ریاست کی بے بسی

عوام نے تو ہمیشہ ایک ترقی دوست، مہذب اور شائستہ ریاستی ڈھانچے کی تشکیل کی تمنا میں اپنا حق رائے دہی استعمال کیا

muqtidakhan@hotmail.com

کبھی کبھی یہ احساس ہوتا ہے کہ اس ملک کی حکمران اشرافیہ، مراعات یافتہ طبقات اور نوکرشاہی نے مل کر پاکستانی ریاست کو بے بس بنا دیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ روز اول سے ایک متوازی نظام چلانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس ملک کی سیاسی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو خرابیِ بسیار میں عوام کا نہیں حکمرانوں کا کلی کردار ہے۔

عوام نے تو ہمیشہ ایک ترقی دوست، مہذب اور شائستہ ریاستی ڈھانچے کی تشکیل کی تمنا میں اپنا حق رائے دہی استعمال کیا، مگر ملک کے مقدر پر ناگن کی طرح کنڈلی مارے بیٹھی اشرافیہ نے ہمیشہ عوامی مفادات کے برخلاف کام کیا۔ آیئے ذرا ایک سرسری سی نظر ملک کی سیاسی تاریخ پر ڈال لیں، تاکہ اندازہ ہوسکے کہ کس کس نے اس ریاست کو بے بس بنانے میں کردار ادا کیا ہے۔ کئی واقعات ایسے بھی ہیں جو ایک سے زائد مرتبہ انھی صفحات پر رقم کیے جا چکے ہیں، مگر خرابیِ بسیار کو سمجھنے کے لیے ان کا بار بار دہرایا جانا بھی ضروری ہے۔

قیام پاکستان سے تین روز قبل بانیِ پاکستان نے دستورساز اسمبلی کے افتتاحی اجلاس میں جامع تقریر کی جس میں ریاست کے مستقبل کے خاکے سے سماجی ڈھانچے تک ہر موضوع پر تفصیلی اظہار خیال کیا۔ بیوروکریٹس کے ایک بااثر ٹولے نے چوہدری محمد علی مرحوم کی قیادت میں اس تقریر کے بعض حصے سنسرکر کے دراصل 1916سے 1947کے دوران وفاقیت کی بنیاد پر پارلیمانی جمہوریت اور اقلیتوں کے حقوق کی جدوجہد کو سبوتاژکرنے کی کوشش کی۔ یہیں سے پاکستان کو برٹش انڈیا کے مسلمانوں اور ان کے قائد محمد علی جناح کی خواہشات کے برخلاف ایک تھیوکریٹک ریاست میں تبدیل کرنے کا سلسلہ شروع ہوا۔

بااثر بیوروکریسی مسلم لیگ کی غیر واضح پالیسیوں کے باعث قیام پاکستان کے ساتھ ہی طاقتور اسٹبلشمنٹ کی شکل اختیار کرگئی تھی۔ ریاستی امور اور منصوبہ سازی میں سیاستدانوں کو نظر انداز کرنے کے حوالے سے معروف دانشور حمزہ علوی مرحوم لکھتے ہیں کہ بظاہر لیاقت علی خان مسلم لیگ کے سیکریٹری جنرل اور ملک کے پہلے وزیراعظم تھے، مگر وہ اس قدر بے بس تھے کہ اکثرکابینہ میٹنگوں میں اپنے وزراء سے کہا کرتے تھے کہ کوئی فیصلہ کرنے سے قبل چوہدری محمد علی سے پوچھ لوکہ وہ اسے منظور ہے یا نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بیوروکریسی کی بلاجواز مداخلت سے تنگ آکر دو مرتبہ انھوں نے اپنے عہدے سے استعفیٰ بھی دیا۔

1953سے54کے دوران چند اہم واقعات رونما ہوئے۔ پہلا واقعہ فروری1953 میں لاہور میں ہونے والے پرتشدد فسادات تھے۔ یہ فسادات اس قدر متشدد ہو گئے تھے کہ انھیں سنبھالنا سول انتظامیہ کے لیے ناممکن ہوگیا۔ نتیجتاً مارچ کے پہلے ہفتے میں جنرل اعظم خان کو لاہور اور دیگر شہروں میں ملک کی تاریخ کا پہلا مارشل لا لگانے کا حکم دیا گیا۔ یہ اقدام غیر جمہوری قوتوں کو اقتدار پر قابض ہونے کی راہ دکھانے کا ذریعہ بنا۔ اس سے قبل مارچ 1949میں ملک کو تھیوکریسی کی طرف دھکیلنے کے لیے دستور ساز اسمبلی سے قرارداد مقاصد منظور کرائی جا چکی تھی جو ریاست کے منطقی جواز کو کنفیوزڈ بنانے کا سبب بنی۔

دوسرا واقعہ دسمبر1953 میں سابقہ مشرقی پاکستان میں مولوی فضل الحق، حسین شہید سہروردی اور مولانا عبدالحمید خان بھاشانی کی قیادت میں قائم ہونے والا چار جماعتی اتحاد تھا جس نے 21نکاتی ایجنڈا پیش کیا تھا۔ اس ایجنڈے میں صوبائی خودمختاری، بنگلہ زبان کی قومی حیثیت تسلیم کیا جانا اور زرعی اصلاحات جیسے مطالبات شامل تھے۔ یہ اتحاد یونائیٹڈ فرنٹ یا بنگلہ میں جگتو فرنٹ کے نام سے مشہور ہوا۔ 1954کے اوائل میں ہونے والے صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں اس اتحاد نے 309کے ایوان میں 223 نشستیں حاصل کرلیں۔ اس سے زیادہ بیہودگی اورکیا ہوگی کہ منتخب ہونے والے وزیر اعلیٰ مولوی فضل الحق (جنہوں نے قرارداد لاہور پیش کی تھی) پر ملک دشمنی کا الزام لگا کر گورنر جنرل ملک غلام محمد نے (جو سابق بیوروکریٹ تھے) صوبائی حکومت تحلیل کرکے گورنر راج نافذ کردیا۔ بیوروکریسی کا اقدام اردو کو قومی زبان بنانے کے بعد بنگالیوں کو پاکستان سے متنفرکرنے کا دوسرا بڑا سبب بنا۔

1954میں نئے آئین کا مسودہ تیار ہوگیا۔ یہ ایک وفاقی پارلیمانی آئین کا مسودہ تھا۔ جس کے مطابق تمام انتظامی اختیارات وزیراعظم کو منتقل ہونا تھے، جب کہ صدر کا عہدہ پارلیمانی روایات کے مطابقCeremonial تھا۔اس مسودے کو دیکھنے کے بعد ملک غلام محمد کے ذہن میں دو خدشات نے جنم لیا۔ اول، ہوسکتا ہے کہ آئین کی منظوری کے بعد اسمبلی انھیں صدر بنانے کے بجائے کسی دوسرے شخص کو صدر نامزد کردیا جائے۔ دوئم اگر وہ صدر منتخب ہو بھی گئے تو ان کی حیثیت صرف ربڑ اسٹیمپ کی ہوکر رہ جائے گی۔ یہ پٹی انھیں قدرت اللہ شہاب مرحوم سمیت چند بیوروکریٹس نے پڑھائی تھی۔

بالآخر انھوں نے 24اکتوبر 1954کو دستور سازاسمبلی تحلیل کردی۔ اسمبلی کی غیرآئینی تحلیل کے خلاف بنگالی اسپیکر مولوی تمیز الدین خان نے سندھ چیف کورٹ کا دروازہ کھٹکٹایا۔ جس نے اسمبلی کی تحلیل کو غیرآئینی قرار دیتے ہوئے بحال کرنے کا حکم دیا۔ مگر جب مقدمہ سپریم کورٹ میں گیا، تو جسٹس منیر کی سربراہی میں عدالتی بنچ نے نظریہ ضرورت کو بنیاد بناتے ہوئے گورنر جنرل کے اقدام کی توثیق کردی۔ یہ وہ فیصلہ تھا جس نے آنے والے دنوں کے لیے غیر جمہوری اقدامات کی راہ ہموارکی۔


جگتو فرنٹ کی کامیابی نے مغربی پاکستان میں بیٹھی با اثربیوروکریسی، فیوڈل سیاستدانوں اور گماشتہ سرمایہ داروں کو خوفزدہ کردیا تھا،کیونکہ اس فرنٹ کے منشور میں زرعی اصلاحات اور سرمایہ کی گردش پر نظر رکھنے جیسے اقدامات تجویز کیے گئے تھے۔ مشرقی پاکستان کی آبادی 54فیصد جب کہ مغربی پاکستان کے چاروں صوبوں کی کل آبادی46 فیصد تھی۔ اس لیے یہ نظر آرہا تھا کہ زیادہ تر وزرائے اعظم بنگال سے ہوسکتے ہیں۔ اس لیے بنگالیوں کا اقتدار میں راستہ روکنے کی خاطر بنگالی زبان کو قومی زبان کا درجہ دینے کے عوض ان کی عددی اکثریت کو پیرٹی کی بنیاد پر ختم کرنے پر آمادہ کیا گیا۔

ساتھ ہی مغربی حصے کے چاروں وفاقی یونٹوں کی تاریخی، سیاسی، سماجی اور ثقافتی حیثیت کو ختم کر کے انھیں ایک یونٹ بنادیا گیا۔ یوں مئی1955میں بحال ہونے والی دستور اسمبلی نے 30ستمبر1955کو مغربی حصے کی چاروں اسمبلوں سے انضمام کے حق میں قرارداد کی منظوری لینے کے بعد 14 اکتوبر 1955 کو دستور ساز اسمبلی سے اس منصوبے کو منظور کرکے نافذ کردیا۔ یوں پاکستان ایک وفاقی پارلیمانی جمہوریہ سے وحدانی ریاست میں تبدیل ہوگیا۔

کہانیاں تو بہت ہیں، لیکن جس طرح بیوروکریسی نے روزل اول سے سیاسی قیادتوں کو اپنا دست نگر بنانے کے لیے نت نئی محلاتی سازشیں کی ہیں، اس نے پاکستان کو ایک زد پذیر(Fragile) ملک بنادیا ہے ۔ ایوب خان کا اقتدار پر قبضہ اور آمرانہ اقدامات کی وجہ سے ریاست گریز قوتوں کو مضبوط ہونے کا موقع ملا۔ جب کہ یحییٰ خان نے اقتدار میں آکر ایسے اقدامات کیے جن کے نتیجے میں ملک دو لخت ہوگیا، مگر تاریخ سے سبق سیکھنے کے بجائے محلاتی سازشوں کا سلسلہ بدستور جاری رہا۔ بھٹو اور بینظیر کی حکومتوں کو جس انداز میں ختم کیا گیا، وہ تاریخ کے سیاہ ترین ابواب ہیں۔ یہ وہ سازشی کھیل ہیں جو11اگست1947کو بابائے قوم کی تقریرکو سنسر کرنے سے شروع ہوئے تھے اور آج تک جاری ہیں۔

اس حوالے سے بھٹو مرحوم کی آخری کتابIf I am assassinatedسے ایک اقتباس رقم کرنا بے محل نہ ہوگا۔ کیونکہ اس سے ان ڈراموں کو سمجھنے میںمدد ملے گی، جو پاکستان میں کھیلے جارہے ہیں۔ بھٹو مرحوم لکھتے ہیں کہ'' PNAکی تحریک عروج پر تھی کہ ایک روز رفیع رضا میرے پاس آئے۔ وہ خاصے پریشان اور بوکھلائے ہوئے لگ رہے تھے ۔میں نے پوچھا کہ رفیع رضا کیا ہواہے؟ انھوں نے چھٹی کی درخواست میری طرف بڑھاتے ہوئے کہا کہ Sir, the government has turned against us۔ میں نے ہنستے ہوئے کہا کہ تمہیں کیا ہوگیا ہے رفیع رضا؟ ہم حکومت ہیں ، میں وزیر اعظم ہوں اور تم میرے مشیر ہو۔ ہم کس طرح خود اپنے مخالف ہوسکتے ہیں؟ وہ بولے No Sir, the actual government is somewhere else۔اس اقتباس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ملک میں اصل حکمرانی کس کی رہی ہے اور آج تک قائم ہے؟

اسٹبلشمنٹ کا کردار روز اول سے سب پر عیاں ہے، مگر سیاستدانوں نے بھی کوتاہ بینی، بے بصیرتی اور عزم و جرأت سے عاری ہونے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ ابتدائی گیارہ برسوں کے دوران تو دستور ساز اسمبلی کے کل176اجلاس ہوئے، جن میں قرارداد مقاصد کی منظوری کے علاوہ کوئی اورکام نہیں ہوا۔ ہر صوبائی اسمبلی میں جوتم پیزار روز کا معمول تھی۔

بھٹو مرحوم نے ملک کو آئین دینے کے ساتھ کئی عمدہ کام سرانجام دیے، مگر انھوں نے بھی اسٹبلشمنٹ کو خوش کرنے کی خاطر اپنے فطری اتحادیوں نیشنل عوامی پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کے بجائے ان کے سیاسی کردار کو متنازع بنانے کی کوشش کی۔ بلوچستان میں شہنشاہ ایران کو خوش کرنے کی خاطر بلاجواز آپریشن کیا۔ اس کے علاوہ سردار داؤد کی حکومت کے مخالف افغان قبائلی سرداروں اور بنیاد پرست مذہبی رہنماؤں کے ذریعے وہاں بغاوت کرانے کی کوشش کی۔ خود پاکستان کے اندر مذہبی حلقوں کو خوش کرنے کی خاطر جمہوری آئین کا حلیہ تک بگاڑنے سے گریز نہیں کیا، مگر وہی مذہبی حلقے ان کی حکومت کے خاتمے کا سبب بنے۔

گیارہ برس تک بدترین آمریت کے بعد جب جمہوریت بحال ہوئی تو تاریخ کے تلخ ابواب سے سبق سیکھنے کے بجائے سیاسی جماعتیں 11برس تک ایک بار پھر ایک دوسرے کے ساتھ دست وگریباں ہو گئیں جس کی وجہ سے اس عرصے میں قومی ترقی کے ضمن میں کوئی ٹھوس اور پائیدار اقدامات نہیں کیے جا سکے۔ نتیجتاً نئی صدی کی آمد سے ڈیڑھ ماہ قبل ایک نئی آمریت مسلط ہوگئی۔

2008 میں جمہوریت کی بحالی کے بعد سے ایک بار پھر چوہے بلی کا کھیل شروع ہوچکا ہے۔ اس عرصے میں قائم ہونے والی دونوں میں سے کوئی بھی حکومت سلیقے کے ساتھ اپنی ترجیحات کا تعین کرنے اور ان پر عمل کرنے میں ناکام ہے۔ پاکستانی ریاست اور اس کے عوام حکمران اشرافیہ (سیاسی اور غیر سیاسی دونوں) کے ہاتھوں یرغمال بن چکے ہیں۔ اس لیے وقت گذرنے کے ساتھ بہتری کے آثار کم سے کمتر ہوتے جارہے ہیں اور ریاست کی بے بسی بڑھتی جارہی ہے۔
Load Next Story