوالفقارچیمہ نے ضلعے کو بہت اچھا کنٹرول کیا ہوا ہے"، آئی جی صاحب (جو بہت کم بولتے ہیں) نے اپنے مخصوص انداز میں کہا 'I am glad he is doing well. But we'll have to post a permanent SP'کچھ عرصے بعد شاہد اقبال صاحب ضلع کے ایس پی بنکر آگئے اورانھوں نے بڑی محنت اور لگن سے کام شروع کیا۔ ناقص جمہوری نظام کی برکتوں سے نوابزادہ نصراﷲ خان کو ہر ا کر ایک Upstarter عطا قریشی ایم این اے بن گیا تھا۔
عبدالحمید دستی مظفر گڑھ شہر سے ایم پی اے تھے۔ میں نے جرائم پیشہ عناصر کے خلاف سخت آپریشن شروع کیا تو دونوں ناراض ہوگئے۔ دونوں ایک دوسرے کے مخالف تھے مگر کافی عرصے بعد ایک اِشوپر متفق ہوئے اور وہ تھا میری ٹرانسفر ۔ اس پر دونوں نے متحّد ہوکر پوری لگن اور Commitmentکے ساتھ کوششیں شروع کردیں۔
ان کی کوششوں کے اثرات ایس پی صاحب تک پہنچے تو انھوں نے ایک روز مجھے بلاکر کہا کہ "عطا قریشی کی مخالفت تو سمجھ میں آتی ہے مگر دستی صاحب آپ کو تبدیل کرانے پر کیوں تلے ہوئے ہیں یہ سمجھ نہیں آتی" میں نے انھیں بتایا کہ دستی فیملی کے کچھ نوجوان منشیات میں پکڑے گئے ہیں، دستی صاحب انھیں چھڑانے کے لیے میرے پاس آئے تھے جس پر میں نے انھیں کہا تھاکہ "منشیات فروشوں کو چھوڑنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ منشیات فروشوں کو یہ دھندا چھوڑنا ہوگا یا علاقہ چھوڑنا ہوگا" غالباً سردار صاحب ایک نوجوان پولیس افسر کے اس گستاخانہ جواب پر ناراض ہوگئے اور انھوں نے عطاء قریشی صاحب کی طرف دستِ تعاون بڑھادیا ۔ اور دونوںنے اے ایس پی کی تبدیلی کے 'مقّدس مشن ' پر پورے جوش و خروش کے ساتھ کام شروع کردیا۔ (باقی آئیندہ)
نوٹ:کچھ سیاسی لیڈر پنامہ لیکس کو اپنے اور اپنے ساتھیوں کے لیے ڈھال بناکر اِسکے پیچھے چھپنا چاہتے ہیں اُن کی خواہش ہے کہ عدالتی کمیشن ان کے دامن پر لگے دھبوں کے بارے میں کچھ نہ پوچھے اور صرف ایک فرد کو کٹہرے میںکھڑاکرے۔مگر قوم ایسا نہیں ہونے دے گی، عوام چاہتے ہیں کہ سب کا حساب کتاب ہو۔ جنرل راحیل شریف نے بھی یہی بات کی ہے۔
1985ء سے لے کر اب تک جن لوگوں نے غریب عوام کا پیسہ بینک کے قرضوں کی صورت میں ہڑپ کیا ہے انھیں ہر صورت بے نقاب کیا جانا چاہیے اور پارلیمنٹ کے دروازے اُن پر بند ہونے چاہئیں، ایک نہیں سب کو سکرِیننگ مشین سے گزارا جائے، ہر پارٹی میں ایسے لوگ موجود ہیں جو پارلیمنٹ میں نہیں جیل میں ہونے چاہئیں۔ جوڈیشل کمیشن کے ذریعے سیاست کا گند صاف ہوجائے تو قوم کے لیے اس سے بڑا تحفہ کیا ہو سکتا ہے اور یہ سارا کام صرف تین سے چار مہینوں میں ہوسکتا ہے، جو ہرگز طویل عرصہ نہیں ہے۔
اُدھر گورنمنٹ کالج لاہور کے سابق طلباء و طالبات کے سالانہ عشائیے جس میں لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے علاوہ کئی ججز، جنرلز ، ماہرینِ تعلیم اور سیاست دان بھی موجود تھے میں یہ عہد کیا گیا ہے کہ ہم آئیندہ کسی ایسے شخص کو حقّ ِحکمرانی نہیں دیں گے جس کے دامن پر مالی یا اخلاقی کرپشن کا داغ ہو۔ جسے حکمرانی کا شوق ہو وہ اپنا کردار پاکیزہ اور دامن مالی اور اخلاقی آلودگیوںسے پاک رکھیّ۔