کوہ نور ہیرا پاکستان کی ملکیت ہے
بھارت کوہ نور ہیرے کو ہتھیانے کے لیے پوری چالاکی سے کوشش کرتا رہا ہے جب کہ اس پر اس کا کوئی حق نہیں ہے۔
بھارت کوہ نور ہیرے کو ہتھیانے کے لیے پوری چالاکی سے کوشش کرتا رہا ہے جب کہ اس پر اس کا کوئی حق نہیں ہے۔ ایک بھارتی این جی او نے سپریم کورٹ میں کوہ نور ہیرے کو برطانیہ سے واپس لانے کے لیے مقدمہ کر رکھا ہے۔ گزشتہ دنوں سپریم کورٹ میں سرکاری وکیل رنجیت کمار نے اس ضمن میں مضحکہ خیز بیان دیکر اپنی قوم کی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ اس نے کہا کہ کوہ نور ہیرے کو ایسٹ انڈیا کمپنی نے نہ تو چوری کیا تھا اور نہ ہی زبردستی چھینا تھا بلکہ پنجاب میں شکست کے بعد رنجیت سنگھ کے کم سن پوتے دلیپ سنگھ نے اسے تحفتاً پیش کیا تھا۔
سرکاری وکیل کے اس بیان سے صاف ظاہر ہے کہ بھارت سرکار کا رویہ کوہ نور کے ضمن میں برطانیہ نواز ہے۔ ایک طرف وہ برطانیہ سے کوہ نور ہیرے کو واپس لینا چاہتی ہے تو دوسری جانب وہ برطانیہ کو ہیرے کا جائز مالک قرار دے رہی ہے۔ اس سے لگتا ہے کہ بھارتی حکومت عوامی دباؤ کی وجہ سے کوہ نور کو برطانیہ سے حاصل کرنے کی ضرور بات کر رہی ہے مگر دراصل وہ برطانوی حکومت کو ناراض نہیں کرنا چاہتی۔ تاہم بھارتی سرکاری وکیل کے بیان سے بھارتی عوام میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی ہے۔ ساتھ ہی بے جے پی کے کچھ رہنماؤں نے بھی اس پر سخت مایوسی کا اظہار کیا ہے۔
بھارتی دانشور اور نامور صحافی کلدیپ نیئر نے اپنے ایک مضمون میں بی جے پی کے وکیل کے بیان کی سخت مذمت کی ہے اور لکھا ہے کہ کوئی بھی غلام قوم اپنے غیرملکی آقا کو اپنی کوئی بھی چیز خوشی سے پیش نہیں کرتی بلکہ اسے ایسا کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ برطانوی سلطنت جس کی ماضی میں سرحدیں اتنی وسیع تھیں کہ جن میں کبھی سورج غروب نہیں ہوتا تھا تو اسے مال و دولت کی کیا کمی تھی مگر اس کے باوجود اس کے اہلکار ایک ہیرے کو زبردستی ہتھیار کر لندن لے گئے اور اسے اپنی ملکہ کو خوش کرنے کے لیے اس کو پیش کر دیا۔
واقعہ یہ ہے کہ کوہ نور ہیرا دنیا کا سب سے نایاب اور بڑا ہیرا ہے جس کی قیمت 1849ء میں یعنی آج سے تقریباً 166 سال قبل بھی کئی ہزار کروڑ روپے تھی۔ ظاہر ہے آج اس کی قیمت کئی گنا زیادہ ہو گی۔ جہاں تک اس کی اہمیت کا معاملہ ہے یہ اتنا عظیم ہے کہ اس وقت یہ ملکہ ایلزبتھ کے تاج میں جڑا ہوا ہے گویا کہ تاج کی ساری خوبصورتی اور شان و شوکت اسی کی وجہ سے ہے۔ جہاں تک اس کی تاریخ کا سوال ہے اس کی تاریخ تین ہزار سال پرانی بتائی جاتی ہے۔ ایک اور حوالے کے مطابق اسے 13 ویں صدی عیسوی میں جنوبی ہند کے کاکیتا خاندان کے ایک راجہ کے دور میں ضلع گنتوا کے ایک مقام کلواہ کی کان سے نکالا گیا تھا۔ لیکن کچھ حوالے ایسے بھی ہیں جن کے مطابق اسے گولگنڈہ کی کان سے نکالا گیا۔
بتایا جاتا ہے 14 ویں صدی عیسوی میں علاؤ الدین خلجی کے ایک جنرل ملک کافور نے جنوبی ہند میں فوج کشی کے وقت اسے حاصل کیا تھا۔ پھر یہ ہیرا غلامان خاندان کے بادشاہوں کے بعد مغلوں کے ہاتھ لگا۔ شاہجہان نے اسے اپنے تخت طاؤس میں لگا کر اپنے تخت کی خوبصورتی میں چار چاند لگا دیے تھے اورنگ زیب نے اس کی تراش خراش کرا کے اسے مزید دیدہ زیب بنا دیا تھا۔ پھر ایران کا بادشاہ نادر شاہ دلی پر حملہ کر کے اسے ایران لے گیا۔ 1747ء میں اس کی وفات کے بعد یہ اس کے ایک جنرل احمد شاہ ابدالی کی ملکیت میں آ گیا جو بعد میں افغانستان کا حکمران بن گیا۔ اس کی وفات کے بعد یہ شاہ شجاع کے ہاتھ لگا جس نے سیاسی مصلحت کے تحت رنجیت سنگھ کو دے دیا تھا۔
1849ء تک انگریزوں نے پنجاب کے سوا پورے ہندوستان پر قبضہ کر لیا تھا چنانچہ انھوں نے اسی سال پنجاب پر بھی قبضہ کر لیا اور کمسن راجہ دلیپ سنگھ سے اسے ہتھیا لیا۔ اس وقت کے ہندوستان کے گورنر جنرل لارڈ ڈلہوزی نے اسے بہت حفاظت کے ساتھ ملکہ وکٹوریہ کی خدمت میں پیش کرنے کے لیے لندن روانہ کر دیا۔ ملکہ وکٹوریہ اسے پا کر بہت خوش ہوئی اور ہائڈ پارک میں کئی دن تک اس کی نمائش کی گئی۔ یہ اس وقت سے اب تک تاج برطانیہ میں جڑا ہوا ہے۔
دراصل برطانوی حکومت ہو یا یورپ کی دوسری اقوام تمام ہی اپنی نوآبادیوں سے مال و متاع لوٹنے کے لیے ہی وہاں قابض ہوئی تھیں چنانچہ برطانیہ کا کوہ نور ہیرے کو ہتھیانا سمجھ میں آ جاتا ہے مگر بھارتی سپریم کورٹ میں سرکاری وکیل کا برطانیہ کے حق میں بیان حیرت انگیز ہے لیکن بہرحال اس کی ایک ٹھوس وجہ ہے جسے ہم پاکستانی خوب سمجھ سکتے ہیں۔ بھارتی وکیل کا دراصل یہ بیان کھلی پاکستان دشمنی کا مظہر ہے۔
کئی سال قبل جب بھارت کی کانگریسی حکومت نے برطانیہ سے اس ہیرے کی واپسی کا مطالبہ کیا تھا تو اس کے جواب میں برطانوی وزارت خارجہ کے ایک اعلیٰ افسر نے وضاحت کر دی تھی کہ کوہ نور ہیرے پر بھارت کا کوئی حق نہیں ہے اس کی اصل ملکیت پاکستان کے پاس ہے اور اسے پاکستان کو ہی واپس کیا جا سکتا ہے چنانچہ بھارتی وکیل کا حالیہ بیان دراصل کوہ نور ہیرے پر پاکستان کے حق کو مشکل میں ڈالنے کی ایک سازش ہے۔
افسوس کا مقام یہ ہے کہ ہم میں جذبہ حب الوطنی اس قدر کم ہے کہ بس نہ ہونے کے برابر ہے اور اسی وجہ سے ہمارے دشمن ہمارے نوجوانوں پر اپنے نظریات کی چھاپ لگا دیتے ہیں اور وہ اپنے قومی نظریات کے بجائے غیروں کے نظریات پر فخر کرنے لگتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ ہمارے ملک کے دولخت ہونے کی وجہ بھی یہی رہی کہ ہمارے بچوں اور نوجوانوں میں قومی جذبہ پیدا ہی نہیں کیا گیا۔ ملک کے دولخت ہونے کے بعد بھی کاش کہ اس کمی کو دور کر لیا جاتا، اسکولوں اور کالجوں میں طلبہ اور طالبات کے نصاب میں قومی جذبے کو ابھارنے والا مواد ڈال دیا جاتا تو آج ملک میں جو افراتفری مچی ہوئی ہے وہ نہ ہوتی اور بعض نوجوانوں پر ''را'' کا ایجنٹ ہونے کا جو داغ لگا ہوا ہے وہ نہ ہوتا۔
بہرحال اب بھی وقت ہے مگر یہاں تو حالات ہی مختلف ہیں بعض دانشور نصاب تعلیم کو جذبہ حب الوطنی سے مزین کرنے کے بجائے سیکولر بنانے پر زور دے رہے ہیں اور اس میں خاص طور پر قائد اعظم کی 11 اگست 1947 کی تحریف شدہ تقریر کو اہم مقام دینے کی باتیں کر رہے ہیں اس طرح قائد کی اس سیدھی سادی نظریہ پاکستان پر مبنی اصل تقریر کو زبردستی متنازعہ بنایا جا رہا ہے۔
بدقسمتی سے یورپی ممالک اپنے مقبوضہ ممالک سے جن قیمتی نوادرات کو لوٹ کر اپنے ہاں لے گئے تھے انھوں نے انھیں اپنی شان و شوکت بڑھانے کے لیے خوب استعمال کیا مگر محکوم ممالک بھی اپنے قومی نوادرات کو نہیں بھولے چنانچہ جیسے ہی انھوں نے آزادی حاصل کی پہلی فرصت میں اپنے نوادرات کے حصول کے لیے اقوام متحدہ سے رجوع کیا۔ کئی سال پہلے یونیسکو نے ایک قرارداد پاس کر کے لوٹے گئے نوادرات کو ان کے اصل مالکان کو واپس کرے۔ پاکستان کا کوہ نور ہیرے پر اس لیے بھی پورا حق ہے کیونکہ اسے انگریزوں نے پاکستان کے شہر لاہور سے حاصل کیا تھا چنانچہ یہ جہاں سے گیا تھا وہیں واپس آنا چاہیے۔
سرکاری وکیل کے اس بیان سے صاف ظاہر ہے کہ بھارت سرکار کا رویہ کوہ نور کے ضمن میں برطانیہ نواز ہے۔ ایک طرف وہ برطانیہ سے کوہ نور ہیرے کو واپس لینا چاہتی ہے تو دوسری جانب وہ برطانیہ کو ہیرے کا جائز مالک قرار دے رہی ہے۔ اس سے لگتا ہے کہ بھارتی حکومت عوامی دباؤ کی وجہ سے کوہ نور کو برطانیہ سے حاصل کرنے کی ضرور بات کر رہی ہے مگر دراصل وہ برطانوی حکومت کو ناراض نہیں کرنا چاہتی۔ تاہم بھارتی سرکاری وکیل کے بیان سے بھارتی عوام میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی ہے۔ ساتھ ہی بے جے پی کے کچھ رہنماؤں نے بھی اس پر سخت مایوسی کا اظہار کیا ہے۔
بھارتی دانشور اور نامور صحافی کلدیپ نیئر نے اپنے ایک مضمون میں بی جے پی کے وکیل کے بیان کی سخت مذمت کی ہے اور لکھا ہے کہ کوئی بھی غلام قوم اپنے غیرملکی آقا کو اپنی کوئی بھی چیز خوشی سے پیش نہیں کرتی بلکہ اسے ایسا کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ برطانوی سلطنت جس کی ماضی میں سرحدیں اتنی وسیع تھیں کہ جن میں کبھی سورج غروب نہیں ہوتا تھا تو اسے مال و دولت کی کیا کمی تھی مگر اس کے باوجود اس کے اہلکار ایک ہیرے کو زبردستی ہتھیار کر لندن لے گئے اور اسے اپنی ملکہ کو خوش کرنے کے لیے اس کو پیش کر دیا۔
واقعہ یہ ہے کہ کوہ نور ہیرا دنیا کا سب سے نایاب اور بڑا ہیرا ہے جس کی قیمت 1849ء میں یعنی آج سے تقریباً 166 سال قبل بھی کئی ہزار کروڑ روپے تھی۔ ظاہر ہے آج اس کی قیمت کئی گنا زیادہ ہو گی۔ جہاں تک اس کی اہمیت کا معاملہ ہے یہ اتنا عظیم ہے کہ اس وقت یہ ملکہ ایلزبتھ کے تاج میں جڑا ہوا ہے گویا کہ تاج کی ساری خوبصورتی اور شان و شوکت اسی کی وجہ سے ہے۔ جہاں تک اس کی تاریخ کا سوال ہے اس کی تاریخ تین ہزار سال پرانی بتائی جاتی ہے۔ ایک اور حوالے کے مطابق اسے 13 ویں صدی عیسوی میں جنوبی ہند کے کاکیتا خاندان کے ایک راجہ کے دور میں ضلع گنتوا کے ایک مقام کلواہ کی کان سے نکالا گیا تھا۔ لیکن کچھ حوالے ایسے بھی ہیں جن کے مطابق اسے گولگنڈہ کی کان سے نکالا گیا۔
بتایا جاتا ہے 14 ویں صدی عیسوی میں علاؤ الدین خلجی کے ایک جنرل ملک کافور نے جنوبی ہند میں فوج کشی کے وقت اسے حاصل کیا تھا۔ پھر یہ ہیرا غلامان خاندان کے بادشاہوں کے بعد مغلوں کے ہاتھ لگا۔ شاہجہان نے اسے اپنے تخت طاؤس میں لگا کر اپنے تخت کی خوبصورتی میں چار چاند لگا دیے تھے اورنگ زیب نے اس کی تراش خراش کرا کے اسے مزید دیدہ زیب بنا دیا تھا۔ پھر ایران کا بادشاہ نادر شاہ دلی پر حملہ کر کے اسے ایران لے گیا۔ 1747ء میں اس کی وفات کے بعد یہ اس کے ایک جنرل احمد شاہ ابدالی کی ملکیت میں آ گیا جو بعد میں افغانستان کا حکمران بن گیا۔ اس کی وفات کے بعد یہ شاہ شجاع کے ہاتھ لگا جس نے سیاسی مصلحت کے تحت رنجیت سنگھ کو دے دیا تھا۔
1849ء تک انگریزوں نے پنجاب کے سوا پورے ہندوستان پر قبضہ کر لیا تھا چنانچہ انھوں نے اسی سال پنجاب پر بھی قبضہ کر لیا اور کمسن راجہ دلیپ سنگھ سے اسے ہتھیا لیا۔ اس وقت کے ہندوستان کے گورنر جنرل لارڈ ڈلہوزی نے اسے بہت حفاظت کے ساتھ ملکہ وکٹوریہ کی خدمت میں پیش کرنے کے لیے لندن روانہ کر دیا۔ ملکہ وکٹوریہ اسے پا کر بہت خوش ہوئی اور ہائڈ پارک میں کئی دن تک اس کی نمائش کی گئی۔ یہ اس وقت سے اب تک تاج برطانیہ میں جڑا ہوا ہے۔
دراصل برطانوی حکومت ہو یا یورپ کی دوسری اقوام تمام ہی اپنی نوآبادیوں سے مال و متاع لوٹنے کے لیے ہی وہاں قابض ہوئی تھیں چنانچہ برطانیہ کا کوہ نور ہیرے کو ہتھیانا سمجھ میں آ جاتا ہے مگر بھارتی سپریم کورٹ میں سرکاری وکیل کا برطانیہ کے حق میں بیان حیرت انگیز ہے لیکن بہرحال اس کی ایک ٹھوس وجہ ہے جسے ہم پاکستانی خوب سمجھ سکتے ہیں۔ بھارتی وکیل کا دراصل یہ بیان کھلی پاکستان دشمنی کا مظہر ہے۔
کئی سال قبل جب بھارت کی کانگریسی حکومت نے برطانیہ سے اس ہیرے کی واپسی کا مطالبہ کیا تھا تو اس کے جواب میں برطانوی وزارت خارجہ کے ایک اعلیٰ افسر نے وضاحت کر دی تھی کہ کوہ نور ہیرے پر بھارت کا کوئی حق نہیں ہے اس کی اصل ملکیت پاکستان کے پاس ہے اور اسے پاکستان کو ہی واپس کیا جا سکتا ہے چنانچہ بھارتی وکیل کا حالیہ بیان دراصل کوہ نور ہیرے پر پاکستان کے حق کو مشکل میں ڈالنے کی ایک سازش ہے۔
افسوس کا مقام یہ ہے کہ ہم میں جذبہ حب الوطنی اس قدر کم ہے کہ بس نہ ہونے کے برابر ہے اور اسی وجہ سے ہمارے دشمن ہمارے نوجوانوں پر اپنے نظریات کی چھاپ لگا دیتے ہیں اور وہ اپنے قومی نظریات کے بجائے غیروں کے نظریات پر فخر کرنے لگتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ ہمارے ملک کے دولخت ہونے کی وجہ بھی یہی رہی کہ ہمارے بچوں اور نوجوانوں میں قومی جذبہ پیدا ہی نہیں کیا گیا۔ ملک کے دولخت ہونے کے بعد بھی کاش کہ اس کمی کو دور کر لیا جاتا، اسکولوں اور کالجوں میں طلبہ اور طالبات کے نصاب میں قومی جذبے کو ابھارنے والا مواد ڈال دیا جاتا تو آج ملک میں جو افراتفری مچی ہوئی ہے وہ نہ ہوتی اور بعض نوجوانوں پر ''را'' کا ایجنٹ ہونے کا جو داغ لگا ہوا ہے وہ نہ ہوتا۔
بہرحال اب بھی وقت ہے مگر یہاں تو حالات ہی مختلف ہیں بعض دانشور نصاب تعلیم کو جذبہ حب الوطنی سے مزین کرنے کے بجائے سیکولر بنانے پر زور دے رہے ہیں اور اس میں خاص طور پر قائد اعظم کی 11 اگست 1947 کی تحریف شدہ تقریر کو اہم مقام دینے کی باتیں کر رہے ہیں اس طرح قائد کی اس سیدھی سادی نظریہ پاکستان پر مبنی اصل تقریر کو زبردستی متنازعہ بنایا جا رہا ہے۔
بدقسمتی سے یورپی ممالک اپنے مقبوضہ ممالک سے جن قیمتی نوادرات کو لوٹ کر اپنے ہاں لے گئے تھے انھوں نے انھیں اپنی شان و شوکت بڑھانے کے لیے خوب استعمال کیا مگر محکوم ممالک بھی اپنے قومی نوادرات کو نہیں بھولے چنانچہ جیسے ہی انھوں نے آزادی حاصل کی پہلی فرصت میں اپنے نوادرات کے حصول کے لیے اقوام متحدہ سے رجوع کیا۔ کئی سال پہلے یونیسکو نے ایک قرارداد پاس کر کے لوٹے گئے نوادرات کو ان کے اصل مالکان کو واپس کرے۔ پاکستان کا کوہ نور ہیرے پر اس لیے بھی پورا حق ہے کیونکہ اسے انگریزوں نے پاکستان کے شہر لاہور سے حاصل کیا تھا چنانچہ یہ جہاں سے گیا تھا وہیں واپس آنا چاہیے۔