صحت کا مسئلہ اور سندھ حکومت کی کارکردگی

کراچی شہرگزشتہ صدی کے آخری عشرے سے ہنگاموں، خودکش دھماکوں، حادثات اور ٹارگٹ کلنگ جیسی صورتحال کا شکار ہے


Dr Tauseef Ahmed Khan April 27, 2016
[email protected]

کراچی شہرگزشتہ صدی کے آخری عشرے سے ہنگاموں، خودکش دھماکوں، حادثات اور ٹارگٹ کلنگ جیسی صورتحال کا شکار ہے۔ جب بھی شہرمیں ہنگامی صورتحال پیدا ہوتی ہے، زخمیوں کو تین سرکاری اسپتالوں میں لے جایا جاتا ہے تو مریضوں کے لیے بسترکم پڑجاتے ہیں،ادویات نہیں ملتیں اور پیرا میڈیکل اسٹاف ڈیوٹی پر موجود نہیں ہوتا۔ عمومی طور پر اس صورتحال میں زیادہ بوجھ کراچی کے قدیم سول اسپتال پر پڑتا ہے۔

سول اسپتال برطانوی حکومت نے تعمیرکروایا تھا۔ آنے والے وقت کے ساتھ نئے وارڈ تعمیر ہوئے مگر ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے سول اسپتال میں اسٹیٹ آف دی آرٹ ٹیکنالوجی دستیاب نہیں تھی۔اس صورتحال میں ایک 14 منزلہ ٹراماسینٹرکی تعمیر کا فیصلہ ہوا۔ پیپلزپارٹی کی حکومت نے مجوزہ ٹراما سینٹرکو بے نظیر بھٹو شہید کے نام سے منسوب کرتے ہوئے جنوری 2009 میں اس ٹراما سینٹر کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔

وفاقی حکومت نے ٹراما سینٹرکی تعمیرکو قومی اقتصادی کونسل کی ایگزیکٹوکمیٹی کے ایجنڈے میں شامل کیا۔کمیٹی نے اس منصوبے کے لیے 2.22 بلین روپے کی رقم مختص کی۔

2010میں 18 ویں ترمیم کے منظور ہونے کے بعد قومی مالیاتی ایوارڈ کی تشکیل نو ہوئی۔وفاقی حکومت نے اس منصوبے کے آدھے اخراجات برداشت کرنے کا عندیہ دیا تھا مگر پیپلز پارٹی کی وفاقی حکومت نے 362 ملین روپے فراہم کیے۔ ابتدائی منصوبے کے تحت ایمرجنسی وارڈ ، نیورو سرجری، انتہائی نگہداشت یونٹ ، دل کے مریضوں کے لیے کارڈیو ویسکیولر اور آرتھوپیڈک سرجری کے یونٹ ٹراما سینٹر میں منتقل ہونے ہیں۔ اس سینٹر میں 18 آپریشن تھیٹر تعمیر ہونگے۔ اس سینٹر کو چلانے کے لیے 200 افراد کو ملازمتیں دی جائیں گی جن میں ڈاکٹر، پیرا میڈیکل اسٹاف اور سپورٹنگ اسٹاف شامل ہے۔

حکومت سندھ 10سال گزرنے کے باوجود اس سینٹرکو فعال نہیں کرسکی مگر وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ کوگزشتہ سال اپنی کارکردگی دکھانے کا اچانک خیال آگیا، 23 دسمبر 2015 کو پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کو اس کے افتتاح کے لیے مدعو کیا گیا۔ بلاول کے اس دورے کی سیکیورٹی کی ذمے داری کراچی ڈسٹرکٹ ساؤتھ کی پولیس کو دیدی گئی، ڈسٹرکٹ ساؤتھ کے ڈی آئی جی کی نگرانی میں اس دن سول اسپتال جانے والے تمام راستے بند کردیے گئے۔ لیاری سے آنے والا ایک شخص اپنی بیمار بچی بسمہ کو لے کر سول اسپتال پہنچا، مگر راستے بند ہونے کی بناء پر بچی سول اسپتال کے ایمرجنسی وارڈ پہنچنے سے پہلے جاں بحق ہوگئی۔

بلاول بھٹو زرداری کو میڈیا کی مخالفانہ مہم کا سامنا کرنا پڑا، مگر المیہ یہ ہے کہ یہ سینٹر اس وقت بھی کام کرنے کے قابل نہیں تھا اور نہ اس سال کے اختتام تک اس کے فعال ہونے کی کوئی امید ہے۔ سول اسپتال کے بارے میں معلومات رکھنے والے صحافیوں کا کہنا ہے کہ سول اسپتال کے سابق میڈیکل سپرٹنڈنٹ ڈاکٹر سعید قریشی کی ذاتی کوششوں سے سینٹرکی 14 منزلہ عمارت کی تعمیر ممکن ہوئی۔ کمپیوٹر اور دوسرے آلات کی خریداری کے معیار کو اہمیت دی گئی۔ سول اسپتال کی انتظامیہ میں 20 سال تک فرائض انجام دینے والے ایک سابق ایڈیشنل میڈیکل سپرٹنڈنٹ کا کہنا ہے کہ مخیر حضرات کے عطیات سے جدید آلات خریدے گئے مگر ان آلات کو چلانے کے لیے تربیت یافتہ عملہ ملازم نہیں رکھا گیا، یہ آلات ڈبوں میں بند ہو کر ناکارہ ہورہے ہیں۔ سول اسپتال کے نئے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ فنڈز کی عدم دستیابی کی بناء پر مختلف کنسلٹنٹ سے معذرت کررہے ہیں۔

سابق ایم ایس کا کہنا ہے کہ اس صورتحال میں اس سال کے اختتام تک سینٹر کے فعال ہونے کا امکان نہیں ہے۔ جب سے پیپلز پارٹی کی حکومت برسر اقتدار آئی ہے صحت، تعلیم، بلدیات اور دیگر شعبے زبوں حالی کا شکار ہیں۔ وزیر اعلیٰ اورگورنر سندھ میں اختلافات کی بناء پر صوبے کی سب سے بڑی ڈاؤ میڈیکل یونیورسٹی گزشتہ 9 ماہ سے وائس چانسلر سے محروم ہے۔ سندھ ہائیکورٹ گورنرکے مقررکردہ وائس چانسلر کے تقررکو متعدد بار غیر قانونی قرار دے چکی ہے۔

قائم مقام وائس چانسلر صرف روزمرہ کا کام کررہے ہیں۔ اسی طرح 18 ویں ترمیم کے نفاذ کے بعد کراچی کا قدیم جناح اسپتال حکومت سندھ کی تحویل میں آگیا مگر حکومت کے غیر سنجیدہ رویے کی بناء پر جناح اسپتال کے ملازمین نے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے اعلیٰ عدالتوں سے رجوع کیا اور ڈاکٹروں کو اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے روزانہ کی بنیاد پر ہڑتالیں کرنی پڑیں ۔ مخیر حضرات کے عطیات کی وجہ سے ایمرجنسی وارڈ کو جدید شکل مل گئی تھی۔ اسی طرح کئی نئی عمارتیں بھی تعمیر ہوئیں مگر اب یہ اسپتال ادویات اور آلات کی شدید کمی کا شکار ہے۔ اس اسپتال سے روزانہ کئی ہزار افراد علاج کراتے ہیں مگر انھیں کوئی دوا مفت نہیں ملتی نہ کوئی ٹیسٹ مفت میں ہوتا ہے ۔

اس اسپتال کے لیے صوبائی بجٹ سے ہر سال رقم مختص کی جاتی ہے مگر یہ رقم کس مد میں خرچ ہوتی ہے اس کے بارے میں مختلف نوعیت کی باتیں گردش میں کرتی ہیں۔ جب سے جناح اسپتال کو سندھ میڈیکل یونیورسٹی کا حصہ بنایا گیا ہے ، اسپتال اور یونیورسٹی کے عملے کے درمیان تضادات ابھر کر سامنے آئے ہیں جن کا شکار مریض ہورہے ہیں۔ اسی طرح شہرکا تیسرا بڑا سرکاری عباسی شہید اسپتال ایک مسلسل بحران کا شکار ہے۔ اس اسپتال میں علاج کے لیے آنے والے مریضوں کو باہر سے ادویات خریدنی پڑتی ہیں اور ٹیسٹ کروانے پڑتے ہیں۔

ایمرجنسی وارڈ میں فرائض انجام دینے والے ایک ہاؤس افسرکا کہنا ہے کہ روزانہ زہر پینے کے 8 سے 10 مریض آتے ہیں۔ یہ مریض نچلے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ اسپتال سے انھیں زہرکے علاج کے لیے Anti-Dose دوائی فراہم نہیں کی جاسکتی۔ اس دوائی کی قیمت 8 سے 10 ہزار روپے ہے۔ زکوۃ سے دوا فراہم کرنے والا ایک مخیر ادارہ یہ دوا فراہم نہیں کرتا۔ یوں یہ دوا نہ ملنے سے کئی مریض جاں بحق ہوجاتے ہیں۔ جسم میں زہرکی مقدار معلوم کرنے کا ٹیسٹ بہت مہنگا ہوتا ہے، بہت سے مریض یہ ٹیسٹ کرانے کی استعداد نہیں رکھتے۔ اس اسپتال میں کام کرنے والے ٹرینی ڈاکٹروں اور ہاؤس افسروں کوگزشتہ سال سے تنخواہ ادا نہیں کی گئی۔

ٹرینی ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ وہ اسپتال کا نظام چلاتے ہیں مگر انھیں تنخواہوں سے محروم رکھا جاتا ہے۔ بلدیات کی رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں کا کہنا ہے کہ کراچی سٹی گورنمنٹ کے مالیاتی بحران سے سٹی گورنمنٹ کے اسپتال سخت متاثر ہوتے ہیں۔ یہی صورتحال اندرون سندھ سرکاری اسپتالوں کی ہے۔ بقول ایک ڈاکٹرکے کہ صرف ڈاکٹرادیب الحسن رضوی کے سندھ انسٹی ٹیوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن (S.I.U.T) کے علاوہ باقی اسپتالوں میں مریضوں کے لیے مایوسی کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ سندھ حکومت کی کارکردگی پر نظر رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ سندھ کرپشن اور بری طرزِحکمرانی کا شکار ہے۔ اس کے اثرات صحت کے شعبے پر بھی پڑے ہیں۔

سول اسپتال کا بے نظیر ٹراما سینٹر اس کی بدترین مثال ہے۔ فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے گزشتہ دنوں کہا ہے کہ فوج ہر سطح پرکرپشن کے خاتمے کے لیے تعاون کرے گی۔ شفافیت کے معیارکو بلند کرنے اوراچھی طرزِ حکومت رائج کرنے کے لیے ہر سطح پرکرپشن کا خاتمہ ضروری ہے۔کرپشن کے خاتمے کے لیے معاملات کا کھلا ہونا ضروری ہے۔ عوام کے جاننے کے حق کو یقینی بنانے کے لیے ایک مؤثر قانون کی ضرورت ہے مگر حکومت سندھ کسی بھی معاملے کو اوپن کرنا نہیں چاہتی۔ اس لیے وہ اطلاعات کے حصول کا قانون بہتر بنانے کو تیار نہیں ہے۔ ٹراما سینٹر 10 سال میں مکمل نہ ہونا طرزِ حکومت کی بدترین مثال ہے۔ اس کی ذمے داری صوبائی حکومت پرعائد ہوتی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں