ہم سب مفرور ہو چکے ہیں
ٹالسٹائی کے مطابق لوگوں نے زندگی کے سوالات سے بچنے کے لیے فرار کے چار مختلف طریقے اپنا رکھے ہیں
اب ہم سب مفرور ہو چکے ہیں ہمارا ملک مفرورستان بن کے رہ گیا ہے، اپنی اپنی ذمے داریوں اور فرائض سے مفرور، بین الاقوامی و ملکی کرپشن کے مفرور، اخلاقی و معاشرتی خرابیوں کے مفرور اوپر سے نیچے تک جہاں نظریں دوڑا لیں ہر جگہ آپ کو بغیر ڈھونڈے مفرور ہی مفرور نظر آئیں گے۔
ایک دوسرے سے چھپتے ایک دوسرے کو برا بھلا کہتے مفرور، ایک دوسرے پر الزام دھرتے مفرور، مضبوط پناہ گاہوں میں چھپے مفرور۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اپنے مفرور ہونے کے انھیں دس بیس نہیں بلکہ پورے ایک ہزار بہانے اچھی طرح سے رٹے ہوئے ہیں اور وہ ان بہانوں کو وجوہات قرار دیتے پھرتے ہیں بس آپ ان سے پوچھنے کی غلطی تو کر کے دیکھیں پھر آپ کو ایک سے ایک نایاب اور سنہری بہانہ سننے کو نصیب ہو جائے گا اور اس قدر تواتر کے ساتھ کہ تھوڑی ہی دیر میں آپ اپنی چپل چھوڑ کر فرار ہونے پر مجبور ہو جائیں گے اور وہ صاحب بڑے غصے سے ''بڑا پوچھنے آیا تھا'' کہتے ہوئے اپنی پناہ گاہ کی طرف جا رہے ہونگے۔
ٹالسٹائی کے مطابق لوگوں نے زندگی کے سوالات سے بچنے کے لیے فرار کے چار مختلف طریقے اپنا رکھے ہیں فرار کا پہلا اور سب مقبول طریقہ جہالت ہے اس کے شکار افراد یہ جاننے اور سمجھنے کی اہلیت ہی نہیں رکھتے ہیں کہ زندگی لغو یا بے معنیٰ ہے وہ اس کے شر کو جانچنے سے قاصر ہیں یہ وہ لوگ ہیں جو حضرت سلیمان، حضرت داؤد، بدھ، بیکن، سولن، شوپنہار یا سقراط کی ذہنی سطح سے کوسوں دور ہیں انھوں نے کبھی عفریت موت کو اپنے طرف بڑھتے ہوئے نہیں دیکھا اور نہ ہی ان چوہوں کو جو اس شاخ حیات کو کاٹ رہے ہیں جس سے وہ لٹکے ہوئے ہیں انھیں صرف شہد کے قطروں سے سروکار ہے جنہیں وہ متواتر چاٹ رہے ہیں۔
دوسرا طبقہ لذت پسندوں کا ہے یہ سب مسرت کو فرار کا بہتر طریقہ قرار دیتے ہیں یہ طبقہ زندگی کے حقائق اور تلخیوں سے بخوبی آگاہ ہے لیکن کھانے پینے عیش و عشرت اور انبساط و کیف کو ہر شے پر ترجیح دیتا ہے وہ عفریت اور چوہوں سے بھی باخبر ہیں اور ان کی موجودگی میں شہد چاٹنے ہی کو بہتر ین حکمت عملی مانتے ہیں ہمارے گرد و پیش میں انسانوں کی بڑی اکثریت اسی فلسفہ حیات کے سہا رے جیتی ہے اور اسے ہی کامیاب تسلیم کرتی ہے یہ لوگ اپنی زندگی کے مثبت پہلوؤں اور مسرتوں کو ناکامیوں اور محرومیوں پر ترجیح دیتے ہیں۔
ان کے خیال میں انھیں زندگی کی خوشیوں میں زیادہ اور بہتر حصہ ملا ہوتا ہے اپنی ذہنی اور اخلاقی کمتری یا کند ذہنی کے باعث وہ یہ سوچنے اور سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں کہ زندگی میں انھیں حاصل ہونے والی بیشتر نعمتیں حادثاتی ہیں اور یہ کہ حضرت سلیمان کی طرح ہر کسی کو ہزاروں محلات اور ہزاروں بیویاں میسر نہیں ہو سکتیں۔ فرار کا تیسرا طریقہ طاقت اور مضبوطی کا ہے اس کا طریقہ کار یہ جاننے میں مضمر ہے کہ زندگی بے مقصد، شر پر مبنی اور لا یعنی ہے۔
فرار کا چوتھا راستہ کمزوری اور بے مائیگی کا راستہ ہے یہ اس زندگی سے چمٹے رہنے کا راستہ ہے جس کی لغویت سے ہر کوئی واقف اور آگاہ ہو اور یہ بھی جانتا ہو کہ آیندہ بھی اس سے کوئی نتیجہ حاصل ہونے کا امکان نہیں۔ ہم اس لحاظ سے خوش نصیب اور خود کفیل واقع ہوئے ہیں کہ ہمیں چاروں قسم کے مفروروں سے پالا پڑا ہوا ہے سب سے مزے کی بات یہ ہے کہ یہ سارے مفرور ایک طرف تو اپنی پوری طاقت سے زندگی کی تمام لذتوں سے بھرپور لطف اندوز ہو رہے ہیں۔
زندگی کی تمام لذتوں پر قبضہ کیے بیٹھے ہیں انھیں یرغمال بنائے بیٹھے ہیں اور دوسروں کے لیے حرام قرار دیتے پھرتے ہیں ہیں اور جس جس کو جہاں جہاں موقع مل رہا ہے وہ مال غنیمت کو لوٹ کر موقعے سے فرار ہو رہا ہے اور دوسری طرف یہ سب حضرات اپنے اپنے ایجنٹوں کے ذریعے معصوم اور سیدھے سادے لوگوں میں انتہائی خاموشی کے ساتھ بددلی اور مایوسی پھیلانے میں مصروف ہیں۔ اگر آپ کو کہیں کوئی صاحب یہ کہتے ہوئے پائے جائیں کہ کچھ بھی کر لو کچھ بدلنے والا نہیں ہے 68 سالوں سے یہ ہی سب کچھ ہوتا آ رہا ہے اور آیندہ بھی یہ ہی سب کچھ اسی طرح سے ہوتا رہے گا تو آپ انھیں اسی وقت پہچان لیجیے گا کہ یہ صاحب مفروروں کے ایجنٹ ہیں اور مفروروں کا کام خوبصورتی سے آگے بڑھا رہے ہیں۔
یاد رکھیں دنیا میں ہم صرف واحد قوم نہیں ہیں جنہیں مفروروں سے پالا پڑا ہوا ہے ہم سے پہلے نہ نجانے کتنی قومیں مفروروں کو جھیل چکی ہیں ان کے کرتوتوں، کرتبوں اور چالاکیوں، شاطر پن کو برداشت کر چکی ہیں پھر جب سب کچھ ان کی برداشت سے باہر ہو گیا اور پھر جب وہ اپنے مفروروں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تو پھر سب کے سب مفرور اپنے اپنے ملکوں سے ایسے فرار ہوئے کہ آج تک وہ مفروروں کی زندگی غیر ملکوں میں گزار رہے ہیں اور اپنے لوگوں کو دن رات کوسنے میں مصروف ہیں۔
عظیم یونانی فلسفی پامنائی ڈیز نے کہا تھا ''جوکچھ بھی کہا جاتا ہے اور سوچا جاتاہے وہ ہے کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ موجود ہو اور یہ ممکن نہیں ہے کہ جو چیز نہ ہو وہ وجود رکھتی ہو کوئی شے جو سوچی جا سکتی ہے اور جس کی خاطر سوچا جا سکتا ہے، دونوں ایک ہیں کیونکہ تم کسی شے کے نہ ہونے پر کچھ سوچ نہیں سکتے۔
''اوڈیسی'' کا یہ اقتباس ہمارے لیے ہی ہے کہ ''بیزار روحوں تم پر کونسی مصیبت کی گھڑی آنے والی ہے، رات تمہارے سروں اور پیروں کو ڈھکے ہے تمہارے قدموں تلک صف ماتم چار جانب بچھی ہے، رخسار لتھڑے پڑے ہیں، سائبان بھرا پڑا ہے کمرے میں جمگھٹا ہے بھوتوں کا جو جانب جسم اور تاریکی رواں دواں ہیں آسمان میں آفتاب سرد ہو چکا ہے ملگجا کہرا سارے میں پھیلا ہے'' ظاہر ہے جو کچھ ہمارے ساتھ ہو رہا ہے اس سے زیادہ اور برا تو ہی نہیں سکتا ہے اگر ہم نے اپنے لیے یہ ہی سب کچھ سو چ رکھا تھا تو پھر جانے دو لیکن اگر ہم نے اپنے لیے ایک خوشحال، کامیاب بے فکر پر سکون پر اطمینان پر مسرت زندگی کے خواب دیکھ رکھے تھے تو پھر تم ہی بتاؤ کہ تم اپنے خوابوں کی اتنی تذلیل کیوں کر رہے ہو ان کی اتنی بے عزتی کیوں کر رہے ہو بیزار روحوں تم پر اب اور کونسی مصیبت کی گھڑی آنے والی ہے جتنی بھی مصیبتیں ہیں تم سب کی سب جھیل چکے ہو۔
اسی جہنم کے علاوہ کوئی اور جہنم دنیا میں نہیں ہے ان بھوتوں کے علاوہ اور کوئی بھوت نہیں ہیں۔ ان مفروروں کے علاوہ اور کوئی مفرور نہیں ہیں۔آؤ! اب وقت سبق سیکھنے کا نہیں بلکہ سکھانے کا آ گیا ہے اب مفروروں اور بھوتوں کو گھر میں چھپانے کا نہیں بلکہ نکالنے کا وقت آ گیا ہے، آؤ اپنے تمام مفروروں اور بھوتوں کو اپنی دنیا سے مفرور ہونے پر مجبور کر دیں۔