پولیس پیشہ ورانہ مہارت سے محروم کیوں
گزشتہ دنوں برطانوی ہائی کمشنر نے بیان دیا کہ کراچی دنیا کے عظیم شہروں میں اپنے شمار کی صلاحیت رکھتا ہے
QUETTA:
گزشتہ دنوں برطانوی ہائی کمشنر نے بیان دیا کہ کراچی دنیا کے عظیم شہروں میں اپنے شمار کی صلاحیت رکھتا ہے، اس بیان کو پڑھنے کے بعد اپنے ناتواں قلم کو ولولہ خیز جسارت کے ساتھ انکشافات کے میدان میں اتارنے کی کوشش کی ہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 14 انسانی وقار اور عزت کو تحفظ دیتا ہے جب کہ آئین کے آرٹیکل 5 ہر شہری کو آئین و قانون کا پابند بناتا ہے۔
قانون کی پاسداری سے انکار کسی کو بھی نہیں مگر قانون کو لفظوں کے ہیرپھیر سے دکھانے کی کوشش کی جاتی ہے، کراچی شہر میں قانون کا درجہ حرارت برف کے ڈھیلے کی شکل اختیارکر چکا ہے، راقم کو خوف ہے کہ معزز شہریوں کے لیے جو تحریر لکھی گئی ہے اس بوسیدہ نظام کے لیے اس پر عمل ہوتا ہے یا جمہوریت کے نام پر بگاڑ کا چھڑکاؤ کر کے سنسنی خیز خبر سمجھ کر نظر انداز کیا جائے گا۔ مجھے حیرت ہے کہ اس لاقانونیت کے جنگل میں کوئی نیک سپوت کیوں نہیں نمودار ہوتا۔ اس شہر کراچی میں 95 فیصد موٹر سائیکل سوار حضرات نے شریف شہریوں کی زندگی اجیرن بنا دی ہے۔
ان 95 فیصد موٹر سائیکل سوار حضرات نے جو لاقانونیت کے جنگل میں ناقص حکمت عملی کے تحت ننگے پاؤں اتر گئے ہیں انھیں کوئی پوچھنے والا نہیں، شریف النفس شہری تلملاہٹ کا شکار ہیں۔ (یہ تحریر ان موٹر سائیکل حضرات کے لیے لکھی جا رہی ہے جو لاقانونیت کا مظاہرہ کر کے شادمانی اور مسرت کا شکار ہیں) اگر آئی جی سندھ قانون پر عمل درآمد کروا دیں تو اعصاب تلخ سوالات سے بچ جائینگے۔ پچھلے دنوں موٹر سائیکل سواروں کے لیے لائسنس کے اجرا اور پابندی کا اعلان کیا گیا، لاقانونیت کا شکار موٹرسائیکل والے سرطان کی طرح لائسنس آفسوں کے باہر پھیل گئے اتنے تو یہ بہادر ہیں۔
ایک موٹر سائیکل پر تین افراد جو طالبعلم ہوتے ہیں چلانیوالے کی عمر 14 سال پیچھے بیٹھنے والے کی عمر دس سال اور اس کے پیچھے جو تیسرا سوار ہوتا ہے اس کی عمر 8 سال اب بتایئے ان کی غلط ڈرائیو سے جب یہ کسی کار والے سے ٹکراتے ہیں تو لاقانونیت کے بدمعاش 20 موٹر سائیکلیں روڈ بلاک کر کے اس کار والے کی بے عزتی کرتے ہیں ۔
گزشتہ دنوں ایک شریف شہری کی کار سے ایک نوجوان جس کی عمر 18 سال ہو گی شکل سے اُچکا لگ رہا تھا جلدی نکلنے کے چکر میں اس کار والے سے ٹکرا گیا۔ یہ صاحب گورنمنٹ آفیسر تھے کیونکہ ان کی نمبر پلیٹ سرکاری تھی اور کچھ اور لاقانونیت کے بادشاہ روڈ بلاک کر کے کھڑے ہو گئے، اس شریف شہری کو گریبان سے پکڑ کر باہر نکالا اور احترام آدمیت کو پارہ پارہ کر دیا۔ یہ ہے اس شہر میں انکم ٹیکس ادا کرنیوالے شہری کا حال۔ ایسا محسوس ہوتا ہے یہ اودھم مچاتے نوجوان ملک الموت کی شکل اختیار کرتے جا رہے ہیں۔
اکثر اخبارات میں لکھا ہوتا ہے کہ کار والے نے موٹرسائیکل والے کو ٹکر مار دی بلکہ جملہ تو یہ ہے کہ موٹر سائیکل والا کار سے ٹکرا گیا اور ایسی خبروں سے شریف شہری ندامت پشیمانی کا شکار ہوتے ہیں نہ ان کے پاس لائسنس ہیں نہ سائیڈ گلاس ہیں نہ انڈی کیٹر (اشارہ) ہیں، اپنی مرضی سے مڑ جاتے ہیں اب تو کار کے انڈی کیٹر (اشارہ) کا مقصد فوت ہو گیا ہے لہٰذا کار بنانیوالی کمپنیوں کو چاہیے کہ اب نئی گاڑیوں میں انڈیکیٹر نہ لگائیں۔ آخر کچھ تو طرز زندگی میں تبدیلی آئے، موٹر سائیکل فروخت کرنیوالوں کو پابند کیا جائے کہ پہلے اوریجنل لائسنس دیکھیں اس کے بعد موٹر سائیکل لائسنس یافتہ کو فروخت کی جائے۔
اس شہر کراچی میں اندازے کے مطابق 70 فی صد ٹریفک بنا لائسنس کے سڑکوں پر شادمانی اور مسرت کے ساتھ گھوم رہے ہیں، ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ ٹریفک قانون نابینا ہو گیا ہے یہ لاقانونیت سے لتھڑے پولیو زدہ پہلوانوں کی شکل اختیار کر گئے، قانون شکن چوہے ڈائنوسار کا روپ دھار چکے ہیں۔ آئی جی، ڈی آئی جی حضرات کے سخت احکامات کے بعد چند روز میں برف پگھل جاتی ہے اور پھر یہ خدائی فوجدار دندناتے ہوئے میدان میں نکل آتے ہیں، حالات و واقعات لکھنے کے باوجود عمل نہ ہونے کی وجہ سے معزز شہری خاموشی کا لبادہ اوڑھ کر صبر کی دیوار تلے دُبک کر بیٹھ جاتے ہیں اور ہمارے پولیس افسران ایک پنی تلی رائے رکھتے ہیں وہ لاقانونیت کے گلے میں قانون کی رسی ڈالنے کے قطعی موڈ میں نہیں ہیں۔
بس چالان یا اس کی آڑ میں مٹھی گرم کرواتے ہیں۔ گفتگو کے میلوں میں قانون کا خاموش ڈھول بجانے کی کوشش جاری ہیں، کچھ قانون سے بے بہرہ موٹر سائیکل چلانیوالے سگنل توڑتے ہیں، گرین بتی ہونے سے قبل نکلتے ہیں، ان کے چکر میں قانون پسند شہری افراتفری کا شکار ہو کر عدم استحکام سے دو چار ہو جاتے ہیں۔ پولیس کو بھی چاہیے کہ اب مذمتی بیانات کا سلسلہ ختم کرے، ہمارے چند پولیس افسران (جو نیک شہرت کے حامل ہیں) خوابوں کی جزیروں سے نکلیں اور حقائق کی دنیا میں قدم رکھیں، معاف کیجیے گا اکثر درست حقائق تلخ ہوتے ہیں کیونکہ جب مردہ قانون کا جنازہ تیار ہو تو لاقانونیت کا جنازہ پڑھانے والا بھی نہیں ملتا اور جب عقل فوت ہو جائے تو نسلیں بھی شاطرانہ سازش کا شکار ہو کر کمزور توانائی کے ساتھ ظلم سہتے سہتے کسی اﷲ کے سپاہی کی منتظر ہوتی ہیں۔
دنیا کے مہذب ملکوں میں موٹر سائیکل حضرات صرف الٹے ہاتھ پر موٹر سائیکل چلاتے ہیں، مہذب اس لیے لکھا ہے کہ ہمارے سیاستدان اپنی جان چھڑانے کے لیے (ان حالات پر بھی) ہمیں مہذب ملکوں کا حوالہ دے کر شرمندہ کرتے ہیں۔ سب سے پہلے ان موٹر سائیکل والے حضرات کو ایک ماہ کا نوٹس دیتے ہوئے پابند کریں کہ سائیڈ گلاس، نمبر پلیٹ، انڈی گیٹر پہلی فرصت میں لگوائیں اور الٹے ہاتھ پر چلیں کیونکہ بے احتیاطی، جلد بازی، رش، بھیڑ، حادثے اور جھگڑے کی وجہ صرف اور صرف قانون کی پیٹ میں چھرا گھونپ کر یہ (چند موٹر سائیکل) چلانے والے حضرات ہیں۔ خدارا ان کو لگام دیجیے ۔ عدالت عظمیٰ کی پابندی کے باوجود 9 سیٹرز سی این جی رکشہ چلائے جا رہے ہیں اور یہ رکشہ بغیر نمبر پلیٹ کے نوعمر افراد چلارہے ہیں۔
عدالت عظمیٰ نے ان پر پابندی عائد کی تھی ان کی وجہ سے شہر کے حالات گمبھیر ہو گئے ہیں۔ 20 فٹ چوڑے روڈ پر یہ 10 فٹ پر آپ کو چھتوں کی صورت میں نظر آئینگے کسی رکشے پر نمبر پلیٹ نام کی کوئی چیز نہیں ہے حادثے کی صورت میں قانونی کارروائی کیسے کرینگے؟ باقی جو 10 فٹ روڈ بچتا ہے اس سے ٹرک، کاریں، ویگن، موٹر سائیکل غرض ہر قسم کا ٹریفک گزرتا ہے اور پھر گھنٹوں ٹریفک جام رہتا ہے۔
انھوں نے بھی دادا گیری کے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ ٹریفک کے حوالے سے ان کی موجودگی میں جنگ و جدل کا منظر ہوتا ہے، قانون شکن موٹر سائیکل اور رکشے والوں نے شریف شہریوں کو تگنی کا ناچ نچوا دیا ہے، خدارا انھیں قانون کی بساط میں لپیٹ دیجیے سیاسی درجہ حرارت پر پولیس کو چاہیے کہ مٹی ڈال دیں کیوں کہ ان لوگوں نے قانون عزت و احترام کی دھجیاں اڑا کر رکھ دی ہیں کیا اس نظام کو درست کرنے کے لیے ہم جنت سے تو فرشتے لانے سے رہے۔ کیا ہم یہ سمجھ لیں یا یہ ہمارا وہم ہے کہ سیاسی مجبوریوں کی وجہ سے ہماری پولیس پیشہ ورانہ مہارت سے محروم ہو گئی ہے، آئی جی صاحب آپ ایک دلیر آفیسر ہیں یقیناً اس تحریر کو نظر انداز نہیں کریں گے کہ آپ حیدرآباد سندھ کے شہریوں کے لیے واجب الاحترام رہے ہیں۔