بے دست و پا بچی سوال کرتی ہے
کچھ عرصہ قبل کی بات ہے، ایک لڑکی کے بارے میں سننے کو ملا کہ ان کے والد خاصے امیر آدمی ہیں،
CAIRO:
کچھ عرصہ قبل کی بات ہے، ایک لڑکی کے بارے میں سننے کو ملا کہ ان کے والد خاصے امیر آدمی ہیں، بڑھاپے میں انھوں نے دوسری شادی کی تھی، جب کہ پہلی بیوی سے ہونے والی اولاد کی شادی بھی کر چکے تھے لیکن دوسری بیوی سے صرف ایک بیٹی تھی بے تحاشا دولت اور بیٹی کی ایک معصوم سی خواہش۔ بھلا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ والد پوری نہ کرے۔ وہ رشوت دینے پر تیار تھے کہ ان کی صاحبزادی ڈاکٹر بن جائے بس کسی طرح میڈیکل کالج میں داخلہ مل جائے، مجھے بہت شوق ہوا کہ اس لڑکی سے ملا جائے۔ پوچھا کہ آپ کو ڈاکٹر بننے کا شوق کیوں ہے۔
کیا آپ غریبوں کا مفت علاج کرنا چاہتی ہیں۔ کوئی اسپتال بنانا چاہتی ہیں یا بچپن سے ہی ڈاکٹر بننے کا شوق تھا۔ جواب ملا۔ بچپن سے ہی شوق تھا۔ اچھا تو آپ کو ڈاکٹر بننے کا شوق بچپن سے ہی تھا۔ جی بالکل مجھے سفید کوٹ ڈاکٹروں والا پہن کر گھومنا بہت اچھا لگتا ہے۔ ایں۔ ان کے اس جواب پر چکر تو آنے ہی تھے۔ صرف سفید کوٹ پہننا اچھا لگتا ہے۔ جی۔ اس جی کے آگے میرے پاس کوئی سوال نہ تھا کیونکہ ظاہر ہے کہ امرا کی اولاد کے نرالے شوق۔وہ چاہتے ہیں کہ ان کی بیٹی ڈاکٹر بنے۔ بہت شوق تھا انھیں ڈاکٹر بننے کا۔ وہ تو نہ بن سکے پر اب اپنی بیٹی کو بنانا چاہتے ہیں۔
یہ تھا ایک اور خواب جسے پورا کرنے کے لیے ایک باپ اپنی بیٹی کے لیے اچھے ٹیوٹر نہیں بلکہ ابھی اسکول کے درجے سے لے کر کالج تک ایک ایسا سلسلہ بن رہے ہیں کہ جس کے ذریعے ان کی صاحبزادی میڈیکل کالج تک پہنچ جائے اور کیونکہ اس خواب کو پورا کرنے کے لیے ان کے پاس وسائل بھی ہیں اب ان وسائل کا نہ پوچھیے کہ سب ہی واقف ہیں۔ لیکن شوق دیکھیے جو خود نہ بن سکے کہ اس وقت ان وسائل تک رسائی نہ تھی بہرحال اب تو ہے۔ لیکن ان کا یہ شوق جب اس بچی کا پروفیشن بن جائے گا تب کیا ہو گا۔ کیا اس شوق اور مسیحائی کا درجہ برابر رہے گا؟
بدین کے شہر پنگریو میں ایک ڈاکٹر کی غفلت (یا کم علمی کہہ لیں) کے باعث ایک بارہ سال کی بچی اپنے دونوں ہاتھ اور پیروں سے محروم ہو گئی ۔ بچی ڈائیریا کا شکار تھی اسے ایک نجی کلینک لے کر جایا گیا، پنگریو کا یہ کلینک جس پر بچی کے والدین نے سرکاری اسپتال کے مقابلے میں اعتماد کیا پر انھیں کیا ملا ڈاکٹر نے بچی کو اتنی ڈرپس لگائیں کہ اس کے ہاتھ پیر سوج گئے اور ناسور بن گئے والدین بے چارے کراچی لے کر آئے جہاں ڈاکٹر نے اس کی جان بچانے کی خاطر اس کے دونوں ہاتھ اور پیر کاٹ ڈالے۔ اب جو کوئی بھی ڈاکٹر کا کچھ کر لے لیکن کیا کوئی اس بچی کے ہاتھ اور پیر دوبارہ لا سکتا ہے؟ یہ ڈاکٹری (نام نہاد مسیحائی) کا کیسا شوق ہے جو ناگ بن کر ہمارے معاشرے کو ڈس رہا ہے۔ زہر ہے کہ ختم ہی ہونے میں نہیں آ رہا۔
کراچی شہر میں ڈاکٹرز کے تجربے کی ایک الگ کہانی ہے پھر بھی بہت معقولیت کے درجے پر آ ہی جاتی ہے لیکن اندرون سندھ اور ملک بھر میں یہ حال بہت اذیت ناک ہے۔ شاہ جمال میں ایک اتائی ڈاکٹر نے چاقو سے 6 ماہ کے بچے کے سر کا آپریشن کر دیا، سر میں پانی کی تھیلی تھی، بچہ جاں بحق ہو گیا۔ کچھ عرصہ پہلے اس طرح کا ایک کیس اور سامنے آیا تھا مگر نجانے کیسے وہ وقت کے اندھیروں میں کھو گیا۔
پورے پاکستان میں حال یہ ہے کہ والدین اپنے شوق اور بچوں کے شوق کی وجہ سے لاکھوں روپے لٹانے پر تیار ہیں کہ کسی طرح ان کے دل کے ٹکڑے سفید کوٹ پہن لیں۔ یہ شعبہ جسے انسانیت کی خدمت کے لیے عظیم سمجھا جاتا ہے اب محض شوق، تفریح اور نوٹ کمانے کی مشین بن گیا ہے۔ جو بچے ابھی اسکولوں میں پڑھ رہے ہیں وہ ابھی سے میڈیکل میں داخلے کے لیے سفارشیں ڈھونڈتے پھر رہے ہیں کیا ہمارے معاشرے میں اہلیت کا معیار بس یہی ہے چند لاکھ روپے رشوت اور کسی بڑے کی سفارش۔
اگر کوئی مجھ سے پوچھتا ہے تو میں نہایت صاف گوئی سے کہتی ہوں کہ پنجاب میں تعلیم کا معیار سندھ کے مقابلے میں کہیں بہتر ہے۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب میں ایک کورس کے لیے گئی تو وہاں ملک بھر سے طالب علم آئے ہوئے تھے، میں تعلیمی قابلیت کی بات کرتی ہوں۔ سندھ کے طالب علم اب ظاہر ہے کہ سارے کراچی سے تو شمار نہیں کیے جاتے لیکن پھر بھی سندھ سے ہی کہلائے جاتے ہیں ان کا معیار، قابلیت ہمارے پنجاب کے مقابلے میں کم ہے۔
میں بھی تو لڑکی ہوں۔ پھر بھی میں اس فیلڈ میں گئی اور دوسرے صوبے میں جا کر اس کورس کو اٹینڈ کیا لیکن میں نے دیکھا ہے کہ وہاں ہمارے ہاں کے مقابلے میں ریسرچ ورک پر بہت توجہ دی جاتی ہے طالب علموں کو آگے آنے کے مواقعے دیے جاتے ہیں، وہاں علمی مسابقت ہے، صرف قابلیت کے معیار پر۔ ہمارے یہاں سندھ میں ایسا نہیں ہو رہا۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یہاں قابلیت کی قدر نہیں کی جا رہی ہے جب کہ اس حساس شعبے میں قابلیت ہی سارا معیار ہے یہ اتنا حساس شعبہ ہے کہ ہم اسے عام لوگوں سے زیادہ ڈسکس بھی نہیں کر سکتے لیکن مجھے شدت سے احساس ہوتا ہے کہ ایسا غلط ہو رہا ہے۔ ہمیں اچھے طالب علموں کو ان کی ذہنی قابلیت کی بنا پر آگے بڑھنے کے مواقعے دینے چاہئیں، چاہے کہیں سے بھی اس طالب علم کا تعلق ہو۔ کیونکہ ہم ہمارے ملک کے لیے بہت اہم ہیں۔
وہ دیکھنے میں بہت چھوٹی، پیاری اور ذہین لڑکی تھی لیکن اس کے عزائم بلند تھے، میں اور آپ سب جانتے ہیں کہ کون سا شعبہ کس معیار کا ہونا چاہیے لیکن بدقسمتی سے ہم ہر قدم ہر سال ایک نیا گڑھا کھود رہے ہیں۔ دوسروں کی نقل کرنے سے بہتر ہے کہ کچھ اپنی بھی عقل کا استعمال کیا جائے کیا گڑھے کھود کھود کر ہم ووٹ بینک ڈھونڈتے ہیں کیا ہمارا ملک صرف ووٹرز کے حق کی وجہ سے چل رہا ہے۔ کیا ہم ترقی صرف اپنے، اپنی پارٹی، اپنی قوم، اپنے مقاصد، اپنے حقوق کی وجہ سے کرنا چاہتے ہیں؟ خدارا! ذرا لمحے بھر کو سوچیے اب کسی بچی کے ہاتھ پیر نہیں کٹنے چاہئیں۔ اب کوئی طالبعلم کسی درس گاہ میں جلنا نہیں چاہیے۔ اب ایسا نہیں ہونا چاہیے اتنا سوچ کر ذرا ہمت تو کریں آپ کو تھامنے والے، ہاتھ پکڑ کر آگے چلانے والے رب العزت نے بہت پیدا کر رکھے ہیں۔