سول ملٹری تعلقات اندیشوں کی زد میں
اِس ضمن میں حقائق کو تسلیم کرنے کی بجائے اُس سے انکار کی راہیں تلاش کرتے رہتے ہیں۔
سول اور ملٹری تعلقات کے حوالے سے ہمارے یہاں کچھ لوگوں کو ہمیشہ خدشات اور وسوسے گھیرے رہتے ہیں کہ کہیں یہ تعلقات باہمی ہم آہنگی اور معاملہ فہمی میں اِس قدر مضبوط اور پائیدار نہ ہو جائیں کہ پھر اُن کے دل کے نہاں خانوں میں چھپی اُس آرزو کا جنازہ ہی نہ نکل جائے جس کے پورا ہونے کی اُمید میں وہ کئی سالوں سے تگ و دو کر رہے ہوتے ہیں۔
معاملہ ''میموگیٹ'' کا ہو یا ''پانامہ اسکینڈل'' کا وہ ہرچھوٹے بڑے موقعے پر جی ایچ کیو کی جانب سے کسی غیر معمولی اقدام کا انتظار بڑی بے چینی اور سراسیمگی سے کرنے لگتے ہیں۔ اُن کے کانوں میں فوراً ہی ٹرپل ون بریگیڈ اور فوجی بوٹوں کی گھڑگھراہٹ سنائی دینے لگتی ہے۔ اُنھیں ملک کے حکمرانوں کے ساتھ ملٹری قیادت کی ذہنی ہم آہنگی اور معاملہ فہمی ایک آنکھ نہیں بھاتی۔
اِس ضمن میں حقائق کو تسلیم کرنے کی بجائے اُس سے انکار کی راہیں تلاش کرتے رہتے ہیں۔ جمہوریت کی لاش گرانے اور غیر جمہوری نظام کے خواہش مند اِس قبیلے کے لوگ ہمیشہ اِسی کوشش میں سرگرداں رہتے ہیں کہ فوج کسی طور جمہوری سیٹ اپ کو سمیٹنے کی کوئی صورت نکالے اور ایک قومی ٹیلنٹ کی کابینہ کو قصرِ اقتدار پر فروکش کر دے، جس کے وہ ایک بار پھر نفسِ ناطقہ بن جائیں۔
اُن لوگوں کو منتخب جمہوری نظام کبھی بھی راس نہیں آتا۔ وہ پہلے 58-B2 کے تحت آئین اور دستور کے نام پر جمہورکشی کیا کرتے تھے اور ہر دو ڈھائی سال بعد منتخب حکومت کو چلتا کر کے اپنی مضطرب و بے چین آرزؤں کی تسکین کا سامان پیدا کرتے تھے، مگر اب جب سے یہ طلسماتی کنجی سابقہ پارلیمنٹ نے اتفاقِ رائے سے سمندر میں غرق کر دی ہے تو وہ جمہوری حکومت کی بساط لپیٹنے اور غیر معینہ مدت پر محیط ایک غیرجمہوری سیٹ اپ کی سبیلیں تلاش کرتے پھر رہے ہیں۔
ایسے میں جب اُنھیں آرمی چیف کا کوئی ایسا بیان سنائی دیتا ہے جس میں حکومت سے گڈگورننس اور کرپشن کے سدباب کے لیے کہا جائے تو خوشی سے پھولے نہیں سماتے۔ اُن کی نظر میں اِس کا مطلب پھرجمہوری نظام کی گردن دبوچنے اور اقتدارکے قلعے پر کمند ڈالنے کا وقت آ گیا ہے۔ یہاں ایسے لوگوں کی کوئی کمی نہیں جن کو چور دروازے سے ایوانِ اقتدار میں داخل ہونے کا چسکا پڑگیا ہے۔ جن لوگوں کے منہ کو جمہوریت کا خون لگ گیا ہو اُنھیںمنتخب جمہوری نظام کبھی راس نہیں آتا۔ وہ ہر وقت اِسی لمحے کے انتظار میں بیٹھے رہتے ہیں کہ کہیں سے سول ملٹری تعلقات میں خرابی کی خبر آئے اور وہ اپنی ناکام اور نامراد حسرتوں کو پورا ہوتا ہوا دیکھیں۔
اِس قبیلے کے لوگوں میں ہمارے کچھ سیاسی زعماء کے ساتھ ساتھ بے قابو الیکٹرانک میڈیا کے اینکرز اور صحافی حضرات بھی شامل ہیں جن کی روزی روٹی اِسی طرح کی خبریں پھیلانے سے جڑی ہوئی ہے۔ وہ اگر ایسا نہ کریں تو اُنھیں شاید نیند بھی نہ آئے۔ وہ ہر شام ایسی ہی غیر مستند اور بے پرکی خبروں کو اپنے پروگراموں کا موضوع بنا کر معاشرے میں ہیجان پیدا کرتے رہتے ہیں۔
دھرنے والے دنوں میں تو اُنھیں ایک پل کی فرصت بھی نہ تھی۔ وہ ہر صبح اُٹھ کر دھرنے کے عزائم اور مقاصد کی کامیابی کی فکر میں زمین وآسماں ایک کر دیتے اور پھر شام کو یہ ''مفلسانِ فہم و ذکا'' اپنی ''مجلسِ کور چشماں'' سمیٹ کر گھر چلے جاتے۔ وہ بیچارے اورکریں بھی کیا کیونکہ کہ آج مسندِ صدارت پر نہ کوئی غلام اسحاق خان بیٹھا ہوا ہے اور نہ کوئی فاروق احمد لغاری اور نہ کسی کے پاس 58-B2 کی شکل میں کوئی آئینی اور قانونی تلوار موجود ہے جس کے ذریعے جمہوریت پر شبِ خون مارا جا سکے۔
رہ دے کے جی ایچ کیو ہی رہ گیا ہے جہاں سے وہ حالات کو اپنی خواہشوں کے قالب میں ڈھالنے کی جستجو کرتے رہتے ہیں، لیکن افسوس اُن کی قسمت پہ کہ وہاں بھی اب ایک ایسا شخص اپنے مکمل جاہ و جلال اور آب تاب کے ساتھ فروکشِ ہے جسے کوئی بھی اپنی بیمار خواہشوں کے لیے اُکسا نہیں سکتا۔ اُس کے عہدے کی تین سالہ مدت میں توسیع کو بھی کچھ لوگوں نے متنازع بنانے کی بہت کوششیں کیں لیکن اُس نے اِس ضمن میں قبل از وقت ایک صاف اور واضح اعلان کر کے ایسے بد اندیشوںکی اُمیدوں پر پانی پھیر دیا۔
جنرل راحیل شریف جنھیں وزیرِاعظم نے اُن کی قابلیت اور لیاقت کو بالکل درست انداز میں جانچتے ہوئے دوسرے جنرلوں پر فوقیت دے کر آرمی چیف مقرر کیا تھا، اِس وقت قوم کے سب سے مقبول و معروف شخصیت ہیں۔ اُنھوں نے بہت کم عرصے میں اپنی قائدانہ خوبیوں اور صلاحیتوں کے سبب قوم کے ہر فرد کے دل میں جگہ پیدا کر لی ہے۔ اُنھوں نے ملک سے دہشت گردی کے خاتمہ کا تہیہ کیا ہوا ہے اور وہ بڑی حد تک اپنے اِس عزم اور ارادے میں کامیاب و سرخرو بھی ہوئے ہیں۔
اُن کی خوبی یہ ہے کہ وہ مورچوں پر تعینات جوانوں کا حوصلہ بڑھانے کے لیے بنفسِ نفیس پہنچ جاتے ہیں۔ ساتھ ہی کراچی میں امن قائم کرنے کا سہرا بھی اُنہی کے سر ہے۔ اُنھوں نے اپنی ذہانت اور بصیرت سے یہ مشکل ترین اور ناممکن کام بھی بڑے احسن طریقے سے کر دکھایا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ پاک چائنہ کوریڈور کے منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے بھی وہ پوری طرح مستعد اور پُرعزم ہیں۔ اِس منصوبے کے لیے اُن کی غیرمعمولی دلچسپی اور سرپرستی نے ہی اِس منصوبے کو اب تک ''کالا باغ ڈیم'' جیسا متنازعہ منصوبہ بننے سے روکا ہوا ہے۔
ورنہ کوئی بعید نہ تھا کہ ہماری قسمت اور تقدیر بدل کے رکھ دینے والا یہ عظیم منصوبہ بھی ہماری آپس کی چپقلش اور بدگمانی کا شکار ہو کر ناقابل ِعمل اور ناقابل ِتعمیر قرار دے دیا جاتا۔بلوچستان میں بدامنی کی فضا کو دور کر کے وہاں امن و امان قائم کرنا بھی کوئی آسان کام نہیں تھا۔ فورسز کے خلاف بڑھتی ہوئی نفرت نے وہاں ملک دشمنی کی سی فضا پیدا کر دی تھی، لیکن الحمد اللہ اب حالات بدل چکے ہیں۔ اب وہاں علیحدگی پسند اور بغاوت پر مصر تمام لوگ ملکی وحدت و سا لمیت کی باتیں کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
یہ سب ہمارے اِسی آرمی چیف کی مخلصانہ کوششوں کا نتیجہ ہے۔ اتنے عظیم شخص کی خدمات کا اعتراف کرنے کی بجائے ہم اُنھیں بھی سیاست کے پراگندہ ماحول میں گھسیٹنا چاہتے ہیں۔ اُن کی تقریروں اور بیانو ں میں کچھ لوگ اپنے مطلب کے پہلو تلاش کرتے رہتے ہیں۔ اُن کی حتیٰ مقدور کوشش یہی ہوتی ہے کہ وہ اپنی تین سالہ مدتِ ملازمت پوری کرنے سے پہلے موجودہ حکومت کی سرکوبی کا سامان کر ڈالیں۔ ملک کی تاریخ میں پہلی بار سول ملٹری تعلقات میں یہ فکری ہم آہنگی اور انڈر اِسٹینڈنگ کچھ لوگوں کو ہضم نہیں ہو پا رہی۔
اُن کی دلی خواہش تو یہی ہے کہ کسی طرح یہ آرمی چیف بھی اپنے پیش رو جنرلوں کی طرح اقتدار پر قبضہ کر کے، زندگی بھرکی متاعِ نیک نامی گنوا کر رسوائیوں کی اذیتوں سے دوچار ہو جائیں۔ جو عزت اور قدر و منزلت اُنھیں ایک غیرجانبدار فوجی جنرل کی حیثیت میں ملی ہے وہ اُسے خیرباد کہتے ہوئے سیاست کے گندے سمندر میں چھلانگ لگا کر سرخروئی کی بجائے ہزیمت اور بدنامی کا داغ لے کر فوج سے رخصت ہوں۔
ہمارے کچھ سیاسی پنڈتوں کے لیے یہ سال اِس لحاظ سے بہت اہم ہے کیوں کہ جیسا کہ ہم سب کو معلوم ہے کہ نومبر میں موجود ہ آرمی چیف کی مدت ِ ملازمت ختم ہو رہی ہے، لٰہذا اِن سیاسی پنڈتوں کے لیے جو ہر تین ماہ بعد ملک کے اندرکسی نئی تبدیلی کو رونما ہوتا دیکھ رہے ہوتے ہیں پریشان ہیں۔
معاملہ ''میموگیٹ'' کا ہو یا ''پانامہ اسکینڈل'' کا وہ ہرچھوٹے بڑے موقعے پر جی ایچ کیو کی جانب سے کسی غیر معمولی اقدام کا انتظار بڑی بے چینی اور سراسیمگی سے کرنے لگتے ہیں۔ اُن کے کانوں میں فوراً ہی ٹرپل ون بریگیڈ اور فوجی بوٹوں کی گھڑگھراہٹ سنائی دینے لگتی ہے۔ اُنھیں ملک کے حکمرانوں کے ساتھ ملٹری قیادت کی ذہنی ہم آہنگی اور معاملہ فہمی ایک آنکھ نہیں بھاتی۔
اِس ضمن میں حقائق کو تسلیم کرنے کی بجائے اُس سے انکار کی راہیں تلاش کرتے رہتے ہیں۔ جمہوریت کی لاش گرانے اور غیر جمہوری نظام کے خواہش مند اِس قبیلے کے لوگ ہمیشہ اِسی کوشش میں سرگرداں رہتے ہیں کہ فوج کسی طور جمہوری سیٹ اپ کو سمیٹنے کی کوئی صورت نکالے اور ایک قومی ٹیلنٹ کی کابینہ کو قصرِ اقتدار پر فروکش کر دے، جس کے وہ ایک بار پھر نفسِ ناطقہ بن جائیں۔
اُن لوگوں کو منتخب جمہوری نظام کبھی بھی راس نہیں آتا۔ وہ پہلے 58-B2 کے تحت آئین اور دستور کے نام پر جمہورکشی کیا کرتے تھے اور ہر دو ڈھائی سال بعد منتخب حکومت کو چلتا کر کے اپنی مضطرب و بے چین آرزؤں کی تسکین کا سامان پیدا کرتے تھے، مگر اب جب سے یہ طلسماتی کنجی سابقہ پارلیمنٹ نے اتفاقِ رائے سے سمندر میں غرق کر دی ہے تو وہ جمہوری حکومت کی بساط لپیٹنے اور غیر معینہ مدت پر محیط ایک غیرجمہوری سیٹ اپ کی سبیلیں تلاش کرتے پھر رہے ہیں۔
ایسے میں جب اُنھیں آرمی چیف کا کوئی ایسا بیان سنائی دیتا ہے جس میں حکومت سے گڈگورننس اور کرپشن کے سدباب کے لیے کہا جائے تو خوشی سے پھولے نہیں سماتے۔ اُن کی نظر میں اِس کا مطلب پھرجمہوری نظام کی گردن دبوچنے اور اقتدارکے قلعے پر کمند ڈالنے کا وقت آ گیا ہے۔ یہاں ایسے لوگوں کی کوئی کمی نہیں جن کو چور دروازے سے ایوانِ اقتدار میں داخل ہونے کا چسکا پڑگیا ہے۔ جن لوگوں کے منہ کو جمہوریت کا خون لگ گیا ہو اُنھیںمنتخب جمہوری نظام کبھی راس نہیں آتا۔ وہ ہر وقت اِسی لمحے کے انتظار میں بیٹھے رہتے ہیں کہ کہیں سے سول ملٹری تعلقات میں خرابی کی خبر آئے اور وہ اپنی ناکام اور نامراد حسرتوں کو پورا ہوتا ہوا دیکھیں۔
اِس قبیلے کے لوگوں میں ہمارے کچھ سیاسی زعماء کے ساتھ ساتھ بے قابو الیکٹرانک میڈیا کے اینکرز اور صحافی حضرات بھی شامل ہیں جن کی روزی روٹی اِسی طرح کی خبریں پھیلانے سے جڑی ہوئی ہے۔ وہ اگر ایسا نہ کریں تو اُنھیں شاید نیند بھی نہ آئے۔ وہ ہر شام ایسی ہی غیر مستند اور بے پرکی خبروں کو اپنے پروگراموں کا موضوع بنا کر معاشرے میں ہیجان پیدا کرتے رہتے ہیں۔
دھرنے والے دنوں میں تو اُنھیں ایک پل کی فرصت بھی نہ تھی۔ وہ ہر صبح اُٹھ کر دھرنے کے عزائم اور مقاصد کی کامیابی کی فکر میں زمین وآسماں ایک کر دیتے اور پھر شام کو یہ ''مفلسانِ فہم و ذکا'' اپنی ''مجلسِ کور چشماں'' سمیٹ کر گھر چلے جاتے۔ وہ بیچارے اورکریں بھی کیا کیونکہ کہ آج مسندِ صدارت پر نہ کوئی غلام اسحاق خان بیٹھا ہوا ہے اور نہ کوئی فاروق احمد لغاری اور نہ کسی کے پاس 58-B2 کی شکل میں کوئی آئینی اور قانونی تلوار موجود ہے جس کے ذریعے جمہوریت پر شبِ خون مارا جا سکے۔
رہ دے کے جی ایچ کیو ہی رہ گیا ہے جہاں سے وہ حالات کو اپنی خواہشوں کے قالب میں ڈھالنے کی جستجو کرتے رہتے ہیں، لیکن افسوس اُن کی قسمت پہ کہ وہاں بھی اب ایک ایسا شخص اپنے مکمل جاہ و جلال اور آب تاب کے ساتھ فروکشِ ہے جسے کوئی بھی اپنی بیمار خواہشوں کے لیے اُکسا نہیں سکتا۔ اُس کے عہدے کی تین سالہ مدت میں توسیع کو بھی کچھ لوگوں نے متنازع بنانے کی بہت کوششیں کیں لیکن اُس نے اِس ضمن میں قبل از وقت ایک صاف اور واضح اعلان کر کے ایسے بد اندیشوںکی اُمیدوں پر پانی پھیر دیا۔
جنرل راحیل شریف جنھیں وزیرِاعظم نے اُن کی قابلیت اور لیاقت کو بالکل درست انداز میں جانچتے ہوئے دوسرے جنرلوں پر فوقیت دے کر آرمی چیف مقرر کیا تھا، اِس وقت قوم کے سب سے مقبول و معروف شخصیت ہیں۔ اُنھوں نے بہت کم عرصے میں اپنی قائدانہ خوبیوں اور صلاحیتوں کے سبب قوم کے ہر فرد کے دل میں جگہ پیدا کر لی ہے۔ اُنھوں نے ملک سے دہشت گردی کے خاتمہ کا تہیہ کیا ہوا ہے اور وہ بڑی حد تک اپنے اِس عزم اور ارادے میں کامیاب و سرخرو بھی ہوئے ہیں۔
اُن کی خوبی یہ ہے کہ وہ مورچوں پر تعینات جوانوں کا حوصلہ بڑھانے کے لیے بنفسِ نفیس پہنچ جاتے ہیں۔ ساتھ ہی کراچی میں امن قائم کرنے کا سہرا بھی اُنہی کے سر ہے۔ اُنھوں نے اپنی ذہانت اور بصیرت سے یہ مشکل ترین اور ناممکن کام بھی بڑے احسن طریقے سے کر دکھایا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ پاک چائنہ کوریڈور کے منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے بھی وہ پوری طرح مستعد اور پُرعزم ہیں۔ اِس منصوبے کے لیے اُن کی غیرمعمولی دلچسپی اور سرپرستی نے ہی اِس منصوبے کو اب تک ''کالا باغ ڈیم'' جیسا متنازعہ منصوبہ بننے سے روکا ہوا ہے۔
ورنہ کوئی بعید نہ تھا کہ ہماری قسمت اور تقدیر بدل کے رکھ دینے والا یہ عظیم منصوبہ بھی ہماری آپس کی چپقلش اور بدگمانی کا شکار ہو کر ناقابل ِعمل اور ناقابل ِتعمیر قرار دے دیا جاتا۔بلوچستان میں بدامنی کی فضا کو دور کر کے وہاں امن و امان قائم کرنا بھی کوئی آسان کام نہیں تھا۔ فورسز کے خلاف بڑھتی ہوئی نفرت نے وہاں ملک دشمنی کی سی فضا پیدا کر دی تھی، لیکن الحمد اللہ اب حالات بدل چکے ہیں۔ اب وہاں علیحدگی پسند اور بغاوت پر مصر تمام لوگ ملکی وحدت و سا لمیت کی باتیں کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
یہ سب ہمارے اِسی آرمی چیف کی مخلصانہ کوششوں کا نتیجہ ہے۔ اتنے عظیم شخص کی خدمات کا اعتراف کرنے کی بجائے ہم اُنھیں بھی سیاست کے پراگندہ ماحول میں گھسیٹنا چاہتے ہیں۔ اُن کی تقریروں اور بیانو ں میں کچھ لوگ اپنے مطلب کے پہلو تلاش کرتے رہتے ہیں۔ اُن کی حتیٰ مقدور کوشش یہی ہوتی ہے کہ وہ اپنی تین سالہ مدتِ ملازمت پوری کرنے سے پہلے موجودہ حکومت کی سرکوبی کا سامان کر ڈالیں۔ ملک کی تاریخ میں پہلی بار سول ملٹری تعلقات میں یہ فکری ہم آہنگی اور انڈر اِسٹینڈنگ کچھ لوگوں کو ہضم نہیں ہو پا رہی۔
اُن کی دلی خواہش تو یہی ہے کہ کسی طرح یہ آرمی چیف بھی اپنے پیش رو جنرلوں کی طرح اقتدار پر قبضہ کر کے، زندگی بھرکی متاعِ نیک نامی گنوا کر رسوائیوں کی اذیتوں سے دوچار ہو جائیں۔ جو عزت اور قدر و منزلت اُنھیں ایک غیرجانبدار فوجی جنرل کی حیثیت میں ملی ہے وہ اُسے خیرباد کہتے ہوئے سیاست کے گندے سمندر میں چھلانگ لگا کر سرخروئی کی بجائے ہزیمت اور بدنامی کا داغ لے کر فوج سے رخصت ہوں۔
ہمارے کچھ سیاسی پنڈتوں کے لیے یہ سال اِس لحاظ سے بہت اہم ہے کیوں کہ جیسا کہ ہم سب کو معلوم ہے کہ نومبر میں موجود ہ آرمی چیف کی مدت ِ ملازمت ختم ہو رہی ہے، لٰہذا اِن سیاسی پنڈتوں کے لیے جو ہر تین ماہ بعد ملک کے اندرکسی نئی تبدیلی کو رونما ہوتا دیکھ رہے ہوتے ہیں پریشان ہیں۔